قریہ عشق کا بے نوا مسافر ڈاکٹر اجمل نیازی
انسانی فطرت کے رچاؤ میں یادوں کی خوبصورتی کا ایک گلشن آباد ہوتا ہے، جس میں موسمِ بہار اور خزاں دونوں ہی جنم لیتے ہیں ، حسیں یادیں شگفتہ ، پاکیزہ اور دل کشی کے احساس سے بھری ہوتی ہیں ، چونکہ جب فطرت اور یادوں کا ملاپ ایک ساتھ کیا جاتا ہے تو جذبات کا آنگن وسیع رُتوں کی بہار پیدا کر دیتا ہے۔
ایسے میں جب بچھڑے ہوؤں کی یاد میں تڑپتا ہُوا دل، بیتے دنوں کی چلمن سے جھانکتی ہوئی یادوں کی خشک آنکھیں، اُداسی کی چادر اوڑھے سردی کی آمد اور آسمان سے برستی بارش کی رم جھم چہرے پہ اُترتی ہے تو آنکھوں میں رازوں کی دنیا اور یادوں کے گھر میں آباد ایک شخص ڈاکٹر اجمل نیازی یاد آتے ہیں۔
بیسوی صدی کے آسمانِ ادب پر چمکنے والے تابندہ ستاروں کے مانند متعدد نام سامنے آئے جنھوں نے اُردو ، پنجابی ادب کا دامن اپنی تخلیقاتِ نظم و نثر سے مالا مال کیا جن میں ڈاکٹر اجمل نیازی بہ حیثیت شاعر بھی تسلیم کیے گئے اور بہ حیثیت نثر نگار بھی۔ اُن کی بہترین شاعری اور نثر نگاری کی بنا پر اُن کا قارئینِ شعرو سخن میں اعتبار آج بھی قائم ہے۔
ایسی ادبی شخصیات بہت کم ہیں جنھوں نے شاعری کی اور نثر نگاری بھی۔ ڈاکٹر اجمل نیازی کو دونوں میدانوں میں یکساں مقبول اور کامیاب ٹھہرے۔ڈاکٹر اجمل نیازی اپنے مخصوص انداز میں شعر کہتے اور پڑھتے۔ ان کی شاعری زندگی کا وہ نغمہ ہے جس میں انسانی کرب اور حالاتِ حاضرہ کی داستانیں عیاں ہے۔ اُن کے ہاں حُسن و عشق کا روایتی انداز اور سر زمینِ وطن کے جانثاروں کا ترانہ ملتا ہے۔
یقیں کی سر زمیں ظاہر ہوئی اپنے لہو میں
یہ ارضِ بے وطن اپنا ترانہ ڈھونڈتی ہے
ان کی تخلیقات کو پڑھ کر لوگ آج بھی اُسے حیرت سے دیکھتے اور یاد کرتے ہیں جس کا ادبی دبدبہ گورنمنٹ کالج اور اورینٹل کالج ، پاک ٹی ہاؤس اور دیگر محافل تک پھیلا تھا۔
دبلا پتلا جسم، پاؤں سے لے کر پیشانی تک گورا رنگ، سڑکوں پر چلتے پھرتے انگریزوں سے ملتے ہوئے نین نقش والے اجمل نیازی کو عام لوگ صوفی کہتے اور بے تکلف دوست '' پگڑی والی سرکار '' کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ آپ ہر وقت اور ہر موسم میں شلوار قمیض اور واسکٹ ہی پہننا پسند کرتے، آپ لاہور میں رہتے ہوئے بندوق کے بجائے داڑھی مُونچھ کا رُعب ڈالتے ان کا قلم کسی طاقتور ، باطل کے سامنے کسی تلوار سے کم نہیں تھا۔
ان کے شاعرانہ مزاج میں صوفی طرزِ احساس میں محبت اور عقیدت کا رنگ دیکھنے کو ملتا ، وہ اپنی شاعری کے حوالے سے کہتے کہ '' شاعری میری پہلی محبت ہے اور اس کا وہی حشر ہُوا جو پہلی محبت کا ہوتا ہے مگر محبت سفر کرتی ہے اور شاعری خواب دیکھتی ہے۔
ان دیکھے راستوں پر اور نا معلوم منزلوں کی طرف محبت میری ہم سفر ہے اور شاعری میری ہم راز ہے، محبت میری گفتگو، میری آواز اور میری جستجو ہے، شاعری میری تمام سرگرمیوں اور سر مستیوں میں جھومتی ہے، میری فرصتوں اور مشغلوں میں ناچیتی ہے، میری تنہائیوں اور سچائیوں میں تڑپتی ہے۔''
