سوات میں امن کے لیے مظاہرہ
ایسا تاثر بن رہا ہے کہ طالبان حکومت نے پاکستان کی مدد کرنے کے بجائے ان کی مدد کی ہے
سوات میں بڑی تعداد میں لوگ امن کے لیے نکلے ہیں۔ لوگ دہشت گردی کے خلاف نعرے لگاتے رہے۔ وہ حکومت سے امن مانگ رہے ہیں۔ وہ ایک جائز مطالبہ لے کر باہر نکلے ہیں۔ امن ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔
امن وامان ریاست اور حکومت دونوں کی بنیادی ذمے داری ہے۔ اس لیے سوات کے لوگوں کے مطالبہ سے کوئی اختلاف نہیں کر سکتا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ سوات کے لوگوں کو امن کے لیے باہر کیوں نکلنا پڑا۔ امن کو کیوں خطرہ ہے۔ جو امن حاصل کیا گیا وہ آج ختم ہوتا کیوں نظر نہیں آرہا۔
سوات میں اس امن ریلی سے قبل بابو سر ٹاپ پر دہشت گردوں کے ایک گروپ نے گلگت بلتستان کے وزیر کو یرغمال بنا لیا۔ یہ گروپ خود کو مجاہدین گلگت کہتا ہے۔ گو کہ وزیر اور ان کے ساتھ یرغمال بنائے گئے دیگر لوگوں کو بعد ازاں چھوڑ دیا گیا۔ لیکن ان دہشت گردوں نے اپنے مطالبات کی منظوری کے لیے پندرہ دن کا وقت دیا ہے۔
ان کے مطالبات میں ان کے ساتھی دہشت گردوں کی جیلوں سے رہائی ، گلگت میں لڑکیوں کے کھیلوں پر پابندی اور گلگت میں شریعت کا نفاذ۔ مجھے نہیں معلوم جس جرگہ نے ان دہشت گردوں سے وزیر اور دیگر کی رہائی کے لیے مذاکرات کیے ہیں۔ انھوں نے پندرہ دن کا وقت کیوں لیا ہے۔ حالات پندرہ دن بعد پھر وہیں پہنچ جائینگے۔ وہ پھر کسی کو یرغمال بنا لیں گے۔ پھر ہم کیا کریں گے۔ یہ کوئی مستقل حل نہیں ہے۔
کرم ایجنسی میں بھی فرقہ وارانہ فسادات کی خطرناک صورتحال ہے۔ وزیر ستان سے بھی اچھی خبریں نہیں آرہی ہیں۔ ایک ایسا ماحول بن رہا ہے جس میں پاکستان کا عام شہری محسوس کر رہا ہے کہ ملک میں دہشت گردی کے خطرات دوباہ منڈلانے لگ گئے ہیں۔ جس دہشت گردی کو ہم نے ختم کر دیا تھا وہ دوبارہ سر اٹھانے لگی ہے۔ جن دہشت گردوں کو ہم نے مار بھگایا تھا وہ دوبارہ نظر آنے لگے ہیں۔ ٹی ٹی پی کے لوگوں کی واپسی نظرآ رہی ہے۔ کیوں اور کیسے کا سوال سب کے ذہن میں ہے۔
سوات کے شہریوں نے دہشت گردی کے حوالے سے بہت برا وقت دیکھا ہے۔ وہاں کے لوگوں سے جا کر دہشت گردوں کی داستانیں سنیں تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ لوگوں نے جانیں دی ہیں۔ لوگوں نے اپنے دل کے ٹکڑے کھوئے ہیں ۔ لوگ گھر سے بے گھر ہوئے ہیں۔ لوگوں کی زندگیاں تباہ ہوئی ہیں۔ سوات اور دیگر قبائلی علاقوں کے لوگوں نے اس امن کے لیے بہت قربانیاں دی ہیں۔ اس لیے ان کے تحفظات اور خدشات بے وجہ نہیں ہیں۔
