چڑیا گھروں کا مستقبل غیریقینی صورتحال سے دوچار

نایاب نسل کے غیر ملکی جانوروں کی امپورٹ پر پابندی نے چڑیا گھروں کی دلچسپی کو متاثر کر دیا

فوٹو : اے ایف پی

نایاب نسل کے غیر ملکی جانوروں کی امپورٹ پر پابندی نے چڑیا گھروں کی دلچسپی کو متاثر کر دیا ہے، گزشتہ چند برسوں میں لاہور چڑیا گھر سے کئی نایاب نسل کے جانور ختم ہوگئے اور آنے والے برسوں میں ایسی انواع کی تعداد بڑھنے کا خدشہ ہے جنہیں چڑیا گھروں میں نہیں دیکھا جا سکے گا۔

ان جانوروں میں ہاتھی، چمپینزی، زرافے، دریائی گھوڑے اور گینڈے قابل ذکر ہیں۔ لاہور چڑیا گھر کے پاس وقت صرف ایک زرافہ، ایک دریائی گھوڑا اور ایک ہی گینڈا ہے جو شاید اب چڑیا گھر میں اپنی اپنی نسل کے آخری مقیم ہیں۔

دوسری طرف چڑیا گھروں میں جانوروں کو پنجروں میں قید رکھنے کے خلاف مہم بھی زور پکڑنے لگی ہے۔ جانوروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی این جی اوز کا کہنا ہے جنگلی جانوروں کو ان کے قدرتی ماحول کی بجائے چڑیا گھروں کے پنجروں میں قید کرنا ان کے ساتھ ظلم ہے۔

خطرے سے دوچار جنگلی حیوانات اور نباتات کی بین الاقوامی تجارت کے کنونشن اتھارٹی بورڈ کے مطابق پاکستان میں غیر ملکی ممالیہ جانوروں کی امپورٹ کی اجازت نہیں دی جائے گی، بڑی جنگلی بلیوں سمیت تمام غیر ملکی ممالیہ کی امپورٹ کا این او سی جاری نہیں کیا جائے گا۔

حکام کا موقف ہے کہ ہم ان جانوروں کو ایک مخصوص رہائش فراہم نہیں کر سکتے جہاں وہ پیدا ہوئے ہیں تو انہیں اپنے چڑیا گھر اور گھروں میں قید کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ امپورٹ شدہ یہ ممالیہ جانور اذیت ناک قید میں مر جاتے ہیں۔ انسانوں کی طرح ممالیہ جانوروں کو اپنی مخصوص رہائش اور ماحول میں جینے کا حق ہے۔

اس فیصلے سے لاہور چڑیا گھر سمیت ملک کے تمام چڑیا گھروں میں اب نایاب نسل کے غیرملکی جانوروں کی درآمد انتہائی مشکل ہوگئی ہے جبکہ جن جانوروں کی امپورٹ کا پراسیس مکمل ہوچکا تھا وہ بھی پاکستان نہیں لائے جا سکیں گے۔ چڑیا گھروں میں کئی انواع کے صرف نر یا مادہ جانور موجود ہیں ان کے جوڑے بنانا بھی مشکل ہوجائے گا۔

لاہور چڑیا گھر کے حکام کے مطابق چڑیا گھر کا ہاتھی سوزی اور چمپینزی جن کی چند برس قبل اموات ہوگئی تھیں ان کو دوبارہ امپورٹ کرنے کی متعدد بار کوشش کی گئی لیکن کامیابی نہیں مل سکی تھی جس کی وجہ سے سیکریٹری جنگلات و جنگلی حیات کی ہدایت پر ان دونوں جانوروں کی امپورٹ نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

چڑیا گھر میں اس وقت ایک مادہ دریائی گھوڑا، ایک نر گینڈا اور ایک مادہ زرافہ موجود ہے، ان کے جوڑے بنانے کے لیے ہمارا کیس سائٹیز کے پاس ہے اور اس پر متعدد میٹنگز بھی ہوچکی تھیں لیکن اب ان جانوروں کی امپورٹ پر بھی پابندی لگا دی گئی ہے۔ ان جانوروں کے علاوہ بھی کئی جانور اور پرندے ایسے ہیں جو بیرون ملک سے امپورٹ کیے جاتے ہیں جن کنگرو، کساوری وغیرہ شامل ہیں۔


