سیلاب اور پاکستان کی مشکلات
حکومت کی بھرپور کوشش ہے کہ دنیا کو اس صورتحال سے آگاہ کیا جائے تاکہ وہ مشکل کی اس گھڑی میں پاکستان کا ساتھ دیں
پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی زیرصدارت کورکمانڈرز کانفرنس میں ملک کے نیوکلیئر کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا گیا ہے۔
آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی زیرصدارت جی ایچ کیو میں 252 ویں کور کمانڈرز کانفرنس منعقد ہوئی۔ کانفرنس کے شرکاء نے موجودہ اندرونی اور بیرونی سیکیورٹی صورت حال اور فوج کی آپریشنل تیاریوں کا جامع جائزہ لیا۔ انھوں نے فارمیشنز کی آپریشنل تیاریوں پر اطمینان کا اظہار کیا۔
ادھرامریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ امریکی اور پاکستانی حکام باقاعدگی سے ایک دوسرے سے ملتے رہتے ہیں، ایسی ملاقاتیں اسٹینڈرڈ پریکٹس ہیں۔دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے پاکستان سے مضبوط شراکت داری چاہتے ہیں، انسداد دہشت گردی ہمارے مشترکہ مفادات کا حصہ ہے، عالمی اور علاقائی دہشت گرد تنظیموں کے خلاف پاکستان کے ایکشن کی توقع رکھتے ہیں۔
امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان ویدانت پٹیل نے پریس بریفنگ کے دوران کہا کہ پاکستانی سفیر کی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ میٹنگ پر ابھی کچھ نہیں کہہ سکتے۔انھوں نے کہا کہ بہت کم ممالک ایسے ہیں جو پاکستان کی طرح دہشتگردی سے متاثر ہوئے ہوں، انسداد دہشت گردی ہمارے مشترکہ مفادات کا حصہ ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ تحریک طالبان جیسی تنظیمیں خطے کے لیے خطرہ ہیں، دہشتگردی سے نمٹنے کے لیے پاکستان کے ساتھ مضبوط شراکت داری چاہتے ہیں۔ترجمان امریکی وزارت خارجہ نے مزید کہا کہ عالمی اور علاقائی دہشتگرد تنظیموں کے خلاف پاکستان کے ایکشن کی توقع رکھتے ہیں۔
امریکا کے سینئیر ڈیمو کریٹ سینیٹر کرس وان ہالن نے کہا ہے کہ صدر بائیڈن کا بیان بے ساختہ تھا، امریکی پالیسی میں کوئی ردوبدل نہیں۔اپنے بیان میں انھوں نے کہا کہ امریکی محکمہ خارجہ کی وضاحت سے یہی تاثر ملتا ہے کہ صدارتی بیان جان بوجھ کر نہیں دیا گیا تھا، ہم پاکستان کے ساتھ مستحکم تعلقات کے خواہاں ہیں۔
انھوں نے کہا کہ سیلاب اور اس سے نمٹنے کے اقدامات کے باعث دو طرفہ رابطوں میں اضافہ ہوا ہے۔سینیٹر کرس وان ہالن نے مزید کہا کہ امریکا مسلسل پاکستانی حکام کے ساتھ رابطے میں ہے کہ ان کی کس طرح مزید مدد کی جا سکتی ہے۔
پاکستان کے ایف 16طیاروں کی مرمت کے امریکی پیکیج کی راہ ہموار ہوگئی ہے۔ غیرملکی رپورٹس کے مطابق امریکی کانگریس نے پاکستانی ایف 16طیاروں کے دیکھ بھال پیکیج پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔
اس پروگرام کے لیے امریکی انتظامیہ سے منظوری کے بعد امریکی کانگریس سے توثیق لازم تھی۔طیاروں کی مرمت اور پرزوں کی خریداری کا پیکیج گزشتہ ماہ منظور کیا گیا تھا۔ پیکیج پر بھارت نے اعتراض کیا تھا جسے امریکا نے رد کردیا تھا۔
امریکا کی اوپیک پلس اتحاد کے تیل کی پیداوار میں کمی لانے کے فیصلے پر تنقید کے بعد پاکستان نے سعودی عرب سے اظہار یکجہتی کیا ہے۔
دفتر خارجہ ترجمان کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ہم مارکیٹ میں اتار چڑھاؤ سے بچنے اور عالمی اقتصادی استحکام کو یقینی بنانے کیلیے مملکت سعودی عرب کے خدشات کو سراہتے ہیں۔
ادھراوپیک پلس اتحاد (کارٹیل )کی قیادت کرنیوالے سعودی عرب اور روس نے حال ہی میں عالمی اقتصادی کساد بازاری کے خوف سے عالمی منڈیوں میں تیل کی قیمتوں میں کمی سے بچنے کیلیے خام تیل کی سپلائی میں 20 لاکھ بیرل یومیہ کمی کرنے کا فیصلہ کیاہے۔
تاہم امریکا نے اوپیک پلس کے فیصلے پر سخت رد عمل ظاہر کیاہے ،چونکہ یوکرائن تنازع کی وجہ سے سپلائی چین متاثرہوئی اور خام تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے اور اس سے پیٹرول مہنگا ہونے سے امریکی بھی متاثرہوئے ہیں۔بائیڈن چاہتے تھے کہ سعودی عرب تیل کی سپلائی بڑھائے تاکہ ہم مڈٹرم الیکشن سے قبل ملک میں قیمتیں کم ہو سکیں لیکن سعودی عرب نے تیل کی سپلائی میں کمی کے اقدام کی حمایت کردی،مغربی مبصرین کا خیال ہے کہ سعودی عرب نے واضح طور پر روس کا ساتھ دیا کیونکہ تیل کی قیمتوں میں اضافے کا فائدہ صرف روسی صدر ولادیمیر پوتن کو ہوگا۔
دلچسپ بات یہ کہ پاکستان خام تیل کی عالمی قیمتوں میں کمی کی بہت زیادہ امید کر رہا تھا کیونکہ اس سے مہنگائی سے متاثرہ عوام کو ریلیف دینے کے لیے حکومت کی کچھ پریشانی میں کمی آ جاتی لیکن اوپیک پلس کا فیصلہ پاکستان کی جدوجہد کرنیوالی معیشت کیلیے مزید مسائل پیدا کرسکتاہے۔
یاد رہے کہ روس سمیت آرگنائزیشن آف پیٹرولیم ایکسپورٹنگ کنٹریز (اوپیک) پلس میں شامل دیگر اتحادی ممالک نے رواں ماہ ویانا میں ایک اجلاس کے دوران تیل کی پیداوار میں یومیہ 20 لاکھ بیرل کمی پر اتفاق کیا تھااوراوپیک پلس کے اس فیصلے پر امریکا نے سخت لہجہ اختیار کیا تھااوراوپیک پلس کی طرف سے تیل کی پیداوار میں کمی کا اعلامیہ جاری ہونے کے بعد امریکی صدر جو بائیڈن نے تیل کی پیداوار میں کمی لانے کے لیے روس کی حمایت کرنے پر سعودی عرب پر جرمانہ عائد کرنے کا عزم کیا تھا۔
معروف عالمی جریدے فنانشل ٹائمز نے رپورٹ کیا ہے کہ تباہ کن اور ہلاکت خیز سیلاب نے ملک کے معاشی بحران کو مزید سنگین کردیا ہے جب کہ پاکستان عالمی قرض دہندگان سے اربوں ڈالرز کے مزید قرضوں کے لیے درخواست کرے گا۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کی خبر کے مطابق وزیر اعظم شہباز شریف نے فنانشل ٹائمز کو بتایا کہ ہم کسی قسم کے ایسے اقدامات جیسا کہ ری شیڈولنگ یا موریٹوریم کی بات نہیں کر رہے، ہم اضافی فنڈز طلب کر رہے ہیں۔