سزا
پاکستان دنیا کے ان کچھ ملکوں میں سے ایک ہے جہاں سزائے موت دینا ہر صوبے یعنی پورے ملک میں قانون کے دائرے میں آتا ہے۔۔۔
پاکستان میں قانونی نظام کو لے کر کئی مسائل ہیں۔ ہمارے یہاں ملزم کو پکڑنا، کورٹ میں کیس، سزا ملنا، ہر سسٹم میں مسائل ہی مسائل ہیں۔ اگر آپ طاقت ور ہیں تو کوئی قانون آپ پر لاگو نہیں ہوتا، کوئی قوم کے اربوں روپے کھا کر بھی کسی مسئلے میں نہیں پھنستا، کورٹ میں اس کی سنوائی کی باری تک نہیں آتی۔
کچھ دن پہلے خبروں میں پھر خدیجہ شاہ نظر آئیں، اگر آپ کو یاد نہیں تو یہ وہ چوبیس سالہ برٹش نیشنل خاتون تھیں جو مئی 2012ء میں آٹھ ماہ کی حاملہ ہونے کے علاوہ اپنے دو چھوٹے بچوں کے ساتھ اسلام آباد سے انگلینڈ جا رہی تھیں اور ایئر پورٹ پر تریسٹھ (63) کلو ہیروئن کے ساتھ پکڑی گئی تھیں، یہ دنیا کے کسی بھی ایئرپورٹ کی تاریخ کا سب سے بڑا اسکینڈل تھا، اہلکاروں کے حساب سے خدیجہ کی گھبراہٹ دیکھ کر ان پر شک ہوا تھا جس کے بعد ان کے سامان کو الگ سے چیک کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
خدیجہ پکڑے جانے سے اب تک اپنے آپ کو بے قصور کہتی رہی ہیں۔ انھوں نے جیل میں اپنی بیٹی کو ڈیلیور کیا اور اب دو سال بعد چھبیس سالہ خدیجہ شاہ کو عمر قید سنا دی گئی ہے جب کہ ان کے وکلاء ہائی کورٹ میں اپیل دائر کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ اس کے باوجود خدیجہ کو جو سزا ملی بالکل صحیح ملی، جو لوگوں کے لیے دنیا بھر میں عبرت کی مثال بنے گی۔ ڈرگ ٹریفکنگ کے معاملے میں خدیجہ شاہ کو شکر ادا کرنا چاہیے کہ انھیں سزائے موت نہیں دی گئی جب کہ پاکستان میں اس جرم کے ثابت ہونے پر انھیں با آسانی سزائے موت دی جا سکتی تھی اور ان کے پکڑے جانے پر میڈیا کا بھی یہی خیال تھا کہ انھیں سزائے موت ملے گی۔
پاکستان میں لاء اینڈ آرڈر کا نظام بے شک برا ہے لیکن کچھ جرائم ایسے ہیں کہ اگر کوئی اس میں دھر لیا جائے تو سزا سے بچنا مشکل ہے، چلیں آج ان جرائم سے متعلق کچھ بات کی جائے جن کی سزا پاکستان پینل کورٹ کے مطابق سزائے موت ہے لیکن دنیا کے بیشتر ملکوں میں ان جرائم کی اتنی سخت سزا نہیں ہے۔
پاکستان دنیا کے ان کچھ ملکوں میں سے ایک ہے جہاں سزائے موت دینا ہر صوبے یعنی پورے ملک میں قانون کے دائرے میں آتا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ ان ممالک کی فہرست میں بھی شامل ہے جہاں اٹھارہ سال سے کم عمر افراد کو بھی سزائے موت دی جا سکتی ہے۔ پاکستان کے قانون کے مطابق ستائس (27) ایسے جرائم ہیں جن پر سزائے موت مل سکتی ہے، ان میں سے پانچ ایسے جرائم ہیں جن پر سزا ملنا باقی دنیا میں عام نہیں ہے۔
پہلا اگر کوئی مذہب کی بے حرمتی کرے، اگر کوئی مذہب کے بارے میں غلط بات کرے تو یہ اتنا سنگین جرم ہے کہ ملزم کو سزائے موت دی جا سکتی ہے۔ 1982ء میں قرآن پاک کی بے حرمتی اور 1986ء میں حضورؐ پاک کی شان میں گستاخی کرنے پر سزا کو بھی شامل کیا گیا تھا۔
