شدید معاشی اور انسانی بحران
پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے اقوام متحدہ کے انڈر سیکریٹری جین پیئروکس نے ملاقات کی جس میں باہمی دلچسپی کے امور اور علاقائی سلامتی کی مجموعی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
اقوام متحدہ کے انڈر سیکریٹری نے موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث پاکستان میں سیلاب سے ہونے والی تباہی پر دکھ کا اظہارکیا۔ دوسری جانب سیلاب زدہ علاقوں میں اموات بڑھنے کے خدشات ظاہرکرتے ہوئے اقوام متحدہ نے عالمی برادری سے پاکستان کے لیے امداد 180 ملین ڈالرز سے بڑھ کر 816 ملین ڈالرز کرنے کی نئی اپیل کردی ہے۔
اقوام متحدہ کی جائزہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں سیلاب کی وجہ سے غربت کی شرح میں 4.5 سے 7.0فی صد اضافے کا خدشہ ہے ۔ 9.9 سے 15.4 ملین لوگ غربت کا شکار ہوسکتے ہیں ، غربت کے اثرات مردوں کی نسبت خواتین پر زیادہ مرتب ہونگے۔
پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے سیلاب کی وجہ سے ملک کا بڑا حصہ پانی میں گھرا ہوا ہے، آنے والے کئی سال معیشت کو بہتر کرنے میں لگ جائیں گے ، موسم سرما کے باعث صورتحال مزید خراب ہوسکتی ہے، سطح غربت سے نیچے پہلے ہی 8 کروڑ لوگ تھے جن میں اب مزید اضافہ ہوجائے گا۔
پاکستانی معیشت حالیہ سیلاب کی وجہ سے شدید معاشی اور انسانی بحران کا شکار ہے، ملکی معیشت کو مہنگائی ، بیرونی مالی دباؤ اور غیر یقینی صورت حال کا سامنا ہے۔ موجودہ مالی سال معاشی شرح نمو ہدف سے کم رہنے کا امکان ہے، سیلاب کے باعث فصلیں متاثر ہوئی ہیں اور خوراک کے عدم تحفظ کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔
مہنگائی کی وجہ خوراک کی عالمی قیمتوں میں اضافہ ، سیلاب اور روپے کی قدر میں کمی ہے۔ معمولات زندگی کو برقرار رکھنے والی سرگرمیوں ، مارکیٹس تک پہنچنے میں مشکلات اور سپلائی چین میں رکاوٹوں کے باعث چھوٹے کاروباری ادارے بھی متاثر ہوئے ہیں۔
دکانوں اور گوداموں میں بارش کا پانی بھر جانے سے کھانے پینے کا موجودہ ذخیرہ خراب ہو گیا ہے ، نقصان زدہ اسٹاک میں 23 فیصد کے ساتھ زیادہ تر گندم کے ذخائر شامل ہیں اور دور دراز علاقوں میں رہنے والے لوگوں کو خوراک کے شدید بحران کا سامنا ہے۔
اس وقت اصل نقصانات کا علم نہیں ہے۔ متاثرہ اور بے گھر خاندانوں کو بنیادی ڈھانچے کی مکمل تباہی کا سامنا ہے، پینے کا پانی دستیاب نہیں ہے۔ اشیائے خورونوش کی دستیابی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ سوشل میڈیا پر متاثرہ عوام بالخصوص خواتین اور بچوں کی حالت زار اور دلخراش مناظر نے عام شہریوں کے حلق سے لقمہ اتارنا مشکل کر دیا ہے۔
