چھاتی کا سرطان اسبابعلامات اور علاج
مناسب آگاہی سے پاکستانی خواتین کو لاحق خطرے کو کم کیا جا سکتا ہے
اس وقت پاکستان میں چھاتی کے سرطان کی شرح ایشیائی ممالک میں سب سے زیادہ ہے، وطن عزیز میں ہر 9 میں سے ایک عورت کو چھاتی کے کینسر کی تشخیص ہونے کا زندگی بھر خطرہ رہتا ہے۔
بریسٹ کینسر، چھاتی کے خلیوں میں بنتا ہے۔ چھاتی کا کینسر، جلد کے کینسر کے بعد خواتین میں تشخیص ہونے والا سب سے عام کینسر ہے۔ یہ کینسر اس وقت ہوتا ہے جب چھاتی میں خلیات بے قابو طریقے سے بڑھتے ہیں، جس سے گا نٹھ یا گلٹی بن جاتی ہے جسے ٹیومر کہتے ہیں۔ چھاتی کا سرطان مردوں اور خواتین دونوں میں ہوسکتا ہے لیکن یہ خواتین میں زیادہ عام ہے۔
چھاتی کے کینسر کا خطرہ عمر اور وزن میں اضافے کے ساتھ بڑھتا ہے۔ اس کے 66 فیصد مریضوں کی تشخیص 55 سال کی عمر کے بعد ہوتی ہے۔ علامات میں چھاتی میں گانٹھ یا گلٹی محسوس کرنا، چھاتی کے سائز میں تبدیلی اور سینے کی جلد میں تبدیلی شامل ہیں۔ ابتدائی تشخیص میں میموگرام سے مدد لی جاتی ہے۔
اسباب
چھاتی کے کینسر کی اصل وجوہات کے بارے میں وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا، البتہ بعض عوامل اہم ہیں جن میں عمر، جینیاتی عوامل، خاندانی ہسٹری، ذاتی صحت اور خوراک وغیرہ شامل ہیں۔ اس ضمن میں درج ذیل ہدایات کو پیش نظر رکھ کر چھاتی کے کینسر کے خطرے کو کم کیا جا سکتا ہے۔
٭ جسم کے وزن میں اضافہ یا موٹاپا۔ چھاتی کے کینسر کا ایک بڑا سبب موٹاپا ہے۔ اس لیے صحت مند غذا اور باقاعدگی سے ورزش کرنا ضروری ہے۔
٭ چھاتی کی سرجری۔ چھاتی کی سرجری اورسلیکون بریسٹ ایمپلانٹس، سرطان کے خطرے کو بڑھاتی ہیں۔
٭ دودھ نہ پلانے کا انتخاب۔ بچوںکو دودھ نہ پلانے سے چھاتی کے کینسر کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔
٭ ہارمون پر مبنی ادویات کا استعمال اور مخصوص قسم کی برتھ کنٹرول گولیاں لینا۔ اس لیے کوئی بھی دوائی ماہر ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر نہ لیں۔
٭ چھاتی کی کثافت۔ اگر سینے گھنے ہیں تو چھاتی کے کینسر کا زیادہ خطرہ ہے۔ اس کے علاوہ یہ میموگرام کے دوران ٹیومر کی تشخیص بھی مشکل بنا سکتا ہے۔
٭ عمر کا ڈھلنا یا بڑھاپا۔ چھاتی کے کینسر کی زیادہ تر تشخیص 55 سال کی عمر کے بعد ہوتی ہے۔
٭تولیدی عوامل۔ ان میں 12 سال کی عمر سے پہلے بلوغت کو پہنچنا، 55 سال کی عمر کے بعد مینوپاز میں داخل ہونا، کوئی اولاد نہ ہونا، یا 30 کے بعد پہلا بچہ ہونا شامل ہیں۔
٭تابکاری شعاعیں۔ فلوروسکوپی ایکسرے یا سینے میں تابکاری شعاعوں سے علاج۔
٭ خاندانی ہسٹری۔ چھاتی کے کینسر کے مریض کے ساتھ پہلی ڈگری کا رشتہ دار (ماں، بہن، بیٹی، باپ، بھائی، بیٹا) ہونا زیادہ خطرناک ہو سکتا ہے۔ اگر خاندان کے دونوں طرف ایک سے زیادہ رشتہ دار چھاتی کے کینسر میں مبتلا ہیں تو کینسرہونے کے زیادہ امکانات رہتے ہیں۔
٭جینیاتی تبدیلی یا تغیرات۔ چھاتی کے سرطان میں BRCA1 اور BRCA2 جیسے جینز میں تبدیلیاں شامل ہو سکتی ہیں۔
٭چھاتی کا سابقہ کینسر۔ اگرکسی کو پہلے ہی چھاتی کا کینسر ہوچکا ہے، ان کو دوبارہ کینسر ہونے کے امکانات ہو سکتے ہیں۔
علامات
٭ چھاتی میں ایک گانٹھ یا گلٹی بننا یا اس کے نچلے حصے میں خلا یا گڑھا بننا۔
٭چھاتی کے سائز یا شکل میں تبدیلی۔
٭نپل سے خون یا سیال مادہ خارج ہونا۔
٭چھاتی یا نپل پر جلد کی شکل یا احساس میں تبدیلی
٭ چھاتی یا نپل پر جلد کی لالی۔
