خوشونت سنگھ بھی چل بسے

معروف بھارتی صحافی، دانشور، ادیب اور ’’ٹرین ٹو پاکستان‘‘ نامی بیسٹ سیلر کتاب کے خالق خوشونت سنگھ بھی چل بسے۔

S_afarooqi@yahoo.com

معروف بھارتی صحافی، دانشور، ادیب اور ''ٹرین ٹو پاکستان'' نامی بیسٹ سیلر کتاب کے خالق خوشونت سنگھ بھی چل بسے۔ وہ اپنی رنگارنگ زندگی کی بھرپور اننگز کھیلتے ہوئے 99 سال کے اسکور پر آؤٹ ہوگئے۔ انھوں نے اپنے پسماندگان میں ایک بیٹا راہل اور ایک بیٹی چھوڑی ہے جس کا نام مالا ہے۔ وہ کافی دنوں سے صاحب فراش تھے اور ان کی حالت میں آنے والے اتار چڑھاؤ کی خبریں وقفے وقفے سے آتی رہتی تھیں۔ وہ سانس لینے میں بڑی تکلیف محسوس کر رہے تھے مگر لکھنے کا سلسلہ انھوں نے اپنی آخری سانس تک جاری رکھا۔

ان کی عجیب و غریب شخصیت کے حوالے سے یہ بات قابل ذکر ہے کہ تقریباً 80 سال قبل انھوں نے ''پس مرگ'' کے عنوان سے ایک خوبصورت افسانہ تحریر کیا تھا جس میں انھوں نے اپنی علالت اور موت کے بعد کی منظرکشی بڑے عجیب انداز میں کی تھی اور پریس کوریج کے حوالے سے اپنی موت کی خبر کی سرخی بھی تجویز کردی تھی۔ انھوں نے لکھا تھا کہ ''میں بخار کی وجہ سے بستر میں پڑا تھا۔ میں اکیلا اور فکر مند تھا کہ اگر ٹمپریچر اچانک بڑھ گیا تو کیا ہوگا۔ شاید میں مرجاؤں۔ میری موت میرے دوستوں کے لیے حقیقتاً گراں ہوگی۔ میرے بہت سے دوست ہیں اور میں بہت مقبول ہوں۔ میں نے سوچا کہ اس حوالے سے اخبارات کیا لکھیں گے؟ وہ مجھے نظرانداز نہیں کرسکتے۔ ممکن ہے کہ سب سے بڑا اخبار اپنے صفحہ اول پر اس خبر کو میری تصویر کے ساتھ شایع کرے''۔ ''ایکسپریس'' نے ان کی وفات کی خبر کو صفحہ اول پر تصویر کے ساتھ شایع کرکے ان کی بات کو حرف بہ حرف درست ثابت کردیا۔ سچ پوچھیے تو ''ایکسپریس'' کا یہ طرز عمل آنجہانی کی عظمت کا سچا اور کھلا اعتراف ہے جو اس منفرد روزنامے کی سوچ اور پالیسی کا آئینہ دار ہے۔ خوشونت سنگھ کے پڑھنے والوں اور دوستوں و احباب کا دائرہ بے حد وسیع ہے۔ چناں چہ زندگی بھر کوئی غم نہ پالنے والے اس بے مثل لکھاری نے داغ مفارقت دے کر اپنے بے شمار مداحوں اور چاہنے والے پس ماندگان پر مشتمل ایک بہت بڑے خاندان کو سوگوار چھوڑا ہے۔