دوسرا بڑا جرم پاکستان میں ڈرگ ٹریفکنگ ہے جس میں خدیجہ شاہ کو گرفتار کیا گیا تھا۔ پاکستان پینل کورٹ کے مطابق اگر کوئی شخص ایک کلو سے زیادہ ہیروئن کے ساتھ پکڑا جائے تو اسے سزائے موت دی جا سکتی ہے۔ وہ چارجز جو خدیجہ پر لگائے گئے تھے ان کے مطابق انھیں سزائے موت ہو سکتی تھی لیکن اس میں کمی کر کے انھیں عمر قید سنا دی گئی۔ Adultery یعنی ناجائز تعلقات کی سزا بھی پاکستان پینل کورٹ سزائے موت مانتی ہے۔ یہاں دلچسپ بات یہ ہے کہ کورٹ اس قانون کو زیادہ لاگو نہیں کرتی لیکن پاکستان میں اس مدعے کو لے کر آنر کلنگ (Honour Killing) بہت عام بات ہے، جہاں خواتین کو انھی کے رشتے دار اور گائوں قبیلے الزام لگاکر موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں۔ ہیومن رائٹس کمیشن پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق 2010ء میں ساڑھے نو سو (950) اور 2011ء میں 943 لوگوں کو آنر کلنگ کے نام پر موت کے گھاٹ اتارا گیا جب کہ پاکستان پینل کورٹ کے مطابق اگر کوئی مذہب اسلام سے دستبردار ہو جائے تو اس کی سزا سزائے موت نہیں ہے لیکن پاکستانیوں کی سوچ کے مطابق اسے موت کی سزا ہی ملنی چاہیے۔
PEW ریسرچ سینٹر پول کے مطابق ساٹھ فیصد پاکستانیوں کے حساب سے پاکستان میں یہ قانون لاگو ہونا چاہیے جس میں اگر کوئی مسلمان اپنا مذہب بدل لے تو اس کی سزا موت ہونی چاہیے۔
پاکستان میں اغوا کی سزا بھی موت ہے، قانون کے مطابق اگر کوئی شخص کسی کو تاوان، جنسی طور پر ہراساں کرنے یا انسانی اسمگلنگ کے لیے استعمال کرے تو اس کی سزا بھی موت ہے، نہ صرف یہ بلکہ اس شخص کے لیے بھی سزائے موت ہے جو کسی کو ایسے خطرے میں ڈالے۔
2010ء کے پول کے مطابق پاکستان میں آٹھ ہزار (8000) لوگ ایسے ہیں جو ''ڈیتھ رو'' پر ہیں، اس حساب سے پاکستان وہ ملک ہے جہاں سب سے زیادہ سزائے موت دی جا رہی ہے۔ غور کرنے والی بات یہ ہے کہ پاکستان کو چھوڑ کر پوری دنیا میں صرف 9700 لوگ Death Row پر ہیں۔ پاکستان میں سزائے موت ملنے والے قیدی کو 8x6 کے سیل میں رکھا جاتا ہے اس وقت تک جب تک اسے پھانسی نہیں ہو جاتی، دن میں صبح آدھا گھنٹہ اور آدھا گھنٹہ شام میں بیڑیوں کے ساتھ واک کرنے کی اجازت کے علاوہ شخص اور کچھ نہیں کر سکتا، نہ ہی کسی سے بات، نہ ملاقات، نہ ریڈیو، ٹی وی، کتاب اور نہ ہی کھلی ہوا میں سانس لینا۔
پاکستان میں اپیل سسٹم اتنا سست ہے کہ اگر کوئی سزائے موت پانے والا مجرم اپیل کر لے تو اس کی باری آنے میں بارہ سے چودہ سال لگ جاتے ہیں۔ اس پورے عرصے میں ایک چھوٹے سے کمرے میں بند رہ کر وہ ویسے ہی پاگل ہو جاتا ہے اور اپیل کے بعد اگر چھوٹ جائے تو قانون اسے اس برے برتائو، وقت کے زیاں اور اس دماغی حالت پر پہنچ جانے کا کوئی معاوضہ نہیں دیتا۔