ڈاکٹر اجمل نیازی ''قریہ عشق '' کا بے نوا مسافر ہے جو اپنے دل کی بات کہنے میں کسی سے کوئی Compromise نہیں کرتے۔ ایمان ، ارمان اور رومان اور انسان سے بھرا ہُوا صداقت اور محبت کا سچا مسافر ڈاکٹر اجمل نیازی اپنی بے نیازیوں کے باعث جہانِ ادب میں اپنی تخلیقی اور قلمی صلاحیتوں کی بدولت رومانیت اور روحانیت کی سانجھ میں سرگوشی اور مدہوشی میں یکجا سنائی اور دکھائی دیتا ہے، وہ زندگی کے ہر لمحے میں اپنی خواہشوں اور منزلوں کو پا لینے کی جستجو میں مگن رہتا ہے۔ ان کی مشہورِ زمانہ غزل سے دو اشعار ملاحظہ کیجیے۔
اضطرابِ شوقِ بے حد میں کہیں رہتا ہے وہ
کائناتِ روحِ احمدؐ میں کہیں رہتا ہے وہ
دائرہ در دائرہ صدیاں بلاتی ہیں اُسے
سچی آوازوں کے گنبد میں کہیں رہتا ہے وہ
اسی غزل کا مقطع دیکھیے کہ:
ہجر کے غارِ حرا میں دیکھتے اجملؔ کو تم
قریہ عشقِ محمدؐ میں کہیں رہتا ہے وہ
ڈاکٹر اجمل نیازی کے ہاں زندگی سے شاعری تک اور ہستی سے لے کر سر مستی تک سب کچھ الگ تھلگ اور جداگانہ اور دل پذیر دکھائی دیتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے کالم ان کی فکر اور شخصیت کی بڑی عمدہ ترجمانی کرتے، وہ مجلسی آدمی اور مکالمے کی اہمیت کو بخوبی سمجھتے کیونکہ وہ الفاظ سے کھیلنے کے فن سے خوب واقف تھے۔
انھوں نے بہت سے ممالک کے دورے بھی کیے خاص طور 1983 میں انھوں نے جب انڈیا کا سفر کیا عطا الحق قاسمی اور انور مسعود ساتھ تھے جہاں وہ امرتسر، انبالہ، لکھنؤ اور علی گڑھ گئے اس کے متعلق عطا الحق قاسمی بتاتے ہیں کہ''میں اور اجمل نیازی ایک دفعہ مشاعروں میں شرکت کے لیے انڈیا بھی گئے۔
مجھے اس دوران دنیا دار اجمل کسی اور دنیا کا باشندہ لگا۔ واپسی پر اس نے انڈیاکا سفر نامہ لکھا جو''مندر میں محراب'' کے عنوان سے کتابی صورت میں شایع ہُوا اور اس کتاب میں وہی نثر تھی جس کا میں فین تھا۔ بالکل انوکھی تعظیمات، بالکل انوکھا انداز یہی انداز اس کی شاعری میں بھی پایا جاتا تھا۔''
ڈاکٹر اجمل نیازی اَن دیکھے زمانوں سے صبح کے اُجالے کی طرح '' مثلِ سحر بھیجا گیا وہ مسافر ہے جو سوئے ہوئے لوگوں کو اندر سے جگانے کا ہنر جانتا ہے، بقول صوفیہ بیدار کہ'' وہ جانتا ہے کہ فجر کی گواہی میں کیا پیغام پنہاں ہے، سچے تخلیق کار کے دل کا آنگن سرگوشیوں سے دھڑک اٹھتا ہے تو پچھلا پہر رومانس کی بارشوں سے مہک اُٹھتا ہے۔
اجمال کے جہانوں کا ظہور ہوتا ہے اور وہ رومانیت اور روحانیت کی گہری کیفیتوں میں سفر کرتا ہوا جہانِ شاعری میں معتبر ہوتا ہے۔'' ڈاکٹر صاحب سے میری زیادہ تر ملاقات دن کے پچھلے پہر ہی ہوتی۔
ان کے حوالے سے بہت سی یادیں اور باتیں میری زیرِ طبع کتاب میری زندگی کا سرمایہ ہیں۔ ڈاکٹر صاحب 18 اکتوبر کے روز ہم سے ہمیشہ کے لیے بچھڑ گئے، مگر ان کی یادوں اور باتوں کے پھول آج بھی اپنی خوشبو تقسیم کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب جیسی با ہمت اور باکردار شخصیت جنھوں نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ساتھ ساتھ پوری دنیا میں تعلیمی، صحافتی، ادبی اور انسانیت کی فلاح بہبود کے لیے اعلیٰ خدمات سر انجام دیں انھیں کسی صورت بھی دل سے بھلا نہیں جا سکتا۔ آخر میں برادرِ عزیز احسن نیازی، سلمان نیازی اور رفعت بھابھی سے ڈاکٹر صاحب کی پہلی برسی پر تعزیت کرتے ہوئے اس شعر کے ساتھ اجازت چاہوں گا۔