٭ چھاتی کا ایک ایسا حصہ جو چھاتی کے کسی بھی دوسرے حصے سے واضح طور پر مختلف ہو۔
٭چھاتی کی جلد کے نیچے سنگ مرمر کی سختی جیسا سخت حصہ۔
تشخیص کیلیے مددگار ٹیسٹ
خواتین علامات یا تبدیلیاں خود بھی بخوبی نوٹ کر سکتی ہیں، مرض کی تشخیص کے لیے کیے جانے والے ٹیسٹ درج ذیل ہیں:
ڈیجیٹل میموگرافی: چھاتی کا یہ ایکسرے ٹیسٹ چھاتی کی گلٹی یا گانٹھ کے بارے میں اہم معلومات دے سکتا ہے۔ یہ چھاتی کا ایکسرے امیج ہے اور اسے ڈیجیٹل طور پر کمپیوٹر میں فلم کے بجائے ریکارڈ کیا جاتا ہے۔
الٹراسونوگرافی: یہ ٹیسٹ چھاتی کی گلٹی یا گانٹھ ساخت، جیسے سیال سے بھرا ہوا سسٹ ہو (کینسر نہ ہو) یا ٹھوس ماس (جو کینسر ہو یا نہ ہو) کا پتہ لگانے کے لیے صوتی لہروں کا استعمال کرتا ہے۔ یہ میموگرام کے ساتھ بھی کیا جا سکتا ہے۔
بائیواپسی: بائیواپسی سرجری یا سوئیوں کے ذریعے کی جاتی ہے جس میں بریسٹ ماس سیلز یا ٹشو کا نمونہ لیا جاتا ہے۔ نمونہ لینے کے بعد، اسے جانچ کے لیے لیب میں بھیج دیا جاتا ہے۔ ایک پیتھالوجسٹ ڈاکٹر جو ٹشو کی غیر معمولی تبدیلیوں کی تشخیص میں مہارت رکھتا ہے، خوردبین سے سیل کی غیر معمولی شکلوں یا نمونوں کا معائنہ کرتا ہے۔ جب کینسر لاحق ہو تو پیتھالوجسٹ بتا سکتا ہے کہ یہ کس قسم کا کینسر ہے اور اسکی کیا اسٹیج، گریڈ ہے اور یہ کہاں تک آگے پھیل چکا ہے۔
لیبارٹری ٹیسٹ۔ ہارمون رسیپٹر ٹیسٹ (ایسٹروجن اور پروجیسٹرون) اور انسانی ایپیڈرمل گروتھ فیکٹر رسیپٹر ) HER2/(neu دکھا سکتے ہیں کہ کون سے عوامل کینسر کو بڑھنے میں مدد دے رہے ہیں، جس کے مطابق اس کینسر کا علاج کیا جاتا ہے۔
سکینٹیمیموگرافی: ایک ایسی تکنیک جس میں تابکاری کے برعکس ایجنٹ بازو کی رگ میں داخل کیے جاتے ہیں۔ چھاتی کی تصویر ایک خاص کیمرے کے ساتھ لی جاتی ہے، جو رنگ سے خارج ہونے والی تابکاری (گاما شعاعوں) کا پتہ لگاتی ہے۔ ٹیومر کے خلیے، جن میں سومی ٹشو سے زیادہ خون کی شریانیں ہوتی ہیں، زیادہ رنگ کو جمع کرتی ہیں اور ایک روشن تصویر پیش کرتی ہیں۔
پی ای ٹی اسکیننگ (پوزیٹرون ایمیشن ٹوموگراف):ایک ایسی تکنیک جو انجکشن والے ریڈیو ایکٹیو ٹریسرز سے سگنل کی پیمائش کرتی ہے جو تیزی سے تقسیم ہونے والے کینسر کے خلیوں میں منتقل ہوتی ہے۔ پی ای ٹی سکینر سگنل کی مدد سے ایک تصویر بناتا ہے۔
ایم آر آئی: ایسا ٹیسٹ جو ایکس رے کے استعمال کے بغیر انسانی جسم کی بہت سی تصاویر تیار کرتا ہے۔ ایم آر آئی ان تصاویر کو تیار کرنے کے لیے ایک بڑا مقناطیس، ریڈیو لہریں اور کمپیوٹر استعمال کرتا ہے۔
علاج
چھاتی کے کینسر کا کئی طریقو ں سے علاج کیا جاتا ہے، جو کینسر کی قسم اور اس حقیقت پر منحصر ہے کہ یہ کس حد تک پھیل چکا ہے۔ اس کے علاوہ مریض کی عمر، وسائل، تشخیص، علاج کی دستیابی و دیگر عوامل اس میں شامل ہوتے ہیں۔ چھاتی کے کینسر میں مبتلا افراد کو اکثر ایک سے زیادہ قسم کے طریقہ علاج کے مراحل سے گزرنا پڑسکتا ہے۔
کیموتھراپی: اس میں کینسر کے خلیوں کو سکڑنے یا مارنے کے لیے خصوصی ادویات کا استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ ادویات گولیاں یا انجکشن یا بعض اوقات دونوں صورتوں میں دی جاسکتی ہیں۔
ہارمونل تھراپی: کینسر کے خلیوں کو ان ہارمونز کو حاصل کرنے سے روکتی ہے جن کی انہیں ضرورت ہوتی ہے۔
حیاتیاتی تھراپی: یہ جسم کے مدافعتی نظام کے ساتھ کام کرتی ہے تاکہ اسے کینسر کے خلیوں سے لڑنے میں مدد ملے یا کینسر کے دوسرے علاج سے ہونے والے مضر اثرات کو کنٹرول کیا جا سکے۔
