اس ہفتے کا خط
وہ کہتے ہیں ناں کہ ڈھونڈنے سے تو خدا بھی مل جاتا ہے۔
باجی! میرے پاس کہنے کے لیے ٹھیک سے الفاظ بھی نہیں ہیں جن کے ذریعے آپ کا شکریہ ادا کرسکوں، پھر بھی میرا خط شایع کرنے کا بہت بہت شکریہ۔
مجھے یقین ہی نہیں ہورہا تھا کہ واقعی یہ میرا نام ہے۔ اس خوشی میں تو مجھے رات کو نیند بھی نہیں آئی۔ سچ کہوں تو میں بالکل مایوس ہوچکی تھی کیوںکہ مجھے ان چیزوں کو بھیجے ہوئے تقریباً تین مہینے ہوچکے تھے۔ اور ہاں! میری تحریروں کے بارے میں بتانے کا بھی بہت شکریہ۔ اگر شایع نہیں ہوئیں تو کوئی بات نہیں، وہ کہتے ہیں ناں! کہ امید پہ دنیا قائم ہے۔ میں مزید محنت کروں گی۔
جب آپ ہیں تو مجھے کس بات کی پریشانی؟ آپ کے حوصلوں ہی سے ہمارے اندر کانفیڈنس پیدا ہوتا ہے۔ یہ کہنا کچھ غلط نہ ہوگا کہ آپ کی راہ نمائی ہمارے لیے اسی طرح ہے جیسے اندھیری رات میں ستاروں کے لیے چاند۔
باجی! میں میٹرک کی طالبہ ہوں۔ مجھے بچپن ہی سے صحافت کے پیشے میں بہت دل چسپی ہے اور میں صحافی ہی بننا چاہتی ہوں تاکہ میں بھی اپنے ملک کی خاطر سچ اور جھوٹ کے خلاف لڑسکوں۔ مگر جب بھی کسی سے اس بارے میں بات کرتی ہوں تو وہ یہی کہتے ہیں کہ یہ پیشہ بہت ہی خطرناک اور مشکل ہے۔ مگر جہاں تک میرا خیال ہے تو مجھے ایسا نہیں لگتا کیوںکہ اگر انسان کوشش کرے تو وہ کچھ بھی حاصل کرسکتا ہے۔
وہ کہتے ہیں ناں کہ ڈھونڈنے سے تو خدا بھی مل جاتا ہے۔ اس معاشرے میں ایسے بہت سے لوگ ہیں جو مشکل سے اپنی بچیوں کو پڑھاکر کچھ بننے کی اجازت دیتے ہیں، اگر وہ کوشش بھی کریں تو انہیں یہ جواب ملتا ہے کہ ''آخر پڑھ لکھ کر تمہیں کون سا ملک کی صدر بن جانا ہے؟ وہی گھر کی ہانڈی روٹی کرنی ہے۔ دس پڑھ لی اب بس۔'' لیکن اگر عورت گھریلو معاملات کے ساتھ ساتھ اپنے ملک کی بھی خدمت کرے تو کیا یہ صحیح نہیں؟
بہت سی لڑکیوں کو کچھ بننے کا شوق ہوتا ہے مگر وہ اسی وجہ سے رہ جاتی ہیں۔ یہاں ڈاکٹر اور ٹیچر کا شعبہ بہت عام ہے، ان کے علاوہ اگر کوئی لڑکی کسی اور شعبے میں جا نا چاہے تو اسے ٹھیک نہیں سمجھتے۔ مگر میرے گھر والے پڑھائی کے معاملے میں بہت نرم دل ہیں۔ وہ ہماری توجہ زیادہ سے زیادہ پڑھائی کی طرف دلواتے ہیں تاکہ ہم اپنے پیروں پر کھڑے ہوکر اپنی منزل مقصود تک پہنچ سکیں۔
ہمارا اسکول بھی ہمارے مقصد میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے پھر بھی میں نے معاشرے کو دیکھ کر یہ فیصلہ کیا کہ مجھے ڈاکٹر بن جانا چاہیے۔ کم ازکم اس کے ذریعے اپنے ملک کے غریبوں کا سہارا تو بن سکوں گی۔ باجی! آپ بتائیے، کیا میں نے صحیح کیا یا پھر مجھے وہی شعبہ اختیار کرنا چاہیے جس میں مجھے دل چسپی ہے؟
آپ کا مشورہ میرے لیے باعث فخر ہوگا۔ کرنیں کے تمام لکھاری بہت ہی زبردست جارہے ہیں۔ اعظم طارق کوہستانی کی تحریر ''ٹیپوسلطان'' بہت ہی زبردست تھی۔ اعظم بھائی! امید ہے آیندہ بھی اسی طرح معلوماتی تحریریں لکھتے رہیں گے۔ ٹیپو سلطان واقعی ہمارا پسندیدہ ہیرو ہے۔
