موسمیاتی تبدیلیاں اور ترقی پذیر ممالک

پاکستان کے لیے ایک مسئلہ کھانے پینے کی اشیا کی مہنگائی ہے

پاکستان کے لیے ایک مسئلہ کھانے پینے کی اشیا کی مہنگائی ہے۔ فوٹو: فائل

اقوام متحدہ نے ترقی یافتہ ملکوں کی قیادت اور عالمی مالیاتی اداروں کو باور کرایا ہے کہ عالمی بحرانوں نے دنیا کی نصف سے زائد غریب آبادی پر مشتمل 54 ممالک کو قرضوں میں ریلیف کی اشد ضرورت میں مبتلا کر دیا ہے۔

غیر ملکی میڈیا کے مطابق ایک نئی رپورٹ میں اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام نے خبردار کیا ہے کہ درجنوں ترقی پذیر ممالک قرضوں کے تیزی سے گہرے ہوتے بحران کا سامنا کر رہے ہیں اور ان کے غیرفعال ہونے کے خطرات سنگین ہیں۔ یو این ڈی پی نے کہا کہ فوری ریلیف کے بغیر کم از کم 54 ممالک غربت کی سطح میں اضافہ دیکھیں گے اور موسمیاتی موافقت اور تخفیف کے عمل کے لیے خطیر سرمایہ کاری کی اشد ضرورت ہے۔

ادارے کا کہنا تھا کہ یہ تشویشناک ہے کہ متاثرہ ممالک دنیا میں سب سے زیادہ موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرے سے دوچار ہیں۔

مذکورہ رپورٹ میں فوری کارروائی کی ضرورت پر روشنی ڈالی گئی جو واشنگٹن میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ، ورلڈ بینک اور جی 20 کے وزرائے خزانہ کے اجلاسوں سے قبل شائع ہوئی۔ یو این ڈی پی کے سربراہ ایچم اسٹینر نے جنیوا میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس حوالے سے بار بار انتباہ کے باوجود اب تک بہت کم کام ہوا ہے اور خطرات بڑھ رہے ہیں۔

اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کی رپورٹ ظاہر کرتی ہے کہ آنے والے برس غریب اور پسماندہ ممالک کے عوام کے لیے انتہائی کٹھن ہوں گے۔

عالمی موسمیاتی تبدیلیوں، جنگلات کے کٹاؤ اور ماحولیاتی آلودگی نے غریب اور ترقی پذیر ممالک کی معیشت کو خطرناک حد تک کمزور کر دیا ہے اور یہ خطرات بدستور قائم ہیں۔

اقوام متحدہ کی یہ رپورٹ دراصل دنیا کے ترقی یافتہ اور امیر ممالک کو یہ بتانے کی کوشش ہے کہ وہ اس مشکل گھڑی میں اپنی ذمے داری پوری کریں اور پسماندہ ممالک کی مدد کریں ورنہ دنیا کا ایک بڑا خطہ مزید مسائل کی دلدل میں پھنستا چلا جائے گا۔

پاکستان ایسے ممالک کی فہرست میں ابتدائی نمبروں پر ہے۔ حالیہ سیلاب اور بارشوں نے پاکستان کی معیشت کو شدید نقصان پہنچایا ہے، پاکستان کو بھی عالمی مالیاتی اداروں سے امید ہے کہ وہ اس مشکل میں پاکستان کے ساتھ ہمدردانہ سلوک کریں جبکہ امیر اور ترقی یافتہ ممالک بھی آگے بڑھ کر پاکستان اور دنیا کے دیگر ترقی پذیر ممالک کی مدد کریں۔

ادھر آئی ایم ایف نے ورلڈ اکنامک آؤٹ لک رپورٹ جاری کر دی ہے، جس میں پاکستان میں مہنگائی بڑھنے کے امکانات ظاہر کیے گئے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں بے روزگاری اور مہنگائی بڑھے گی، شرح نمو کا ہدف حاصل نہیں ہو گا۔ پاکستان میں بے روزگاری کی شرح گزشتہ سال کی نسبت بڑھے گی۔