عہدِ غفلت میں مجھے مثلِ سحر بھیجا گیا
دیر تک سوئے ہوئے لوگوں کے گھر بھیجا گیا
ایسے میں جب بچھڑے ہوؤں کی یاد میں تڑپتا ہُوا دل، بیتے دنوں کی چلمن سے جھانکتی ہوئی یادوں کی خشک آنکھیں، اُداسی کی چادر اوڑھے سردی کی آمد اور آسمان سے برستی بارش کی رم جھم چہرے پہ اُترتی ہے تو آنکھوں میں رازوں کی دنیا اور یادوں کے گھر میں آباد ایک شخص ڈاکٹر اجمل نیازی یاد آتے ہیں۔
بیسوی صدی کے آسمانِ ادب پر چمکنے والے تابندہ ستاروں کے مانند متعدد نام سامنے آئے جنھوں نے اُردو ، پنجابی ادب کا دامن اپنی تخلیقاتِ نظم و نثر سے مالا مال کیا جن میں ڈاکٹر اجمل نیازی بہ حیثیت شاعر بھی تسلیم کیے گئے اور بہ حیثیت نثر نگار بھی۔ اُن کی بہترین شاعری اور نثر نگاری کی بنا پر اُن کا قارئینِ شعرو سخن میں اعتبار آج بھی قائم ہے۔
ایسی ادبی شخصیات بہت کم ہیں جنھوں نے شاعری کی اور نثر نگاری بھی۔ ڈاکٹر اجمل نیازی کو دونوں میدانوں میں یکساں مقبول اور کامیاب ٹھہرے۔ڈاکٹر اجمل نیازی اپنے مخصوص انداز میں شعر کہتے اور پڑھتے۔ ان کی شاعری زندگی کا وہ نغمہ ہے جس میں انسانی کرب اور حالاتِ حاضرہ کی داستانیں عیاں ہے۔ اُن کے ہاں حُسن و عشق کا روایتی انداز اور سر زمینِ وطن کے جانثاروں کا ترانہ ملتا ہے۔
یقیں کی سر زمیں ظاہر ہوئی اپنے لہو میں
یہ ارضِ بے وطن اپنا ترانہ ڈھونڈتی ہے
ان کی تخلیقات کو پڑھ کر لوگ آج بھی اُسے حیرت سے دیکھتے اور یاد کرتے ہیں جس کا ادبی دبدبہ گورنمنٹ کالج اور اورینٹل کالج ، پاک ٹی ہاؤس اور دیگر محافل تک پھیلا تھا۔
دبلا پتلا جسم، پاؤں سے لے کر پیشانی تک گورا رنگ، سڑکوں پر چلتے پھرتے انگریزوں سے ملتے ہوئے نین نقش والے اجمل نیازی کو عام لوگ صوفی کہتے اور بے تکلف دوست '' پگڑی والی سرکار '' کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ آپ ہر وقت اور ہر موسم میں شلوار قمیض اور واسکٹ ہی پہننا پسند کرتے، آپ لاہور میں رہتے ہوئے بندوق کے بجائے داڑھی مُونچھ کا رُعب ڈالتے ان کا قلم کسی طاقتور ، باطل کے سامنے کسی تلوار سے کم نہیں تھا۔
ان کے شاعرانہ مزاج میں صوفی طرزِ احساس میں محبت اور عقیدت کا رنگ دیکھنے کو ملتا ، وہ اپنی شاعری کے حوالے سے کہتے کہ '' شاعری میری پہلی محبت ہے اور اس کا وہی حشر ہُوا جو پہلی محبت کا ہوتا ہے مگر محبت سفر کرتی ہے اور شاعری خواب دیکھتی ہے۔
ان دیکھے راستوں پر اور نا معلوم منزلوں کی طرف محبت میری ہم سفر ہے اور شاعری میری ہم راز ہے، محبت میری گفتگو، میری آواز اور میری جستجو ہے، شاعری میری تمام سرگرمیوں اور سر مستیوں میں جھومتی ہے، میری فرصتوں اور مشغلوں میں ناچیتی ہے، میری تنہائیوں اور سچائیوں میں تڑپتی ہے۔''
ڈاکٹر اجمل نیازی ''قریہ عشق '' کا بے نوا مسافر ہے جو اپنے دل کی بات کہنے میں کسی سے کوئی Compromise نہیں کرتے۔ ایمان ، ارمان اور رومان اور انسان سے بھرا ہُوا صداقت اور محبت کا سچا مسافر ڈاکٹر اجمل نیازی اپنی بے نیازیوں کے باعث جہانِ ادب میں اپنی تخلیقی اور قلمی صلاحیتوں کی بدولت رومانیت اور روحانیت کی سانجھ میں سرگوشی اور مدہوشی میں یکجا سنائی اور دکھائی دیتا ہے، وہ زندگی کے ہر لمحے میں اپنی خواہشوں اور منزلوں کو پا لینے کی جستجو میں مگن رہتا ہے۔ ان کی مشہورِ زمانہ غزل سے دو اشعار ملاحظہ کیجیے۔
