جمہوریت کی بالادستی
جب تک سپریم کورٹ یہ آئینی تنازعات طے نہیں کرتی، سوال رہیں گے
پاکستان میں عدالتی ریفارمز کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ملک میں ایسی باتیں بھی اکثر و بیشتر زیر بحث رہتی ہیں کہ عدلیہ سمیت تمام ریاستی اداروں کو آئین وقانون کے اندر رہ کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
پارلیمنٹیرینز اور قانونی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ آئین و قانون بنانا اور اس میں ترمیم کرنے کا اختیار پارلیمنٹ کو حاصل ہے۔
باقی کسی ادارے کو آئین و قانون میں اضافے یا کمی کا کوئی اختیار نہیں۔ محترم جج صاحبان صرف آئین وقانون کے مطابق فیصلے کرتے ہیں، چاہے آئین وقانون ان کے ضمیر کے مطابق نہ بھی ہوکیونکہ آئین وقانون کو اانسانی ضمیر پر بالادستی حاصل ہوتی ہے۔
اگر ضمیر اور آئین وقانون باہم متصادم بھی ہوں 'تب بھی آئین وقانون کو ہی بالا دستی حاصل ہے۔ کئی بارایسا بھی ہوا ہے کہ کسی محترم جج صاحب نے ضمیر سے برعکس فیصلہ ہونے کے امکان پر مستعفی ہونے کو ترجیح دی ہے کیونکہ آئین وقانون سے ہٹا نہیں جا سکتا۔
آئین کی اصل روح کو برقرار رکھنا ہی اعلیٰ عدلیہ کا فرض ہوتا ہے۔اعلیٰ عدلیہ حتی المقدور کوشش کرتی ہے کہ ایسا فیصلہ نہ کیا جائے جو آئین کی اصل روح میں ترمیم کا باعث بنے کیونکہ قانونی اور عوامی حلقوں میں ایسے فیصلوں کو پذیرائی نہیں ملتی۔ اچھے اور برے قانون کی تمیز کرنا بھی پارلیمنٹ کا کام ہے۔
ہمارے ہاں سپریم کورٹ میں نئے ججز کی تعیناتی کا تنازعہ بھی عجیب ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ سنیارٹی کے اصول کو کیوں نظر انداز کیا جاتا ہے۔
جب کوئی جج ہائی کورٹ کا جج بننے کا اہل ہے تو وہ سپریم کورٹ کا جج بننے کا کیوں اہل نہیں۔ جب کوئی ہائی کورٹ کا چیف جسٹس بننے کا اہل ہے تو وہ سپریم کورٹ کا جج بننے کا اہل کیوں نہیں۔ جب ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بننے اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بننے کے لیے سنیارٹی کے اصول پر عمل کیا جاتا ہے تو ہائی کورٹ سے سپریم کورٹ میں جانے کے لیے سنیارٹی کے اصول پر عمل کیوں نہیں کیا جاتا۔ سنیارٹی کے اصول کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے کیونکہ ججز کی سپریم کورٹ میں تعیناتی پر بحث ہونا بھی نظام انصاف کے لیے نقصان دہ ہے۔
جیوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں تنازعات کی خبریں باہر آنا کوئی عدلیہ کے مفاد میں نہیں ہے لہٰذا ججز کی تعیناتی میں ابہام ختم ہونا چاہیے' ایک ایسا طریقہ ہونا چاہیے جس پر سب کو اعتماد ہو۔ اب جیوڈشل کمیشن کا نیا اجلاس بلایا گیا ہے۔ جس میں نئے نام زیر غور آرہے ہیں۔
عدالتی بنچز کے قیام میں بھی اصلاحات ہونی چاہییں' اس حوالے سے تمام اسٹیک ہولڈرز کے خدشات دور ہونے چاہیے۔
یہ سوال بھی اہم ہے کہ حکومتوں کی تبدیلی کے مقدمات میں بھی اگر لارجر بنچ نہیں بننا تو کب بننا ہے۔ ویسے تو اس سے چھوٹے معاملات پر ہم نے لارجر بنچ دیکھے ہیں تو پھر پنجاب حکومت کے مستقبل پر لارجر بنچ کا نہ بننا نا قابل فہم ہے۔ مجھے امید ہے کہ اس حوالے سے نظر ثانی میں لارجر بنچ بنا کر تنازعہ ختم کیا جائے گا۔
اعلیٰ عدلیہ کے چند حالیہ فیصلوں پر اختلافی رائے بھی سامنے آئی ہے۔خصوصاً عدم اعتماد پر پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دینے والے ارکان کا ووٹ نہ گننے کے فیصلے پر بہت بحث ہو رہی ہے۔ قانونی ماہرین کی رائے میں اگر ووٹ نہ گننا مقصود ہوتا تو آئین بنانے والے لکھ دیتے کہ ووٹ شمار نہیں ہوگا۔ لیکن آئین میں لکھا ہے کہ ووٹ ڈالنے کے بعد نا اہلی ہوگی۔
اس لیے ووٹ شمار ہوگا پھر نا اہلی ہوگی۔ اسی لیے ووٹ شمار نہ کرنے کا فیصلہ تا حال موضوع بحث بنا ہوا ہے۔