غریب لوگوں کے مال مویشی سیلاب کے ریلوں کے ساتھ بہہ گئے ۔ 3 ہزار کلومیٹر کے قریب سڑکیں ٹوٹ پھوٹ گئی ہیں اور راستے بند ہو چکے ہیں، جو پل لوگوں کو جوڑنے کے کام آتے تھے اور دریاؤں اور نالوں کے پار جانے کے لیے استعمال ہوتے تھے وہ تقریباً 145 پْل ڈوب چکے ہیں یا تباہ ہو گئے ہیں، اب لوگ جہاں کہیں تھے وہاں سے نکل نہیں سکتے۔ سیلاب کے ان تباہ کن اثرات میں سب سے دور رس اثر ہماری زراعت پر پڑا ہے۔
پاکستان جس کی معیشت 21 فیصد جی ڈی پی زراعت پر منحصر ہے۔ ہمارے ملک میں تقریباً 45 فیصد ملازمتیں بالواسطہ یا بلاواسطہ زراعت سے جڑی ہوئی ہیں اور 60 فیصد برآمدات زراعت پر مبنی اشیاء سے جڑی ہیں۔ حالیہ سیلاب سے اندازاً 20 لاکھ فصلیں اور زمینیں متاثر ہوئی ہیں۔
مستقبل قریب میں معیشت کے تمام شعبوں سے متعلق سپلائی چین بری طرح متاثر ہوں گی۔ اشیاء کی نقل و حمل میں تاخیر ہوگی۔ خام مال کی نقل و حمل میں تاخیر کے نتیجے میں مصنوعات کی تیاری بھی تاخیر کا شکار ہوگی ، جس سے برآمدات میں کمی واقع ہوگی ، جس کے نتیجے میں زرمبادلہ کی قلت سے ہماری مشکلات میں اضافہ ہوگا۔
اس کا مطلب یہ ہوگا کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے بیل آئوٹ پیکیج کے باوجود روپیہ دبائو کا شکار رہے گا۔ اس سے درآمدات کی لاگت میں اضافہ ہوتا ہے اور اگر درآمدی سامان برآمدات کا جزو ہو تو ہماری مشکلات میں مزید اضافہ ہوجائے گا۔ پہلے ہی قلت کی وجہ سے روزمرہ کی اشیائے خورونوش کی قیمتوں نے آسمان کو چھونا شروع کردیا تھا۔
چند ہفتے پہلے کی قیمتوں کے مقابلے میں ضروری کھانے پینے کی اشیاء 100 فیصد مہنگی ہوچکی ہیں۔ مویشیوں اور بھیڑوں کے نقصان سے ڈیری اور گوشت کی قیمتیں بڑھ چکی ہیں۔
مہنگائی جو پہلے ہی 42 فیصد پر جنگل کی آگ کی طرح بڑھتی ہی جارہی ہے ، مزید بلندی پر پہنچ جائے گی۔ مہنگائی کے تناسب سے آمدنی میں اضافہ نہ ہونے کی وجہ سے ظاہر ہے کہ طلب میں بڑی کمی ہوگی۔ عام آدمی کی کھپت کی صلاحیت بہت زیادہ دبائو کا شکار ہے ، جو سماجی بدامنی کے لیے بارود کا کام کرسکتی ہے۔
عظیم نقصان ایک سوال کو جنم دیتا ہے کہ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کیا کر رہی تھی؟ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی تھی کیا۔ ان کی بے حسی کے نتیجے میں جنم لینے والے مصائب و آلام دیکھنے کا انتظار کر رہی تھی۔ اقتصادی بدحالی پہلے ہی معاشی اشاریوں کو روند رہی تھی ، عام لوگوں کو متاثر کررہی تھی، اب ان کی بے حسی سے دکھ اور مصیبت دگنی ہوگئی ہے۔
سیلاب سے ہونے والے نقصانات کا تخمینہ 10 ارب ڈالر سے زیادہ لگایا جا رہا ہے۔ بینکنگ اور فنانس انڈسٹری کو ان کی مقروض صنعتوں کو پہنچنے والے نقصان کا اندازہ لگانے میں ابھی وقت لگے گا۔ باالفاظ دیگر، مزید چیلنجزسامنے آنے والے ہیں، اگر رعایت نہ دی گئی تو نان پرفارمنگ لون بک (جب بینک سمجھتا ہے کہ قرض واپسی کا امکان نہیں رہا) میں اضافہ ہوگا۔
