بنیادی سہولت سے محروم تھر
تھرپارکر پر ذمے داران اپنی توجہ رکھتے تو نہ بیماری اور نہ ہی قحط جیسی آفات کا سامنا تھر کے لوگوں کو کرنا پڑتا۔۔۔
کوئلے، گریفائٹ اور چائنا کلے کے 172 ارب ٹن کے ذخائر کی دولت سے مالا مال علاقے میں سیکڑوں بچے بھوک اور بیماری سے اپنے والدین کے ہاتھوں میں تڑپ تڑپ کر مر گئے۔ الیکٹرانک میڈیا کی نشان دہی پر غفلت کی نیند سونے والے حکمرانوں کو بھی تھر کے بے کسوں کا خیال آیا۔
آج کراچی ہی نہیں پورے ملک میں بدامنی کا راج ہے، تھر پارکر میں قحط کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال کے بعد مختلف اداروں کی کارکردگی کا پول کھل رہا ہے۔ تھرپارکر کے سب سے قیمتی ترین تعلقہ اسلام کوٹ جہاں وسیع زیر زمین ذخائر موجود ہیں اور جہاں سے پیدا ہونے والی بجلی سے پورا ملک روشن ہو گا وہاں کے رورل ہیلتھ سینٹر جیسے اسپتال میں کوئی سہولت موجود نہیں۔ اسپتال میں 19 گریڈ کے 2 ڈاکٹر بھی ہیں لیکن کوئی بھی لیڈی ڈاکٹر نہیں۔ نیشنل پروگرام کے تحت کام کرنے والی لیڈی ہیلتھ سپروائزر کی 3 گاڑیاں زنگ آلود ڈبوں میں تبدیل ہو گئی ہیں۔ سندھ کے ضلع تھرپارکر میں بیماری اور بھوک سے بڑی تعداد میں ہلاکتیں انتہائی افسوس ناک ہیں۔ حکومت اور سول سوسائٹی کے اداروں کو تھر کی صورت حال کا علم اس وقت ہوا جب میڈیا نے اس مسئلے کو اٹھایا مگر افسوس ہمارے حکمران میڈیا کے اس کارنامے کو سراہنے کے بجائے میڈیا پر ناراض ہوتے دکھائی دیے کہ الیکٹرانک میڈیا غلط رپورٹ پیش کر رہا ہے، لوگ بھوک سے نہیں بیماری سے مر رہے ہیں۔ حیرت ہوتی ہے جب میں ایسی باتیں ان ذمے دار حکمرانوں کے منہ سے سنتی ہوں جن کی ذمے داری شہریوں کو ہر طرح کی مصیبت سے بچانا ہے۔
بیماری بھی جب ہوتی ہے جب صحیح غذا جسم کو نہ ملے، ہمارے حکمران بے کار کی باتیں کر کے اپنا دامن ہر گز نہیں بچا سکتے ہیں۔ یہ قحط تھرپارکر میں اچانک سے پیدا نہیں ہوا، افسوس کہ ہمارے حکمران تھرپارکر جیسے اہم علاقے سے غفلت برتتے رہے، ایشین ہیومن رائٹس کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ تین ماہ میں 200 سے زائد افراد فاقہ کشی کے نتیجے میں لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ ان سب کی ہلاکتوں کے ذمے دار ہمارے حکمران ہیں، جو کافی طویل عرصے سے تھرپارکر کو نظر انداز کیے ہوئے ہیں۔ غذا، پانی کی مستقل قلت اور انتہائی غربت اور طبی سہولتوں کا تھر میں فقدان ہے، تھر کے لوگوں کے مسائل کو حکمرانوں نے کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا، تبھی آج نوبت قحط، بیماری، اموات پر جا پہنچی ہے، قدرتی ذخائر سے مالا مال تھر کے وارث معصوم بچے ہمارے حکمرانوں کی غفلت اور نااہلی اور لاپرواہی کے سنگین انسانی جرائم کی تاریخ رقم کرتے ہوئے لمحہ لمحہ موت کی وادی میں اتر رہے ہیں۔