تابکاری: تابکاری تھراپ جسے ریڈیو تھراپی بھی کہا جاتا ہے ایک ایسا علاج ہے جو کینسر کے خلیوں کو مارنے اور ٹیومر کو سکڑنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔
تابکاری شعاعوں سے علاج کا عمل دردناک ہے، یہ وقت کے ساتھ جلد کی کچھ تکلیف کا سبب بن سکتا ہے۔ ابتدائی مرحلے کے چھاتی کے کینسر کا علاج کرتے وقت، تابکاری تھراپی اکثر سرجری کے بعد دی جاتی ہے۔
سرجری کینسر کو دور کرنے کے لیے کی جاتی ہے اور تابکاری کسی بھی کینسر کے خلیوں کو تباہ کرنے کے لیے کی جاتی ہے جو سرجری کے بعد باقی رہ سکتے ہیں۔ اس سے کینسر کے دوبارہ ہونے کے خطرے کو کم کرنے میں مدد ملتی ہے۔
تابکاری تھراپی کینسر خلیے کے ڈی این اے کو نقصان پہنچانے کے لیے خصوصی ہائی انرجی ایکس ریز استعمال کرتی ہے۔ جب کینسر سیل کا ڈی این این اے ناکارہ ہو جاتا ہے تو یہ کامیابی سے تقسیم نہیں ہو سکتا اور مر جاتا ہے۔
چھاتی کے کینسر کے علاج کے لیے تابکاری تھراپی کی دو اہم اقسام ہیں۔ بیرونی بیم تابکاری ایک بڑی مشین کے ذریعہ دی جاتی ہے جسے ایکسلریٹر کہا جاتا ہے۔ متا ثرہ حصے میں تابکاری ایک بیم کے ذریعے دی جاتی ہے۔ اندرونی تابکاری میں ایک تابکار مادہ استعمال کیا جاتا ہے، جو جسم کے اندر براہ راست کینسر کی جگہ پر داخل کیا جاتا ہے۔
انٹراآپریٹو ریڈی ایشن تھراپی: یہ ایک اور قسم کی تابکاری تھراپی ہے، جو جزوی چھاتی کی تابکاری کی ایک قسم ہے۔ انٹراآپریٹو ریڈی ایشن تھراپی کے ساتھ، ریڈی ایشن کا پورا کورس چھاتی کے کینسر کی سرجری کے دوران ایک وقت میں دیا جاتا ہے۔
پروٹون تھراپی یا پروٹون بیم تھراپی: اس جدید قسم کی نئی تابکاری تھراپی میں کینسر کے علاج کے لیے ایکس رے کے بجائے پروٹون نامی ذرات استعمال ہوتے ہیں۔ چھاتی کے کینسر کے لیے اب بھی پروٹون تھراپی کا مطالعہ کیا جا رہا ہے اور علاج کی یہ سہولت ہر جگہ دستیاب نہیں۔ چھاتی کے کینسر کے تمام مراحل کے علاج کے لیے تابکاری تھراپی کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔ حاملہ خواتین کو تابکاری تھراپی نہیں کرانی چاہیے کیونکہ یہ پیٹ میں بچے کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔
سیسٹیمیٹک علاج۔ یہ پورے جسم میں کینسر کے خلیوں کو تباہ یا کنٹرول کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اس میں کیموتھراپی اور ہارمون تھراپی علاج شامل ہیں۔
سرجری: بریسٹ کنزرویشن سرجری میں چھاتی کے کینسر والے حصے اور کینسر کے گرد عام ٹشو کا ایک حصہ ہٹانا شامل ہے جبکہ چھاتی کی عام شکل کو محفوظ رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ خواتین پر منفی نسوانی یا نفسیاتی اثرات مرتب نہ ہوں۔ اس طریقہ کار کو اکثر لمپیکٹومی کہا جاتا ہے اس کے علاوہ اسے جزوی ماسٹیکٹومی بھی کہتے ہیں۔ ابتدائی مرحلے کے کینسر کے علاج کے لیے یہ بہترین طریقہ ہے۔
ماسٹیکٹومی (پوری چھاتی کو ہٹانا)۔ یہ ایک اور آپشن ہے، آج کی جانے والی ماسٹیکٹومی کا طریقہ کار پرانی، ماسٹیکٹومیز جیسا نہیں ہے۔ اس میں عام طور پر پٹھوں کو نہیں ہٹایا جاتا۔ اس کے بعد چھاتی کی تعمیر نو قدرتی چھاتی کی طرح کی جاتی ہے جس میں انسان کے اپنے ٹشوز یا مصنوعی امپلانٹ یا دونوں استعمال ہو سکتے ہیں۔
علاج کے لیے مختلف شعبوں کے ڈاکٹر اکثر مل کر کام کرتے ہیں، جن میں سرجن ڈاکٹرز ہوتے ہیں جو آپریشن کرتے ہیں، میڈیکل آنکولوجسٹ ڈاکٹرز ہیں جو کینسر کا علاج ادویات سے کرتے ہیں، تابکاری آنکولوجسٹ ڈاکٹر ز ہوتے ہیں جو تابکاری سے کینسر کا علاج کرتے ہیں۔