طالبان کے اقتدار میں آنے سے قبل ہمیں افغان حکومت سے یہی گلہ تھا کہ وہ ہمارے دہشت گردوں کو پناہ دیتے ہیں۔ ہمیں اشرف غنی سے گلہ تھا کہ وہ ہمارے دہشت گردوں کو نہ صرف پناہ دیتا تھا بلکہ ان کی پرورش بھی کرتا تھا۔ ہمیں اشرف غنی کی حکومت سے گلہ تھا کہ وہ بھارت کو پاکستان میں دہشت گردی کے لیے سہولت کاری فراہم کرتا ہے۔ اشرف غنی کی بھارت نوازی ہی پاکستان میں دہشت گردی کی وجہ بتائی جاتی تھی۔
پاکستان میں ایسا ماحول بنا دیا گیا کہ جب طالبان کی حکومت افغانستان میں آئے گی تو پاکستان میں امن مستحکم ہو جائے گا۔ بھارت کا کھیل ِختم ہو جائے گا۔ حالانکہ ہم طالبان کی افغانستان میں حکومت آنے سے قبل ہی ملک میں امن قائم کر چکے تھے۔ ہم دہشت گردوں کی کمر توڑ چکے تھے۔ ہم ان کو ملک سے بھگا چکے تھے۔ ان کا نیٹ ورک توڑ چکے تھے۔ رد الفساد کے نتائج سامنے تھے۔
لیکن سب کچھ امیدوں کے بر عکس ہوا ہے۔ طالبان کی افغانستان میں حکومت آنے سے پاکستان میں بہتری کے بجائے دہشت گردی کے سائے منڈلانے لگے ہیں ۔ ہم نے بہت محنت سے جو امن حاصل کیا تھا، وہ خطرہ میں ہے۔ اشرف غنی نے ہمارے جو دہشت گرد افغانستان کی جیلوں میں بند کیے ہوئے تھے، وہ طالبان نے نہ صرف رہا کر دیے بلکہ انھیں کھلی چھٹی دے دی۔
ایسا تاثر بن رہا ہے کہ طالبان حکومت نے پاکستان کی مدد کرنے کے بجائے ان کی مدد کی ہے۔ جس کی وجہ سے آج وہ مضبوط نظر آرہے ہیں۔ ایسا لگ رہا ہے کہ افغان طالبان کے اقتدار میں آنے سے وہ دوبارہ اپنے پائوں پر کھڑے ہو گئے ہیں اور ہمارے لیے خطرہ بنتے جا رہے ہیں۔
جب ٹی ٹی پی سے مذاکرات کیے جا رہے تھے میں نے تب بھی لکھا تھا کہ پاکستان کے آئین وقانون میں ایسے کسی مذاکرات کی کوئی گنجائش نہیں۔ افغانستان کی سرزمین پر ان سے امن کے لیے مذاکرات ایک ایٹمی پاکستان کی شان نہیں تھی۔ پھر طالبان سے ہماری کیا دوستی کہ وہ ہمیں ان کی شرائط ماننے پر مجبور کر رہے تھے۔ ان کو محفوظ پناہ گاہیں دی جا رہی ہیں۔ جن کو ہم نے مار کر بھگایا تھا وہ دوبارہ ہمارے سامنے میز پر بیٹھے تھے اور ہم ان سے امن پر بات کر رہے تھے۔ میرے نزدیک یہ تمام قربانیوں کی نفی تھی۔
لیکن پاکستان میں طالبان کے حامی ہمیں بتاتے رہے کہ اس سے حقیقی امن ملے گا۔ ٹی ٹی پی اور دیگر تنظیموں کے لوگوں کی واپسی کی وکالت کرنے والے سوات کے عوام کی دہائی سنیں۔ آج لوگوں کا احتجاج دیکھیں۔ لوگوں کی دہشت گردی سے نفرت دیکھیں۔ دیکھیں دہشت گرد تنظیمیں عوام کے لیے کس قدر قابل نفرت بن چکی ہیں۔ ان کی عوام میں کوئی قبولیت نہیں۔ اس لیے ان کو قبولیت فراہم کرنے کی کوششیں ناکام ہو رہی ہیں۔
