سیلاب زدگان اور صحت کے مسائل
سندھ کے وزیرِ صحت نے ابھی چند روز پہلے ایک وڈیو پیغام کے ذریعہ ہدایات جاری کی ہیں جن میں انھوں نے ڈینگی اور ملیریا سے بچاؤ کے لیے کچھ حفاظتی تدابیر اختیار کرنے کا مشورہ دیا ہے۔
انھوں نے کہا ہے کہ مچھروں سے بچاؤ کے لیے مچھر بھگانے والے لوشن ، کوائل اور مچھر دانی کا استعمال کیا جائے۔ اس کے علاوہ روشن دانوں کے نیٹ کی مرمت کرائی جائے اور ہاتھوں میں دستانے اور پیروں میں موزے پہنیں وغیرہ وغیرہ۔ موجودہ صورتحال یہ ہے کہ حالیہ سیلاب متاثرین کی بہت بڑی تعداد ہے جسے مچھروں کے کاٹے سے بیمار ہونے کا شدید خطرہ لاحق ہے۔
ان بیچاروں ، بے یارو مددگاروں اور محروموں کا سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی پرسانِ حال نہیں۔ سچ پوچھیے تو بیماریوں کا شکار ہونے کا سب سے زیادہ خطرہ انھی کو لاحق ہے۔ وزیرِ صحت نے جو ہدایات جاری کی ہیں اْن پر عمل کرنے کی سب سے زیادہ ضرورت سیلاب زدگان کو ہی ہے جن کے تن پر نہ کپڑا ہے اور نہ سر پر چھت۔ ان کی بہت بڑی تعداد کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ ادویات تو کجا ان بے آسرا لوگوں کو روٹیوں کے لالے پڑے ہیں۔
کاش! وزیرِ صحت نے ان بیچاروں کا ہی کچھ خیال کیا ہوتا اور ان کے لیے طبی امداد کا بھی کوئی تذکرہ کیا ہوتا۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ بھلا یہ لوگ مچھر مار ادویات اور مرکبات کا بندوبست کیسے کرسکتے ہیں کیونکہ ان کی جیب میں تو پھوٹی کوڑی تک نہیں۔ ان کے گھربار اور مال مویشی سب کچھ سیلاب کی نذر ہوچکا ہے۔
سچی بات یہ ہے کہ کسی کو ہدایت یا مشورہ دینا سب سے آسان کام ہے کیونکہ اس میں محض زبانی جمع خرچ کے سوائے گرہ سے کچھ نہیں جاتا۔ ہندی کی ایک کہاوت ہے '' جا کے پیر پڑے نہ بِیوائی، وہ کیا جانے پِیڑ پرائی '' جس کا مفہوم یہ ہے کہ جس شخص کے پیروں میں پھٹن نہ ہو وہ کسی دوسرے کی پھٹن کا احساس کیونکر کرسکتا ہے۔
اسی لیے کہا گیا ہے کہ گھائل کی گت گھائل جانے یعنی زخمی شخص کی حالت وہی جان سکتا ہے جو خود زخمی ہے۔ سیلاب زدگان کو نہ صرف وقتی طور پر کچھ بیماریوں میں مبتلا ہونے کا اندیشہ لاحق ہے بلکہ ذہنی امراض لاحق ہونے کا سنگین اندیشہ بھی ہے۔ گردشِ حالات بھلے چنگے انسانوں کو ذہنی مریض بنا دیتے ہیں جس سے نہ وہ خود متاثر ہوتے ہیں بلکہ ان کے خاندان کے سبھی لوگ کسی نہ کسی حد تک متاثر ہوتے ہیں۔