ورلڈ اکنامک فورم نے انسانوں کو لاحق ہونے والی مختلف مہلک بیماریوں کے حوالے سے ایک عالمی رپورٹ شایع کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ ہلاکت خیز امراض میں مبتلا ہونے والے لوگ اقتصادیات کے پیداواری عمل سے باہر رہ جاتے ہیں، جس سے عالمی معیشت کو کم از کم دو کھرب (ٹریلین) ڈالر سالانہ کا نقصان ہوتا ہے، مہلک بیماریوں کے علاج پر وسیع پیمانے پر توجہ دے کر پیداواری عمل کے اس قدر بھاری خسارے کو قابو میں لایا جا سکتا ہے، بیماریوں میں مبتلا افراد معاشی عمل سے مکمل باہر نہ بھی نکلیں تو اپنے کام پر موجود رہتے ہوئے ان کی کارکردگی میں نمایاں کمی آ جاتی ہے، اس کا اثر بھی معاشی صورت حال پر پڑتا ہے۔ ایک ترقی یافتہ ملک کے لیے بے حد ضروری ہے کہ وہاں کے شہری صحت مند ہوں تا کہ ملک کی ترقی کا سفر تیزی کے ساتھ جاری اور ساری رہے۔
مگر ترقی کا یہ سفر اس وقت ہی ممکن ہے جب ریاست اپنے تمام شہریوں کو بنیادی سہولت فراہم کرے۔ پینے کا صاف پانی، تھر کا پانی اس قدر گندا ہے کہ وہ نہ جانور پی سکتے ہیں اور نہ ہی انسان، مگر پھر بھی قدرتی ذخائر سے مالا مال تھر کے وارث کئی سال سے یہ گندا پانی پینے پر مجبور ہیں۔ مگر ہمارے حکمران سب جانتے ہوئے بھی انجان بنے ہوئے ہیں، گندا پانی پی کر شہریوں میں خطرناک بیماریاں پیدا ہو رہی ہیں مگر افسوس ہمارے حکمرانوں کو تھر کے شہریوں کی کوئی پریشانی نظر نہیں آتی، کئی سال سے تھر کو نظر انداز کیے ہوئے ہیں۔
ہمارے ملک کے بعض حکمران تو عالمی ریکارڈ قائم کرنے کا شوق پورا کرتے نظر آتے ہیں اور بعض حکمران مختلف میلوں ٹھیلوں کے نام پر کروڑوں روپے خرچ کرتے نظر آتے ہیں اگر ہمارے حکمرانوں کا یہی حال رہا تو پاکستانی شہریوں کے مسئلوں کو پھر کون حل کرے گا؟
تھرپارکر پر ذمے داران اپنی توجہ رکھتے تو نہ بیماری اور نہ ہی قحط جیسی آفات کا سامنا تھر کے لوگوں کو کرنا پڑتا، یہ صرف اور صرف ذمے داران کی غفلت کا نتیجہ ہے جس کی وجہ سے سیکڑوں ہلاکتیں ہوئی ہیں اور ابھی بھی امداد جو تھر بھیجی جا رہی ہے وہ بھی صحیح طریقے سے تقسیم ہونے سے قاصر ہے تھر میں جانے والی امداد پر نگرانی کی اشد ضرورت ہے تا کہ جلد از جلد وہ ناانصافی جو تھر کے لوگوں کے ساتھ ہوئی ہے اس کی تو خیر تلافی نہیں ہو سکتی مگر کچھ مدد ضرور ہو جائے گی ابھی بھی لوگ پریشان ہیں، کچھ بول رہے ہیں اسپتال میں دوائیاں موجود نہیں، کچھ بول رہے ہیں ہمیں ابھی تک کوئی امداد موصول نہیں ہوئی، یہاں بھی ذمے داران اپنی ذمے داری صحیح طریقے سے نبھانے سے قاصر نظر آ رہے ہیں۔