فنانشل ٹائمز نے شہباز شریف کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ کیا کہ ملک کو میگا انڈرٹیکنگز جیسے سڑکوں، پلوں اور تباہ شدہ یا بہہ جانے والے دیگر انفراسٹرکچر کی تعمیر نو کے لیے بہت زیادہ رقم کی ضرورت ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وزیر اعظم نے یہ نہیں بتایا کہ پاکستان کتنی رقم طلب کر رہا ہے لیکن انھوں نے سیلاب سے ہونے والے 30 ارب ڈالر کے نقصانات کے تخمینے کو دہرایا۔رواں ماہ کے شروع میں اقوام متحدہ نے پاکستان کے لیے اپنی انسانی امداد کی اپیل کو 16 کروڑ ڈالر سے 5 گنا بڑھا کر 81 کروڑ 60 لاکھ ڈالر کر دیا تھا جب کہ پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں میں اضافے اور بھوک کے بڑھنے کے خدشے نے بد ترین سیلاب کے بعد نئے خطرات پیدا کردیے ہیں۔
ملک کی بد ترین صورتحال کے پیش نظر یورپی یونین نے بھی سیلاب متاثرین کے لیے اپنی امداد کو 3 کروڑ یورو تک بڑھا دیا تھا۔ وزیر برائے ماحولیاتی تبدیلی شیریں رحمن نے کہا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی اہداف بے معنی ہونگے اگر بند دروازوں میں بنائے جائیں گے،ہمارا سیارہ جل رہا ہے ، ہمیں ابھی اقدامات لینے کی ضرورت ہے، ہم ماحولیاتی تبدیلی کی تباہی کے فرنٹ لائن پر ہیں جس کے ہم ذمے دار نہیں ، کوئی بھی ملک اتنی بڑی آفات کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔
کاپ 27 کے حوالے سے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انھوںنے کہاکہ کاپ 27 ایک وسیع فورم ہے جو فریم ورک ترتیب دیتا ہے، جو پاکستان میں ہوا وہ پاکستان تک محدود نہیں رہے گا، ماحولیاتی تبدیلی کی کوئی سرحدیں نہیں۔ وفاقی وزیر نے کہاکہ وزیراعظم COP27 میں لیڈر شپ سمٹ میں پاکستان کا موقف پیش کریں گے۔ وفاقی وزیر نے کہاکہ میں امید کرتی ہوںCOP27 میں شامل ہر پاکستانی بھرپور شرکت کرے گا۔
شیری رحمن نے کہاکہ ہم گرین ہاؤس گیسز کے اخراج میں 1 فیصد سے بھی کم حصہ دار ہیں، سیلاب سے 1700 لوگ جاں بحق ہونا اور 33 متاثر ہونادنیا کے لیے ایک ویک اپ کال ہے' ہم اس سال دنیا کے گرم ترین علاقے کا گھر تھے، ہمیں متعدد ماحولیاتی تبدیلیوں کے چیلنجز کا سامنا ہے۔
سندھ میں سیلاب سے70 فیصد سے زائد فصلیں تباہ ہو گئی ہیں، سردیوں میں درجہ حرارت بہت کم ہوگا جب کہ لوگ ابھی بھی کھلے آسمان تلے بیٹھے ہیں، ابھی بھی 2 کروڑ 60 لاکھ لوگ امداد کے منتظر ہیں، یہ تعداد سوئٹزرلینڈ اور پرتگال کی مجموعی آبادی سے بھی زیادہ ہے، کوئی بھی ملک اتنی بڑی آفات کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ ہمیں اس بحران سے نکلنے کے لیے کئی دہائیاں لگے گی، ہمیں سیلاب زدگان کی بحالی کے لیے وسائل درکار ہیں۔