امن وامان ریاست اور حکومت دونوں کی بنیادی ذمے داری ہے۔ اس لیے سوات کے لوگوں کے مطالبہ سے کوئی اختلاف نہیں کر سکتا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ سوات کے لوگوں کو امن کے لیے باہر کیوں نکلنا پڑا۔ امن کو کیوں خطرہ ہے۔ جو امن حاصل کیا گیا وہ آج ختم ہوتا کیوں نظر نہیں آرہا۔
سوات میں اس امن ریلی سے قبل بابو سر ٹاپ پر دہشت گردوں کے ایک گروپ نے گلگت بلتستان کے وزیر کو یرغمال بنا لیا۔ یہ گروپ خود کو مجاہدین گلگت کہتا ہے۔ گو کہ وزیر اور ان کے ساتھ یرغمال بنائے گئے دیگر لوگوں کو بعد ازاں چھوڑ دیا گیا۔ لیکن ان دہشت گردوں نے اپنے مطالبات کی منظوری کے لیے پندرہ دن کا وقت دیا ہے۔
ان کے مطالبات میں ان کے ساتھی دہشت گردوں کی جیلوں سے رہائی ، گلگت میں لڑکیوں کے کھیلوں پر پابندی اور گلگت میں شریعت کا نفاذ۔ مجھے نہیں معلوم جس جرگہ نے ان دہشت گردوں سے وزیر اور دیگر کی رہائی کے لیے مذاکرات کیے ہیں۔ انھوں نے پندرہ دن کا وقت کیوں لیا ہے۔ حالات پندرہ دن بعد پھر وہیں پہنچ جائینگے۔ وہ پھر کسی کو یرغمال بنا لیں گے۔ پھر ہم کیا کریں گے۔ یہ کوئی مستقل حل نہیں ہے۔
کرم ایجنسی میں بھی فرقہ وارانہ فسادات کی خطرناک صورتحال ہے۔ وزیر ستان سے بھی اچھی خبریں نہیں آرہی ہیں۔ ایک ایسا ماحول بن رہا ہے جس میں پاکستان کا عام شہری محسوس کر رہا ہے کہ ملک میں دہشت گردی کے خطرات دوباہ منڈلانے لگ گئے ہیں۔ جس دہشت گردی کو ہم نے ختم کر دیا تھا وہ دوبارہ سر اٹھانے لگی ہے۔ جن دہشت گردوں کو ہم نے مار بھگایا تھا وہ دوبارہ نظر آنے لگے ہیں۔ ٹی ٹی پی کے لوگوں کی واپسی نظرآ رہی ہے۔ کیوں اور کیسے کا سوال سب کے ذہن میں ہے۔
سوات کے شہریوں نے دہشت گردی کے حوالے سے بہت برا وقت دیکھا ہے۔ وہاں کے لوگوں سے جا کر دہشت گردوں کی داستانیں سنیں تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ لوگوں نے جانیں دی ہیں۔ لوگوں نے اپنے دل کے ٹکڑے کھوئے ہیں ۔ لوگ گھر سے بے گھر ہوئے ہیں۔ لوگوں کی زندگیاں تباہ ہوئی ہیں۔ سوات اور دیگر قبائلی علاقوں کے لوگوں نے اس امن کے لیے بہت قربانیاں دی ہیں۔ اس لیے ان کے تحفظات اور خدشات بے وجہ نہیں ہیں۔