تعمیر نو کے کام میں سیمنٹ ، لوہے اور اسٹیل ، سینیٹری ویئر، الیکٹریفیکیشن پراڈکٹس وغیرہ جیسے مواد کی قلت یا شدید قیمتوں میں اضافے کا مشاہدہ کریں گے۔ اس سے گھر کی تعمیر کے اس اقدام کو نقصان پہنچے گا ، تمام اقتصادی منصوبے، اگر کوئی ہیں تو غیر اہم ہوجائیں گے۔ وسائل کی کمی ہمیں معاشی طور پر کم از کم آٹھ سے دس سال پیچھے کرسکتی ہے۔
نیا اور مرمت دونوں بنیادی ڈھانچہ راتوں رات تعمیر نہیں کیا جا سکتا۔ نقصان بہت زیادہ ہے۔ ہمیں ان سیلابوں سے ہونے والے جانی و مالی نقصانات کا اندازہ لگانے میں کم از کم ایک پورا سال لگے گا، جب کہ دوبارہ تعمیر میں مزید وقت لگے گا۔
اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے مشترکہ جدوجہد کی جائے، مہنگائی کی شرح کے مزید بڑھنے کا خدشہ ہے۔ حکومت وقت کو ضروری اور فوری اقدامات کرنا ہوں گے تاکہ وطن عزیز میں سیلاب زدہ علاقوں کو دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑا کیا جاسکے، زراعت میں بہتری کے لیے سستے بیج، کھاد اور بجلی کی فراہمی، سیلاب کے پانی کی وجہ سے زمین زیادہ پیداوار دیتی ہیں اگر فوری طور پر کسانوں کو یہ مراعات دی جاتی ہیں تو اگلے سال ہماری فصلیں پیداوار زیادہ دیں گی۔
بلند شرح سود جو معاشی ترقی کی راہ میں حائل ہے اس کو ختم ہونا چاہیے، پانی کی فراہمی کا انفرا اسٹرکچر تباہ ہو چکا ہے اسے فوری بحال کیا جائے، سیلاب زدہ علاقوں کو ٹیکس فری زونز قرار دینا چاہیے، اور ان علاقوں کے لیے بجلی کے ٹیرف کو کم کر دینا چاہیے، ملکی اور غیر ملکی امداد سے ادویات اور خوراک کا فوری انتظام ضروری ہے، چھوٹے کسانوں کو جن کی زمین 30 ایکڑ سے کم ہے۔
ان کے قرضے معاف کرنے چاہئیں اور حکومت کے ساتھ مل کر سب اسٹیک ہولڈرز کو دنیا کی توجہ ہمارے ملک پر آئے ہوئے اس بھیانک ڈیزاسٹر کی طرف کرانی چاہیے تاکہ پاکستان میں جلد از جلد ہنگامی بنیادوں پر امداد مہیا کی جائے جو قرض ادا کرنا ہے تمام ممالک سے اس کو ختم یا کم کرنے کی بات کی جائے، ایکسپورٹ کے لیے خام مال جو درآمد کیا جاتا ہے سیلاب زدہ علاقوں کے لیے خام مال پر ٹیکس کو ختم کیا جائے۔
ہمیں ماحولیاتی تبدیلیوں کا سامنا ہے، لیکن ہم تیار نہیں ہیں۔ یہ ملک کی مجموعی اقتصادی ترقی کی ایک بڑی قیمت ہے اور ہوگی، ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات اب یہاں رہیں گے۔ ہمیں اس حقیقت کو قبول کرنا چاہیے۔
چنانچہ آب و ہوا، موسموں اور معیشت کے مختلف حصوں پر ان کے اثرات میں متوقع تبدیلیوں کے مطابق معیشت کی ترقی کے لیے منصوبہ بندی کرنی ہوگی۔ ہم موسمیاتی تبدیلیوں سے شدید متاثر ہونے والے سرفہرست 10 ممالک میں شامل ہیں ، اگرچہ ہم کاربن کے اخراج میں 2 فیصد سے بھی کم حصہ ڈالتے ہیں، لیکن اس کے منفی نتائج کے لحاظ سے اس کا نقصان ہم پر زیادہ ہے، ہمیں اس سے نمٹنے کے لیے ابھی سے تیاری کرنی چاہیے۔
