یوٹیلیٹی بلوں کی درستگی کے مسائل
گیس کمپنی اور کے الیکٹرک کی میٹر چیکنگ کی اپنی لیبارٹریز ہیں جہاں ہمیشہ صارفین کے خلاف ہی رپورٹ دی جاتی ہے
وزیر اعظم شہباز شریف نے بجلی کے بلوں میں فیول ایڈجسٹمنٹ پہلے دو سو یونٹ اور بعد میں تین سو یونٹ تک ختم کرنے کا اعلان کرکے صارفین بجلی کو ایک نئی مشکل میں ڈال دیا اور ملک بھر میں بجلی کمپنیوں لیسکو، فیسکو، حیسکو، سیسکو، پیشکو و دیگر اور کے الیکٹرک کے دفاتر میں لوگوں کی لائنیں لگ گئی ہیں۔
بعد میں (ن) لیگی وزیر توانائی خرم دستگیر نے اپنے وزیر اعظم کے بیان کی تردید کرتے ہوئے اعلان کردیا کہ فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز معاف نہیں ہوں گے اور عوام خوش نہ ہوں ان سے یہ چارجز بعد میں وصول کیے جائیں گے اور بجلی کمپنیاں خود اس سلسلے میں نئے بل جاری کریں گی۔
دوسری بجلی کمپنیوں نے کیا کیا اس کا تو پتا نہیں یہ ضرور پتا چلا کہ ملک بھر میں بجلی کمپنیوں کے خلاف احتجاج ہو رہا ہے۔ کے الیکٹرک نے وزیر اعظم کے اعلان پر کوئی توجہ نہیں دی اور اپنے تمام دفاتر کے باہر لکھوا دیا ہے کہ دو سو یونٹوں تک فیول ایڈجسٹمنٹ کی رقم عارضی طور پر صرف اسی صورت کم کی جائے گی اگر صارفین نے گزشتہ 6 ماہ میں دو سو یونٹ بجلی استعمال کی ہوگی۔
بجلی کمپنی نے کراچی میں اپنے اخراجات کم کرنے کے لیے مراکز شکایات کی تعداد کم کردی تھی جس کی مثال گلشن اقبال، ایف بی ایریا اور نیو کراچی و دیگر ٹاؤنز ہیں کہ جہاں رسائی کے لیے طویل سفر کرکے وہاں پہنچا جاتا ہے تو اندر ہاؤس فل ہوتا ہے اور بیٹھنے کی جگہ نہیں ہوتی جس کی وجہ سے باہر لائنیں لگانا پڑتی ہیں اور سیکیورٹی گارڈز دو چار بندوں کے باہر آنے پر اتنے ہی لوگ اندر داخل ہونے دیتا ہے جس کو پہلے اندراج کراکر ٹوکن لینا پڑتا ہے اور رش کے باعث ایک گھنٹے سے زائد وقت انتظار کرنا پڑتا ہے۔
چار پانچ کاؤنٹروں میں ایک تو بند ہی ملتا ہے تمام کاؤنٹر مسلسل کام نہیں کرتے جس سے صارفین بجلی کو بیٹھ یا کھڑے ہو کر انتظار کرنا پڑتا ہے۔ کاؤنٹر پر دو تین منٹ اور انتظار میں گھنٹہ بھی لگ جاتا ہے اور کے الیکٹرک نے وزیر توانائی کے اعلان کے بعد بھی درست بل نہیں بھیجے ہیں جس کی وجہ سے رش بڑھ گیا ہے۔
کراچی کا گلبرگ ٹاؤن ایف بی ایریا کے 22 بلاکوں پر مشتمل ہے اور کریم آباد کے اطراف سے پاور ہاؤس بلاک 19 میں کے الیکٹرک کا مرکز شکایت سات آٹھ کلو میٹر دور ہے۔ میٹر خرابی کی شکایت درج کرانے کے لیے ایک صارف کا سوا گھنٹے بعد جب نمبر آیا تو کاؤنٹر پر بتایا گیا کہ برابر میں ٹیلی فون ہے جہاں سے آپ 3900 ملا کر اپنی شکایت درج کرا دیں۔
پہلے بجلی اور سوئی گیس دفاتر میں صارف اپنی تحریری شکایت وصول کرا کر ڈپلیکیٹ پر اپنی درخواست کی ریسیونگ لے کر اپنے پاس ریکارڈ رکھتے تھے مگر اب دونوں جگہ تحریری درخواستیں وصول ہی نہیں کی جاتیں اور متعلقہ فون نمبر یا آن لائن درج کرانے کے لیے کہا جاتا ہے جہاں مشکل سے ہی رابطہ ممکن ہوتا ہے۔