سیدھی سی بات یہ ہے کہ جس انسان کا دماغ ہی ساتھ نہ دے رہا ہو اْس کا ساتھ کون دے گا اور اْس کے افرادِ خانہ کا حشر کیا ہوگا۔ عام دوائیں ہی جب غریب کی دسترس سے باہر ہوں تو مہنگی دماغی ادویات کا بندوبست کوئی غریب کس طرح کر سکتا ہے ، جب عام ڈاکٹروں کی فیسیں بہت زیادہ ہوں تو اسپیشلسٹ ڈاکٹروں کی بھاری بھاری فیسوں کے لیے علاج کے لیے رقم کہاں سے حاصل کی جاسکتی ہے۔
اس سال منائے جانے والے ذہنی امراض کے عالمی دن کا موضوع ہے'' سب کے لیے ذہنی صحت اور خیریت کو عالمی ترجیح دی جائے'' پاکستان کے ہر سات افراد میں سے ایک فرد ایک پیچیدہ انسانی مسئلہ کا شکار ہے جس کا تعلق دماغی کیفیت سے ہے جو شدید موسمیاتی بحران کا نتیجہ ہے جس نے نہ صرف ہماری معیشت کی چولیں ہلا دی ہیں بلکہ صنعتی بحران بھی پیدا کردیا ہے۔ حالیہ قیامت خیز سیلابی بحران بھی اسی کا ایک حصہ ہے۔ اس سیلاب نے جو بھیانک تباہی مچائی ہے وہ ناقابلِ بیان ہے۔
اس نے نہ صرف بڑے پیمانہ پر انسانی جانوں کا ناقابلِ تلافی نقصان کیا ہے بلکہ لاتعداد گھروں، عمارتوں، درسگاہوں، مال مویشیوں اور اسپتالوں، شفا خانوں اور دیگر املاک کا نام و نشان تک مٹا دیا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے اِن کا کبھی کوئی وجود ہی نہ تھا۔ ایسی تباہی کا کسی نے کبھی تصور ہی نہیں کیا ہوگا۔
نو آبادکاری اور بحالیات کا کام جوئے شِیر لانے سے بھی بہت زیادہ دشوار اور دقت طلب ہے۔اس کام میں بیشمار مسائل پیش آئیں گے جن کے لیے برسوں درکار ہونگے اور بے تحاشہ امداد کی ضرورت پیش آئے گی۔ اِس سے انکار ممکن نہیں کہ اگر متعلقہ اداروں نے پیشگی اقدامات کرلیے ہوتے تو شاید انسانی جانوں اور مال مویشیوں کا اتنا بھاری اور ناقابلِ تلافی نقصان نہ ہوا ہوتا۔جو بھی ہو اب بحث و مباحثہ سے کچھ حاصل نہیں کیونکہ اب پچھتائے کیا ہوت، جب چڑیاں چْگ گئیں ، یعنی جو ہوا سو ہوا اْس کو بھول جائیے اور آگے کی فکر کیجیے۔
سیلاب کے بعد انتہائی اندوہناک اور دل دہلانے والے واقعات منظرِ عام پر آرہے ہیں مثلاً پانچ دوست سیلاب میں پھنسے ہوئے گھنٹوں تک '' مدد، مدد'' کہتے ہوئے چیختے چلاتے رہے لیکن مدد کے لیے کوئی ہیلی کاپٹر نہیں آیا، جب کہ اربابِ اختیار جب بھی چاہیں اْن کے لیے ایک نہیں بلکہ کئی کئی ہیلی کاپٹر تیار رہتے ہیں بس ایک اشارہ ہی کافی ہے۔
ایسے انسانیت سوز رویہ کے بارے میں بھلا کیا کہا جاسکتا ہے۔ سیلاب کے متاثرین کی حالتِ زار بیان کرنے کے لیے الفاظ نہیں مل رہے۔کسی کو احساس نہیں کہ ایک روز مالکِ حقیقی کے دربار میں حاضر ہونا ہے اور اپنے کیے ہوئے پر جواب دینا ہے۔اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کہ اِس دنیائے فانی میں اللہ تعالٰی کے ایسے نیک اور صاحبِ دل بندے بھی موجود ہیں جو اپنے دل میں خوفِ خدا رکھتے ہیں اور اْنہیں یہ احساس ہے کہ ایک نہ ایک دن اِس جہانِ فانی سے رخصت ہوکر رب العزت کی عدالت میں حاضر ہوکر اپنا اعمال نامہ پیش کرنا ہے۔