اقوام متحدہ کے انڈر سیکریٹری نے موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث پاکستان میں سیلاب سے ہونے والی تباہی پر دکھ کا اظہارکیا۔ دوسری جانب سیلاب زدہ علاقوں میں اموات بڑھنے کے خدشات ظاہرکرتے ہوئے اقوام متحدہ نے عالمی برادری سے پاکستان کے لیے امداد 180 ملین ڈالرز سے بڑھ کر 816 ملین ڈالرز کرنے کی نئی اپیل کردی ہے۔
اقوام متحدہ کی جائزہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں سیلاب کی وجہ سے غربت کی شرح میں 4.5 سے 7.0فی صد اضافے کا خدشہ ہے ۔ 9.9 سے 15.4 ملین لوگ غربت کا شکار ہوسکتے ہیں ، غربت کے اثرات مردوں کی نسبت خواتین پر زیادہ مرتب ہونگے۔
پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے سیلاب کی وجہ سے ملک کا بڑا حصہ پانی میں گھرا ہوا ہے، آنے والے کئی سال معیشت کو بہتر کرنے میں لگ جائیں گے ، موسم سرما کے باعث صورتحال مزید خراب ہوسکتی ہے، سطح غربت سے نیچے پہلے ہی 8 کروڑ لوگ تھے جن میں اب مزید اضافہ ہوجائے گا۔
پاکستانی معیشت حالیہ سیلاب کی وجہ سے شدید معاشی اور انسانی بحران کا شکار ہے، ملکی معیشت کو مہنگائی ، بیرونی مالی دباؤ اور غیر یقینی صورت حال کا سامنا ہے۔ موجودہ مالی سال معاشی شرح نمو ہدف سے کم رہنے کا امکان ہے، سیلاب کے باعث فصلیں متاثر ہوئی ہیں اور خوراک کے عدم تحفظ کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔
مہنگائی کی وجہ خوراک کی عالمی قیمتوں میں اضافہ ، سیلاب اور روپے کی قدر میں کمی ہے۔ معمولات زندگی کو برقرار رکھنے والی سرگرمیوں ، مارکیٹس تک پہنچنے میں مشکلات اور سپلائی چین میں رکاوٹوں کے باعث چھوٹے کاروباری ادارے بھی متاثر ہوئے ہیں۔
دکانوں اور گوداموں میں بارش کا پانی بھر جانے سے کھانے پینے کا موجودہ ذخیرہ خراب ہو گیا ہے ، نقصان زدہ اسٹاک میں 23 فیصد کے ساتھ زیادہ تر گندم کے ذخائر شامل ہیں اور دور دراز علاقوں میں رہنے والے لوگوں کو خوراک کے شدید بحران کا سامنا ہے۔
اس وقت اصل نقصانات کا علم نہیں ہے۔ متاثرہ اور بے گھر خاندانوں کو بنیادی ڈھانچے کی مکمل تباہی کا سامنا ہے، پینے کا پانی دستیاب نہیں ہے۔ اشیائے خورونوش کی دستیابی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ سوشل میڈیا پر متاثرہ عوام بالخصوص خواتین اور بچوں کی حالت زار اور دلخراش مناظر نے عام شہریوں کے حلق سے لقمہ اتارنا مشکل کر دیا ہے۔