سوئی گیس کمپنی میں پہلے شکایات پر فوری توجہ دی جاتی تھی وہاں بھی اب ٹوکن لے کر وقت ضایع کرنے کے بعد شنوائی ہوتی ہے اور شکایات کا مہینوں جواب ہی نہیں دیا جاتا۔
بجلی کے شکایات مراکز میں افسروں سے ملنا ناممکن ہی ہو گیا ہے۔ اوور بلنگ کی شکایات بہادرآباد میں نیپرا کے دفتر میں وصول کرائی جاسکتی ہیں جہاں مہینوں بعد اسلام آباد سے نیپرا کے افسران آ کر شکایات کی سماعت کے الیکٹرک کے افسران کی موجودگی میں کرکے کچھ دادرسی کردیتے ہیں جب کہ سندھ حکومت کے الیکٹرک کے جو دو انسپکٹر مقرر ہیں وہاں اب عام صارف کی شکایت سنی ہی نہیں جاتی بلکہ فیکٹریوں اور ملز کی شکایات سنی جاتی ہیں۔
عام صارف کی شکایت کم ازکم پچاس ہزار روپے کی ہو تو نصف رقم اگر الیکٹرک انسپکٹر آفس میں جمع کرائی جائے تو درخواست وصول کرلی جاتی ہے اور شکایت درست ہو تو فیصلہ کرکے رقم واپسی کا بھی فیصلہ ہوتا ہے اور صارف کو مہینوں بجلی کے دفاتر جا کر بل درست کرانا پڑتے ہیں۔ بل درست کرنے کی بجائے صارف پر ہی بجلی و گیس چوری کے الزام لگا کر قسطیں کرا کے بل بھرنے کو کہا جاتا ہے۔
گیس کمپنی اور کے الیکٹرک کی میٹر چیکنگ کی اپنی لیبارٹریز ہیں جہاں ہمیشہ صارفین کے خلاف ہی رپورٹ دی جاتی ہے اور دونوں جگہ اپنے میٹر درست قرار دے کر صارفین پر میٹر سلو کا الزام لگا دیا جاتا ہے اور اضافی بل بھیج دیے جاتے ہیں اور کبھی میٹر تیز ہونے کی شکایت رفع نہیں کی جاتی۔
عمران خان کی حکومت میں گیس کے ہزاروں روپے کے جو اضافی بل آئے تھے جن کی درستگی کا وزیر اعظم نے اعلان بھی کیا تھا وہ اعلان ابھی تک عمل سے محروم ہے اور صارفین سے کروڑوں روپے جو زائد وصول کیے گئے تھے وہ تین سال میں بھی واپس نہیں ہوئے۔ صارفین بجلی و گیس کے لیے بلوں کی درستگی انتہائی تکلیف کا باعث بنی ہوئی ہے۔
بعد میں (ن) لیگی وزیر توانائی خرم دستگیر نے اپنے وزیر اعظم کے بیان کی تردید کرتے ہوئے اعلان کردیا کہ فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز معاف نہیں ہوں گے اور عوام خوش نہ ہوں ان سے یہ چارجز بعد میں وصول کیے جائیں گے اور بجلی کمپنیاں خود اس سلسلے میں نئے بل جاری کریں گی۔
دوسری بجلی کمپنیوں نے کیا کیا اس کا تو پتا نہیں یہ ضرور پتا چلا کہ ملک بھر میں بجلی کمپنیوں کے خلاف احتجاج ہو رہا ہے۔ کے الیکٹرک نے وزیر اعظم کے اعلان پر کوئی توجہ نہیں دی اور اپنے تمام دفاتر کے باہر لکھوا دیا ہے کہ دو سو یونٹوں تک فیول ایڈجسٹمنٹ کی رقم عارضی طور پر صرف اسی صورت کم کی جائے گی اگر صارفین نے گزشتہ 6 ماہ میں دو سو یونٹ بجلی استعمال کی ہوگی۔
بجلی کمپنی نے کراچی میں اپنے اخراجات کم کرنے کے لیے مراکز شکایات کی تعداد کم کردی تھی جس کی مثال گلشن اقبال، ایف بی ایریا اور نیو کراچی و دیگر ٹاؤنز ہیں کہ جہاں رسائی کے لیے طویل سفر کرکے وہاں پہنچا جاتا ہے تو اندر ہاؤس فل ہوتا ہے اور بیٹھنے کی جگہ نہیں ہوتی جس کی وجہ سے باہر لائنیں لگانا پڑتی ہیں اور سیکیورٹی گارڈز دو چار بندوں کے باہر آنے پر اتنے ہی لوگ اندر داخل ہونے دیتا ہے جس کو پہلے اندراج کراکر ٹوکن لینا پڑتا ہے اور رش کے باعث ایک گھنٹے سے زائد وقت انتظار کرنا پڑتا ہے۔
