محنت کشوں کے حقوق…
بدقسمتی سے ہمارے ملک میں اداروں میں رجسٹرڈ یونینز کی تعداد انتہائی قلیل ہے ۔۔۔
بنیادی حقوق کی فراہمی کسی بھی ریاست کی بقا، سلامتی اور ترقی کی ضامن ہے، اس کے بغیر زندگی کے کسی بھی شعبے میں کامیابی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا، محنت کش طبقہ بھی معاشرے میں انتہائی اہمیت کا حامل اور معیشت کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اصولی طور پر محنت کر کے روزگار حاصل کرنے والا محنت کش کارکن کہلاتا ہے، سماجی انصاف کے لیے ان کے حقوق کا تحفظ ناگزیر ہے۔ اسلام نے بھی محنت کشوں کے حقوق پر زور دیا ہے۔ حدیث نبوی ہے کہ مزدور کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اس کی مزدوری ادا کر دو۔ پہلی جنگ عظیم کے خاتمہ کے بعد مزدوروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے 1919ء میں قائم ہونے والے عالمی ادارہ محنت (آئی ایل او) کے منظور کردہ کنونشنز پر آج دنیا کے بیشتر ممالک عمل پیرا ہیں، نازی ازم کے خاتمے کے بعد ان حقوق کی فراہمی کے لیے آواز ابھری تھی، برطانیہ نے بھی اپنے آئین میں محنت کشوں کے حقوق کے لیے قوانین کو شامل کیا۔
یہ امر خوش گواری کا باعث ہے کہ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح ہندوستان میں محنت کشوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والوں میں کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔ انھوں نے 1926ء میں انڈین ٹریڈ یونین ایکٹ بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ قیام پاکستان کے بعد ملک میں ان حقوق کے لیے انڈین قوانین اور آئی ایل او کے کنونشنز کو قابل عمل گردانا گیا، بعد ازاں اس ضمن میں مختلف اوقات میں قانون سازی کا عمل جاری رہا، لیکن بدقسمتی سے مارشل لاء کے مختلف ادوار خاص طور پر جنرل ضیاء کی آمرانہ پالیسیوں کے سبب یہ حقوق پامال ہوتے رہے۔ 20 اپریل 2010ء کو تاریخی 18 ویں ترمیم کے نتیجے میں صوبوں کو اختیارات تو ملے مگر ان پر حقیقی انداز میں عمل درآمد نہیں ہو پا رہا۔
آئین پاکستان میں محنت کشوں کو قانونی تحفظ حاصل ہے، لیکن ان پر عمل نہ ہونا قابل تشویش ہے۔ موجودہ دور میں اہمیت اختیار کر جانے والے میڈیا پر معاشرے کے واچ ڈاگ کی حیثیت سے ذمے داری بڑھ گئی ہے۔ محنت کشوں کو حقوق کی فراہمی اور ان کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ذرایع ابلاغ کو اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ محنت کش بھی بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیے جانے والے بنیادی انسانی حقوق کے تحت آزاد اور برابری کا اختیار رکھتے ہیں، ان کو بھی جینے کا حق حاصل ہے، ان سے تعصب نہیں برتا جا سکتا، ان کو کوئی غلام بنا کر نہیں رکھ سکتا، ان کو تشدد کا نشانہ نہیں بنایا جا سکتا، وہ آزادانہ طور پر نقل و حرکت کا اختیار رکھتے ہیں، ان کو قانون کی نظر میں برابری کا درجہ دیا جائے گا، کوئی غیر قانونی طور پر نظر بند نہیں کر سکتا، ان کو ذاتی آزادی کا حق بھی حاصل ہے۔ محنت کش کو محفوظ مقام پر رہائش کا تحفظ، آزادانہ سوچ رکھنے، ایک مقام پر جمع ہونے، جمہوری عمل میں شامل ہونے اور سماجی تحفظ کا حق بھی حاصل ہے۔