اس وقت تھرپارکر میں مستقل طور پر منصوبہ بندی کی اشد ضرورت ہے تا کہ دوبارہ سیکڑوں جانیں ضایع نہ ہوں، ایسی منصوبہ بندی جس سے تھرپارکر کے لوگوں کو فائدہ ہو ان کو زندگی کی بنیادی چیزیں فراہم کی جائیں۔ اس علاقے میں کسی بھی قسم کی کوئی معاشی منصوبہ بندی شہریوں کے لیے نہیں کی گئی ہے، وہاں کے لوگوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کیے جائیں۔ ترقیاتی پروگرام شروع کیے جائیں جس سے تھر کر شہریوں کو زندگی کی بنیادی سہولتیں میسر آ سکیں تا کہ دوبارہ تھر غذائی قلت اور قحط کا شکار نہ ہوں۔ اب تک حکومتی غفلت کے باعث تھر میں کئی جانیں ضایع ہو چکی ہیں جن میں بڑی تعداد عورتوں اور بچوں کی ہے۔
وفاقی و صوبائی حکومتیں آئین کے آرٹیکل 9 کے تحت عوام کے جان و مال کے تحفظ میں ناکام ہو چکی ہیں۔ اس وقت تھرپارکر میں کئی عورتیں اور بچے زندگی کی جنگ لڑ رہے ہیں ابھی تک کئی متاثرہ علاقوں تک حکومت کی امداد نہیں پہنچ سکی ہے، حکومت صرف گندم تقسیم کرنے کی باتیں کر رہی ہے لیکن اس کی پسائی اور متاثرین کو بچانے کے لیے بھی اقدامات کرنے کے ساتھ علاقے کے لیے کام کیا جائے، کیوں کہ ماضی کی حکومت میں دیہی علاقوں میں کسی بھی قسم کے ترقیاتی کام نہیں کرائے گئے تھر کے بنیادی مسائل حل کرنے کی جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ بنیادی چیزوں سے محروم ہونے کی وجہ سے اس وقت تھر موت کی وادی بنا ہوا ہے جو لوگوں کو لقمہ اجل بنا رہا ہے اس موت کی وادی کو زندگی کی روشنی سے روشن کرنا ہو گا۔
آج کراچی ہی نہیں پورے ملک میں بدامنی کا راج ہے، تھر پارکر میں قحط کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال کے بعد مختلف اداروں کی کارکردگی کا پول کھل رہا ہے۔ تھرپارکر کے سب سے قیمتی ترین تعلقہ اسلام کوٹ جہاں وسیع زیر زمین ذخائر موجود ہیں اور جہاں سے پیدا ہونے والی بجلی سے پورا ملک روشن ہو گا وہاں کے رورل ہیلتھ سینٹر جیسے اسپتال میں کوئی سہولت موجود نہیں۔ اسپتال میں 19 گریڈ کے 2 ڈاکٹر بھی ہیں لیکن کوئی بھی لیڈی ڈاکٹر نہیں۔ نیشنل پروگرام کے تحت کام کرنے والی لیڈی ہیلتھ سپروائزر کی 3 گاڑیاں زنگ آلود ڈبوں میں تبدیل ہو گئی ہیں۔ سندھ کے ضلع تھرپارکر میں بیماری اور بھوک سے بڑی تعداد میں ہلاکتیں انتہائی افسوس ناک ہیں۔ حکومت اور سول سوسائٹی کے اداروں کو تھر کی صورت حال کا علم اس وقت ہوا جب میڈیا نے اس مسئلے کو اٹھایا مگر افسوس ہمارے حکمران میڈیا کے اس کارنامے کو سراہنے کے بجائے میڈیا پر ناراض ہوتے دکھائی دیے کہ الیکٹرانک میڈیا غلط رپورٹ پیش کر رہا ہے، لوگ بھوک سے نہیں بیماری سے مر رہے ہیں۔ حیرت ہوتی ہے جب میں ایسی باتیں ان ذمے دار حکمرانوں کے منہ سے سنتی ہوں جن کی ذمے داری شہریوں کو ہر طرح کی مصیبت سے بچانا ہے۔
