بدحال شہریوں پر جبری ٹیکس
پی پی کے ایڈمنسٹریٹر نے ہر گھر پر لگے بجلی میٹروں پر فی میٹر ڈیڑھ سو روپے جبری ٹیکس لگایا ہے
کراچی کے سابق سٹی ناظم مصطفیٰ کمال نے کہا ہے کہ سٹی حکومت نے سیکڑوں ارب روپے کراچی کے آپریشنل منصوبوں پر خرچ کرنے کے بعد شہریوں سے یوٹیلیٹی ٹیکس ادا کرنے کی درخواست کی تھی۔
سندھ حکومت کی طرف سے 2013میں بلدیاتی قانون یکسر تبدیل کرکے بلدیات سے متعلق ادارے واٹر اینڈ سیوریج بورڈ، ٹرانسپورٹ، ماسٹر پلان، سارے ترقیاتی ادارے واپس لیے جانے کے بعد فقط ایک شق پر عوام سے کیسے ٹیکس وصول کیا جاسکتا ہے۔
جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے بل میں کنزرویسی چارجز پہلے ہی شامل ہیں۔ مختلف مدات میں فائر اینڈ کنزرویسی چارجز وصول کیے جا رہے ہیں جس کے بعد بلدیہ عظمیٰ کراچی کا ڈیڑھ سو روپے ماہانہ چارجز کا بجلی کے بلوں کے ساتھ وصولی کا فیصلہ غیر قانونی اقدام ہے جب کہ کے ایم سی شہریوں کو تمام بنیادی سہولتوں کی فراہمی میں مکمل ناکام رہی ہے جس کے بعد شہریوں سے کے ایم سی ٹیکس کی وصولی عوام پر ظلم ہے۔
پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے بلدیہ عظمیٰ کے سیاسی اور سرکاری ایڈمنسٹریٹر مرتضیٰ وہاب نے کہا ہے کہ کے ایم سی ٹیکس شہر کے مسائل کے حل کے لیے لگایا تھا جس سے سالانہ سوا تین ارب روپے حاصل ہوتے ، میرے ایڈمنسٹریٹر بننے پرمخالفین خوش نہیں تھے۔
مرتضیٰ وہاب نے سندھ ہائی کورٹ کی طرف سے کے ایم سی ٹیکس وصولی پر جب حکم امتناعی جاری کیا تو مرتضیٰ وہاب نے اس عوام دوست عدالتی فیصلے پر بطور احتجاج استعفیٰ دے دیا تھا جو وزیر اعلیٰ سندھ نے منظور نہیں کیا کہ یہ فیصلہ پیپلز پارٹی کا تھا جس کے بعد مرتضیٰ وہاب اب بھی سندھ حکومت کے ترجمان اور ایڈمنسٹریٹر برقرار ہیں اور عدالت کے حکم امتناعی کے باوجود کے الیکٹرک نے اپنے ستمبر کے بجلی کے بلوں میں فی میٹر ڈیڑھ سو روپے شامل کیے تھے جو شہریوں نے ادا کردیے ہیں کیونکہ ایسا نہ کرنے پر شہریوں کو بجلی منقطع کردیے جانے کا خدشہ تھا۔
اس لیے کے ایم سی نے عدالت کے حکم امتناع کے باوجود ستمبر کے بلوں میں جبری طور پر شہریوں سے وصول کیے گئے لاکھوں روپے ناجائز وصول کرلیے ہیں۔ ماضی میں کبھی بلدیہ عظمیٰ نے اس طرح جبری ٹیکس وصول نہیں کیا۔
جنرل پرویز مشرف کے دور میں جو ضلعی حکومتوں کا نظام قائم تھا اس وقت پہلے جماعت اسلامی اور بعد میں ایم کیو ایم کے سٹی ناظم منتخب ہوئے تھے اور سٹی حکومتیں مکمل بااختیار تھیں جن میں واٹر اینڈ سیوریج بورڈ، بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی، تمام ترقیاتی ادارے سٹی حکومت میں شامل تھے اور دونوں حکومتوں میں کراچی میں ریکارڈ ترقیاتی کام ہوئے تھے۔
سڑکیں، اوور ہیڈ برجز، انڈر پاسز، پارک، پلے گراؤنڈ بنے تھے اور کراچی کی وہ بدتر حالت نہیں تھی اور آج اندھیرے میں ڈوبا شہر تب روشنیوں کا شہر تھا۔ 2008 میں سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت آئی جو 14 سالوں سے قائم ہے اور کراچی مکمل تباہی کا شکار ہے۔
حالیہ بارشوں نے شہر کی تباہ حال سڑکوں کو مکمل تباہ کردیا ہے۔ شہر کی تقریباً اہم اور اندرونی سڑکیں گڑھوں میں تبدیل ہو چکیں۔ پورے شہر میں سیوریج سسٹم تباہ و برباد جس کا ثبوت ہر علاقہ گندے پانی سے زیر آب رہنا معمول ہے۔
پارک اور پلے گراؤنڈ سنسان و ویران، شہر میں تاریکی کا راج ہے۔سندھ حکومت کی ساری توجہ اپنے ووٹ بینک کے علاقوں اندرون سندھ پر مرکوز اور کراچی ان کے لیے صرف کمائی کا گڑھ ہے۔
اب پی پی کے ایڈمنسٹریٹر نے ہر گھر پر لگے بجلی میٹروں پر فی میٹر ڈیڑھ سو روپے جبری ٹیکس لگایا ہے جو بجلی بلوں کے ساتھ وصول کرکے شہریوں پر ظلم کیا گیا ہے جب کہ سہولت ایک بھی نہیں مل رہی مگر عوام پر مزید جبری ٹیکس عائد کردیا گیا ہے جس سے افسروں کو فائدہ ہوگا اور عوام پھر بھی بنیادی سہولتوں سے محروم ہی رہیں گے۔
