گل مکئی کی کامیابی
گزشتہ مہینوں میں جنگجوؤں کی سرگرمیوں کے دوبارہ شروع ہونے کی خبریں آرہی تھیں
دہشت گردی کی حوصلہ افزائی نہ کی جائے، ہم امن چاہتے ہیں۔ 2012 کا دور واپس نہیں آنے دیں گے۔ ریاست ہمیں ایسا ہی تحفظ فراہم کرے جیسا پنجاب اور دیگر صوبوں میں عوام کو فراہم کیا جاتا ہے۔
پاکستان کے سوئٹزر لینڈ سوات کے مرکزی شہر مینگورہ کے مرکزی چوک میں ہزاروں افراد بچوں کو اسکول سے جانے والی وین کے ڈرائیورکی ہلاکت اور دو بچوں کے زخمی ہونے پر احتجاج کر رہے تھے۔ دہشت گردوں کے حملوں میں یہ وین ڈرائیور جاں بحق ہوا۔ وین ڈرائیور کے رشتہ داروں سمیت سیکڑوں افراد گھنٹوں اپنے پیارے کی لاش لیے احتجاج کرتے رہے۔ یہ سوگوار قاتلوں کی گرفتاری کی یقین دہانی چاہتے تھے۔
انتظامیہ کی یقین دہانی پر وین ڈرائیور کی تدفین ہوئی۔ دہشت گردوں کے خلاف مزاحمت میں سوات میں ایک نئی تبدیلی نظر آئی۔ تمام سیاسی جماعتوں کے کارکن جس میں پختون قومی موومنٹ، عوامی نیشنل پارٹی، جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام اور سول سوسائٹی کے اراکین شامل تھے احتجاجی جلسہ میں شریک ہوئے۔
جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد اس دفعہ زیادہ پرجوش نظر آئے۔ افراسیاب خٹک مینگورہ کے میئر شاہد خان اور اے این پی کے صوبائی اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر سردار حسن سمیت اس دہشت گردی کے خلاف مزاحمت پر متفق نظر آتے ہیں۔ اسکول وین ڈرائیور کے قتل پر خیبر پختون خوا کے دیگر شہروں میں احتجاج ہو رہا ہے۔ سوات کے عوام کو یہ خوف ہو چلا ہے کہ کہیں 2012 کی طرح طالبان سوات پر دوبارہ قبضہ نہ کرلیں۔
جب 2008میں پیپلز پارٹی نے وفاق میں حکومت بنائی تو خیبر پختون خوا میں عوامی نیشنل پارٹی کے امیر حیدر ہوتی وزیر اعلیٰ ہوئے تو سوات میں صوفی محمد کی شریعت کے نفاذ کی تحریک نے زور پکڑا ، پھر ان کے داماد ملا فضل اﷲ میدان میں آئے۔
ملا فضل اﷲ نے ایک ایف ایم ریڈیو اسٹیشن قائم کیا اور رجعت پسندانہ پروپیگنڈہ شروع کیا۔ طالبان کے جنگجوؤں نے سوات پر قبضہ شروع کیا۔ ضلعی انتظامیہ اپنے اختیارات سے دستبردار ہوگئی۔ ملا فضل اﷲ کے حکم پر چوراہوں پر پھانسیاں دی جاتی تھیں۔ ملا فضل اﷲ نے فتویٰ دیا کہ لوگ وبائی امراض سے بچنے کے لیے بچو ں کو پولیو کے قطرے نہ پلائیں۔ انھوں نے یہ فتویٰ بھی دیا تھا کہ عورتوں کے لیے تعلیم حاصل کرنا ضروری نہیں۔ طالبان نے سوات میں سب سے پہلے لڑکیوں کے تعلیمی اداروں پر قدغن لگائی اور عورتوں کو گھر میں رہنے اور ملازمت نہ کرنے کی ہدایت کی تھی۔
سوات میں اے این پی کے سابق رہنما لالہ افضل خان نے طالبان کے سامنے ہتھیار ڈالنے سے انکار کیا تھا ، ان کے ڈیرہ پر مسلسل گولہ باری ہوئی۔ لالہ افضل خان کے عزم میں کوئی فرق نہیں آیا تھا۔
ملالہ یوسفزئی اس زمانہ میں سیکنڈری اسکول کی طالبہ تھیں۔ ان کے والد نے لڑکیوں کی تعلیم کا اسکول قائم کیا ہوا تھا۔ ملالہ نے طالبان کی عائد کردہ پابندیوں کے خلاف مزاحمت کی اور تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا۔ پھر فوج کو حالات کی سنگینی کا احساس ہوا۔ سوات میں ایک بڑے آپریشن سے پہلے آبادی کا انخلا ہوا۔
