کیا صرف اولاد قصوروار ہے

fatimaqazi7@gmail.com

معاشرہ کس طرف جا رہا ہے؟ ایک عجیب افراتفری ہے۔ نوجوان نسل جو اس ملک کا مستقبل ہیں کیا کر رہے ہیں؟مارے باندھے کالج اور یونیورسٹی جانا اور بقیہ وقت محض خرافات میں صرف کرنا۔ کوچنگ سینٹروں میں بھی جاتے ہیں تو اس لیے کہ وہاں لڑکیاں بھی ہوتی ہیں ، البتہ پہلے ایسا نہیں تھا، لیکن نیشنلائزیشن نے تعلیم کی بربادی میں بہت بڑا حصہ ڈالا۔ اب اساتذہ کا اپائنمنٹ زیادہ تر سیاسی بنیادوں پر ہونے لگا۔

پرنسپل اگر ذمے دار ہے تو وہ کنٹرول رکھتا ہے۔ اساتذہ بھی ایسے پرنسپل سے ڈرتے ہیں کہ اس کے ہاتھ میں سالانہ خفیہ رپورٹ لکھنے کا اختیار ہوتا ہے ، لیکن جو پرنسپل خود سیاسی جماعت کا نمایندہ ہو وہ بھی صرف انھی اساتذہ کی رپورٹA+ بھیجتا جو اس کی پارٹی کے ہوں۔ نیشنلائزیشن کے بعد بوائز کالجوں میں اور بعض گرلز کالجوں میں کلاسیں خالی رہنے اور اسٹاف روم آباد رہنے لگے۔ طلبا و طالبات بھی کیا کریں جب اساتذہ ہی کلاسوں کا رخ نہ کریں۔ سیاسی بنیادوں پر آئے ہوئے اساتذہ کتنے لائق اور قابل ہوتے ہیں اس پر میں بہت پہلے کالم لکھ چکی ہوں۔

اب حالات اور زیادہ سنگین ہیں۔ پہلے پھر بھی یہ تھا کہ سفارشی اساتذہ کوشش کرتے تھے کہ کچھ نہ کچھ اپنی امیج بنالیں لیکن اب نہیں۔ اب تو وہ ڈنکے کی چوٹ پر برملا کہتے ہیں کہ انھیں کسی کی پرواہ نہیں۔

کراچی اور اندرون سندھ تعلیم کا بہت برا حال ہے۔ ایک زمانے سے یہ چکر چل رہا ہے کہ اندرون سندھ کے ڈومیسائل پر ملازمتیں حاصل کیں اور پھر تعلقات اور منہ مانگے ''داموں'' کراچی ٹرانسفر کروا لیا۔ نہ کلاسیں لینا نہ پڑھانا۔ کراچی میں ایک گرلز کالج ایسا بھی ہے جہاں 90 فیصد خواتین اساتذہ سفارشی اور سیاسی بنیادوں پر ٹرانسفر ہو کر آتی ہیں۔

گیارہ بجے آئیں، رجسٹر پر دستخط کیے اور چائے پی کر رخصت ہوگئیں۔ جمعہ سے گٹھڑیاں باندھنے لگیں اپنے شہر جانے کے لیے اور واپسی ہوئی پیر کی صبح۔ پھر بھی گرلز کالجوں میں اساتذہ کلاسیں لیتے ہیں۔ البتہ مجموعی طور پر حالات بہت خراب ہیں۔

مجھے یاد ہے جب 1974 میں میرا اپائنمنٹ جامعہ ملیہ ڈگری کالج میں ہوا تو وہاں طالب علموں سے کلاسیں بھری رہتی تھیں۔ طالب علم اساتذہ کا احترام کرتے تھے۔ وہاں کے پرنسپل پروفیسر اخلاق اختر حمیدی باوجود پیپلز پارٹی کیحامی ہونے کے کلاسیں لینے کے معاملے میں بہت سخت تھے۔ وہ نہایت بااخلاق یعنی اسم بامسمی تھے۔