بیماری بھی جب ہوتی ہے جب صحیح غذا جسم کو نہ ملے، ہمارے حکمران بے کار کی باتیں کر کے اپنا دامن ہر گز نہیں بچا سکتے ہیں۔ یہ قحط تھرپارکر میں اچانک سے پیدا نہیں ہوا، افسوس کہ ہمارے حکمران تھرپارکر جیسے اہم علاقے سے غفلت برتتے رہے، ایشین ہیومن رائٹس کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ تین ماہ میں 200 سے زائد افراد فاقہ کشی کے نتیجے میں لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ ان سب کی ہلاکتوں کے ذمے دار ہمارے حکمران ہیں، جو کافی طویل عرصے سے تھرپارکر کو نظر انداز کیے ہوئے ہیں۔ غذا، پانی کی مستقل قلت اور انتہائی غربت اور طبی سہولتوں کا تھر میں فقدان ہے، تھر کے لوگوں کے مسائل کو حکمرانوں نے کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا، تبھی آج نوبت قحط، بیماری، اموات پر جا پہنچی ہے، قدرتی ذخائر سے مالا مال تھر کے وارث معصوم بچے ہمارے حکمرانوں کی غفلت اور نااہلی اور لاپرواہی کے سنگین انسانی جرائم کی تاریخ رقم کرتے ہوئے لمحہ لمحہ موت کی وادی میں اتر رہے ہیں۔
ورلڈ اکنامک فورم نے انسانوں کو لاحق ہونے والی مختلف مہلک بیماریوں کے حوالے سے ایک عالمی رپورٹ شایع کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ ہلاکت خیز امراض میں مبتلا ہونے والے لوگ اقتصادیات کے پیداواری عمل سے باہر رہ جاتے ہیں، جس سے عالمی معیشت کو کم از کم دو کھرب (ٹریلین) ڈالر سالانہ کا نقصان ہوتا ہے، مہلک بیماریوں کے علاج پر وسیع پیمانے پر توجہ دے کر پیداواری عمل کے اس قدر بھاری خسارے کو قابو میں لایا جا سکتا ہے، بیماریوں میں مبتلا افراد معاشی عمل سے مکمل باہر نہ بھی نکلیں تو اپنے کام پر موجود رہتے ہوئے ان کی کارکردگی میں نمایاں کمی آ جاتی ہے، اس کا اثر بھی معاشی صورت حال پر پڑتا ہے۔ ایک ترقی یافتہ ملک کے لیے بے حد ضروری ہے کہ وہاں کے شہری صحت مند ہوں تا کہ ملک کی ترقی کا سفر تیزی کے ساتھ جاری اور ساری رہے۔
مگر ترقی کا یہ سفر اس وقت ہی ممکن ہے جب ریاست اپنے تمام شہریوں کو بنیادی سہولت فراہم کرے۔ پینے کا صاف پانی، تھر کا پانی اس قدر گندا ہے کہ وہ نہ جانور پی سکتے ہیں اور نہ ہی انسان، مگر پھر بھی قدرتی ذخائر سے مالا مال تھر کے وارث کئی سال سے یہ گندا پانی پینے پر مجبور ہیں۔ مگر ہمارے حکمران سب جانتے ہوئے بھی انجان بنے ہوئے ہیں، گندا پانی پی کر شہریوں میں خطرناک بیماریاں پیدا ہو رہی ہیں مگر افسوس ہمارے حکمرانوں کو تھر کے شہریوں کی کوئی پریشانی نظر نہیں آتی، کئی سال سے تھر کو نظر انداز کیے ہوئے ہیں۔