رواں مالی سال پاکستان میں بے روزگاری کی شرح 6.4 فیصد ہو سکتی ہے۔ آئی ایم ایف ورلڈ اکنامک آؤٹ لک رپورٹ کے مطابق گزشتہ مالی سال پاکستان میں بے روزگاری کی شرح 6.2 فیصد تھی۔ دوسری جانب آئی ایم ایف نے رواں مالی سال کے دوران معاشی ترقی 3.5 فیصد رہنے کی پیش گوئی کی ہے۔ رواں مالی سال کے دوران کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 2.5 فیصد تک رہنے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پاکستان کی حکومت کو معیشت بہتر بنانے اور مہنگائی کم کرنے کے لیے انتھک کام کرنا پڑے گا لیکن مسائل اس قدر شدید ہیں کہ غیرملکی مدد کے بغیر ان سے عہدہ براء ہونا بہت مشکل کام ہے۔

موڈیز نے بھی 5 پاکستانی بینکوں کی ریٹنگ کم کر دی ہے۔ پرنٹ میڈیا نے ایک نجی ٹی وی کے حوالے سے خبر دی ہے کہ موڈیز انویسٹرز سروس نے پاکستان کے پانچ بینکوں کی طویل مدتی ڈیپازٹ ریٹنگ میں تنزلی کرتے ہوئے بی 3 سے سی اے اے ون کر دیا۔


موڈیز کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ پاکستان کے پانچ بینکوں کی طویل مدتی ڈیپازٹ ریٹنگ کم کر دی گئی ہے۔ یہ ایسی بات نہیں جو ملک کی معیشت کے لیے خطرہ ہو، یہ مالیاتی نوعیت کا فیصلہ ہوتا ہے، لہذا ریٹنگ بہتر کرانا کوئی مشکل کام نہیں ہوتا۔

پاکستان کے لیے ایک مسئلہ کھانے پینے کی اشیا کی مہنگائی ہے۔ ملک میں گندم اور آٹے کی قلت کے حوالے سے خبریں اور تجزیے سامنے آرہے ہیں۔ ادھر ایک خبر کے مطابق روس کی جانب سے یوکرین پر بیلسٹک میزائل حملوں کے بعد عالمی منڈی میں گندم کی خرید و فروخت رک گئی ہے اور قیمتوں میں اضافے اور دستیابی میں کمی کا خدشہ ہے۔

اس کے منفی اثرات پاکستان کی وفاقی و صوبائی حکومتوں پر بھی مرتب ہوں گے جو ملک میں گندم کی قلت دور کرنے کے لیے30 لاکھ ٹن سے زیادہ گندم امپورٹ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ پاکستان کی گندم امپورٹ میں ہمیشہ روس اور یوکرین کا مرکزی حصہ ہوتا ہے جو تقریباً 70 فیصد سے زیادہ ہے۔ روس اور یوکرین دنیا کی مجموعی گندم امپورٹ کا40 فیصد کے لگ بھگ برآمد کرتے ہیں۔

جنگ کے سبب پہلے ہی یوکرین میں گندم کی کاشت میں40 فیصد اور پیداوار میں 54 فیصد کمی کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے جس کے سبب عالمی منڈی میں گندم کی قیمتوں میں اضافے کا رجحان ہے۔ روس اور یوکرین کے درمیان جنگ کے آغاز سے اب تک عالمی منڈی میں گندم کی قیمتوں میں40 فیصد سے زیادہ اضافہ ہو چکا ہے۔

کچھ عرصہ قبل اقوام متحدہ اور ترکی کی مداخلت کے بعد روس اور یوکرین پر عائد گندم ایکسپورٹ کی پابندیوں میں نرمی کی گئی تھی۔ دو روز قبل روس کی جانب سے یوکرین پر83 بیلسٹک میزائل حملوں نے جنگ میں تیزی پیدا کر دی ہے جس سے عالمی سطح پر گندم مارکیٹ غیرمستحکم ہو رہی ہے۔