غریب لوگوں کے مال مویشی سیلاب کے ریلوں کے ساتھ بہہ گئے ۔ 3 ہزار کلومیٹر کے قریب سڑکیں ٹوٹ پھوٹ گئی ہیں اور راستے بند ہو چکے ہیں، جو پل لوگوں کو جوڑنے کے کام آتے تھے اور دریاؤں اور نالوں کے پار جانے کے لیے استعمال ہوتے تھے وہ تقریباً 145 پْل ڈوب چکے ہیں یا تباہ ہو گئے ہیں، اب لوگ جہاں کہیں تھے وہاں سے نکل نہیں سکتے۔ سیلاب کے ان تباہ کن اثرات میں سب سے دور رس اثر ہماری زراعت پر پڑا ہے۔
پاکستان جس کی معیشت 21 فیصد جی ڈی پی زراعت پر منحصر ہے۔ ہمارے ملک میں تقریباً 45 فیصد ملازمتیں بالواسطہ یا بلاواسطہ زراعت سے جڑی ہوئی ہیں اور 60 فیصد برآمدات زراعت پر مبنی اشیاء سے جڑی ہیں۔ حالیہ سیلاب سے اندازاً 20 لاکھ فصلیں اور زمینیں متاثر ہوئی ہیں۔
مستقبل قریب میں معیشت کے تمام شعبوں سے متعلق سپلائی چین بری طرح متاثر ہوں گی۔ اشیاء کی نقل و حمل میں تاخیر ہوگی۔ خام مال کی نقل و حمل میں تاخیر کے نتیجے میں مصنوعات کی تیاری بھی تاخیر کا شکار ہوگی ، جس سے برآمدات میں کمی واقع ہوگی ، جس کے نتیجے میں زرمبادلہ کی قلت سے ہماری مشکلات میں اضافہ ہوگا۔
اس کا مطلب یہ ہوگا کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے بیل آئوٹ پیکیج کے باوجود روپیہ دبائو کا شکار رہے گا۔ اس سے درآمدات کی لاگت میں اضافہ ہوتا ہے اور اگر درآمدی سامان برآمدات کا جزو ہو تو ہماری مشکلات میں مزید اضافہ ہوجائے گا۔ پہلے ہی قلت کی وجہ سے روزمرہ کی اشیائے خورونوش کی قیمتوں نے آسمان کو چھونا شروع کردیا تھا۔
چند ہفتے پہلے کی قیمتوں کے مقابلے میں ضروری کھانے پینے کی اشیاء 100 فیصد مہنگی ہوچکی ہیں۔ مویشیوں اور بھیڑوں کے نقصان سے ڈیری اور گوشت کی قیمتیں بڑھ چکی ہیں۔
مہنگائی جو پہلے ہی 42 فیصد پر جنگل کی آگ کی طرح بڑھتی ہی جارہی ہے ، مزید بلندی پر پہنچ جائے گی۔ مہنگائی کے تناسب سے آمدنی میں اضافہ نہ ہونے کی وجہ سے ظاہر ہے کہ طلب میں بڑی کمی ہوگی۔ عام آدمی کی کھپت کی صلاحیت بہت زیادہ دبائو کا شکار ہے ، جو سماجی بدامنی کے لیے بارود کا کام کرسکتی ہے۔
عظیم نقصان ایک سوال کو جنم دیتا ہے کہ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کیا کر رہی تھی؟ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی تھی کیا۔ ان کی بے حسی کے نتیجے میں جنم لینے والے مصائب و آلام دیکھنے کا انتظار کر رہی تھی۔ اقتصادی بدحالی پہلے ہی معاشی اشاریوں کو روند رہی تھی ، عام لوگوں کو متاثر کررہی تھی، اب ان کی بے حسی سے دکھ اور مصیبت دگنی ہوگئی ہے۔
سیلاب سے ہونے والے نقصانات کا تخمینہ 10 ارب ڈالر سے زیادہ لگایا جا رہا ہے۔ بینکنگ اور فنانس انڈسٹری کو ان کی مقروض صنعتوں کو پہنچنے والے نقصان کا اندازہ لگانے میں ابھی وقت لگے گا۔ باالفاظ دیگر، مزید چیلنجزسامنے آنے والے ہیں، اگر رعایت نہ دی گئی تو نان پرفارمنگ لون بک (جب بینک سمجھتا ہے کہ قرض واپسی کا امکان نہیں رہا) میں اضافہ ہوگا۔