پیشہ ورانہ ذمے داریوں کی ادائیگی کے دوران محنت کش ورکرز کو لاتعداد حقوق حا صل ہیں، جن میں کام کے اوقات کار، رات میں خواتین و نوجوان ورکرز کے اوقات کار، ہفتہ وار آرام، کم سے کم اجرت، طبی معائنے کی سہولت، ملازمت کے لیے کم از کم عمر، حاملہ و زچہ خواتین ورکرز کو تحفظ و سہولیات، حادثاتی واقعات میں تحفظ، دوران کام محتاج ہونے پر مالی تحفظ، تعلیم، علاج و معالجہ، ملازمتی تحفظ، انتقال کی صورت میں بیوہ اور بچوں کی کفالت، معاشی و معاشرتی مسائل کے حل میں معاونت، قانونی انصاف کی بروقت و جلد فراہمی، بے روز گاری میں تحفظ، موزوں اجرت، بڑھاپے کے سہارے کے لیے پینشن سمیت دیگر مراعات شامل ہیں۔ کسی بھی ادارے میں قواعد کے تحت محنت کشوں کی رجسٹریشن اور یونین قائم کرنا، ریفرنڈم کے بعد اجتماعی سودا کاری ایجنٹ (سی بی اے) بنا کر چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کرنا کارکنوں کا قانونی حق ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے ملک میں اداروں میں رجسٹرڈ یونینز کی تعداد انتہائی قلیل ہے، جب کہ بیشتر یونینز ریفرنڈم کے مواقع نہ ملنے کے سبب سی بی اے نہیں بن پا رہیں، جس کی وجہ سے محنت کش اپنے جائز اور قانونی حقوق سے محروم ہیں۔ بیشتر اداروں میں ٹھیکے داری نظام قائم ہونے کی وجہ سے وہ مراعات حاصل نہیں کر پا رہے۔ ملازمت میں عدم تحفظ کی وجہ سے مختلف مسائل جنم لے رہے ہیں، کام کے زیادہ اوقات کار، کم معاوضہ، احتجاج پر ملازمت سے برخاستگی، مجبور خواتین ورکرز کو جنسی طور پر ہراساں کرنا اور منتظم نما کارندوں کا تشدد تک شامل ہے۔ ملک میں توانائی کے بحران کے نام پر ڈائون سائزنگ، بے روزگاری، مہنگائی اور لاقانونیت سے ورکرز اور ان کے خاندان سخت متاثر اور پریشان ہیں، جس کے منفی اثرات معاشرے پر بھی مرتب ہو رہے ہیں، اور دہشت گردی کو بھی فروغ ملنے کے امکانات بڑھ رھے ہیں۔
18 ویں ترمیم کے بعد صوبوں کو اختیار ملنے کے باوجود بعض متعلقہ ادارے ہنوز وفاق کے زیر انتظام ہیں، کارکنان کے لیے رہائشی اسکیمیں ایک خواب بن کر رہ گئی ہیں، ویلفیئر اسکیموں کے لیے مدت ملازمت ایک برس سے بڑھا کر دو برس کر دینے کے فیصلے پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ اس امر کی بھی ضرورت ہے کہ صنعتی و تجارتی اداروں میں آجروں کی اجارہ داری کا خاتمہ ہو۔ ریاست اہم قومی اداروں میں نجکاری کے مضر اثرات سے بچائو کے لیے ماہرین کی مشاورت سے اقدامات کرے۔ کارکنوں کو قانونی اور آئینی حقوق فراہم کرنے کے لیے ٹریڈ یونینز، آجروں اور ریاست کے درمیان تعلقات میں بہتری لانے کے لیے موزوں لائحہ عمل تیار کیا جائے، نیشنل لیبر پالیسی کو محنت کشوں کی امنگوں اور خواہشات کے تحت مرتب کیا جائے، مزدور دشمن قوانین کا خاتمہ کیا جائے، قومی صنعتی تعلقات کمیشن کے کردار کو موثر بنایا جائے، محنت کشوں کے حقوق سے متعلق قوانین پر عملدرآمد نہ کرنے والوں کو قانون کے مطابق سزا دی جائے۔