انھوں نے کہا ہے کہ مچھروں سے بچاؤ کے لیے مچھر بھگانے والے لوشن ، کوائل اور مچھر دانی کا استعمال کیا جائے۔ اس کے علاوہ روشن دانوں کے نیٹ کی مرمت کرائی جائے اور ہاتھوں میں دستانے اور پیروں میں موزے پہنیں وغیرہ وغیرہ۔ موجودہ صورتحال یہ ہے کہ حالیہ سیلاب متاثرین کی بہت بڑی تعداد ہے جسے مچھروں کے کاٹے سے بیمار ہونے کا شدید خطرہ لاحق ہے۔
ان بیچاروں ، بے یارو مددگاروں اور محروموں کا سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی پرسانِ حال نہیں۔ سچ پوچھیے تو بیماریوں کا شکار ہونے کا سب سے زیادہ خطرہ انھی کو لاحق ہے۔ وزیرِ صحت نے جو ہدایات جاری کی ہیں اْن پر عمل کرنے کی سب سے زیادہ ضرورت سیلاب زدگان کو ہی ہے جن کے تن پر نہ کپڑا ہے اور نہ سر پر چھت۔ ان کی بہت بڑی تعداد کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ ادویات تو کجا ان بے آسرا لوگوں کو روٹیوں کے لالے پڑے ہیں۔
کاش! وزیرِ صحت نے ان بیچاروں کا ہی کچھ خیال کیا ہوتا اور ان کے لیے طبی امداد کا بھی کوئی تذکرہ کیا ہوتا۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ بھلا یہ لوگ مچھر مار ادویات اور مرکبات کا بندوبست کیسے کرسکتے ہیں کیونکہ ان کی جیب میں تو پھوٹی کوڑی تک نہیں۔ ان کے گھربار اور مال مویشی سب کچھ سیلاب کی نذر ہوچکا ہے۔
سچی بات یہ ہے کہ کسی کو ہدایت یا مشورہ دینا سب سے آسان کام ہے کیونکہ اس میں محض زبانی جمع خرچ کے سوائے گرہ سے کچھ نہیں جاتا۔ ہندی کی ایک کہاوت ہے '' جا کے پیر پڑے نہ بِیوائی، وہ کیا جانے پِیڑ پرائی '' جس کا مفہوم یہ ہے کہ جس شخص کے پیروں میں پھٹن نہ ہو وہ کسی دوسرے کی پھٹن کا احساس کیونکر کرسکتا ہے۔
اسی لیے کہا گیا ہے کہ گھائل کی گت گھائل جانے یعنی زخمی شخص کی حالت وہی جان سکتا ہے جو خود زخمی ہے۔ سیلاب زدگان کو نہ صرف وقتی طور پر کچھ بیماریوں میں مبتلا ہونے کا اندیشہ لاحق ہے بلکہ ذہنی امراض لاحق ہونے کا سنگین اندیشہ بھی ہے۔ گردشِ حالات بھلے چنگے انسانوں کو ذہنی مریض بنا دیتے ہیں جس سے نہ وہ خود متاثر ہوتے ہیں بلکہ ان کے خاندان کے سبھی لوگ کسی نہ کسی حد تک متاثر ہوتے ہیں۔
سیدھی سی بات یہ ہے کہ جس انسان کا دماغ ہی ساتھ نہ دے رہا ہو اْس کا ساتھ کون دے گا اور اْس کے افرادِ خانہ کا حشر کیا ہوگا۔ عام دوائیں ہی جب غریب کی دسترس سے باہر ہوں تو مہنگی دماغی ادویات کا بندوبست کوئی غریب کس طرح کر سکتا ہے ، جب عام ڈاکٹروں کی فیسیں بہت زیادہ ہوں تو اسپیشلسٹ ڈاکٹروں کی بھاری بھاری فیسوں کے لیے علاج کے لیے رقم کہاں سے حاصل کی جاسکتی ہے۔