جب ہر اخبار میں، نیوز چینلز پر خدیجہ جیسے لوگوں کی خبر نظر آتی جو اپنے ملک و قوم سے غداری کرتے پکڑی گئیں اور پھر وہ پاکستان میں اپنے خلاف نا انصافی کی بات کرتی ہیں تو ان ہزاروں لوگوں کا خیال آتا ہے جو شاید بغیر کسی جرم کے ایک چھوٹے سے 8x6 کے کمرے میں اپنی اس موت کا انتظار کر رہے ہیں جو انھیں کسی دن خاموشی سے اپنے ساتھ لے جائے گی اور اس بے قصور کی آواز کوئی نہیں سن پائے گا۔
کچھ دن پہلے خبروں میں پھر خدیجہ شاہ نظر آئیں، اگر آپ کو یاد نہیں تو یہ وہ چوبیس سالہ برٹش نیشنل خاتون تھیں جو مئی 2012ء میں آٹھ ماہ کی حاملہ ہونے کے علاوہ اپنے دو چھوٹے بچوں کے ساتھ اسلام آباد سے انگلینڈ جا رہی تھیں اور ایئر پورٹ پر تریسٹھ (63) کلو ہیروئن کے ساتھ پکڑی گئی تھیں، یہ دنیا کے کسی بھی ایئرپورٹ کی تاریخ کا سب سے بڑا اسکینڈل تھا، اہلکاروں کے حساب سے خدیجہ کی گھبراہٹ دیکھ کر ان پر شک ہوا تھا جس کے بعد ان کے سامان کو الگ سے چیک کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
خدیجہ پکڑے جانے سے اب تک اپنے آپ کو بے قصور کہتی رہی ہیں۔ انھوں نے جیل میں اپنی بیٹی کو ڈیلیور کیا اور اب دو سال بعد چھبیس سالہ خدیجہ شاہ کو عمر قید سنا دی گئی ہے جب کہ ان کے وکلاء ہائی کورٹ میں اپیل دائر کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ اس کے باوجود خدیجہ کو جو سزا ملی بالکل صحیح ملی، جو لوگوں کے لیے دنیا بھر میں عبرت کی مثال بنے گی۔ ڈرگ ٹریفکنگ کے معاملے میں خدیجہ شاہ کو شکر ادا کرنا چاہیے کہ انھیں سزائے موت نہیں دی گئی جب کہ پاکستان میں اس جرم کے ثابت ہونے پر انھیں با آسانی سزائے موت دی جا سکتی تھی اور ان کے پکڑے جانے پر میڈیا کا بھی یہی خیال تھا کہ انھیں سزائے موت ملے گی۔
پاکستان میں لاء اینڈ آرڈر کا نظام بے شک برا ہے لیکن کچھ جرائم ایسے ہیں کہ اگر کوئی اس میں دھر لیا جائے تو سزا سے بچنا مشکل ہے، چلیں آج ان جرائم سے متعلق کچھ بات کی جائے جن کی سزا پاکستان پینل کورٹ کے مطابق سزائے موت ہے لیکن دنیا کے بیشتر ملکوں میں ان جرائم کی اتنی سخت سزا نہیں ہے۔
پاکستان دنیا کے ان کچھ ملکوں میں سے ایک ہے جہاں سزائے موت دینا ہر صوبے یعنی پورے ملک میں قانون کے دائرے میں آتا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ ان ممالک کی فہرست میں بھی شامل ہے جہاں اٹھارہ سال سے کم عمر افراد کو بھی سزائے موت دی جا سکتی ہے۔ پاکستان کے قانون کے مطابق ستائس (27) ایسے جرائم ہیں جن پر سزائے موت مل سکتی ہے، ان میں سے پانچ ایسے جرائم ہیں جن پر سزا ملنا باقی دنیا میں عام نہیں ہے۔
پہلا اگر کوئی مذہب کی بے حرمتی کرے، اگر کوئی مذہب کے بارے میں غلط بات کرے تو یہ اتنا سنگین جرم ہے کہ ملزم کو سزائے موت دی جا سکتی ہے۔ 1982ء میں قرآن پاک کی بے حرمتی اور 1986ء میں حضورؐ پاک کی شان میں گستاخی کرنے پر سزا کو بھی شامل کیا گیا تھا۔
