ہمارا مستقبل ہمارے اپنے ہاتھ میں

ہمیں ان مسائل کی وجوہات کوختم کرناچاہیےجن کی وجہ سےہمارےملک کی آدھی سےزیادہ آبادی بھوک،افلاس اوربیماریوں کاشکارہے۔۔۔

ہمیں ان مسائل کی وجوہات کوختم کرناچاہیےجن کی وجہ سےہمارےملک کی آدھی سےزیادہ آبادی بھوک،افلاس اوربیماریوں کاشکارہے۔

تاریخ کے پنے الٹنے سے پتہ چلتا ہے کہ دنیا کی امامت انہی قوموں کے حصے میں آتی ہے جو خود کو اس کا اہل ثابت کرتی اور کائنات کے ارتقاء میں حصہ ڈالتے ہوئے انسانیت کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کے موجب بنتی ہیں ،ابتدائے آفرینش سے ہی انسانوں کے آ پس میں اختلافات کا باعث باہمی مفاد، معاشیات اور اقتصادیات ہی رہی ہے،زندہ رہنے کی جد و جہد ایک ایسا عمل ہے جو آج بھی جاری ہے،اور امن اس کی بنیادی شرط ہے امن و سکون کے حامل معاشرئے ترقی بھی کر رہے ہیں اور خوشحال زندگی بھی بسر کر رہے ہیں۔

تاہم پاکستان میں خوشحالی ،سکون،طمانیت کے ختم ہونے کی بنیادی وجہ امن و سکون کا نہ ہوناہے،جنگی جنون نے ہمیں آج اس مقام پر لا کھڑا کیا ہے کہ ہمارے ملک کی آدھی سے زیادہ آبادی بھوک و افلاس کا شکار ہے۔ ہم ایک ایسا معاشرہ بن چکے ہیں جہاں تشدد اورنا انصافی عام ہے، تحمل اور برد باری جیسے الفاظ صرف کتابوں میں رہ گئے ہیں ،ہم نے اپنی اور غیروں کی جنگیں لڑیں اور نتیجے میں امن و امان کھو بیٹھے،معیشت کا بیڑا غرق کر لیا اور معاشرہ کے تار پور بکھر گئے،لیکن ہمارا جنگی جنون کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا اور اب یہ جنون معاشرے کے ہر طبقے میں سرایت کرتا جارہا ہے، فطرت نے بھی ہمیں ہمارے حال پر چھوڑ دیا ہے کہ ہم آپس میں لڑ لڑ کے اپنے جنون کو کم کر سکیں۔

لیکن میں اس کے ساتھ کچھ اور بھی دیکھ رہا ہوں کہ ہمارا بحثیت ملک آئندہ زندہ رہنے کے لیے کردار کیا ہونا چاہیے،دنیا میں ہم بے وقار ہو چکے ہیں، ہماری آپس کی نا اتفاقی کی وجہ سے دنیا ہمارے ملک میں آنے اور یہاں کاروبار جمانے سے ڈرنے لگی ہے دنیا کا خیال ہے کہ ہم ایک خاص مائنڈ سیٹ کے لوگ ہیں جو اپنے ذاتی نظریات ،اعتقادات اور خود ساختہ خیالات کی بنا پر دوسروں کی زندگی تک چھین لیتے ہیں ۔ کبھی بھارت ہمارا دشمن نمبر ایک تھا اور اب افغانستان اور امریکا بھی ہماری دشمنی کی فہرست میں شامل ہو چکے اور اگر ہم نے اپنی موجودہ روش جنگی جنون کو کم کرنے کی کوشش نہ کی تو اس وقت جو ہمارے دوست ہیں انہیں بھی گنوا دیں گے۔

ہمیں پہلے اپنے مسائل کی وجوہات کو ختم کرنا چاہیے جن کی بنا پر آج ہمارے ملک کی آدھی سے زیادہ آبادی بھوک ،افلاس اور بیماریوں کا شکار ہے اور باقی کی آبادی ذہنی مریض بن چکی ہے،اگر ہمیں جنگ ہی کرنی ہے تو ان حالات کے خلاف کرنی چاہیے جو ہمیں کمزور کر رہے ہیں ہمارا جنگی محاذ اقتصادی میدان ہونا چاہیے نہ کہ ہمارا اپنا ملک۔ ہمیں اپنی معیشت کو راہداری کی آمدنی پر استوار کرنا چاہیے اس سلسلے میں ہمارے موٹر ویز ہماری ترقی میں بہت اچھا کردار ادا کرسکتے ہیں ہمیں چاہیے کہ پورے ملک میں موٹر ویز کا جال بچھا دیں تاکہ شہریوں کو بہتر سفری سہولتیں میسر آسکیں۔


اسی طرح پورے ملک میں ریلوئے کا جال بچھا دینا چاہے تاکہ پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولتوں میں بہتری آسکے ، جیسا کہ وزیراعلی شہباز شریف نے لاہور میں میٹرو بس سروس متعارف کرائی تھی جس سے لاہور کے شہریوں کو سستی اور معیاری ٹرانسپورٹ میسر آگئی اس کا فائدہ یہ ہوا کہ اب لوگ اپنی ذاتی گاڑیاں چھوڑ کر اپنے آفسز وغیرہ میں جانے کے لیے میٹرو بس سے استفادہ کرتے ہیں یوں سڑکوں پر ٹریفک کے رش میں بھی کمی واقع ہو رہی اگر ایسے منصوبے پورے ملک میں شروع کر دیے جائیں تو جلد ہی پاکستان یورپ کا نقشہ پیش کرنا شروع ہو جائے گا۔

مثبت سوچ رکھنے والے دانشوروں کا بھی یہ کہنا ہے کہ پاکستان بین الاقوامی ممالک افغانستان، ایران ،بھارت، چین ، ترکی اور سنٹرل ایشیا کی ریاستوںکے ساتھ یورپ تک کے لئے راہدری بن رہا ہے، دنیا کو اپنے کاروبار کے لیے اس راہداری سے گزرنا ہے لہذا ہمیں اپنی سڑکوں ،پلوں کو بہتر بنانے کی طرف توجہ دینی چاہیے تاکہ جو بھی ٹرک' ٹرالر' ٹرین اور جہاز ہمارے راستوں سے گزرے' ہم اس سے ٹیکس وصول کریں۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ پاکستانی سیاحتی مقامات جن میں ناران کاغان، جھیل سیف الملوک ،وادی کیلاش، ملکہ کوہسار مری ،جنت نظیر وادی کشمیر کو مزیر دلکش اور خوبصورت اور پر امن بنائیں تاکہ ہمارے ملک میں سیاحت کو فروغ مل سکے ۔

امن و امان بحال کرنے کے لئے اپنی مسلح فورسز کو بہتر طریقے سے استعمال کرنا چاہئے ، پاکستان اور بھارت دونوں مل کر کشمیر کو سیاحوں کی جنت بنا کر پوری ریاست جموں وکشمیر کے غریب عوام کی زندگی میں ایسی خوشحالی لانی چاہئے تاکہ آنے والی دنوں میں قومی آزادیاں چھیننے اور غلام بنانے کا رواج نہ رہے۔ ترقی امن سے مشروط ہے اور جب تک ہم اس سے دور رہیں گے ترقی کے ثمرات سے بہرہ مند نہیں ہو سکیں گے ،ہمیں دنیا کے ساتھ چلنے کے لیے اپنی سوچ میں تبدیلی لانی ہوگی تاکہ ہم پوری دنیا میں اپنا ایک الگ پہنچان قائم کراپنا سر فخر سے بلند کرسکیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 300 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
Load Next Story