اس سال منائے جانے والے ذہنی امراض کے عالمی دن کا موضوع ہے'' سب کے لیے ذہنی صحت اور خیریت کو عالمی ترجیح دی جائے'' پاکستان کے ہر سات افراد میں سے ایک فرد ایک پیچیدہ انسانی مسئلہ کا شکار ہے جس کا تعلق دماغی کیفیت سے ہے جو شدید موسمیاتی بحران کا نتیجہ ہے جس نے نہ صرف ہماری معیشت کی چولیں ہلا دی ہیں بلکہ صنعتی بحران بھی پیدا کردیا ہے۔ حالیہ قیامت خیز سیلابی بحران بھی اسی کا ایک حصہ ہے۔ اس سیلاب نے جو بھیانک تباہی مچائی ہے وہ ناقابلِ بیان ہے۔
اس نے نہ صرف بڑے پیمانہ پر انسانی جانوں کا ناقابلِ تلافی نقصان کیا ہے بلکہ لاتعداد گھروں، عمارتوں، درسگاہوں، مال مویشیوں اور اسپتالوں، شفا خانوں اور دیگر املاک کا نام و نشان تک مٹا دیا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے اِن کا کبھی کوئی وجود ہی نہ تھا۔ ایسی تباہی کا کسی نے کبھی تصور ہی نہیں کیا ہوگا۔
نو آبادکاری اور بحالیات کا کام جوئے شِیر لانے سے بھی بہت زیادہ دشوار اور دقت طلب ہے۔اس کام میں بیشمار مسائل پیش آئیں گے جن کے لیے برسوں درکار ہونگے اور بے تحاشہ امداد کی ضرورت پیش آئے گی۔ اِس سے انکار ممکن نہیں کہ اگر متعلقہ اداروں نے پیشگی اقدامات کرلیے ہوتے تو شاید انسانی جانوں اور مال مویشیوں کا اتنا بھاری اور ناقابلِ تلافی نقصان نہ ہوا ہوتا۔جو بھی ہو اب بحث و مباحثہ سے کچھ حاصل نہیں کیونکہ اب پچھتائے کیا ہوت، جب چڑیاں چْگ گئیں ، یعنی جو ہوا سو ہوا اْس کو بھول جائیے اور آگے کی فکر کیجیے۔
سیلاب کے بعد انتہائی اندوہناک اور دل دہلانے والے واقعات منظرِ عام پر آرہے ہیں مثلاً پانچ دوست سیلاب میں پھنسے ہوئے گھنٹوں تک '' مدد، مدد'' کہتے ہوئے چیختے چلاتے رہے لیکن مدد کے لیے کوئی ہیلی کاپٹر نہیں آیا، جب کہ اربابِ اختیار جب بھی چاہیں اْن کے لیے ایک نہیں بلکہ کئی کئی ہیلی کاپٹر تیار رہتے ہیں بس ایک اشارہ ہی کافی ہے۔
ایسے انسانیت سوز رویہ کے بارے میں بھلا کیا کہا جاسکتا ہے۔ سیلاب کے متاثرین کی حالتِ زار بیان کرنے کے لیے الفاظ نہیں مل رہے۔کسی کو احساس نہیں کہ ایک روز مالکِ حقیقی کے دربار میں حاضر ہونا ہے اور اپنے کیے ہوئے پر جواب دینا ہے۔اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کہ اِس دنیائے فانی میں اللہ تعالٰی کے ایسے نیک اور صاحبِ دل بندے بھی موجود ہیں جو اپنے دل میں خوفِ خدا رکھتے ہیں اور اْنہیں یہ احساس ہے کہ ایک نہ ایک دن اِس جہانِ فانی سے رخصت ہوکر رب العزت کی عدالت میں حاضر ہوکر اپنا اعمال نامہ پیش کرنا ہے۔