پاکستان میں سیلاب کی تباہی سے جو صورت حال پیدا ہوئی ہے حکومت کی بھرپور کوشش ہے کہ دنیا کو اس صورتحال سے آگاہ کیا جائے تاکہ وہ مشکل کی اس گھڑی میں پاکستان کا ساتھ دیں لیکن پاکستان کو ایسی بہتر منصوبہ بندی کی جانب بڑھنا ہو گا تاکہ مستقبل میں ایسا کوئی سیلاب یا کوئی اور قدرتی آفت اتنی بڑی تباہی نہ پھیلا سکے۔
آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی زیرصدارت جی ایچ کیو میں 252 ویں کور کمانڈرز کانفرنس منعقد ہوئی۔ کانفرنس کے شرکاء نے موجودہ اندرونی اور بیرونی سیکیورٹی صورت حال اور فوج کی آپریشنل تیاریوں کا جامع جائزہ لیا۔ انھوں نے فارمیشنز کی آپریشنل تیاریوں پر اطمینان کا اظہار کیا۔
ادھرامریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ امریکی اور پاکستانی حکام باقاعدگی سے ایک دوسرے سے ملتے رہتے ہیں، ایسی ملاقاتیں اسٹینڈرڈ پریکٹس ہیں۔دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے پاکستان سے مضبوط شراکت داری چاہتے ہیں، انسداد دہشت گردی ہمارے مشترکہ مفادات کا حصہ ہے، عالمی اور علاقائی دہشت گرد تنظیموں کے خلاف پاکستان کے ایکشن کی توقع رکھتے ہیں۔
امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان ویدانت پٹیل نے پریس بریفنگ کے دوران کہا کہ پاکستانی سفیر کی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ میٹنگ پر ابھی کچھ نہیں کہہ سکتے۔انھوں نے کہا کہ بہت کم ممالک ایسے ہیں جو پاکستان کی طرح دہشتگردی سے متاثر ہوئے ہوں، انسداد دہشت گردی ہمارے مشترکہ مفادات کا حصہ ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ تحریک طالبان جیسی تنظیمیں خطے کے لیے خطرہ ہیں، دہشتگردی سے نمٹنے کے لیے پاکستان کے ساتھ مضبوط شراکت داری چاہتے ہیں۔ترجمان امریکی وزارت خارجہ نے مزید کہا کہ عالمی اور علاقائی دہشتگرد تنظیموں کے خلاف پاکستان کے ایکشن کی توقع رکھتے ہیں۔
امریکا کے سینئیر ڈیمو کریٹ سینیٹر کرس وان ہالن نے کہا ہے کہ صدر بائیڈن کا بیان بے ساختہ تھا، امریکی پالیسی میں کوئی ردوبدل نہیں۔اپنے بیان میں انھوں نے کہا کہ امریکی محکمہ خارجہ کی وضاحت سے یہی تاثر ملتا ہے کہ صدارتی بیان جان بوجھ کر نہیں دیا گیا تھا، ہم پاکستان کے ساتھ مستحکم تعلقات کے خواہاں ہیں۔
انھوں نے کہا کہ سیلاب اور اس سے نمٹنے کے اقدامات کے باعث دو طرفہ رابطوں میں اضافہ ہوا ہے۔سینیٹر کرس وان ہالن نے مزید کہا کہ امریکا مسلسل پاکستانی حکام کے ساتھ رابطے میں ہے کہ ان کی کس طرح مزید مدد کی جا سکتی ہے۔
پاکستان کے ایف 16طیاروں کی مرمت کے امریکی پیکیج کی راہ ہموار ہوگئی ہے۔ غیرملکی رپورٹس کے مطابق امریکی کانگریس نے پاکستانی ایف 16طیاروں کے دیکھ بھال پیکیج پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔
اس پروگرام کے لیے امریکی انتظامیہ سے منظوری کے بعد امریکی کانگریس سے توثیق لازم تھی۔طیاروں کی مرمت اور پرزوں کی خریداری کا پیکیج گزشتہ ماہ منظور کیا گیا تھا۔ پیکیج پر بھارت نے اعتراض کیا تھا جسے امریکا نے رد کردیا تھا۔
