خارجہ پالیسی میں تبدیلی کے مضمرات

پاکستان کے امور خارجہ کے ماہرین کی نظریں امریکا کی خارجہ پالیسی کے تیور پر لگی رہتی ہے ۔۔۔

zaheerakhtar_beedri@yahoo.com

پاکستان کی خارجہ پالیسی میں مشرق وسطیٰ کے حوالے سے ایک بڑی تبدیلی دیکھی جارہی ہے، ہماری خارجہ پالیسی کے ماہرین یقینا اس معنی خیز تبدیلی کے نفع نقصان سے پوری طرح واقف ہونگے ۔ ان کی نظریں تیزی سے بدلتے ہوئے عالمی منظرنامے پر بھی ہوںگی جو اپنے اندر گہرے مضمرات رکھتا ہے۔ پاکستان کو طنزیہ طور پر امریکا کی آخری ریاست کہا جاتا رہا ہے اگرچہ یہ سلسلہ لیاقت علی خان کے دور ہی سے شروع ہوا، لیکن پچھلے 66 سال سے اس پالیسی کی اتباع جاری ہے روس کو افغانستان سے نکالنے میں پاکستان نے جو کردار ادا کیا وہ ہماری امریکا نواز پالیسی کی معراج تھا۔

پاکستان کے امور خارجہ کے ماہرین کی نظریں امریکا کی خارجہ پالیسی کے تیور پر لگی رہتی ہے اور ہمارے ماہرین بڑی چابکدستی سے اپنی خارجہ پالیسی کو امریکی خارجہ پالیسی سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس حوالے سے ہماری خارجہ پالیسی کا شاہکار ایران سے گیس کے معاہدے پر عمل در آمد کا المیہ ہے۔ امریکا روز اول سے اس معاہدے کے خلاف تھا وہ اس حوالے سے اس حد تک آگے آگیا تھا کہ امریکی حکومت نے یہ دھمکی دیدی تھی کہ اگر اس معاہدے پر عمل در آمد ہوا تو امریکا پاکستان کے خلاف اقتصادی پابندیاں لگانے پر غور کرے گا، اس طرح امریکا کی مرضی اور ایما پر یہ معاہدہ کٹھائی میں پڑا رہا اور ہمارے امور خارجہ کے ماہرین اس حوالے سے طرح طرح کی تاویلات پیش کرتے رہے۔

امریکا جس طرح پاکستان کا ''دوست'' ہے اسی طرح انقلاب ایران کے دن سے ایران کا ''دشمن'' ہے عشروں سے ایران پر اقتصادی پابندیاں عائد ہیں اور امریکا ایران کو کسی قیمت پر ایٹمی ملک دیکھنا نہیں چاہتا، ایران کی نئی حکومت کو بھی غالباً یہ احساس ہوا کہ اس ''سرد جنگ'' کا سارا نقصان ایران کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ سو ایران کی نئی روحانی حکومت نے اپنی ایٹمی پالیسی میں تبدیلی پر آمادگی ظاہر کی اور ایران کی اس پالیسی نے امریکا کی فولادی خارجہ پالیسی کی ناک کو موم کی ناک میں بدل دیا۔ امریکا اور ایران کے درمیان دوستی کے امکانات نے مشرق وسطیٰ کی بادشاہتوں میں بھونچال پیدا کردیا سعودی عرب، ایران کا ہمیشہ حریف اور امریکا کا تابعداری کی حد تک حلیف رہا ہے۔


ایران سے امریکا کے بہتر ہوتے ہوئے تعلقات سعودی عرب کے لیے ناقابل قبول بن گئے ہیں اور سعودی عرب امریکا سے اپنی روایتی تابع دارانہ پالیسیوں سے انحراف کرتے ہوئے ایک نئے ٹریک پر چلنے کی کوشش کر رہا ہے۔ امریکا شام میں بشار الاسد حکومت کے سخت خلاف ہے اور اس مخالفت میں وہ اس حد تک آگے چلا گیا تھا کہ بشارالاسد حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے اس نے القاعدہ کے مجاہدین کی خدمات حاصل کرلیں۔ شام ایران کے حلیفوں میں سب سے بڑا حلیف ہے لیکن ایران سے تعلقات کی بہتری کا اثر شام کے حوالے سے امریکی پالیسیوں پر اثر انداز نہیں ہو رہا ہے۔ اسرائیل نے شام کی اہم فوجی تنصیبات پر حملہ کردیا ہے اور دھمکی دی ہے کہ اگر شام اسرائیل کے خلاف انتہا پسندی کی حمایت جاری رکھے گا تو آیندہ بھی شام کے خلاف سخت ترین کارروائیاں کی جائیںگی۔ اس موقعے پر امریکا نے اپنے ملک میں شامی سفارت خانوں اور قونصل خانوں کو بند کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ یہاں بر سبیل تذکرہ اس بات کی نشان دہی ضروری ہے کہ روس ایران اور شام کے خلاف امریکی سخت گیر پالیسیوں کے خلاف ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کچھ سعودی شہزادوں نے روس جاکر صدر پوتن کو شام کی حمایت سے روکنے کی بہت کوشش کی اور اس کے بدلے بھاری ''امداد'' کی پیش کش بھی کی لیکن وہ پوتن کو رام کرنے میں ناکام رہے۔