لاہور چڑیا گھر میں تفریح کے لیے آنے والی ایک خاتون ام رباب نے کہا لاہور چڑیا گھر ویسے تو کافی صاف ستھرا ہے لیکن جانوروں کو خاص طور پر پرندوں اور شیر کو اس طرح پنجروں میں بند دیکھ کر افسوس ہوتا ہے۔ ہم بچوں کو بتاتے ہیں کہ شیر جنگل کا بادشاہ ہوتا ہے لیکن جب بچے دیکھتے ہیں کہ جنگل کا بادشاہ اس طرح نیم مردہ حالت میں پنجرے میں پڑا ہے تو ان کی شیروں سے متعلق سوچ بدل جاتی ہے۔

ایک اور شہری حفیظ الرحمن کا کہنا تھا کہ جانوروں کو پنجروں کی بجائے کھلی جگہوں پر رکھا جائے اور پرندوں کو ایوری میں چھوڑ دیا جائے جہاں وہ اڑان بھر سکیں۔ چھوٹے چھوٹے پنجروں میں صرف انسانی تفریح کے لیے معصوم پرندوں کو بند کرنا ان کے ساتھ ظلم کے مترادف ہے۔

جنگلی حیات کے تحفظ اور ان حقوق کے لیے کام کرنے والی کارکن عائزہ حیدر نے ایکسپریس ٹربیون سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ تفریحی مقاصد کے لیے جنگلی جانوروں اور پرندوں کو پنجروں میں قید کرکے رکھنے کے خلاف ہیں۔ چڑیا گھر تفریح کا ذریعہ نہیں ہونا چاہیے تاہم تعلیمی مقاصد کے لیے جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے جانوروں اور پرندوں کے تھری ڈی ماڈلز بنائے جا سکتے ہیں، ورنہ سفاری پارک ایک بہترین ماڈل ہے۔ جانوروں کو پنجروں میں رکھنے کی بجائے سفاری میں کھلا اور آزاد چھوڑ دیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ وائلڈ لائف کو چاہیے کہ وہ لوگوں کو تفریح مہیا کرنے کی بجائے معدومی کا شکار جنگلی حیات کی کنزرویشن اور بحالی پر توجہ دے۔ معدومی کا شکار جانوروں کی بریڈنگ کرکے انہیں قدرتی ماحول میں چھوڑا جائے۔

عائزہ حیدر کا کہنا تھا کہ سابق وزیراعظم عمران خان نے ملک میں جو نیشنل پارک ڈکلیئر کیے تھے وہ ایک بہترین آپشن ہے جنگلی حیات کے لیے اگر ہم واقعی جنگلی حیات سے محبت کرتے ہیں تو ہمیں انہیں پنجروں میں بند کرنے کے بجائے ان کے قدرتی ماحول میں چھوڑ دینا چاہیے۔

انہوں نے بتایا کہ بندر اور ہاتھی سمیت کئی جانور ایسے ہیں جو قدرتی ماحول میں ہمیشہ گروپ کی شکل میں زندگی گزارتے ہیں لیکن جب آپ چند بندروں، ہاتھی یا کسی اور جانور کو پکڑ کر پنجرے میں بند کر دیں گے تو یہ اس کی آزادی سلب کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی ذہنی اور جسمانی گروتھ کے لیے بھی نقصان دہ ہوگا۔

دوسری طرف وائلڈلائف حکام نے بتایا کہ جنگلی ماحول سے پکڑ کر کسی بھی جانور اور پرندے کی قانون اجازت نہیں دیتا اور نہ ہی ہم ایسا کرتے ہیں۔ چڑیا گھروں میں جتنے بھی جانور اور پرندے موجود ہیں ان میں کوئی بھی جنگلی ماحول سے نہیں پکڑا گیا یہ تمام بریڈنگ سینٹرز میں ہی پیدا ہوئے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ چڑیا گھروں میں جو شیر ہیں ان کی پیدائش ہی پنجروں میں ہوئی ہے اور یہ جنگلی ماحول سے بالکل ناواقف ہیں۔ ان کو اگر جنگلی ماحول میں چھوڑا گیا تو ممکن ہے جنگلی کتے ان شیروں کو چیر پھاڑ کھائیں یہ جانور اس ماحول میں شاید سروائیو کر پائیں گے۔
Load Next Story