جواب: اپنے ضمیرکے مطابق دیانت داری سے کام کریں تو کوئی بھی پیشہ مشکل نہیں ہوتا۔ ڈاکٹر بننے کا فیصلہ بھی اچھا ہے۔
مجھے یقین ہی نہیں ہورہا تھا کہ واقعی یہ میرا نام ہے۔ اس خوشی میں تو مجھے رات کو نیند بھی نہیں آئی۔ سچ کہوں تو میں بالکل مایوس ہوچکی تھی کیوںکہ مجھے ان چیزوں کو بھیجے ہوئے تقریباً تین مہینے ہوچکے تھے۔ اور ہاں! میری تحریروں کے بارے میں بتانے کا بھی بہت شکریہ۔ اگر شایع نہیں ہوئیں تو کوئی بات نہیں، وہ کہتے ہیں ناں! کہ امید پہ دنیا قائم ہے۔ میں مزید محنت کروں گی۔
جب آپ ہیں تو مجھے کس بات کی پریشانی؟ آپ کے حوصلوں ہی سے ہمارے اندر کانفیڈنس پیدا ہوتا ہے۔ یہ کہنا کچھ غلط نہ ہوگا کہ آپ کی راہ نمائی ہمارے لیے اسی طرح ہے جیسے اندھیری رات میں ستاروں کے لیے چاند۔
باجی! میں میٹرک کی طالبہ ہوں۔ مجھے بچپن ہی سے صحافت کے پیشے میں بہت دل چسپی ہے اور میں صحافی ہی بننا چاہتی ہوں تاکہ میں بھی اپنے ملک کی خاطر سچ اور جھوٹ کے خلاف لڑسکوں۔ مگر جب بھی کسی سے اس بارے میں بات کرتی ہوں تو وہ یہی کہتے ہیں کہ یہ پیشہ بہت ہی خطرناک اور مشکل ہے۔ مگر جہاں تک میرا خیال ہے تو مجھے ایسا نہیں لگتا کیوںکہ اگر انسان کوشش کرے تو وہ کچھ بھی حاصل کرسکتا ہے۔
وہ کہتے ہیں ناں کہ ڈھونڈنے سے تو خدا بھی مل جاتا ہے۔ اس معاشرے میں ایسے بہت سے لوگ ہیں جو مشکل سے اپنی بچیوں کو پڑھاکر کچھ بننے کی اجازت دیتے ہیں، اگر وہ کوشش بھی کریں تو انہیں یہ جواب ملتا ہے کہ ''آخر پڑھ لکھ کر تمہیں کون سا ملک کی صدر بن جانا ہے؟ وہی گھر کی ہانڈی روٹی کرنی ہے۔ دس پڑھ لی اب بس۔'' لیکن اگر عورت گھریلو معاملات کے ساتھ ساتھ اپنے ملک کی بھی خدمت کرے تو کیا یہ صحیح نہیں؟
بہت سی لڑکیوں کو کچھ بننے کا شوق ہوتا ہے مگر وہ اسی وجہ سے رہ جاتی ہیں۔ یہاں ڈاکٹر اور ٹیچر کا شعبہ بہت عام ہے، ان کے علاوہ اگر کوئی لڑکی کسی اور شعبے میں جا نا چاہے تو اسے ٹھیک نہیں سمجھتے۔ مگر میرے گھر والے پڑھائی کے معاملے میں بہت نرم دل ہیں۔ وہ ہماری توجہ زیادہ سے زیادہ پڑھائی کی طرف دلواتے ہیں تاکہ ہم اپنے پیروں پر کھڑے ہوکر اپنی منزل مقصود تک پہنچ سکیں۔
ہمارا اسکول بھی ہمارے مقصد میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے پھر بھی میں نے معاشرے کو دیکھ کر یہ فیصلہ کیا کہ مجھے ڈاکٹر بن جانا چاہیے۔ کم ازکم اس کے ذریعے اپنے ملک کے غریبوں کا سہارا تو بن سکوں گی۔ باجی! آپ بتائیے، کیا میں نے صحیح کیا یا پھر مجھے وہی شعبہ اختیار کرنا چاہیے جس میں مجھے دل چسپی ہے؟
آپ کا مشورہ میرے لیے باعث فخر ہوگا۔ کرنیں کے تمام لکھاری بہت ہی زبردست جارہے ہیں۔ اعظم طارق کوہستانی کی تحریر ''ٹیپوسلطان'' بہت ہی زبردست تھی۔ اعظم بھائی! امید ہے آیندہ بھی اسی طرح معلوماتی تحریریں لکھتے رہیں گے۔ ٹیپو سلطان واقعی ہمارا پسندیدہ ہیرو ہے۔
جواب: اپنے ضمیرکے مطابق دیانت داری سے کام کریں تو کوئی بھی پیشہ مشکل نہیں ہوتا۔ ڈاکٹر بننے کا فیصلہ بھی اچھا ہے۔