ملالہ کے خاندان کو بھی سوات چھوڑنا اور مردان کے علاقہ میں کیمپوں میں پناہ لینی پڑی۔ اسی زمانہ میں ملالہ نے گل مکئی کے نام سے بی بی سی کی اردو ویب سائٹ پر ڈائری لکھنا شروع کی۔ ملالہ نے اس ڈائری میں طالبان کے عورت دشمن رویہ کا ذکر کیا۔گل مکئی کی ڈائری پوری دنیا میں مشہور ہوئی۔
گل مکئی کی اس ڈائری میں بار بار بچیوں کی تعلیم پر طالبان کی پابندیوں کا ذکر کیا گیا ، یہ آپریشن ایک حد تک کامیاب ہوا ، ہزاروں افراد اپنے گھروں کو واپس چلے گئے۔ سوات میں یہ بات عام ہوگئی کہ دراصل ملالہ گل مکئی کے قلمی نام سے یہ ڈائری لکھتی ہیں۔ ملالہ کو قتل کرنے کے لیے اس کی وین پر حملہ ہوا ، ملالہ شدید زخمی ہوئی۔ اس وقت کے فوج کے سربراہ نے ذاتی دلچسپی لی اور ملالہ کو پشاور منتقل کیا گیا ، بعد ازاں انھیں برطانیہ بھیج دیا گیا۔ ملالہ خوش قسمت تھی کہ اس کی جان بچ گئی۔
اسی زمانہ میں سوات میں طالبان نے ایک عورت کو چوک میں کوڑے مارے، یہ وڈیو بھی وائرل ہوئی۔ پاکستانی ریاست کے طاقتور و رجعت پسند گروہ نے ملالہ کے خلاف پروپیگنڈہ شروع کیا۔ اس پر ہونے والے حملے کو جعلی قرار دیا گیا۔
ملالہ کو امریکی ایجنٹ کا بھی خطاب دیا گیا۔ دائیں بازو کے دانشوروں نے عورت کو کوڑے مارنے اور طالبان کے اسکولوں پر حملوں کا جواز فراہم کرنا شروع کیا۔ خود امریکا کے فل براڈ اسکالر شپ سے مستفید ہونے والے ایک بیوروکریٹ دانشور نے یہ تک کہہ دیا کہ طالبان اسکولوں کو اس لیے تباہ کرتے ہیں کہ سیکیورٹی فورس کے جوان ان پر اسکولوں سے حملے کرتے تھے۔
ملالہ کے خلاف انتہائی منظم پروپیگنڈہ ہوا۔ جدید تعلیمی اداروں کے اساتذہ اور طلبہ اس پروپیگنڈہ سے متاثر ہوئے۔ پرائیویٹ اسکولوں کی ایسوسی ایشن کے عہدیداروں نے ملالہ کی کتاب اپنے اسکول کی لائبریری میں رکھنے سے انکار کردیا مگر سچائی کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔ اس آپریشن کے دوران ملا فضل اﷲ کو افغانستان جانے کا راستہ مل گیا۔ کچھ عرصہ بعد ایک امریکی ڈرون نے ان کا سراغ لگایا اور یہ ایک میزائل کے حملہ میں مارے گئے۔
آج یہ وقت آیا کہ دہشت گردوں کے اسکول وین پر حملے کے خلاف احتجاج کرنے والوں میں جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان نمایاں ہیں ۔ خیبر پختون خوا کے وزیر اعلیٰ محمود خان کا تعلق سوات سے ہے مگر وہ سوات جا کر اس جر م کی مذمت کرنے کو تیار نہیں ہیں۔
خیبر پختون خوا حکومت کے ترجمان بیرسٹر سیف اب تک اچھے اور برے طالبان کی بحث میں الجھے ہوئے ہیں، وہ تحریک طالبان کو ان حملوں کا ذمے دار قرار نہیں دیتے ، ان کا خیال ہے کہ دوسرے گروہ ان حملوں میں ملوث ہیں۔ عمران خان نے پہلی ہی طالبان کے خواتین کے بارے میں رویہ کو ان کے کلچر کا حصہ قرار دے دیا تھا۔
سوات میں یہ واقعہ اچانک نہیں ہوا۔ گزشتہ مہینوں میں جنگجوؤں کی سرگرمیوں کے دوبارہ شروع ہونے کی خبریں آرہی تھیں۔ سوات میں یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب ملالہ پاکستان آئی ہوئی ہیں۔ سوات کے عوام کی مزاحمتی تحریک سے ملالہ کی جدوجہد کی تجدید ہوئی ہے اور آخرکار گل مکئی کامیاب ہوگئی ہے۔