چار پانچ کاؤنٹروں میں ایک تو بند ہی ملتا ہے تمام کاؤنٹر مسلسل کام نہیں کرتے جس سے صارفین بجلی کو بیٹھ یا کھڑے ہو کر انتظار کرنا پڑتا ہے۔ کاؤنٹر پر دو تین منٹ اور انتظار میں گھنٹہ بھی لگ جاتا ہے اور کے الیکٹرک نے وزیر توانائی کے اعلان کے بعد بھی درست بل نہیں بھیجے ہیں جس کی وجہ سے رش بڑھ گیا ہے۔
کراچی کا گلبرگ ٹاؤن ایف بی ایریا کے 22 بلاکوں پر مشتمل ہے اور کریم آباد کے اطراف سے پاور ہاؤس بلاک 19 میں کے الیکٹرک کا مرکز شکایت سات آٹھ کلو میٹر دور ہے۔ میٹر خرابی کی شکایت درج کرانے کے لیے ایک صارف کا سوا گھنٹے بعد جب نمبر آیا تو کاؤنٹر پر بتایا گیا کہ برابر میں ٹیلی فون ہے جہاں سے آپ 3900 ملا کر اپنی شکایت درج کرا دیں۔
پہلے بجلی اور سوئی گیس دفاتر میں صارف اپنی تحریری شکایت وصول کرا کر ڈپلیکیٹ پر اپنی درخواست کی ریسیونگ لے کر اپنے پاس ریکارڈ رکھتے تھے مگر اب دونوں جگہ تحریری درخواستیں وصول ہی نہیں کی جاتیں اور متعلقہ فون نمبر یا آن لائن درج کرانے کے لیے کہا جاتا ہے جہاں مشکل سے ہی رابطہ ممکن ہوتا ہے۔
سوئی گیس کمپنی میں پہلے شکایات پر فوری توجہ دی جاتی تھی وہاں بھی اب ٹوکن لے کر وقت ضایع کرنے کے بعد شنوائی ہوتی ہے اور شکایات کا مہینوں جواب ہی نہیں دیا جاتا۔
بجلی کے شکایات مراکز میں افسروں سے ملنا ناممکن ہی ہو گیا ہے۔ اوور بلنگ کی شکایات بہادرآباد میں نیپرا کے دفتر میں وصول کرائی جاسکتی ہیں جہاں مہینوں بعد اسلام آباد سے نیپرا کے افسران آ کر شکایات کی سماعت کے الیکٹرک کے افسران کی موجودگی میں کرکے کچھ دادرسی کردیتے ہیں جب کہ سندھ حکومت کے الیکٹرک کے جو دو انسپکٹر مقرر ہیں وہاں اب عام صارف کی شکایت سنی ہی نہیں جاتی بلکہ فیکٹریوں اور ملز کی شکایات سنی جاتی ہیں۔
عام صارف کی شکایت کم ازکم پچاس ہزار روپے کی ہو تو نصف رقم اگر الیکٹرک انسپکٹر آفس میں جمع کرائی جائے تو درخواست وصول کرلی جاتی ہے اور شکایت درست ہو تو فیصلہ کرکے رقم واپسی کا بھی فیصلہ ہوتا ہے اور صارف کو مہینوں بجلی کے دفاتر جا کر بل درست کرانا پڑتے ہیں۔ بل درست کرنے کی بجائے صارف پر ہی بجلی و گیس چوری کے الزام لگا کر قسطیں کرا کے بل بھرنے کو کہا جاتا ہے۔
گیس کمپنی اور کے الیکٹرک کی میٹر چیکنگ کی اپنی لیبارٹریز ہیں جہاں ہمیشہ صارفین کے خلاف ہی رپورٹ دی جاتی ہے اور دونوں جگہ اپنے میٹر درست قرار دے کر صارفین پر میٹر سلو کا الزام لگا دیا جاتا ہے اور اضافی بل بھیج دیے جاتے ہیں اور کبھی میٹر تیز ہونے کی شکایت رفع نہیں کی جاتی۔
عمران خان کی حکومت میں گیس کے ہزاروں روپے کے جو اضافی بل آئے تھے جن کی درستگی کا وزیر اعظم نے اعلان بھی کیا تھا وہ اعلان ابھی تک عمل سے محروم ہے اور صارفین سے کروڑوں روپے جو زائد وصول کیے گئے تھے وہ تین سال میں بھی واپس نہیں ہوئے۔ صارفین بجلی و گیس کے لیے بلوں کی درستگی انتہائی تکلیف کا باعث بنی ہوئی ہے۔