دشمن کے ساتھ دوستی

مغرب والوں کی ’’سیب پسندی‘‘ کا یہ عالم ہے کہ آئزک نیوٹن کو بھی سیب کے درخت کے نیچے بٹھایا گیا

barq@email.com

باتیں تو اور بھی بہت ساری ہماری سمجھ میں نہیں آتیں اور تو اور آج تک پاکستان اور پاکستانی ہماری سمجھ میں نہیں آئے، یہاں کی سیاسی پارٹیاں اورلیڈر سمجھ میں نہیں آئے، یہاں کی جمہوریت ہماری سمجھ میں نہیں آئی، مطلب یہ کہ ایسا بہت کچھ ہے جو ہماری سمجھ دانی کی پکڑ سے باہرہے، وہ یہ ہے کہ۔مطلب یہ کہ اگر کوئی ہمارے بزرگوں کو نقصان پہنچائے تو وہ ہمارا جدی پشتی دشمن ہوا، کچھ نہیں تو کم ازکم اس سے دوستی تو نہ کریں۔

ہمارے پڑوس میں ایک خاندان ہے جس کے کسی جد امجد کو ''بیل ''نے مارا تھا چنانچہ اس خاندان والے بیلوں سے اتنی نفرت کرتے ہیں کہ ہل چلانے کے لیے بھی بھینسے رکھتے ہیں۔اب اصولی طور پر غیرت کا تقاضا تو یہ ہے کہ ہم ''گندم'' کے شدید دشمن ہوتے کہ اس کم بخت کی وجہ سے نسل انسانی آپس میں لڑ رہی ہے لیکن ہم اسی دشمن کو گلے لگائے ہوئے ہیں،اس کی ہر ہرشکل کوجی وجان سے چاہتے ہیں، اس کے بغیر رہ ہی نہیں سکتے۔

اس کے لیے ایک دوسرے سے لڑتے ہیں اس کی بوائی، کٹائی،گہائی کے سخت ترین کام کرتے ہیں کہ کسی طرح یہ ہمارے گھر میں آئے ،قبضے میں آئے اورپیٹ میں ۔اندازہ اس سے لگائیں کہ اس کی طرح طرح کی مصنوعات بنا کر اسے حرزجان بنائے ہوئے ہیں۔

کہاوت ہے کہ تمام عمرگندم کی کٹائی ہوتی تو جوان نہ رہتے اور اگر تمام عمر گہائی ہوتی تو بیل ختم ہوچکے ہوتے،یہی کچھ سیب کے بارے میں کہا جا سکتا ہے،لیکن سیب والے بھی سیب کے اتنے عقیدت مند ہیں کہ۔ مشہور کہاوت ہی بناڈالی کہ ''ایپل فاردا ڈے، کیپ ڈاکٹر اوے،یاایک سیب روزانہ ۔ڈاکٹر کو دور بھگانا۔

یہاں ایک اور دم ہلنے لگی ۔یہ بھی محض ان کاخیال ہے ورنہ ڈاکٹر کو بھگانا یااس سے بچنا ایک سیب تو کیا، توپ کے گولے سے بھی ڈاکٹر۔ دواسازکمپنیوں اور دواؤں کو دوررکھنا ممکن نہیں ہے بلکہ اب صرف ڈاکٹر یا حکیم کی بات نہیں بلکہ ایک پورا گروپ ڈاکٹر، کلینک، دوائیں، دوا ساز کمپنیاں اور موت سب ایک ہوچکے ہیں، سیب تو کیااگر سیبوں کا باغ بھی ان کے سامنے کیاجائے تو بھی بچنا ممکن نہیں ۔

کبھی پھول سے نکل کے بھی کبھی چاندنی میں ڈھل کے


تیرا حسن گھیرتاہے مجھے رخ بدل بدل کے

مغرب والوں کی ''سیب پسندی'' کا یہ عالم ہے کہ آئزک نیوٹن کو بھی سیب کے درخت کے نیچے بٹھایا گیا تاکہ اس کے نظریات میں سیب کا ذکر شامل ہوجائے، کتنے سارے پھل ہیں، امرود ہے، ناشپاتی ہے، مالٹے ہیں لیکن گرایا تو سیب ہی گرایا اور سنا ہے کہ اس سیب کے پیڑکی لکڑی سے یادگاری قسم کا فرنیچربھی بنایاگیا ۔

خیران کی وہ جانے، ہمارا مسئلہ تو ''گندم'' ہے، کسی اورکو کیا الزام دیں کہ ہم خود اس گندم اورخمارگندم کے اسیر ہیں۔ ہمارے ساتھ تو ایک اور پرابلم بھی ہے جس کی تفصیل میں تو ہم نہیں جاسکتے لیکن اپنا ایک شعرسنا سکتے ہیں۔

برق دا غنم رنگو پرستار شولو

سہ اوکڑی دا خپل نیکہ نمسے خودے

ترجمہ۔ برق گندم گوں لوگوں کا پرستار ہوگیا، بچاراکیاکرے اپنے داداکا پوتاتو ہے
Load Next Story