اس پس منظر میں سعودی شہزادوں کے پاکستان کے لگاتار دورے اور ان دوروں میں دونوں ملکوں کے درمیان دفاعی تعلقات بڑھانے کی منصوبہ بندی کے حوالے سے پاکستانی فوج کی سعودی عرب میں تعیناتی کی خبریں اڑیں۔ سعودی عرب پاکستان سے بھاری تعداد میں ہتھیار بھی خرید رہا ہے ،یہ الزام لگایا جا رہا ہے کہ ان ہتھیاروں کو شام کے خلاف استعمال کیا جائے گا۔ سعودی عرب کے علاوہ متحدہ عرب امارات اور بحرین کے حکمران بھی پاکستان کے چکر لگا رہے ہیں اور مذاکرات میں زور دفاعی تعلقات میں اضافے پر دیا جا رہا ہے۔ سعودی امداد مشرق وسطیٰ میں جو سیاست کر رہے ہیں ہو سکتا ہے وہ ان کی ضرورت ہو لیکن اس سیاست میں پاکستان کا ملوث ہونا ایک ایسا خطرناک کھیل ثابت ہوسکتا ہے جو اسے روس اور امریکا کے جھگڑے میں نہ الجھا دے۔ ہمارے خارجہ امور کے ماہرین کو ان خطرناک امکانات پر گہری نظر رکھنی چاہیے۔

اب مسئلہ صرف مشرق وسطیٰ کے اختلافات کا نہیں رہا بلکہ یو کرین کے مسئلے نے ایک ایسی خطرناک صورت پیدا کردی ہے کہ عالمی مبصرین ایک نئی سرد جنگ کی پیش گوئیاں کررہے ہیں، یوکرین کی ریاست کریمیا کے عوام نے یو کرین کے خلاف بغاوت کردی ، کریمیا کی پارلیمنٹ نے کریمیا کی روسی فیڈریشن میں شمولیت کی توثیق کردی اور اس توثیق کو جمہوری بنانے کے لیے کریمیا میں ریفرنڈم کرایا گیا اور عوام کی 90 فی صد سے زیادہ تعداد نے کریمیا کے روسی فیڈریشن میں شمولیت کی حمایت کردی۔ اس طرح قانونی آہنی اور جمہوری طریقے سے کریمیا کی روس میں شمولیت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہیں نہ ریفرنڈم کو ماننے پر آمادہ اوباما نے روس کو دھمکی دی ہے کہ کریمیا کی روس میں شمولیت غیر قانونی، غیر اخلاقی ہے جس کی قیمت روس کو چکانا پڑے گی۔ اس قیمت کے حوالے سے پہلا اقدام یہ کیا گیا ہے کہ روس کی G-8 کی رکنیت معطل کردی گئی ہے اور امکانات یہ نظر آرہے ہیں کہ امریکا اس حوالے سے روس کے خلاف مزید تادیبی اقدامات کرسکتاہے۔ کریمیا کے حوالے سے روس اور امریکا کے درمیان پیدا ہونے والا تنازعہ اب صرف علاقائی نہیں رہے گا اس کے ڈانڈے ایران اور مشرق وسطیٰ سے جا ملیںگے ۔ کیا ہمارے خارجہ امور کے مدبرین کی نظریں روس اور امریکا کے اس نئے تنازع اور اس کے مضمرات پر ہیں؟

سعودی عرب سے تحفے میں ملنے والے ڈیڑھ ارب ڈالر سے ہماری کرنسی تو مضبوط ہورہی ہے لیکن کیا اس ڈیڑھ ارب کے ڈانڈیدوسرے ممالک کے تنازعات سے تو نہیں مل جائیںگے؟ یہ سوال پاکستان کے اہل فکر کو پریشان کر رہا ہے۔ اس تنازع کے حوالے سے یہ امکان بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ہوسکتاہے روس سابقہ سوویت یونین کی طرف چلا جائے اور دنیا ایک بار پھر دو کیمپوں میں بٹ جائے!! حالات جس رخ پر جارہے ہیں ان کے پیش نظر دنیا کی ایک بار پھر دو کیمپوں میں تقسیم کے خیال کو رد نہیں کیا جاسکتا۔ اس حوالے سے سرد جنگ کے امکانات کا مطلب ہتھیاروں کی انڈسٹری کا فروغ ہوسکتاہے اور جہاں یہ مفادات آجاتے ہیں وہاں پر ناممکن ممکن ہوجاتا ہے۔
Load Next Story