ہمارے سیاسی نظام کا کھوکھلا پن

اس نظام کی اصلاح کے لیے اگر کوئی قدم اٹھایا بھی جاتا ہے تو حکمران اسے اپنے مستقبل کے لیے ایک رکاوٹ سمجھتے ہیں

msmrao786@hotmail.com

پاکستان کا سیاسی نظام تیسری دنیا کے ممالک میں منفرد حیثیت کا حامل ہے۔یہ سیاسی نظام تھیوری کے اعتبار سے پارلیمانی لیکن عملی طور پر صدارتی طرز پر چل رہا ہے۔

یہاں آئین اور قانون کی حکمرانی کے لیے بلند بانگ دعویٰ اس طرح کیے جاتے ہیں کہ جسے آئین اور قانون کی حکمرانی نے عوام کے لیے دودھ کی نہریں بہا دی ہیں اور ریاست کے اقتدار اعلیٰ کی حفاظت کے لیے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنا دی ہے۔ سپریم کورٹ کے ہر اقدام پر فوری عمل ہو رہا ہے، نیب نے بد عنوان افراد کو کڑی سزائیں دلا دی ہیں۔

تعلیمی نظام ایک محب الوطن قوم کی تعلیم و تربیت کر رہا ہے۔ ہمارے مذہبی مبلغین اور دینی رہنما قوم میں ایثار، محبت اور دوسروں کے عقائد کی برداشت پیدا کر رہے ہیں۔ اس نظام کی بدولت ملک میں ہر شہری کی مال و دولت محفوظ ہے ۔ منافع خوروں کا ناطقہ بند ہے۔ یہ ہیں وہ منزلیں اور خواب جن کی تعبیر ہم اس سیاسی نظام سے چاہ رہے ہیں۔

اگر حقائق کا جائزہ لیں تو یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ اس نظام نے ایک عام شہری کے لیے اب تک کچھ نہ کیا ہے، سیاسی قائدین محض نعرہ بازی اور استحصال کے ذریعے اپنے مقاصد کو حاصل کیے جا رہے ہیں۔اس نظام کے کھوکھلے پن کی اصل وجہ نیتوں کا فتور ہے۔

ہمارے سیاسی قائدین، پارلیمنٹ کے ممبران، صدر، وزیر اعظم اور کابینہ کے ارکان یہ نعرہ مستانہ لگائے چلے جا رہے ہیں کہ ملک میں جمہوریت کی بناء پر آمریت اور طالع آزماؤں کا راستہ ہمیشہ کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔ اب کوئی غیر جمہوری حکمران نہ آ سکے گا اور نہ ہی جمہوریت کے خلاف کوئی سازش کامیاب ہو گی۔


علامہ طاہر القادری اور عمران خان نے جس طرح جمہوریت اور حکومتوں کی کارکردگی کا پول کھولا ہے وہ ہمارے نظام اور حکمرانوں کے منہ پر ایک طمانچہ ہے۔ طاہر القادری اور عمران خان کے پیچھے کوئی تھا یا نہ، یہ ایک الگ بحث ہے لیکن اس لانگ مارچ اور دھرنے نے ثابت کر دیا ہے کہ ہماری حکومتیں اس نظام کی جڑیں مضبوط کرنے میں کامیاب نہ ہو سکی ہیں۔

یہ بات کس قدر حیرانی اور پریشانی کا باعث ہے کہ ایک غیر ملکی شہریت کا حامل شخص سکندر جب اسلام آباد کے ریڈ زون میں پہنچ کر 5منٹ کے نوٹس پر پوری وفاقی حکومت کو یرغمال بنانے کا اعلان کرتا ہے اور اسے روکنے کے لیے وزارت داخلہ کے پاس کوئی Contingency plan نہیں۔ اس سارے عمل کی چاہے کتنی ہی تاویلات کی جائیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس سیاسی نظام کو چلانے والوں نے اپنے بھرم کا پردہ خود ہی چاک کروا لیا ہے۔

قادری صاحب اور عمران خان کے لانگ مارچ کے ایام میں،میں نے حکومت کے ایک اعلیٰ افسر سے جب بات کی تو انھوں نے حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ راؤ صاحب، طاہر القادری کو روکنا تو بڑی بات ہے ہمارے سیاسی قائدین اور حکمرانوں کا تو حال یہ ہے کہ اگر یہ اعلان کر دیا جائے کہ اگلے سال جنوری میں مارشل لاء لگنے والا ہے تو بھی یہ سیاستدان اسے روکنے کی بجائے ان قوتوں کے ساتھ مل کر شراکت اقتدار کے لیے کوشاں ہو جائیں گے، سوچنے کی بات یہ ہے کہ آخر ایسا کیوں ہے؟

موروثی سیاست کو بچانے کے لیے پارٹی قائدین اپنی پوری سیاسی جماعت کے مستقبل کو داؤ پر لگا رہے ہیں۔ بیس بیس اور پچیس پچیس سال سے ایک جماعت سے وابستہ ایم این ایز اور ایم پی ایزصرف اور صرف ذاتی مفاد اور انتخابی ٹکٹ کو حاصل کرنے کے لیے لمحہ بھر میں تمام تر سیاسی وابستگیوں کو اٹھا پھینکتے ہیں اور چوراہوں میں بیٹھ کر اپنے کپڑے دھونا شروع کر دیتے ہیں۔

اس نظام سے تنگ افراد نے عمران خان کو تبدیلی کا ہراول دستہ سمجھتے ہوئے اس کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا لیکن بد قسمتی سے یہ غنچہ بھی مرجھانے لگا ۔اس کے مرجھانے میں بھی وہی سوچ اور عمل کارفرما ہے کہ کسی نہ کسی طرح اقتدار کے جہازمیں بیٹھا رہوں۔ جہاز کے کپتان عمران خان نے بھی جہازکے عرشے میں سوراخ کرنے والوں کو خوش آمدید کہا۔

اس نظام کی اصلاح کے لیے اگر کوئی قدم اٹھایا بھی جاتا ہے تو حکمران اسے اپنے مستقبل کے لیے ایک رکاوٹ سمجھتے ہیں اسی بناء پر نہ تو عوام جمہوریت میں اور نہ ہی آمریت میں خوش حالی کی منزل پا سکے ہیں۔
Load Next Story