امریکا کی اوپیک پلس اتحاد کے تیل کی پیداوار میں کمی لانے کے فیصلے پر تنقید کے بعد پاکستان نے سعودی عرب سے اظہار یکجہتی کیا ہے۔
دفتر خارجہ ترجمان کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ہم مارکیٹ میں اتار چڑھاؤ سے بچنے اور عالمی اقتصادی استحکام کو یقینی بنانے کیلیے مملکت سعودی عرب کے خدشات کو سراہتے ہیں۔
ادھراوپیک پلس اتحاد (کارٹیل )کی قیادت کرنیوالے سعودی عرب اور روس نے حال ہی میں عالمی اقتصادی کساد بازاری کے خوف سے عالمی منڈیوں میں تیل کی قیمتوں میں کمی سے بچنے کیلیے خام تیل کی سپلائی میں 20 لاکھ بیرل یومیہ کمی کرنے کا فیصلہ کیاہے۔
تاہم امریکا نے اوپیک پلس کے فیصلے پر سخت رد عمل ظاہر کیاہے ،چونکہ یوکرائن تنازع کی وجہ سے سپلائی چین متاثرہوئی اور خام تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے اور اس سے پیٹرول مہنگا ہونے سے امریکی بھی متاثرہوئے ہیں۔بائیڈن چاہتے تھے کہ سعودی عرب تیل کی سپلائی بڑھائے تاکہ ہم مڈٹرم الیکشن سے قبل ملک میں قیمتیں کم ہو سکیں لیکن سعودی عرب نے تیل کی سپلائی میں کمی کے اقدام کی حمایت کردی،مغربی مبصرین کا خیال ہے کہ سعودی عرب نے واضح طور پر روس کا ساتھ دیا کیونکہ تیل کی قیمتوں میں اضافے کا فائدہ صرف روسی صدر ولادیمیر پوتن کو ہوگا۔
دلچسپ بات یہ کہ پاکستان خام تیل کی عالمی قیمتوں میں کمی کی بہت زیادہ امید کر رہا تھا کیونکہ اس سے مہنگائی سے متاثرہ عوام کو ریلیف دینے کے لیے حکومت کی کچھ پریشانی میں کمی آ جاتی لیکن اوپیک پلس کا فیصلہ پاکستان کی جدوجہد کرنیوالی معیشت کیلیے مزید مسائل پیدا کرسکتاہے۔
یاد رہے کہ روس سمیت آرگنائزیشن آف پیٹرولیم ایکسپورٹنگ کنٹریز (اوپیک) پلس میں شامل دیگر اتحادی ممالک نے رواں ماہ ویانا میں ایک اجلاس کے دوران تیل کی پیداوار میں یومیہ 20 لاکھ بیرل کمی پر اتفاق کیا تھااوراوپیک پلس کے اس فیصلے پر امریکا نے سخت لہجہ اختیار کیا تھااوراوپیک پلس کی طرف سے تیل کی پیداوار میں کمی کا اعلامیہ جاری ہونے کے بعد امریکی صدر جو بائیڈن نے تیل کی پیداوار میں کمی لانے کے لیے روس کی حمایت کرنے پر سعودی عرب پر جرمانہ عائد کرنے کا عزم کیا تھا۔
معروف عالمی جریدے فنانشل ٹائمز نے رپورٹ کیا ہے کہ تباہ کن اور ہلاکت خیز سیلاب نے ملک کے معاشی بحران کو مزید سنگین کردیا ہے جب کہ پاکستان عالمی قرض دہندگان سے اربوں ڈالرز کے مزید قرضوں کے لیے درخواست کرے گا۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کی خبر کے مطابق وزیر اعظم شہباز شریف نے فنانشل ٹائمز کو بتایا کہ ہم کسی قسم کے ایسے اقدامات جیسا کہ ری شیڈولنگ یا موریٹوریم کی بات نہیں کر رہے، ہم اضافی فنڈز طلب کر رہے ہیں۔