بچاؤ کے لیے ضروری ہدایات
میموگرام کروائیں: امریکن کینسر سوسائٹی تجویز کرتی ہے کہ 35 سال کی عمر میں بنیادی میموگرام اور 40 سال کی عمر کے بعد ہر سال اسکریننگ میموگرام کیا جائے۔ میموگرام خواتین کی صحت کا ایک اہم حصہ ہیں۔ حال ہی میں، یو ایس پریوینٹیو سروسز ٹاسک فورس (یو ایس پی ٹی ایف) نئی سفارشات کے ساتھ سامنے آئی ہے کہ کب اور کتنی بار میموگرام ہونا چاہیے۔ ان میں 50 سال کی عمر سے شروع کرنا اور ہر دو سال بعد ان کا ہونا شامل ہے۔
ورزش لازمی کریں
ورزش صحت مند طرز زندگی کا اہم حصہ ہے۔ یہ چھاتی کے کینسر کے خطرے کو کم کرنے کا ایک مفید طریقہ بھی ہوسکتا ہے۔ مینو پاز میں خواتین کے وزن اور جسم کی چربی میں اضافہ ہوتا ہے۔ جسمانی چربی کی زیادہ مقدار والے افراد کو چھاتی کے کینسر کا زیادہ خطرہ ہو سکتا ہے۔ تاہم، ورزش کے ذریعے اپنے جسم کی چربی کو کم کر کے، چھاتی کے کینسر کے خطرے کو کم کیا جا سکتا ہے۔
ایروبک ورزش دل اور پھیپھڑوں کے کام کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ چربی جلانے کا ایک بہترین طریقہ ہے۔ ایروبک مشقوں میں تیراکی، سائیکلنگ اور پیدل چلنا شامل ہے۔
اس ورزش سے درج ذیل فوائد بھی ملتے ہیں: کولیسٹرول اور بلڈ پریشر میں کمی، قوت برداشت میں اضافہ، دل کی شرح رفتار میں توازن، وزن میں کمی، جسمانی و ذہنی دباؤ میں کمی، بہتر نیند۔ یہاں یہ ابہام بھی دور ہونا چاہیے کہ چھاتی میں ہرگلٹی یا گانٹھ کینسر نہیں ہوتی لیکن احتیاط لازم ہے۔ چھوٹی سے چھوٹی گلٹی چاہے وہ مٹر کے دانے کے برابر ہی کیوں نہ ہو کو ہرگز نظرانداز نہ کریں اور بروقت مستند معالج سے رابطہ ضرورکریں۔ یاد رہے کہ بروقت تشخیص و علاج سے ہی مکمل طور پر اس مرض سے شفایابی ممکن ہے۔
عالمی سطح پر ہر سال اکتوبر چھاتی کے کینسر کے بارے میں آگاہی کے مہینے کے طور پر منایا جاتا ہے۔ پاکستان خواتین میں بریسٹ کینسر کی شرح ایشیاء میں سب سے زیادہ ہے جو ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ بدقسمتی سے ہمیشہ سے ملک میں نظام صحت عدم توجہی اور زبوں حالی کا شکار رہا ہے۔
صحت و علاج معالجہ کی سہولیات پورے ملک میں نہ صرف ناکافی ہیں بلکہ عوام کی پہنچ سے بھی دور ہیں۔ مہنگائی اور ادویات کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے عوام کی کمر توڑ کے رکھ دی ہے جو کہ انتہائی افسوس ناک وقابل مذمت ہے۔حکومت وقت کو چاہیے کہ ادویات کی قیمتیں میں کمی، صحت کی دیگر سہولیات کی دستیابی کے ساتھ ساتھ ضلعی سطح پرہر بڑے سرکاری ہسپتال میں میمو گرافی کی فراہمی یقینی بنائے تا کہ بریسٹ کینسر جیسے موذی مرض کی بروقت تشخیص و علاج ممکن ہو سکے۔
اس کے علاوہ سرکاری سرپرستی میں معاشرے میں ہر سطح پر اس مہلک و جان لیوا مرض کے خلاف تشہیری مہم باقاعدگی سے شروع کی جائے۔ تعلیمی ادارے بشمول کالجز و یونیورسٹیاں اس مقصد کے لیے موثر فورم ثابت ہو سکتے ہیں جو کہ معاشرے میں بریسٹ کینسرسے متعلق شعور و آگاہی پیدا کرنے سمیت خواتین کو بروقت تشخیص و علاج کی طرف راغب کرنے میں کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔
یہ بھی المیہ ہے کہ آگاہی نہ ہونے کے باعث چھاتی کے کینسر کے مریض مستند معالج یا مرکز صحت سے اس وقت رجوع کرتے ہیں جب کینسر کافی پھیل چکا ہوتا ہے اور اس وقت دنیا بھر میں کسی بھی قسم کا جدید علاج معاون ثابت نہیں ہو سکتا۔ تحقیق نے ثابت کیا ہے کہ اس مرض کے علاج میں وقت کی بڑی اہمیت ہے،آئیے وقت اور زندگی دونوں کی قدر کریں۔