تعمیر نو کے کام میں سیمنٹ ، لوہے اور اسٹیل ، سینیٹری ویئر، الیکٹریفیکیشن پراڈکٹس وغیرہ جیسے مواد کی قلت یا شدید قیمتوں میں اضافے کا مشاہدہ کریں گے۔ اس سے گھر کی تعمیر کے اس اقدام کو نقصان پہنچے گا ، تمام اقتصادی منصوبے، اگر کوئی ہیں تو غیر اہم ہوجائیں گے۔ وسائل کی کمی ہمیں معاشی طور پر کم از کم آٹھ سے دس سال پیچھے کرسکتی ہے۔
نیا اور مرمت دونوں بنیادی ڈھانچہ راتوں رات تعمیر نہیں کیا جا سکتا۔ نقصان بہت زیادہ ہے۔ ہمیں ان سیلابوں سے ہونے والے جانی و مالی نقصانات کا اندازہ لگانے میں کم از کم ایک پورا سال لگے گا، جب کہ دوبارہ تعمیر میں مزید وقت لگے گا۔
اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے مشترکہ جدوجہد کی جائے، مہنگائی کی شرح کے مزید بڑھنے کا خدشہ ہے۔ حکومت وقت کو ضروری اور فوری اقدامات کرنا ہوں گے تاکہ وطن عزیز میں سیلاب زدہ علاقوں کو دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑا کیا جاسکے، زراعت میں بہتری کے لیے سستے بیج، کھاد اور بجلی کی فراہمی، سیلاب کے پانی کی وجہ سے زمین زیادہ پیداوار دیتی ہیں اگر فوری طور پر کسانوں کو یہ مراعات دی جاتی ہیں تو اگلے سال ہماری فصلیں پیداوار زیادہ دیں گی۔
بلند شرح سود جو معاشی ترقی کی راہ میں حائل ہے اس کو ختم ہونا چاہیے، پانی کی فراہمی کا انفرا اسٹرکچر تباہ ہو چکا ہے اسے فوری بحال کیا جائے، سیلاب زدہ علاقوں کو ٹیکس فری زونز قرار دینا چاہیے، اور ان علاقوں کے لیے بجلی کے ٹیرف کو کم کر دینا چاہیے، ملکی اور غیر ملکی امداد سے ادویات اور خوراک کا فوری انتظام ضروری ہے، چھوٹے کسانوں کو جن کی زمین 30 ایکڑ سے کم ہے۔
ان کے قرضے معاف کرنے چاہئیں اور حکومت کے ساتھ مل کر سب اسٹیک ہولڈرز کو دنیا کی توجہ ہمارے ملک پر آئے ہوئے اس بھیانک ڈیزاسٹر کی طرف کرانی چاہیے تاکہ پاکستان میں جلد از جلد ہنگامی بنیادوں پر امداد مہیا کی جائے جو قرض ادا کرنا ہے تمام ممالک سے اس کو ختم یا کم کرنے کی بات کی جائے، ایکسپورٹ کے لیے خام مال جو درآمد کیا جاتا ہے سیلاب زدہ علاقوں کے لیے خام مال پر ٹیکس کو ختم کیا جائے۔
ہمیں ماحولیاتی تبدیلیوں کا سامنا ہے، لیکن ہم تیار نہیں ہیں۔ یہ ملک کی مجموعی اقتصادی ترقی کی ایک بڑی قیمت ہے اور ہوگی، ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات اب یہاں رہیں گے۔ ہمیں اس حقیقت کو قبول کرنا چاہیے۔
چنانچہ آب و ہوا، موسموں اور معیشت کے مختلف حصوں پر ان کے اثرات میں متوقع تبدیلیوں کے مطابق معیشت کی ترقی کے لیے منصوبہ بندی کرنی ہوگی۔ ہم موسمیاتی تبدیلیوں سے شدید متاثر ہونے والے سرفہرست 10 ممالک میں شامل ہیں ، اگرچہ ہم کاربن کے اخراج میں 2 فیصد سے بھی کم حصہ ڈالتے ہیں، لیکن اس کے منفی نتائج کے لحاظ سے اس کا نقصان ہم پر زیادہ ہے، ہمیں اس سے نمٹنے کے لیے ابھی سے تیاری کرنی چاہیے۔