طالبان کے اقتدار میں آنے سے قبل ہمیں افغان حکومت سے یہی گلہ تھا کہ وہ ہمارے دہشت گردوں کو پناہ دیتے ہیں۔ ہمیں اشرف غنی سے گلہ تھا کہ وہ ہمارے دہشت گردوں کو نہ صرف پناہ دیتا تھا بلکہ ان کی پرورش بھی کرتا تھا۔ ہمیں اشرف غنی کی حکومت سے گلہ تھا کہ وہ بھارت کو پاکستان میں دہشت گردی کے لیے سہولت کاری فراہم کرتا ہے۔ اشرف غنی کی بھارت نوازی ہی پاکستان میں دہشت گردی کی وجہ بتائی جاتی تھی۔
پاکستان میں ایسا ماحول بنا دیا گیا کہ جب طالبان کی حکومت افغانستان میں آئے گی تو پاکستان میں امن مستحکم ہو جائے گا۔ بھارت کا کھیل ِختم ہو جائے گا۔ حالانکہ ہم طالبان کی افغانستان میں حکومت آنے سے قبل ہی ملک میں امن قائم کر چکے تھے۔ ہم دہشت گردوں کی کمر توڑ چکے تھے۔ ہم ان کو ملک سے بھگا چکے تھے۔ ان کا نیٹ ورک توڑ چکے تھے۔ رد الفساد کے نتائج سامنے تھے۔
لیکن سب کچھ امیدوں کے بر عکس ہوا ہے۔ طالبان کی افغانستان میں حکومت آنے سے پاکستان میں بہتری کے بجائے دہشت گردی کے سائے منڈلانے لگے ہیں ۔ ہم نے بہت محنت سے جو امن حاصل کیا تھا، وہ خطرہ میں ہے۔ اشرف غنی نے ہمارے جو دہشت گرد افغانستان کی جیلوں میں بند کیے ہوئے تھے، وہ طالبان نے نہ صرف رہا کر دیے بلکہ انھیں کھلی چھٹی دے دی۔
ایسا تاثر بن رہا ہے کہ طالبان حکومت نے پاکستان کی مدد کرنے کے بجائے ان کی مدد کی ہے۔ جس کی وجہ سے آج وہ مضبوط نظر آرہے ہیں۔ ایسا لگ رہا ہے کہ افغان طالبان کے اقتدار میں آنے سے وہ دوبارہ اپنے پائوں پر کھڑے ہو گئے ہیں اور ہمارے لیے خطرہ بنتے جا رہے ہیں۔
جب ٹی ٹی پی سے مذاکرات کیے جا رہے تھے میں نے تب بھی لکھا تھا کہ پاکستان کے آئین وقانون میں ایسے کسی مذاکرات کی کوئی گنجائش نہیں۔ افغانستان کی سرزمین پر ان سے امن کے لیے مذاکرات ایک ایٹمی پاکستان کی شان نہیں تھی۔ پھر طالبان سے ہماری کیا دوستی کہ وہ ہمیں ان کی شرائط ماننے پر مجبور کر رہے تھے۔ ان کو محفوظ پناہ گاہیں دی جا رہی ہیں۔ جن کو ہم نے مار کر بھگایا تھا وہ دوبارہ ہمارے سامنے میز پر بیٹھے تھے اور ہم ان سے امن پر بات کر رہے تھے۔ میرے نزدیک یہ تمام قربانیوں کی نفی تھی۔
لیکن پاکستان میں طالبان کے حامی ہمیں بتاتے رہے کہ اس سے حقیقی امن ملے گا۔ ٹی ٹی پی اور دیگر تنظیموں کے لوگوں کی واپسی کی وکالت کرنے والے سوات کے عوام کی دہائی سنیں۔ آج لوگوں کا احتجاج دیکھیں۔ لوگوں کی دہشت گردی سے نفرت دیکھیں۔ دیکھیں دہشت گرد تنظیمیں عوام کے لیے کس قدر قابل نفرت بن چکی ہیں۔ ان کی عوام میں کوئی قبولیت نہیں۔ اس لیے ان کو قبولیت فراہم کرنے کی کوششیں ناکام ہو رہی ہیں۔