بریسٹ کینسر، چھاتی کے خلیوں میں بنتا ہے۔ چھاتی کا کینسر، جلد کے کینسر کے بعد خواتین میں تشخیص ہونے والا سب سے عام کینسر ہے۔ یہ کینسر اس وقت ہوتا ہے جب چھاتی میں خلیات بے قابو طریقے سے بڑھتے ہیں، جس سے گا نٹھ یا گلٹی بن جاتی ہے جسے ٹیومر کہتے ہیں۔ چھاتی کا سرطان مردوں اور خواتین دونوں میں ہوسکتا ہے لیکن یہ خواتین میں زیادہ عام ہے۔
چھاتی کے کینسر کا خطرہ عمر اور وزن میں اضافے کے ساتھ بڑھتا ہے۔ اس کے 66 فیصد مریضوں کی تشخیص 55 سال کی عمر کے بعد ہوتی ہے۔ علامات میں چھاتی میں گانٹھ یا گلٹی محسوس کرنا، چھاتی کے سائز میں تبدیلی اور سینے کی جلد میں تبدیلی شامل ہیں۔ ابتدائی تشخیص میں میموگرام سے مدد لی جاتی ہے۔
اسباب
چھاتی کے کینسر کی اصل وجوہات کے بارے میں وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا، البتہ بعض عوامل اہم ہیں جن میں عمر، جینیاتی عوامل، خاندانی ہسٹری، ذاتی صحت اور خوراک وغیرہ شامل ہیں۔ اس ضمن میں درج ذیل ہدایات کو پیش نظر رکھ کر چھاتی کے کینسر کے خطرے کو کم کیا جا سکتا ہے۔
٭ جسم کے وزن میں اضافہ یا موٹاپا۔ چھاتی کے کینسر کا ایک بڑا سبب موٹاپا ہے۔ اس لیے صحت مند غذا اور باقاعدگی سے ورزش کرنا ضروری ہے۔
٭ چھاتی کی سرجری۔ چھاتی کی سرجری اورسلیکون بریسٹ ایمپلانٹس، سرطان کے خطرے کو بڑھاتی ہیں۔
٭ دودھ نہ پلانے کا انتخاب۔ بچوںکو دودھ نہ پلانے سے چھاتی کے کینسر کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔
٭ ہارمون پر مبنی ادویات کا استعمال اور مخصوص قسم کی برتھ کنٹرول گولیاں لینا۔ اس لیے کوئی بھی دوائی ماہر ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر نہ لیں۔
٭ چھاتی کی کثافت۔ اگر سینے گھنے ہیں تو چھاتی کے کینسر کا زیادہ خطرہ ہے۔ اس کے علاوہ یہ میموگرام کے دوران ٹیومر کی تشخیص بھی مشکل بنا سکتا ہے۔
٭ عمر کا ڈھلنا یا بڑھاپا۔ چھاتی کے کینسر کی زیادہ تر تشخیص 55 سال کی عمر کے بعد ہوتی ہے۔
٭تولیدی عوامل۔ ان میں 12 سال کی عمر سے پہلے بلوغت کو پہنچنا، 55 سال کی عمر کے بعد مینوپاز میں داخل ہونا، کوئی اولاد نہ ہونا، یا 30 کے بعد پہلا بچہ ہونا شامل ہیں۔
٭تابکاری شعاعیں۔ فلوروسکوپی ایکسرے یا سینے میں تابکاری شعاعوں سے علاج۔
٭ خاندانی ہسٹری۔ چھاتی کے کینسر کے مریض کے ساتھ پہلی ڈگری کا رشتہ دار (ماں، بہن، بیٹی، باپ، بھائی، بیٹا) ہونا زیادہ خطرناک ہو سکتا ہے۔ اگر خاندان کے دونوں طرف ایک سے زیادہ رشتہ دار چھاتی کے کینسر میں مبتلا ہیں تو کینسرہونے کے زیادہ امکانات رہتے ہیں۔
٭جینیاتی تبدیلی یا تغیرات۔ چھاتی کے سرطان میں BRCA1 اور BRCA2 جیسے جینز میں تبدیلیاں شامل ہو سکتی ہیں۔
٭چھاتی کا سابقہ کینسر۔ اگرکسی کو پہلے ہی چھاتی کا کینسر ہوچکا ہے، ان کو دوبارہ کینسر ہونے کے امکانات ہو سکتے ہیں۔
علامات
٭ چھاتی میں ایک گانٹھ یا گلٹی بننا یا اس کے نچلے حصے میں خلا یا گڑھا بننا۔
٭چھاتی کے سائز یا شکل میں تبدیلی۔
٭نپل سے خون یا سیال مادہ خارج ہونا۔
٭چھاتی یا نپل پر جلد کی شکل یا احساس میں تبدیلی
٭ چھاتی یا نپل پر جلد کی لالی۔
٭ چھاتی کا ایک ایسا حصہ جو چھاتی کے کسی بھی دوسرے حصے سے واضح طور پر مختلف ہو۔
٭چھاتی کی جلد کے نیچے سنگ مرمر کی سختی جیسا سخت حصہ۔