پاکستان کے سوئٹزر لینڈ سوات کے مرکزی شہر مینگورہ کے مرکزی چوک میں ہزاروں افراد بچوں کو اسکول سے جانے والی وین کے ڈرائیورکی ہلاکت اور دو بچوں کے زخمی ہونے پر احتجاج کر رہے تھے۔ دہشت گردوں کے حملوں میں یہ وین ڈرائیور جاں بحق ہوا۔ وین ڈرائیور کے رشتہ داروں سمیت سیکڑوں افراد گھنٹوں اپنے پیارے کی لاش لیے احتجاج کرتے رہے۔ یہ سوگوار قاتلوں کی گرفتاری کی یقین دہانی چاہتے تھے۔
انتظامیہ کی یقین دہانی پر وین ڈرائیور کی تدفین ہوئی۔ دہشت گردوں کے خلاف مزاحمت میں سوات میں ایک نئی تبدیلی نظر آئی۔ تمام سیاسی جماعتوں کے کارکن جس میں پختون قومی موومنٹ، عوامی نیشنل پارٹی، جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام اور سول سوسائٹی کے اراکین شامل تھے احتجاجی جلسہ میں شریک ہوئے۔
جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد اس دفعہ زیادہ پرجوش نظر آئے۔ افراسیاب خٹک مینگورہ کے میئر شاہد خان اور اے این پی کے صوبائی اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر سردار حسن سمیت اس دہشت گردی کے خلاف مزاحمت پر متفق نظر آتے ہیں۔ اسکول وین ڈرائیور کے قتل پر خیبر پختون خوا کے دیگر شہروں میں احتجاج ہو رہا ہے۔ سوات کے عوام کو یہ خوف ہو چلا ہے کہ کہیں 2012 کی طرح طالبان سوات پر دوبارہ قبضہ نہ کرلیں۔
جب 2008میں پیپلز پارٹی نے وفاق میں حکومت بنائی تو خیبر پختون خوا میں عوامی نیشنل پارٹی کے امیر حیدر ہوتی وزیر اعلیٰ ہوئے تو سوات میں صوفی محمد کی شریعت کے نفاذ کی تحریک نے زور پکڑا ، پھر ان کے داماد ملا فضل اﷲ میدان میں آئے۔
ملا فضل اﷲ نے ایک ایف ایم ریڈیو اسٹیشن قائم کیا اور رجعت پسندانہ پروپیگنڈہ شروع کیا۔ طالبان کے جنگجوؤں نے سوات پر قبضہ شروع کیا۔ ضلعی انتظامیہ اپنے اختیارات سے دستبردار ہوگئی۔ ملا فضل اﷲ کے حکم پر چوراہوں پر پھانسیاں دی جاتی تھیں۔ ملا فضل اﷲ نے فتویٰ دیا کہ لوگ وبائی امراض سے بچنے کے لیے بچو ں کو پولیو کے قطرے نہ پلائیں۔ انھوں نے یہ فتویٰ بھی دیا تھا کہ عورتوں کے لیے تعلیم حاصل کرنا ضروری نہیں۔ طالبان نے سوات میں سب سے پہلے لڑکیوں کے تعلیمی اداروں پر قدغن لگائی اور عورتوں کو گھر میں رہنے اور ملازمت نہ کرنے کی ہدایت کی تھی۔
سوات میں اے این پی کے سابق رہنما لالہ افضل خان نے طالبان کے سامنے ہتھیار ڈالنے سے انکار کیا تھا ، ان کے ڈیرہ پر مسلسل گولہ باری ہوئی۔ لالہ افضل خان کے عزم میں کوئی فرق نہیں آیا تھا۔
ملالہ یوسفزئی اس زمانہ میں سیکنڈری اسکول کی طالبہ تھیں۔ ان کے والد نے لڑکیوں کی تعلیم کا اسکول قائم کیا ہوا تھا۔ ملالہ نے طالبان کی عائد کردہ پابندیوں کے خلاف مزاحمت کی اور تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا۔ پھر فوج کو حالات کی سنگینی کا احساس ہوا۔ سوات میں ایک بڑے آپریشن سے پہلے آبادی کا انخلا ہوا۔