اضطرابِ شوقِ بے حد میں کہیں رہتا ہے وہ
کائناتِ روحِ احمدؐ میں کہیں رہتا ہے وہ
دائرہ در دائرہ صدیاں بلاتی ہیں اُسے
سچی آوازوں کے گنبد میں کہیں رہتا ہے وہ
اسی غزل کا مقطع دیکھیے کہ:
ہجر کے غارِ حرا میں دیکھتے اجملؔ کو تم
قریہ عشقِ محمدؐ میں کہیں رہتا ہے وہ
ڈاکٹر اجمل نیازی کے ہاں زندگی سے شاعری تک اور ہستی سے لے کر سر مستی تک سب کچھ الگ تھلگ اور جداگانہ اور دل پذیر دکھائی دیتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے کالم ان کی فکر اور شخصیت کی بڑی عمدہ ترجمانی کرتے، وہ مجلسی آدمی اور مکالمے کی اہمیت کو بخوبی سمجھتے کیونکہ وہ الفاظ سے کھیلنے کے فن سے خوب واقف تھے۔
انھوں نے بہت سے ممالک کے دورے بھی کیے خاص طور 1983 میں انھوں نے جب انڈیا کا سفر کیا عطا الحق قاسمی اور انور مسعود ساتھ تھے جہاں وہ امرتسر، انبالہ، لکھنؤ اور علی گڑھ گئے اس کے متعلق عطا الحق قاسمی بتاتے ہیں کہ''میں اور اجمل نیازی ایک دفعہ مشاعروں میں شرکت کے لیے انڈیا بھی گئے۔
مجھے اس دوران دنیا دار اجمل کسی اور دنیا کا باشندہ لگا۔ واپسی پر اس نے انڈیاکا سفر نامہ لکھا جو''مندر میں محراب'' کے عنوان سے کتابی صورت میں شایع ہُوا اور اس کتاب میں وہی نثر تھی جس کا میں فین تھا۔ بالکل انوکھی تعظیمات، بالکل انوکھا انداز یہی انداز اس کی شاعری میں بھی پایا جاتا تھا۔''
ڈاکٹر اجمل نیازی اَن دیکھے زمانوں سے صبح کے اُجالے کی طرح '' مثلِ سحر بھیجا گیا وہ مسافر ہے جو سوئے ہوئے لوگوں کو اندر سے جگانے کا ہنر جانتا ہے، بقول صوفیہ بیدار کہ'' وہ جانتا ہے کہ فجر کی گواہی میں کیا پیغام پنہاں ہے، سچے تخلیق کار کے دل کا آنگن سرگوشیوں سے دھڑک اٹھتا ہے تو پچھلا پہر رومانس کی بارشوں سے مہک اُٹھتا ہے۔
اجمال کے جہانوں کا ظہور ہوتا ہے اور وہ رومانیت اور روحانیت کی گہری کیفیتوں میں سفر کرتا ہوا جہانِ شاعری میں معتبر ہوتا ہے۔'' ڈاکٹر صاحب سے میری زیادہ تر ملاقات دن کے پچھلے پہر ہی ہوتی۔
ان کے حوالے سے بہت سی یادیں اور باتیں میری زیرِ طبع کتاب میری زندگی کا سرمایہ ہیں۔ ڈاکٹر صاحب 18 اکتوبر کے روز ہم سے ہمیشہ کے لیے بچھڑ گئے، مگر ان کی یادوں اور باتوں کے پھول آج بھی اپنی خوشبو تقسیم کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب جیسی با ہمت اور باکردار شخصیت جنھوں نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ساتھ ساتھ پوری دنیا میں تعلیمی، صحافتی، ادبی اور انسانیت کی فلاح بہبود کے لیے اعلیٰ خدمات سر انجام دیں انھیں کسی صورت بھی دل سے بھلا نہیں جا سکتا۔ آخر میں برادرِ عزیز احسن نیازی، سلمان نیازی اور رفعت بھابھی سے ڈاکٹر صاحب کی پہلی برسی پر تعزیت کرتے ہوئے اس شعر کے ساتھ اجازت چاہوں گا۔
عہدِ غفلت میں مجھے مثلِ سحر بھیجا گیا
دیر تک سوئے ہوئے لوگوں کے گھر بھیجا گیا