سندھ حکومت کی طرف سے 2013میں بلدیاتی قانون یکسر تبدیل کرکے بلدیات سے متعلق ادارے واٹر اینڈ سیوریج بورڈ، ٹرانسپورٹ، ماسٹر پلان، سارے ترقیاتی ادارے واپس لیے جانے کے بعد فقط ایک شق پر عوام سے کیسے ٹیکس وصول کیا جاسکتا ہے۔
جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے بل میں کنزرویسی چارجز پہلے ہی شامل ہیں۔ مختلف مدات میں فائر اینڈ کنزرویسی چارجز وصول کیے جا رہے ہیں جس کے بعد بلدیہ عظمیٰ کراچی کا ڈیڑھ سو روپے ماہانہ چارجز کا بجلی کے بلوں کے ساتھ وصولی کا فیصلہ غیر قانونی اقدام ہے جب کہ کے ایم سی شہریوں کو تمام بنیادی سہولتوں کی فراہمی میں مکمل ناکام رہی ہے جس کے بعد شہریوں سے کے ایم سی ٹیکس کی وصولی عوام پر ظلم ہے۔
پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے بلدیہ عظمیٰ کے سیاسی اور سرکاری ایڈمنسٹریٹر مرتضیٰ وہاب نے کہا ہے کہ کے ایم سی ٹیکس شہر کے مسائل کے حل کے لیے لگایا تھا جس سے سالانہ سوا تین ارب روپے حاصل ہوتے ، میرے ایڈمنسٹریٹر بننے پرمخالفین خوش نہیں تھے۔
مرتضیٰ وہاب نے سندھ ہائی کورٹ کی طرف سے کے ایم سی ٹیکس وصولی پر جب حکم امتناعی جاری کیا تو مرتضیٰ وہاب نے اس عوام دوست عدالتی فیصلے پر بطور احتجاج استعفیٰ دے دیا تھا جو وزیر اعلیٰ سندھ نے منظور نہیں کیا کہ یہ فیصلہ پیپلز پارٹی کا تھا جس کے بعد مرتضیٰ وہاب اب بھی سندھ حکومت کے ترجمان اور ایڈمنسٹریٹر برقرار ہیں اور عدالت کے حکم امتناعی کے باوجود کے الیکٹرک نے اپنے ستمبر کے بجلی کے بلوں میں فی میٹر ڈیڑھ سو روپے شامل کیے تھے جو شہریوں نے ادا کردیے ہیں کیونکہ ایسا نہ کرنے پر شہریوں کو بجلی منقطع کردیے جانے کا خدشہ تھا۔
اس لیے کے ایم سی نے عدالت کے حکم امتناع کے باوجود ستمبر کے بلوں میں جبری طور پر شہریوں سے وصول کیے گئے لاکھوں روپے ناجائز وصول کرلیے ہیں۔ ماضی میں کبھی بلدیہ عظمیٰ نے اس طرح جبری ٹیکس وصول نہیں کیا۔
جنرل پرویز مشرف کے دور میں جو ضلعی حکومتوں کا نظام قائم تھا اس وقت پہلے جماعت اسلامی اور بعد میں ایم کیو ایم کے سٹی ناظم منتخب ہوئے تھے اور سٹی حکومتیں مکمل بااختیار تھیں جن میں واٹر اینڈ سیوریج بورڈ، بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی، تمام ترقیاتی ادارے سٹی حکومت میں شامل تھے اور دونوں حکومتوں میں کراچی میں ریکارڈ ترقیاتی کام ہوئے تھے۔
سڑکیں، اوور ہیڈ برجز، انڈر پاسز، پارک، پلے گراؤنڈ بنے تھے اور کراچی کی وہ بدتر حالت نہیں تھی اور آج اندھیرے میں ڈوبا شہر تب روشنیوں کا شہر تھا۔ 2008 میں سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت آئی جو 14 سالوں سے قائم ہے اور کراچی مکمل تباہی کا شکار ہے۔
حالیہ بارشوں نے شہر کی تباہ حال سڑکوں کو مکمل تباہ کردیا ہے۔ شہر کی تقریباً اہم اور اندرونی سڑکیں گڑھوں میں تبدیل ہو چکیں۔ پورے شہر میں سیوریج سسٹم تباہ و برباد جس کا ثبوت ہر علاقہ گندے پانی سے زیر آب رہنا معمول ہے۔
پارک اور پلے گراؤنڈ سنسان و ویران، شہر میں تاریکی کا راج ہے۔سندھ حکومت کی ساری توجہ اپنے ووٹ بینک کے علاقوں اندرون سندھ پر مرکوز اور کراچی ان کے لیے صرف کمائی کا گڑھ ہے۔
اب پی پی کے ایڈمنسٹریٹر نے ہر گھر پر لگے بجلی میٹروں پر فی میٹر ڈیڑھ سو روپے جبری ٹیکس لگایا ہے جو بجلی بلوں کے ساتھ وصول کرکے شہریوں پر ظلم کیا گیا ہے جب کہ سہولت ایک بھی نہیں مل رہی مگر عوام پر مزید جبری ٹیکس عائد کردیا گیا ہے جس سے افسروں کو فائدہ ہوگا اور عوام پھر بھی بنیادی سہولتوں سے محروم ہی رہیں گے۔