دوسرا بڑا جرم پاکستان میں ڈرگ ٹریفکنگ ہے جس میں خدیجہ شاہ کو گرفتار کیا گیا تھا۔ پاکستان پینل کورٹ کے مطابق اگر کوئی شخص ایک کلو سے زیادہ ہیروئن کے ساتھ پکڑا جائے تو اسے سزائے موت دی جا سکتی ہے۔ وہ چارجز جو خدیجہ پر لگائے گئے تھے ان کے مطابق انھیں سزائے موت ہو سکتی تھی لیکن اس میں کمی کر کے انھیں عمر قید سنا دی گئی۔ Adultery یعنی ناجائز تعلقات کی سزا بھی پاکستان پینل کورٹ سزائے موت مانتی ہے۔ یہاں دلچسپ بات یہ ہے کہ کورٹ اس قانون کو زیادہ لاگو نہیں کرتی لیکن پاکستان میں اس مدعے کو لے کر آنر کلنگ (Honour Killing) بہت عام بات ہے، جہاں خواتین کو انھی کے رشتے دار اور گائوں قبیلے الزام لگاکر موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں۔ ہیومن رائٹس کمیشن پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق 2010ء میں ساڑھے نو سو (950) اور 2011ء میں 943 لوگوں کو آنر کلنگ کے نام پر موت کے گھاٹ اتارا گیا جب کہ پاکستان پینل کورٹ کے مطابق اگر کوئی مذہب اسلام سے دستبردار ہو جائے تو اس کی سزا سزائے موت نہیں ہے لیکن پاکستانیوں کی سوچ کے مطابق اسے موت کی سزا ہی ملنی چاہیے۔
PEW ریسرچ سینٹر پول کے مطابق ساٹھ فیصد پاکستانیوں کے حساب سے پاکستان میں یہ قانون لاگو ہونا چاہیے جس میں اگر کوئی مسلمان اپنا مذہب بدل لے تو اس کی سزا موت ہونی چاہیے۔
پاکستان میں اغوا کی سزا بھی موت ہے، قانون کے مطابق اگر کوئی شخص کسی کو تاوان، جنسی طور پر ہراساں کرنے یا انسانی اسمگلنگ کے لیے استعمال کرے تو اس کی سزا بھی موت ہے، نہ صرف یہ بلکہ اس شخص کے لیے بھی سزائے موت ہے جو کسی کو ایسے خطرے میں ڈالے۔
2010ء کے پول کے مطابق پاکستان میں آٹھ ہزار (8000) لوگ ایسے ہیں جو ''ڈیتھ رو'' پر ہیں، اس حساب سے پاکستان وہ ملک ہے جہاں سب سے زیادہ سزائے موت دی جا رہی ہے۔ غور کرنے والی بات یہ ہے کہ پاکستان کو چھوڑ کر پوری دنیا میں صرف 9700 لوگ Death Row پر ہیں۔ پاکستان میں سزائے موت ملنے والے قیدی کو 8x6 کے سیل میں رکھا جاتا ہے اس وقت تک جب تک اسے پھانسی نہیں ہو جاتی، دن میں صبح آدھا گھنٹہ اور آدھا گھنٹہ شام میں بیڑیوں کے ساتھ واک کرنے کی اجازت کے علاوہ شخص اور کچھ نہیں کر سکتا، نہ ہی کسی سے بات، نہ ملاقات، نہ ریڈیو، ٹی وی، کتاب اور نہ ہی کھلی ہوا میں سانس لینا۔
پاکستان میں اپیل سسٹم اتنا سست ہے کہ اگر کوئی سزائے موت پانے والا مجرم اپیل کر لے تو اس کی باری آنے میں بارہ سے چودہ سال لگ جاتے ہیں۔ اس پورے عرصے میں ایک چھوٹے سے کمرے میں بند رہ کر وہ ویسے ہی پاگل ہو جاتا ہے اور اپیل کے بعد اگر چھوٹ جائے تو قانون اسے اس برے برتائو، وقت کے زیاں اور اس دماغی حالت پر پہنچ جانے کا کوئی معاوضہ نہیں دیتا۔
جب ہر اخبار میں، نیوز چینلز پر خدیجہ جیسے لوگوں کی خبر نظر آتی جو اپنے ملک و قوم سے غداری کرتے پکڑی گئیں اور پھر وہ پاکستان میں اپنے خلاف نا انصافی کی بات کرتی ہیں تو ان ہزاروں لوگوں کا خیال آتا ہے جو شاید بغیر کسی جرم کے ایک چھوٹے سے 8x6 کے کمرے میں اپنی اس موت کا انتظار کر رہے ہیں جو انھیں کسی دن خاموشی سے اپنے ساتھ لے جائے گی اور اس بے قصور کی آواز کوئی نہیں سن پائے گا۔