ملالہ کے خاندان کو بھی سوات چھوڑنا اور مردان کے علاقہ میں کیمپوں میں پناہ لینی پڑی۔ اسی زمانہ میں ملالہ نے گل مکئی کے نام سے بی بی سی کی اردو ویب سائٹ پر ڈائری لکھنا شروع کی۔ ملالہ نے اس ڈائری میں طالبان کے عورت دشمن رویہ کا ذکر کیا۔گل مکئی کی ڈائری پوری دنیا میں مشہور ہوئی۔
گل مکئی کی اس ڈائری میں بار بار بچیوں کی تعلیم پر طالبان کی پابندیوں کا ذکر کیا گیا ، یہ آپریشن ایک حد تک کامیاب ہوا ، ہزاروں افراد اپنے گھروں کو واپس چلے گئے۔ سوات میں یہ بات عام ہوگئی کہ دراصل ملالہ گل مکئی کے قلمی نام سے یہ ڈائری لکھتی ہیں۔ ملالہ کو قتل کرنے کے لیے اس کی وین پر حملہ ہوا ، ملالہ شدید زخمی ہوئی۔ اس وقت کے فوج کے سربراہ نے ذاتی دلچسپی لی اور ملالہ کو پشاور منتقل کیا گیا ، بعد ازاں انھیں برطانیہ بھیج دیا گیا۔ ملالہ خوش قسمت تھی کہ اس کی جان بچ گئی۔
اسی زمانہ میں سوات میں طالبان نے ایک عورت کو چوک میں کوڑے مارے، یہ وڈیو بھی وائرل ہوئی۔ پاکستانی ریاست کے طاقتور و رجعت پسند گروہ نے ملالہ کے خلاف پروپیگنڈہ شروع کیا۔ اس پر ہونے والے حملے کو جعلی قرار دیا گیا۔
ملالہ کو امریکی ایجنٹ کا بھی خطاب دیا گیا۔ دائیں بازو کے دانشوروں نے عورت کو کوڑے مارنے اور طالبان کے اسکولوں پر حملوں کا جواز فراہم کرنا شروع کیا۔ خود امریکا کے فل براڈ اسکالر شپ سے مستفید ہونے والے ایک بیوروکریٹ دانشور نے یہ تک کہہ دیا کہ طالبان اسکولوں کو اس لیے تباہ کرتے ہیں کہ سیکیورٹی فورس کے جوان ان پر اسکولوں سے حملے کرتے تھے۔
ملالہ کے خلاف انتہائی منظم پروپیگنڈہ ہوا۔ جدید تعلیمی اداروں کے اساتذہ اور طلبہ اس پروپیگنڈہ سے متاثر ہوئے۔ پرائیویٹ اسکولوں کی ایسوسی ایشن کے عہدیداروں نے ملالہ کی کتاب اپنے اسکول کی لائبریری میں رکھنے سے انکار کردیا مگر سچائی کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔ اس آپریشن کے دوران ملا فضل اﷲ کو افغانستان جانے کا راستہ مل گیا۔ کچھ عرصہ بعد ایک امریکی ڈرون نے ان کا سراغ لگایا اور یہ ایک میزائل کے حملہ میں مارے گئے۔
آج یہ وقت آیا کہ دہشت گردوں کے اسکول وین پر حملے کے خلاف احتجاج کرنے والوں میں جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان نمایاں ہیں ۔ خیبر پختون خوا کے وزیر اعلیٰ محمود خان کا تعلق سوات سے ہے مگر وہ سوات جا کر اس جر م کی مذمت کرنے کو تیار نہیں ہیں۔
خیبر پختون خوا حکومت کے ترجمان بیرسٹر سیف اب تک اچھے اور برے طالبان کی بحث میں الجھے ہوئے ہیں، وہ تحریک طالبان کو ان حملوں کا ذمے دار قرار نہیں دیتے ، ان کا خیال ہے کہ دوسرے گروہ ان حملوں میں ملوث ہیں۔ عمران خان نے پہلی ہی طالبان کے خواتین کے بارے میں رویہ کو ان کے کلچر کا حصہ قرار دے دیا تھا۔
سوات میں یہ واقعہ اچانک نہیں ہوا۔ گزشتہ مہینوں میں جنگجوؤں کی سرگرمیوں کے دوبارہ شروع ہونے کی خبریں آرہی تھیں۔ سوات میں یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب ملالہ پاکستان آئی ہوئی ہیں۔ سوات کے عوام کی مزاحمتی تحریک سے ملالہ کی جدوجہد کی تجدید ہوئی ہے اور آخرکار گل مکئی کامیاب ہوگئی ہے۔