روپے کی قدر میں استحکام سے کیا معاشی مسائل حل ہو سکیں گے

توانائی کی کم قیمت اور روپے میں استحکام کے باوجود سرمایہ کاروں کا اعتماد کم ہو رہا ہے

معاشی زوال کے نتیجے میں پاکستان جلد ہی ڈیفالٹ کے قریب ہو سکتا ہے، معاشی ماہرین۔ فوٹو : فائل

اسحاق ڈار کے ایک بار پھر وزیر خزانہ بننے کے بعد سے چہ مگوئیاں کا سلسلہ جاری ہے اور اس وقت تمام تر توجہ روپے کے مستقبل پر ہے۔

اسحاق ڈار کے وزیر خزانہ بننے کے بعد سے اب تک روپے کی قدر میں 8 فیصد بہتری آئی ہے اور ایک ڈالر 240 روپے سے کم ہو کر 219 روپے پر آگیا ہے۔

اپنے انٹرویوز میں بھی اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ جلد ہی روپیہ 200 روپے فی ڈالر کی سطح پر آجائے گا۔ سیلاب کے دوران آنے والی بیرون امداد کے نتیجے میں ملنے ڈآلرز سے وقتی اور عارضی فائدہ تو ہوا تاہم معاشی غیر یقینی کے باعث سیلاب کے نتیجے میں مزید لوگ غربت کی لکیر سے نیچے جائیں گے۔


معاشی ماہرین نے خبردار کیا کہ مزید معاشی زوال کے نتیجے میں پاکستان جلد ہی ڈیفالٹ کے قریب ہوسکتا ہے تاہم اگر قرض دہندگان سے مذاکرات، سیاسی اثر و رسوخ کے استعمال کے نتیجے میں فی الحال اس ڈیفالٹ سے بچنے کے لیے کچھ وقت مل جائے گا۔

ہمارے سیاسی زعما کو اچھی طرح معلوم تھا کہ برآمدات میں اضافہ کیے بغیر پاکستان 6 فیصد کی پائیدار ترقی برقرار نہیں رکھ سکے گا تاہم اس حوالے سے انھوں نے گزشتہ 30 برسوں میں اقتدار میں رہتے ہوئے کچھ نہ کیا۔

اب یا تو پاکستان قرضوں میں جکڑا ایک جیسا ملک ہوسکتا ہے کہ جس کی فی کس ترقی 2 فیصد ہو، جہاں کوئی بھی غیر ملکی سرمایہ کار پیسہ لگانا نہیں چاہے گا یا پھر پاکستان کو خوشحالی کے لیے بنیادی اصلاحات کا ماڈل اپنانا ہوگا۔

روپے کی قدر میں استحکام سے مقامی صارفین کو کچھ ریلیف تو مل سکتا ہے تاہم 15 فیصد شرح سود، موسم سرما میں گیس کی عدم دستیابی اور اگلے انتخابات تک غیر یقینی کی صورت حال کا سامنا کرنا پڑے گا۔
Load Next Story