لیکن ساتھ ہی طلبا و طالبات سے بھی غافل نہ تھے۔ پیپلز پارٹی کے سابق وزیر مملکت پروفیسر این ڈی خان کا تعلق بھی جامعہ ملیہ ڈگری کالج ہی سے تھا۔ بات کہیں سے کہیں نکل گئی۔ کالجوں میں کیسے کیسے نااہل لوگ اپائنمنٹ کیے جا رہے ہیں کسی دن پورا کالم انھی پر لکھوں گی جسے پڑھ کر یقینا آپ کہیں گے کہ:

حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں

گزشتہ کالم میں ایاز امیر صاحب کے بیٹے سے متعلق کچھ بات کی تھی۔ لیکن جیساکہ میں نے ابتدا میں کہا کہ شاہنواز اتنا سنگ دل کیسے بنا کہ اس نے اتنے سفاکانہ اور بہیمانہ طریقے سے اپنی بیوی کو مار ڈالا؟ بہرحال والدین کو بالکل بری الذمہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یہاں صحافی اور تجزیہ کار ایک بات پہ بہت فوکس کر رہے ہیں کہ ''یہ ایلیٹ کلاس کا کیس ہے'' لیکن میں اس کی نفی کرتی ہوں۔ یہاں تو مکھی پہ مکھی مارنے کا رواج ہے۔


کوئی حادثہ یا بڑا الم ناک واقعہ ظہور پذیر ہوا ہو تو برساتی مینڈکوں کی طرح ''یوٹیوبرز'' نکل آتے ہیں۔ نہ اپنی کوئی تحقیق نہ کوئی نئی بات۔ آپ کو اگر میری بات کا یقین نہ آئے تو ایک نظر نورمقدم، دعا زہرہ اور سارہ انعام کیسوں کی تفصیلات دیکھ لیجیے۔ بس پہلے جس نے وڈیو بنا دی، اسی کا سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ اور تو اور سرخیوں میں جس خبر کا ذکر ہوتا ہے وہ آخر تک وڈیو دیکھنے کے بعد بھی نظر نہیں آتی۔ گویا یہ دھندا محض کمائی کا ذریعہ ہے۔

بات ہو رہی تھی ''ایلیٹ کلاس'' کی۔ تو میں کہوں گی کہ اس کے معنی طبقہ اشرافیہ لیے جاتے ہیں۔ یعنی شریف لوگوں کا طبقہ، اب بتائیے شریف لوگ کون ہوتے ہیں، ہم نے ساری زندگی اس لفظ کے معنی نیک، شریف اور اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ یعنی طبقہ علما سنا ہے ، جب کہ آج جو ایلیٹ کلاس کا ترجمہ ہے، اسے ہم ''طبقہ امرا'' کہیں گے۔

اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ طبقہ امرا سے کیا مراد ہے؟ تو جناب! جس کے پاس پیسہ ہو وہ طبقہ امرا میں شمار ہونے لگا ہے۔ پہلے کالے دھن کو چھپایا جاتا تھا، آج اس کا برملا اعتراف کرتے ہیں اور جو لوگ حق حلال کی کمائی کھا رہے ہیں انھیں احمق سمجھا جاتا ہے۔

میں پھر کہوں گی کہ ظاہر جعفر اور ملزم شاہنواز ایک دن مجرم نہیں بنے۔ جوان ہونے پر ان کی سرگرمیوں پر نظر نہیں رکھی گئی۔ خصوصی طور پر ماں کی ذمے داریاں زیادہ ہوتی ہیں۔ انھوں نے اپنے بیٹوں کی سرگرمیوں پر نظر نہیں رکھی۔ ٹوٹے ہوئے گھروں کے بچے اسی طرح دوسروں کی زندگی عذاب بنا دیتے ہیں۔

ان کا تعلق چونکہ طبقہ امرا سے ہے تو انھیں سزا ملنے کا خوف نہیںہوتا ۔ پھر یہ ہوتا ہے کہ مدعی کے خلاف ثبوت مٹا دیے جاتے ہیں تاکہ سچ سامنے نہ آئے۔ یاد کیجیے بینظیر کے قتل کو، جب ان کی لاش اسپتال پہنچائی گئی تو جائے وقوع کو کس کے حکم سے فوری طور پر دھو ڈالا گیا؟