خوشونت سنگھ تقسیم سے قبل 2 فروری 1915 ضلع سرگودھا کے قصبہ ہڈالی میں پیدا ہوئے، جہاں سے ان کا خاندان قیام پاکستان کے وقت ترک وطن کرکے بھارت جاکر رہائش پذیر ہوگیا تھا۔ ان کا تعلق ایک کھاتے پیتے گھرانے سے تھا اور ان کے پتا جی سردار سوبھا سنگھ ایک بہت بڑے بلڈر تھے۔ ہندوستان کی راجدھانی نئی دلی کی تعمیر کے دوران انھوں نے ٹھیکیداری کے پیشے سے خوب نام بھی کمایا اور مال بھی بنایا۔ لہٰذا خوشونت سنگھ نے بڑی خوشحال زندگی گزاری اور ہر قسم کی فکر و پریشانی سے آزاد رہے۔ خوشونت سنگھ کی زندگی کا ایک طویل عرصہ دہلی میں گزرا۔ غالباً یہ دہلی کے ساتھ ان کا گہرا لگاؤ تھا جس نے انھیں دہلی کی تاریخ کے حوالے سے ایک کتاب بھی لکھنے پر مجبور کیا جو ایک سے زیادہ جلدوں پر مشتمل ہے۔ ان کی اس کتاب کو دنیا بھر میں بڑی پذیرائی ہوئی۔ دلی کی تاریخ کے مختلف ادوار کے ساتھ ساتھ ان کی اس شہرہ آفاق کتاب میں اس عظیم الشان شہر کی بعض اہم شخصیات کا تذکرہ بھی نہایت دلچسپ انداز میں کیا گیا ہے جس میں خدائے سخن میر تقی میر کی نوجوانی کی تصویر کشی بھی انتہائی متاثرکن الفاظ میں کی گئی ہے۔ اگرچہ خوشونت مذہباً سکھ تھے لیکن عملی زندگی کے اعتبار سے وہ بالکل وسیع المشرب انسان تھے۔ پاکستان کے ایک ممتاز قانون داں اور سابق وزیر خارجہ بیرسٹر منظور قادر سے ان کے بڑے گہرے مراسم رہے۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ 1947 کے فسادات کے موقع پر یہ منظور قادر ہی تھے جو اپنی جان پر کھیل کر انھیں بحفاظت سرحد پار چھوڑ کر آئے تھے۔ خوشونت سنگھ نے اپنے کیریئر کا آغاز وکالت کے پیشے سے کیا مگر طبیعت اس طرف زیادہ مائل نہ ہوئی جس کے بعد انھوں نے قلم سنبھالا اور صحافت و ادب کے میدان میں اپنی خداداد صلاحیتوں کے جوہر دکھائے۔ایک مصنف کی حیثیت سے انھیں اولین شہرت برصغیر کی تقسیم پر مبنی انگریزی ناول ''ٹرین ٹو پاکستان'' سے حاصل ہوئی۔ تاریخ پر بھی ان کی نظر بڑی گہری تھی۔ ''ہسٹری آف سکھس'' کے عنوان سے انھوں نے سکھ مذہب کی تاریخ بھی مرتب کی ان کی دیگر انگریزی کتابوں میں "I Shall Not Hear the Nightingale" کے علاوہ "The Good, the Bad and the Ridiculous" اور "Black Jasmine"" قابل ذکر ہیں۔ ان کی خود نوشت "Truth, Love and a Little Malice" بھی پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔صحافت کے میدان میں بھی خوشونت سنگھ نے بڑا نام پیدا کیا۔ 1970 سے 1980 کے دوران وہ ہندوستان کے مشہور انگریزی اخبارات ''ہندوستان ٹائمز'' اور ''نیشنل ہیرالڈ'' کے ایڈیٹر رہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے کئی مشہور ادبی اور نیوز میگزینوں کی ادارت بھی کی جن میں ''السٹریٹڈ ویکلی آف انڈیا'' نامی ہفت روزہ نیوز میگزین سب سے زیادہ قابل ذکر ہے جو دنیا بھر کے انگریزی قارئین کا پسندیدہ نیوز میگزین تھا۔ ان کی ہر تحریر پر ان کی چھاپ ہمیشہ ہی نمایاں ہوتی تھی، بزبان غالب:

ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے انداز بیاں اور


95 سال کی عمر میں بھی ان کا قلم نت نئے موضوعات پر مضامین پر مضامین اگلتا رہا گویا:
آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں
اسی دوران ان کا خوبصورت ناول "The Sunset Club" بھی شایع ہوکر منظر عام پر آیا اور ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ پنشنرز کا ایک گروپ اس ناول کا اصل موضوع تھا۔ وزیراعظم اندرا گاندھی کی جانب سے ایمرجنسی کے نفاذ کے موقع پر انھوں نے سنجے گاندھی کا ساتھ دیا جس کی وجہ سے وہ متنازع قرار پائے اور ان کے امیج کو بھی اس اقدام سے زک پہنچی۔ لیکن 1984 میں جب اندرا گاندھی کے حکم پر امرتسر کے تاریخی گولڈن ٹیمپل پر بھارتی افواج نے ''آپریشن بلیو اسٹار'' کے تحت دھاوا بول دیا تو خوشونت سنگھ نے شدید ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے پدم بھوشن کا وہ قومی ایوارڈ واپس کردیا جو انھیں ان کی اعلیٰ کارکردگی کی بنیاد پر حکومت ہندوستان نے 1974 میں دیا تھا۔ اس سے نہ صرف ان کی کھوئی ہوئی ساکھ بہت حد تک بحال ہوگئی بلکہ ان کی مقبولیت کا گراف ایک مرتبہ پھر اپنی سابقہ بلندیوں پر پہنچ گیا۔ 2007 میں ان کی بہترین تخلیقی خدمات کے اعتراف میں پدم و بھوشن کے ایوارڈ سے نوازا گیا۔ لیکن ان کے لیے سب سے بڑا ایوارڈ ان کی وہ مقبولیت تھی جو انھیں خواص و عوام میں یکساں حاصل تھی۔

خوشونت سنگھ انتہائی بولڈ اور بڑے بے باک صحافی اور قلمکار تھے۔ مصلحت کوشی ان کے خون میں شامل نہیں تھی۔ وہ جو بات بھی کہتے تھے ڈنکے کی چوٹ پر کہتے تھے۔ بہ قول اقبال:
میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند

چاپلوسی اور بنیاد پرستی سے انھیں سخت چڑ تھی۔ چناں چہ جب انتہا پسند ہندو رہنما ایل کے ایڈوانی نے رتھ یاترا کی آڑ میں تعصب پسندی کے شعلوں کو ہوا دی تو خوشونت سنگھ نے انھیں آڑے ہاتھوں لیا۔ 1980 سے 1986 تک وہ بھارت کے ایوان بالا راجیہ سبھا کے سرگرم رکن بھی رہے۔ نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرنا بھی خوشونت سنگھ صاحب کی ایک بہت بڑی خوبی تھی۔ جس کا ذاتی مشاہدہ ہمیں اس وقت ہوا جب ہم نے اپنی انگریزی نظموں کی کتاب Shadows راجیہ سبھا کے ڈپٹی اسپیکر سردار حکم سنگھ کے ہاتھوں انھیں دلی بھجوائی جو ایک تقریب میں شرکت کے لیے اسلام آباد آئے ہوئے تھے۔ ہماری اس وقت حیرت کی انتہا نہ رہی جب صرف ایک ہفتے بعد خوشونت سنگھ کا محبت بھرا اور حوصلہ افزائی سے بھرپور خط بذریعہ ڈاک موصول ہوا۔ یہ خط ہمارے لیے سند کا درجہ رکھتا ہے اور اسے ہم نے آج تک اپنے پاس سنبھال کر رکھا ہوا ہے۔خوشونت سنگھ ایک صاحب طرز ادیب ہی نہیں بلکہ ایک بے مثل صحافی بھی تھے۔ اپنی تحریروں کا معاوضہ کرنے والوں میں بھی وہ سرفہرست تھے اور بجا طور پر اس کے حقدار بھی تھے۔ ادب اور صحافت کے علاوہ سفارت کاری کے میدان میں بھی انھوں نے اپنی بے پناہ صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ ان کی وفات سے نہ صرف ہندوستان بلکہ پورا برصغیر ایک عظیم قلمکار اور دانش ور بلکہ ایک سچے انسان دوست سے محروم ہوگیا ہے۔ ان جیسے لوگ صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ بقول اقبال:

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
Load Next Story