حکومت کو ان معاملات کو سامنے رکھ کر اپنی فوڈ سیکیورٹی کو یقینی بنانے کے اقدامات کرنے چاہئیں، پاکستان میں اناج کی کوئی کمی نہیں ہے، حکومتی ادارے شفاف انداز میں کام کریں تو پاکستان میں اناج کا بحران پیدا نہیں ہوسکتا۔ یہ خبر بھی ہے کہ سمندر پار پاکستانیوں کی ترسیلات زر میں جاری مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں سالانہ بنیادوں پر 6.3 فیصدکی کمی ریکارڈکی گئی، اسٹیٹ بینک سے جاری کردہ اعداد وشمارکے مطابق جولائی سے ستمبر تک اوورسیز پاکستانیوں کی مالی سال 23ء کی ترسیلات زر کا حجم 7.7 ارب ڈالر ریکارڈ کیا گیا جو گزشتہ مالی سال کی اسی مدت کے مقابلہ میں 6.3 فیصد کم ہیں۔

ستمبر 2022ء کے دوران کارکنوں کی ترسیلاتِ زر کی مد میں 2.4 ارب ڈالر موصول ہوئے جو اگست کے مقابلہ میں 10.5 فیصد اور گزشتہ سال ستمبرکے مقابلہ میں 12.3 فیصد کم ہے، اسٹیٹ بینک کے مطابق ستمبر میں سعودی عرب سے 616.6 ملین ڈالر، متحدہ عرب امارات 474.3 ملین ڈالر، برطانیہ 307.8 ملین ڈالر اور امریکا سے 268.1 ملین ڈالر کی ترسیلات زر ریکارڈ کی گئیں۔ دریں اثناء پاکستان اسٹیٹ آئل کی پٹرولیم مصنوعات کی فروخت میں ستمبر کے دوران سالانہ بنیادوں پر18 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔

انڈسٹری کے اعداد وشمار کے مطابق ستمبر کے مہینے میں پی ایس او کی پٹرولیم مصنوعات کی فروخت کا حجم 806000 ملین ٹن ریکارڈ کیا گیا جو گزشتہ مالی سال کی اسی مدت کے مقابلے میں 18 فیصد کم ہے۔ گزشتہ مالی سال کی اسی مدت میں ملک میں 986000 ملین ٹن پٹرولیم مصنوعات کی فروخت ریکارڈ کی گئی تھی۔

وزیراعظم شہباز شریف کی زیرصدارت وفاقی کابینہ نے41کروڑ روپے فنڈز کی وزارت داخلہ کی سمری کی منظوری دے دی ہے، انرجی کنزرویشن پلان کی بھی منظوری دی۔ انرجی کنزرویشن پلان کے حوالے سے کابینہ نے وزارتِ توانائی کے بچت پلان کے لیے کمیٹی قائم کر دی ہے۔

یہ کمیٹی اس مجوزہ پلان کا جائزہ لے گی اور اس حوالے سے قلیل اور طویل مدتی حکمت عملی ترتیب دے گی۔ کابینہ کو بتایا گیا کہ توانائی کی بچت کے حوالے سے عوامی آگہی انتہائی ضروری ہے، اس سلسلے میں مہم کا آغاز کیا جائے گا۔

اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ تھرکول پراجیکٹ کے ذریعے سستی بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔ ماضی میں تھرکول منصوبے کے حوالے سے غیرضروری تاخیر کی گئی جو کہ کسی قومی المیے سے کم نہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ تھرکول منصوبہ اب ہماری ترجیحات میں شامل ہے۔ تھرکول پراجیکٹ کی بدولت 24 ارب ڈالرز کے توانائی امپورٹ بل کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔

پاکستان کے پاس وسائل کی کمی نہیں ہے، افرادی قوت کی بھی کمی نہیں ہے۔ زرعی شعبے پر توجہ دی جائے تو پاکستان اناج میں خود کفیل ہو سکتا ہے بلکہ دنیا بھر کو زرعی اجناس اور ڈیری پراڈکٹ برآمد کر سکتا ہے، ضرورت صرف اچھی منصوبہ بندی اور شفاف طرز حکمرانی کی ہے۔
Load Next Story