تشخیص کیلیے مددگار ٹیسٹ
خواتین علامات یا تبدیلیاں خود بھی بخوبی نوٹ کر سکتی ہیں، مرض کی تشخیص کے لیے کیے جانے والے ٹیسٹ درج ذیل ہیں:
ڈیجیٹل میموگرافی: چھاتی کا یہ ایکسرے ٹیسٹ چھاتی کی گلٹی یا گانٹھ کے بارے میں اہم معلومات دے سکتا ہے۔ یہ چھاتی کا ایکسرے امیج ہے اور اسے ڈیجیٹل طور پر کمپیوٹر میں فلم کے بجائے ریکارڈ کیا جاتا ہے۔
الٹراسونوگرافی: یہ ٹیسٹ چھاتی کی گلٹی یا گانٹھ ساخت، جیسے سیال سے بھرا ہوا سسٹ ہو (کینسر نہ ہو) یا ٹھوس ماس (جو کینسر ہو یا نہ ہو) کا پتہ لگانے کے لیے صوتی لہروں کا استعمال کرتا ہے۔ یہ میموگرام کے ساتھ بھی کیا جا سکتا ہے۔
بائیواپسی: بائیواپسی سرجری یا سوئیوں کے ذریعے کی جاتی ہے جس میں بریسٹ ماس سیلز یا ٹشو کا نمونہ لیا جاتا ہے۔ نمونہ لینے کے بعد، اسے جانچ کے لیے لیب میں بھیج دیا جاتا ہے۔ ایک پیتھالوجسٹ ڈاکٹر جو ٹشو کی غیر معمولی تبدیلیوں کی تشخیص میں مہارت رکھتا ہے، خوردبین سے سیل کی غیر معمولی شکلوں یا نمونوں کا معائنہ کرتا ہے۔ جب کینسر لاحق ہو تو پیتھالوجسٹ بتا سکتا ہے کہ یہ کس قسم کا کینسر ہے اور اسکی کیا اسٹیج، گریڈ ہے اور یہ کہاں تک آگے پھیل چکا ہے۔
لیبارٹری ٹیسٹ۔ ہارمون رسیپٹر ٹیسٹ (ایسٹروجن اور پروجیسٹرون) اور انسانی ایپیڈرمل گروتھ فیکٹر رسیپٹر ) HER2/(neu دکھا سکتے ہیں کہ کون سے عوامل کینسر کو بڑھنے میں مدد دے رہے ہیں، جس کے مطابق اس کینسر کا علاج کیا جاتا ہے۔
سکینٹیمیموگرافی: ایک ایسی تکنیک جس میں تابکاری کے برعکس ایجنٹ بازو کی رگ میں داخل کیے جاتے ہیں۔ چھاتی کی تصویر ایک خاص کیمرے کے ساتھ لی جاتی ہے، جو رنگ سے خارج ہونے والی تابکاری (گاما شعاعوں) کا پتہ لگاتی ہے۔ ٹیومر کے خلیے، جن میں سومی ٹشو سے زیادہ خون کی شریانیں ہوتی ہیں، زیادہ رنگ کو جمع کرتی ہیں اور ایک روشن تصویر پیش کرتی ہیں۔
پی ای ٹی اسکیننگ (پوزیٹرون ایمیشن ٹوموگراف):ایک ایسی تکنیک جو انجکشن والے ریڈیو ایکٹیو ٹریسرز سے سگنل کی پیمائش کرتی ہے جو تیزی سے تقسیم ہونے والے کینسر کے خلیوں میں منتقل ہوتی ہے۔ پی ای ٹی سکینر سگنل کی مدد سے ایک تصویر بناتا ہے۔
ایم آر آئی: ایسا ٹیسٹ جو ایکس رے کے استعمال کے بغیر انسانی جسم کی بہت سی تصاویر تیار کرتا ہے۔ ایم آر آئی ان تصاویر کو تیار کرنے کے لیے ایک بڑا مقناطیس، ریڈیو لہریں اور کمپیوٹر استعمال کرتا ہے۔
علاج
چھاتی کے کینسر کا کئی طریقو ں سے علاج کیا جاتا ہے، جو کینسر کی قسم اور اس حقیقت پر منحصر ہے کہ یہ کس حد تک پھیل چکا ہے۔ اس کے علاوہ مریض کی عمر، وسائل، تشخیص، علاج کی دستیابی و دیگر عوامل اس میں شامل ہوتے ہیں۔ چھاتی کے کینسر میں مبتلا افراد کو اکثر ایک سے زیادہ قسم کے طریقہ علاج کے مراحل سے گزرنا پڑسکتا ہے۔
کیموتھراپی: اس میں کینسر کے خلیوں کو سکڑنے یا مارنے کے لیے خصوصی ادویات کا استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ ادویات گولیاں یا انجکشن یا بعض اوقات دونوں صورتوں میں دی جاسکتی ہیں۔
ہارمونل تھراپی: کینسر کے خلیوں کو ان ہارمونز کو حاصل کرنے سے روکتی ہے جن کی انہیں ضرورت ہوتی ہے۔
حیاتیاتی تھراپی: یہ جسم کے مدافعتی نظام کے ساتھ کام کرتی ہے تاکہ اسے کینسر کے خلیوں سے لڑنے میں مدد ملے یا کینسر کے دوسرے علاج سے ہونے والے مضر اثرات کو کنٹرول کیا جا سکے۔
تابکاری: تابکاری تھراپ جسے ریڈیو تھراپی بھی کہا جاتا ہے ایک ایسا علاج ہے جو کینسر کے خلیوں کو مارنے اور ٹیومر کو سکڑنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔
تابکاری شعاعوں سے علاج کا عمل دردناک ہے، یہ وقت کے ساتھ جلد کی کچھ تکلیف کا سبب بن سکتا ہے۔ ابتدائی مرحلے کے چھاتی کے کینسر کا علاج کرتے وقت، تابکاری تھراپی اکثر سرجری کے بعد دی جاتی ہے۔
سرجری کینسر کو دور کرنے کے لیے کی جاتی ہے اور تابکاری کسی بھی کینسر کے خلیوں کو تباہ کرنے کے لیے کی جاتی ہے جو سرجری کے بعد باقی رہ سکتے ہیں۔ اس سے کینسر کے دوبارہ ہونے کے خطرے کو کم کرنے میں مدد ملتی ہے۔
تابکاری تھراپی کینسر خلیے کے ڈی این اے کو نقصان پہنچانے کے لیے خصوصی ہائی انرجی ایکس ریز استعمال کرتی ہے۔ جب کینسر سیل کا ڈی این این اے ناکارہ ہو جاتا ہے تو یہ کامیابی سے تقسیم نہیں ہو سکتا اور مر جاتا ہے۔
چھاتی کے کینسر کے علاج کے لیے تابکاری تھراپی کی دو اہم اقسام ہیں۔ بیرونی بیم تابکاری ایک بڑی مشین کے ذریعہ دی جاتی ہے جسے ایکسلریٹر کہا جاتا ہے۔ متا ثرہ حصے میں تابکاری ایک بیم کے ذریعے دی جاتی ہے۔ اندرونی تابکاری میں ایک تابکار مادہ استعمال کیا جاتا ہے، جو جسم کے اندر براہ راست کینسر کی جگہ پر داخل کیا جاتا ہے۔
انٹراآپریٹو ریڈی ایشن تھراپی: یہ ایک اور قسم کی تابکاری تھراپی ہے، جو جزوی چھاتی کی تابکاری کی ایک قسم ہے۔ انٹراآپریٹو ریڈی ایشن تھراپی کے ساتھ، ریڈی ایشن کا پورا کورس چھاتی کے کینسر کی سرجری کے دوران ایک وقت میں دیا جاتا ہے۔
پروٹون تھراپی یا پروٹون بیم تھراپی: اس جدید قسم کی نئی تابکاری تھراپی میں کینسر کے علاج کے لیے ایکس رے کے بجائے پروٹون نامی ذرات استعمال ہوتے ہیں۔ چھاتی کے کینسر کے لیے اب بھی پروٹون تھراپی کا مطالعہ کیا جا رہا ہے اور علاج کی یہ سہولت ہر جگہ دستیاب نہیں۔ چھاتی کے کینسر کے تمام مراحل کے علاج کے لیے تابکاری تھراپی کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔ حاملہ خواتین کو تابکاری تھراپی نہیں کرانی چاہیے کیونکہ یہ پیٹ میں بچے کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔
سیسٹیمیٹک علاج۔ یہ پورے جسم میں کینسر کے خلیوں کو تباہ یا کنٹرول کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اس میں کیموتھراپی اور ہارمون تھراپی علاج شامل ہیں۔
سرجری: بریسٹ کنزرویشن سرجری میں چھاتی کے کینسر والے حصے اور کینسر کے گرد عام ٹشو کا ایک حصہ ہٹانا شامل ہے جبکہ چھاتی کی عام شکل کو محفوظ رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ خواتین پر منفی نسوانی یا نفسیاتی اثرات مرتب نہ ہوں۔ اس طریقہ کار کو اکثر لمپیکٹومی کہا جاتا ہے اس کے علاوہ اسے جزوی ماسٹیکٹومی بھی کہتے ہیں۔ ابتدائی مرحلے کے کینسر کے علاج کے لیے یہ بہترین طریقہ ہے۔
ماسٹیکٹومی (پوری چھاتی کو ہٹانا)۔ یہ ایک اور آپشن ہے، آج کی جانے والی ماسٹیکٹومی کا طریقہ کار پرانی، ماسٹیکٹومیز جیسا نہیں ہے۔ اس میں عام طور پر پٹھوں کو نہیں ہٹایا جاتا۔ اس کے بعد چھاتی کی تعمیر نو قدرتی چھاتی کی طرح کی جاتی ہے جس میں انسان کے اپنے ٹشوز یا مصنوعی امپلانٹ یا دونوں استعمال ہو سکتے ہیں۔
علاج کے لیے مختلف شعبوں کے ڈاکٹر اکثر مل کر کام کرتے ہیں، جن میں سرجن ڈاکٹرز ہوتے ہیں جو آپریشن کرتے ہیں، میڈیکل آنکولوجسٹ ڈاکٹرز ہیں جو کینسر کا علاج ادویات سے کرتے ہیں، تابکاری آنکولوجسٹ ڈاکٹر ز ہوتے ہیں جو تابکاری سے کینسر کا علاج کرتے ہیں۔
بچاؤ کے لیے ضروری ہدایات