ویسے تو ہمارے ملک میں قانون موم کی ناک ہے، جس کے پاس پیسہ ہے فیصلہ اس کے حق میں ہو جاتا ہے۔ کوئی یہ نہیں پوچھتا کہ پیسہ آیا کہاں سے؟ اسمگلنگ کرکے، عصمت فروشی کرکے یا کسی بھی اور طریقے سے؟ اب صاحب علم اور شرفا کی، عالموں کی کوئی عزت نہیں، کیونکہ یہ حلال روزی کھاتے ہیں۔

یہ جو امیر زادے ہوتے ہیں ناں وہ خود رو پودے کی طرح ہوتے ہیں، جدھر جی چاہا پھیل گئے۔ پندرہ سولہ سال کی عمر میں عادتیں پختہ ہوجاتی ہیں۔ اکیلا شاہنواز قصوروار نہیں ہے بلکہ اس کے والدین بھی قصور وار ہیں۔ مجھے حیرت اس بات پر ہے کہ سارہ خوش شکل تھی، اعلیٰ تعلیم یافتہ تھی، اچھے خاندان سے تعلق رکھتی تھی، دبئی میں اچھی تنخواہ پر ملازمت کرتی تھی، پھر کیا وجہ تھی کہ وہ 37 سال تک غیر شادی شدہ رہی؟ اس نے کسی معقول مرد کا انتخاب نہیں کیا۔

ملزم کو ضرور سزا ملنی چاہیے لیکن اس بات پہ بھی فوکس کرنا چاہیے کہ ایسے شخص کو سارہ نے گاڑی خرید کر دی، پیسے دیتی رہی، آخر کیوں؟ شاید اب وہ سیٹل ہونا چاہتی تھی۔ لیکن ہوا کیا؟ والدین سے بغاوت اور ان کو لاعلم رکھنا بہت غلط تھا۔ آپ تینوں کیسوں میں دیکھ لیجیے۔ دعا زہرہ کن لوگوں سے ملتی تھی، سوشل میڈیا پر اس کی ظہیر سے دوستی باپ اور ماں کے علم میں تھی۔ اللہ معاف کرے بس ظہیر کی نہ پرسنیلٹی، نہ تعلیم، پھر کیوں دعا پھنسی؟ صرف اور صرف والدین کی نافرمانی کرکے۔ کوئی بھی ماں باپ اپنی اولاد کے دشمن نہیں ہوتے۔

لیکن والدین کو بھی بچوں پر نظر رکھنی چاہیے۔ میرا بیٹا ماشااللہ سافٹ ویئر انجینئر ہے لیکن جب وہ تعلیم حاصل کر رہا تھا تو اس کے کمرے میں رکھے ہوئے کمپیوٹر کی اسکرین پر میری نظریں برابر رہتی تھیں۔ میں نے اور میرے شوہر نے اسے سوشل میڈیا کی تباہی کے بارے میں بہت کچھ بتا دیا تھا اور وہ سمجھ بھی گیا تھا۔ جب تک اس کی شادی نہ ہوئی اس کے معمولات پہ نظر رکھی۔ میرے بیٹے نے بھی ہم دونوں کو مایوس نہیں کیا۔

آج وہ اپنے بچوں کی تربیت بھی اسی انداز میں کر رہا ہے جیساکہ اس کی ہوئی۔ میں پھر کہوں گی کہ اولاد کے بگاڑ میں یا اسے اعلیٰ مقام پر پہنچانے میں باپ کا حصہ 30 فیصد اور ماں کا 70 فیصد ہے۔ افسوس تو یہی ہے کہ جو کیس چل رہے ہیں ان میں ماؤں کا کردار بھی سامنے آ رہا ہے جوکہ بہت تکلیف دہ ہے۔
Load Next Story