کسی بھی سیاسی تحریک میں محنت کش کارکن ہر اول دستہ کا کردار ادا کرتے ہیں، چنانچہ قومی سیاسی جماعتوں کی بھی ذمے داری ہے کہ وہ اپنے منشور میں ان کے حقوق کی فراہمی کو مناسب مقام دیں، علاوہ ازیں تمام تر اختلافات سے بالاتر ہو کر محنت کشوں کے حقوق کے لیے ایوانوں میں قانون سازی کے لیے مشترکہ جدوجہد کی جائے، ان اقدامات سے ملک میں محنت کش کارکنوں کی حالت زار بہتر ہو نے کے ساتھ ساتھ پاکستان ترقی اور خوش حالی کی راہ پر بھی گامزن ہو جائے گا۔
یہ امر خوش گواری کا باعث ہے کہ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح ہندوستان میں محنت کشوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والوں میں کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔ انھوں نے 1926ء میں انڈین ٹریڈ یونین ایکٹ بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ قیام پاکستان کے بعد ملک میں ان حقوق کے لیے انڈین قوانین اور آئی ایل او کے کنونشنز کو قابل عمل گردانا گیا، بعد ازاں اس ضمن میں مختلف اوقات میں قانون سازی کا عمل جاری رہا، لیکن بدقسمتی سے مارشل لاء کے مختلف ادوار خاص طور پر جنرل ضیاء کی آمرانہ پالیسیوں کے سبب یہ حقوق پامال ہوتے رہے۔ 20 اپریل 2010ء کو تاریخی 18 ویں ترمیم کے نتیجے میں صوبوں کو اختیارات تو ملے مگر ان پر حقیقی انداز میں عمل درآمد نہیں ہو پا رہا۔
آئین پاکستان میں محنت کشوں کو قانونی تحفظ حاصل ہے، لیکن ان پر عمل نہ ہونا قابل تشویش ہے۔ موجودہ دور میں اہمیت اختیار کر جانے والے میڈیا پر معاشرے کے واچ ڈاگ کی حیثیت سے ذمے داری بڑھ گئی ہے۔ محنت کشوں کو حقوق کی فراہمی اور ان کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ذرایع ابلاغ کو اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ محنت کش بھی بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیے جانے والے بنیادی انسانی حقوق کے تحت آزاد اور برابری کا اختیار رکھتے ہیں، ان کو بھی جینے کا حق حاصل ہے، ان سے تعصب نہیں برتا جا سکتا، ان کو کوئی غلام بنا کر نہیں رکھ سکتا، ان کو تشدد کا نشانہ نہیں بنایا جا سکتا، وہ آزادانہ طور پر نقل و حرکت کا اختیار رکھتے ہیں، ان کو قانون کی نظر میں برابری کا درجہ دیا جائے گا، کوئی غیر قانونی طور پر نظر بند نہیں کر سکتا، ان کو ذاتی آزادی کا حق بھی حاصل ہے۔ محنت کش کو محفوظ مقام پر رہائش کا تحفظ، آزادانہ سوچ رکھنے، ایک مقام پر جمع ہونے، جمہوری عمل میں شامل ہونے اور سماجی تحفظ کا حق بھی حاصل ہے۔