فنانشل ٹائمز نے شہباز شریف کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ کیا کہ ملک کو میگا انڈرٹیکنگز جیسے سڑکوں، پلوں اور تباہ شدہ یا بہہ جانے والے دیگر انفراسٹرکچر کی تعمیر نو کے لیے بہت زیادہ رقم کی ضرورت ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وزیر اعظم نے یہ نہیں بتایا کہ پاکستان کتنی رقم طلب کر رہا ہے لیکن انھوں نے سیلاب سے ہونے والے 30 ارب ڈالر کے نقصانات کے تخمینے کو دہرایا۔رواں ماہ کے شروع میں اقوام متحدہ نے پاکستان کے لیے اپنی انسانی امداد کی اپیل کو 16 کروڑ ڈالر سے 5 گنا بڑھا کر 81 کروڑ 60 لاکھ ڈالر کر دیا تھا جب کہ پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں میں اضافے اور بھوک کے بڑھنے کے خدشے نے بد ترین سیلاب کے بعد نئے خطرات پیدا کردیے ہیں۔
ملک کی بد ترین صورتحال کے پیش نظر یورپی یونین نے بھی سیلاب متاثرین کے لیے اپنی امداد کو 3 کروڑ یورو تک بڑھا دیا تھا۔ وزیر برائے ماحولیاتی تبدیلی شیریں رحمن نے کہا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی اہداف بے معنی ہونگے اگر بند دروازوں میں بنائے جائیں گے،ہمارا سیارہ جل رہا ہے ، ہمیں ابھی اقدامات لینے کی ضرورت ہے، ہم ماحولیاتی تبدیلی کی تباہی کے فرنٹ لائن پر ہیں جس کے ہم ذمے دار نہیں ، کوئی بھی ملک اتنی بڑی آفات کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔
کاپ 27 کے حوالے سے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انھوںنے کہاکہ کاپ 27 ایک وسیع فورم ہے جو فریم ورک ترتیب دیتا ہے، جو پاکستان میں ہوا وہ پاکستان تک محدود نہیں رہے گا، ماحولیاتی تبدیلی کی کوئی سرحدیں نہیں۔ وفاقی وزیر نے کہاکہ وزیراعظم COP27 میں لیڈر شپ سمٹ میں پاکستان کا موقف پیش کریں گے۔ وفاقی وزیر نے کہاکہ میں امید کرتی ہوںCOP27 میں شامل ہر پاکستانی بھرپور شرکت کرے گا۔
شیری رحمن نے کہاکہ ہم گرین ہاؤس گیسز کے اخراج میں 1 فیصد سے بھی کم حصہ دار ہیں، سیلاب سے 1700 لوگ جاں بحق ہونا اور 33 متاثر ہونادنیا کے لیے ایک ویک اپ کال ہے' ہم اس سال دنیا کے گرم ترین علاقے کا گھر تھے، ہمیں متعدد ماحولیاتی تبدیلیوں کے چیلنجز کا سامنا ہے۔
سندھ میں سیلاب سے70 فیصد سے زائد فصلیں تباہ ہو گئی ہیں، سردیوں میں درجہ حرارت بہت کم ہوگا جب کہ لوگ ابھی بھی کھلے آسمان تلے بیٹھے ہیں، ابھی بھی 2 کروڑ 60 لاکھ لوگ امداد کے منتظر ہیں، یہ تعداد سوئٹزرلینڈ اور پرتگال کی مجموعی آبادی سے بھی زیادہ ہے، کوئی بھی ملک اتنی بڑی آفات کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ ہمیں اس بحران سے نکلنے کے لیے کئی دہائیاں لگے گی، ہمیں سیلاب زدگان کی بحالی کے لیے وسائل درکار ہیں۔
پاکستان میں سیلاب کی تباہی سے جو صورت حال پیدا ہوئی ہے حکومت کی بھرپور کوشش ہے کہ دنیا کو اس صورتحال سے آگاہ کیا جائے تاکہ وہ مشکل کی اس گھڑی میں پاکستان کا ساتھ دیں لیکن پاکستان کو ایسی بہتر منصوبہ بندی کی جانب بڑھنا ہو گا تاکہ مستقبل میں ایسا کوئی سیلاب یا کوئی اور قدرتی آفت اتنی بڑی تباہی نہ پھیلا سکے۔