میموگرام کروائیں: امریکن کینسر سوسائٹی تجویز کرتی ہے کہ 35 سال کی عمر میں بنیادی میموگرام اور 40 سال کی عمر کے بعد ہر سال اسکریننگ میموگرام کیا جائے۔ میموگرام خواتین کی صحت کا ایک اہم حصہ ہیں۔ حال ہی میں، یو ایس پریوینٹیو سروسز ٹاسک فورس (یو ایس پی ٹی ایف) نئی سفارشات کے ساتھ سامنے آئی ہے کہ کب اور کتنی بار میموگرام ہونا چاہیے۔ ان میں 50 سال کی عمر سے شروع کرنا اور ہر دو سال بعد ان کا ہونا شامل ہے۔
ورزش لازمی کریں
ورزش صحت مند طرز زندگی کا اہم حصہ ہے۔ یہ چھاتی کے کینسر کے خطرے کو کم کرنے کا ایک مفید طریقہ بھی ہوسکتا ہے۔ مینو پاز میں خواتین کے وزن اور جسم کی چربی میں اضافہ ہوتا ہے۔ جسمانی چربی کی زیادہ مقدار والے افراد کو چھاتی کے کینسر کا زیادہ خطرہ ہو سکتا ہے۔ تاہم، ورزش کے ذریعے اپنے جسم کی چربی کو کم کر کے، چھاتی کے کینسر کے خطرے کو کم کیا جا سکتا ہے۔
ایروبک ورزش دل اور پھیپھڑوں کے کام کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ چربی جلانے کا ایک بہترین طریقہ ہے۔ ایروبک مشقوں میں تیراکی، سائیکلنگ اور پیدل چلنا شامل ہے۔
اس ورزش سے درج ذیل فوائد بھی ملتے ہیں: کولیسٹرول اور بلڈ پریشر میں کمی، قوت برداشت میں اضافہ، دل کی شرح رفتار میں توازن، وزن میں کمی، جسمانی و ذہنی دباؤ میں کمی، بہتر نیند۔ یہاں یہ ابہام بھی دور ہونا چاہیے کہ چھاتی میں ہرگلٹی یا گانٹھ کینسر نہیں ہوتی لیکن احتیاط لازم ہے۔ چھوٹی سے چھوٹی گلٹی چاہے وہ مٹر کے دانے کے برابر ہی کیوں نہ ہو کو ہرگز نظرانداز نہ کریں اور بروقت مستند معالج سے رابطہ ضرورکریں۔ یاد رہے کہ بروقت تشخیص و علاج سے ہی مکمل طور پر اس مرض سے شفایابی ممکن ہے۔
عالمی سطح پر ہر سال اکتوبر چھاتی کے کینسر کے بارے میں آگاہی کے مہینے کے طور پر منایا جاتا ہے۔ پاکستان خواتین میں بریسٹ کینسر کی شرح ایشیاء میں سب سے زیادہ ہے جو ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ بدقسمتی سے ہمیشہ سے ملک میں نظام صحت عدم توجہی اور زبوں حالی کا شکار رہا ہے۔
صحت و علاج معالجہ کی سہولیات پورے ملک میں نہ صرف ناکافی ہیں بلکہ عوام کی پہنچ سے بھی دور ہیں۔ مہنگائی اور ادویات کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے عوام کی کمر توڑ کے رکھ دی ہے جو کہ انتہائی افسوس ناک وقابل مذمت ہے۔حکومت وقت کو چاہیے کہ ادویات کی قیمتیں میں کمی، صحت کی دیگر سہولیات کی دستیابی کے ساتھ ساتھ ضلعی سطح پرہر بڑے سرکاری ہسپتال میں میمو گرافی کی فراہمی یقینی بنائے تا کہ بریسٹ کینسر جیسے موذی مرض کی بروقت تشخیص و علاج ممکن ہو سکے۔
اس کے علاوہ سرکاری سرپرستی میں معاشرے میں ہر سطح پر اس مہلک و جان لیوا مرض کے خلاف تشہیری مہم باقاعدگی سے شروع کی جائے۔ تعلیمی ادارے بشمول کالجز و یونیورسٹیاں اس مقصد کے لیے موثر فورم ثابت ہو سکتے ہیں جو کہ معاشرے میں بریسٹ کینسرسے متعلق شعور و آگاہی پیدا کرنے سمیت خواتین کو بروقت تشخیص و علاج کی طرف راغب کرنے میں کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔
یہ بھی المیہ ہے کہ آگاہی نہ ہونے کے باعث چھاتی کے کینسر کے مریض مستند معالج یا مرکز صحت سے اس وقت رجوع کرتے ہیں جب کینسر کافی پھیل چکا ہوتا ہے اور اس وقت دنیا بھر میں کسی بھی قسم کا جدید علاج معاون ثابت نہیں ہو سکتا۔ تحقیق نے ثابت کیا ہے کہ اس مرض کے علاج میں وقت کی بڑی اہمیت ہے،آئیے وقت اور زندگی دونوں کی قدر کریں۔