پیشہ ورانہ ذمے داریوں کی ادائیگی کے دوران محنت کش ورکرز کو لاتعداد حقوق حا صل ہیں، جن میں کام کے اوقات کار، رات میں خواتین و نوجوان ورکرز کے اوقات کار، ہفتہ وار آرام، کم سے کم اجرت، طبی معائنے کی سہولت، ملازمت کے لیے کم از کم عمر، حاملہ و زچہ خواتین ورکرز کو تحفظ و سہولیات، حادثاتی واقعات میں تحفظ، دوران کام محتاج ہونے پر مالی تحفظ، تعلیم، علاج و معالجہ، ملازمتی تحفظ، انتقال کی صورت میں بیوہ اور بچوں کی کفالت، معاشی و معاشرتی مسائل کے حل میں معاونت، قانونی انصاف کی بروقت و جلد فراہمی، بے روز گاری میں تحفظ، موزوں اجرت، بڑھاپے کے سہارے کے لیے پینشن سمیت دیگر مراعات شامل ہیں۔ کسی بھی ادارے میں قواعد کے تحت محنت کشوں کی رجسٹریشن اور یونین قائم کرنا، ریفرنڈم کے بعد اجتماعی سودا کاری ایجنٹ (سی بی اے) بنا کر چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کرنا کارکنوں کا قانونی حق ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے ملک میں اداروں میں رجسٹرڈ یونینز کی تعداد انتہائی قلیل ہے، جب کہ بیشتر یونینز ریفرنڈم کے مواقع نہ ملنے کے سبب سی بی اے نہیں بن پا رہیں، جس کی وجہ سے محنت کش اپنے جائز اور قانونی حقوق سے محروم ہیں۔ بیشتر اداروں میں ٹھیکے داری نظام قائم ہونے کی وجہ سے وہ مراعات حاصل نہیں کر پا رہے۔ ملازمت میں عدم تحفظ کی وجہ سے مختلف مسائل جنم لے رہے ہیں، کام کے زیادہ اوقات کار، کم معاوضہ، احتجاج پر ملازمت سے برخاستگی، مجبور خواتین ورکرز کو جنسی طور پر ہراساں کرنا اور منتظم نما کارندوں کا تشدد تک شامل ہے۔ ملک میں توانائی کے بحران کے نام پر ڈائون سائزنگ، بے روزگاری، مہنگائی اور لاقانونیت سے ورکرز اور ان کے خاندان سخت متاثر اور پریشان ہیں، جس کے منفی اثرات معاشرے پر بھی مرتب ہو رہے ہیں، اور دہشت گردی کو بھی فروغ ملنے کے امکانات بڑھ رھے ہیں۔
18 ویں ترمیم کے بعد صوبوں کو اختیار ملنے کے باوجود بعض متعلقہ ادارے ہنوز وفاق کے زیر انتظام ہیں، کارکنان کے لیے رہائشی اسکیمیں ایک خواب بن کر رہ گئی ہیں، ویلفیئر اسکیموں کے لیے مدت ملازمت ایک برس سے بڑھا کر دو برس کر دینے کے فیصلے پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ اس امر کی بھی ضرورت ہے کہ صنعتی و تجارتی اداروں میں آجروں کی اجارہ داری کا خاتمہ ہو۔ ریاست اہم قومی اداروں میں نجکاری کے مضر اثرات سے بچائو کے لیے ماہرین کی مشاورت سے اقدامات کرے۔ کارکنوں کو قانونی اور آئینی حقوق فراہم کرنے کے لیے ٹریڈ یونینز، آجروں اور ریاست کے درمیان تعلقات میں بہتری لانے کے لیے موزوں لائحہ عمل تیار کیا جائے، نیشنل لیبر پالیسی کو محنت کشوں کی امنگوں اور خواہشات کے تحت مرتب کیا جائے، مزدور دشمن قوانین کا خاتمہ کیا جائے، قومی صنعتی تعلقات کمیشن کے کردار کو موثر بنایا جائے، محنت کشوں کے حقوق سے متعلق قوانین پر عملدرآمد نہ کرنے والوں کو قانون کے مطابق سزا دی جائے۔
کسی بھی سیاسی تحریک میں محنت کش کارکن ہر اول دستہ کا کردار ادا کرتے ہیں، چنانچہ قومی سیاسی جماعتوں کی بھی ذمے داری ہے کہ وہ اپنے منشور میں ان کے حقوق کی فراہمی کو مناسب مقام دیں، علاوہ ازیں تمام تر اختلافات سے بالاتر ہو کر محنت کشوں کے حقوق کے لیے ایوانوں میں قانون سازی کے لیے مشترکہ جدوجہد کی جائے، ان اقدامات سے ملک میں محنت کش کارکنوں کی حالت زار بہتر ہو نے کے ساتھ ساتھ پاکستان ترقی اور خوش حالی کی راہ پر بھی گامزن ہو جائے گا۔