ہمارے ملک کے بعض حکمران تو عالمی ریکارڈ قائم کرنے کا شوق پورا کرتے نظر آتے ہیں اور بعض حکمران مختلف میلوں ٹھیلوں کے نام پر کروڑوں روپے خرچ کرتے نظر آتے ہیں اگر ہمارے حکمرانوں کا یہی حال رہا تو پاکستانی شہریوں کے مسئلوں کو پھر کون حل کرے گا؟
تھرپارکر پر ذمے داران اپنی توجہ رکھتے تو نہ بیماری اور نہ ہی قحط جیسی آفات کا سامنا تھر کے لوگوں کو کرنا پڑتا، یہ صرف اور صرف ذمے داران کی غفلت کا نتیجہ ہے جس کی وجہ سے سیکڑوں ہلاکتیں ہوئی ہیں اور ابھی بھی امداد جو تھر بھیجی جا رہی ہے وہ بھی صحیح طریقے سے تقسیم ہونے سے قاصر ہے تھر میں جانے والی امداد پر نگرانی کی اشد ضرورت ہے تا کہ جلد از جلد وہ ناانصافی جو تھر کے لوگوں کے ساتھ ہوئی ہے اس کی تو خیر تلافی نہیں ہو سکتی مگر کچھ مدد ضرور ہو جائے گی ابھی بھی لوگ پریشان ہیں، کچھ بول رہے ہیں اسپتال میں دوائیاں موجود نہیں، کچھ بول رہے ہیں ہمیں ابھی تک کوئی امداد موصول نہیں ہوئی، یہاں بھی ذمے داران اپنی ذمے داری صحیح طریقے سے نبھانے سے قاصر نظر آ رہے ہیں۔
اس وقت تھرپارکر میں مستقل طور پر منصوبہ بندی کی اشد ضرورت ہے تا کہ دوبارہ سیکڑوں جانیں ضایع نہ ہوں، ایسی منصوبہ بندی جس سے تھرپارکر کے لوگوں کو فائدہ ہو ان کو زندگی کی بنیادی چیزیں فراہم کی جائیں۔ اس علاقے میں کسی بھی قسم کی کوئی معاشی منصوبہ بندی شہریوں کے لیے نہیں کی گئی ہے، وہاں کے لوگوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کیے جائیں۔ ترقیاتی پروگرام شروع کیے جائیں جس سے تھر کر شہریوں کو زندگی کی بنیادی سہولتیں میسر آ سکیں تا کہ دوبارہ تھر غذائی قلت اور قحط کا شکار نہ ہوں۔ اب تک حکومتی غفلت کے باعث تھر میں کئی جانیں ضایع ہو چکی ہیں جن میں بڑی تعداد عورتوں اور بچوں کی ہے۔
وفاقی و صوبائی حکومتیں آئین کے آرٹیکل 9 کے تحت عوام کے جان و مال کے تحفظ میں ناکام ہو چکی ہیں۔ اس وقت تھرپارکر میں کئی عورتیں اور بچے زندگی کی جنگ لڑ رہے ہیں ابھی تک کئی متاثرہ علاقوں تک حکومت کی امداد نہیں پہنچ سکی ہے، حکومت صرف گندم تقسیم کرنے کی باتیں کر رہی ہے لیکن اس کی پسائی اور متاثرین کو بچانے کے لیے بھی اقدامات کرنے کے ساتھ علاقے کے لیے کام کیا جائے، کیوں کہ ماضی کی حکومت میں دیہی علاقوں میں کسی بھی قسم کے ترقیاتی کام نہیں کرائے گئے تھر کے بنیادی مسائل حل کرنے کی جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ بنیادی چیزوں سے محروم ہونے کی وجہ سے اس وقت تھر موت کی وادی بنا ہوا ہے جو لوگوں کو لقمہ اجل بنا رہا ہے اس موت کی وادی کو زندگی کی روشنی سے روشن کرنا ہو گا۔