اسی طرح پارلیمانی لیڈر اور پارٹی صدر میں سے کس کی بات حتمی ہے، اس پر بھی ابہام اور سوال ہیں' یہ ابہام بھی سپریم کورٹ کو دور کردینا چاہیے۔
نظر ثانی کی درخواستیں سپریم کورٹ میں دائر ہیں' جب تک سپریم کورٹ یہ آئینی تنازعات طے نہیں کرتی، سوال رہیں گے۔ جیوڈشل ایکٹوزم نے نہ کل عدلیہ کو نیک نامی دی تھی نہ ہی آج دے رہی ہے۔
پارلیمنٹ نے نیب قوانین میں ترامیم کی ہیں۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے سپریم کورٹ میں ان ترامیم کو چیلنج کیاہے۔ آجکل اس کی سماعت جاری ہے۔ قانون دان حلقوں میں یہ رائے پختہ ہے کہ قانون میں ترمیم کرنے کا اختیار پارلیمنٹ کے پاس ہے۔
قانون اچھا ہے یا برا یہ پارلیمنٹ کا کام ہے۔کسی ادارے یا عہدے کو استثنا ء ہے' کیوں ہے یہ طے کرنا بھی پارلیمنٹ کا کام ہے۔ یہ پارلیمنٹ کا کام ہے کہ وہ کس کو استثنا ء دینا چاہتی ہے کس کو نہیں دینا چاہتی یا یہی جمہوریت کی بالادستی ہے۔
پارلیمنٹیرینز اور قانونی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ آئین و قانون بنانا اور اس میں ترمیم کرنے کا اختیار پارلیمنٹ کو حاصل ہے۔
باقی کسی ادارے کو آئین و قانون میں اضافے یا کمی کا کوئی اختیار نہیں۔ محترم جج صاحبان صرف آئین وقانون کے مطابق فیصلے کرتے ہیں، چاہے آئین وقانون ان کے ضمیر کے مطابق نہ بھی ہوکیونکہ آئین وقانون کو اانسانی ضمیر پر بالادستی حاصل ہوتی ہے۔
اگر ضمیر اور آئین وقانون باہم متصادم بھی ہوں 'تب بھی آئین وقانون کو ہی بالا دستی حاصل ہے۔ کئی بارایسا بھی ہوا ہے کہ کسی محترم جج صاحب نے ضمیر سے برعکس فیصلہ ہونے کے امکان پر مستعفی ہونے کو ترجیح دی ہے کیونکہ آئین وقانون سے ہٹا نہیں جا سکتا۔
آئین کی اصل روح کو برقرار رکھنا ہی اعلیٰ عدلیہ کا فرض ہوتا ہے۔اعلیٰ عدلیہ حتی المقدور کوشش کرتی ہے کہ ایسا فیصلہ نہ کیا جائے جو آئین کی اصل روح میں ترمیم کا باعث بنے کیونکہ قانونی اور عوامی حلقوں میں ایسے فیصلوں کو پذیرائی نہیں ملتی۔ اچھے اور برے قانون کی تمیز کرنا بھی پارلیمنٹ کا کام ہے۔
ہمارے ہاں سپریم کورٹ میں نئے ججز کی تعیناتی کا تنازعہ بھی عجیب ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ سنیارٹی کے اصول کو کیوں نظر انداز کیا جاتا ہے۔
جب کوئی جج ہائی کورٹ کا جج بننے کا اہل ہے تو وہ سپریم کورٹ کا جج بننے کا کیوں اہل نہیں۔ جب کوئی ہائی کورٹ کا چیف جسٹس بننے کا اہل ہے تو وہ سپریم کورٹ کا جج بننے کا اہل کیوں نہیں۔ جب ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بننے اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بننے کے لیے سنیارٹی کے اصول پر عمل کیا جاتا ہے تو ہائی کورٹ سے سپریم کورٹ میں جانے کے لیے سنیارٹی کے اصول پر عمل کیوں نہیں کیا جاتا۔ سنیارٹی کے اصول کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے کیونکہ ججز کی سپریم کورٹ میں تعیناتی پر بحث ہونا بھی نظام انصاف کے لیے نقصان دہ ہے۔
جیوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں تنازعات کی خبریں باہر آنا کوئی عدلیہ کے مفاد میں نہیں ہے لہٰذا ججز کی تعیناتی میں ابہام ختم ہونا چاہیے' ایک ایسا طریقہ ہونا چاہیے جس پر سب کو اعتماد ہو۔ اب جیوڈشل کمیشن کا نیا اجلاس بلایا گیا ہے۔ جس میں نئے نام زیر غور آرہے ہیں۔
عدالتی بنچز کے قیام میں بھی اصلاحات ہونی چاہییں' اس حوالے سے تمام اسٹیک ہولڈرز کے خدشات دور ہونے چاہیے۔
یہ سوال بھی اہم ہے کہ حکومتوں کی تبدیلی کے مقدمات میں بھی اگر لارجر بنچ نہیں بننا تو کب بننا ہے۔ ویسے تو اس سے چھوٹے معاملات پر ہم نے لارجر بنچ دیکھے ہیں تو پھر پنجاب حکومت کے مستقبل پر لارجر بنچ کا نہ بننا نا قابل فہم ہے۔ مجھے امید ہے کہ اس حوالے سے نظر ثانی میں لارجر بنچ بنا کر تنازعہ ختم کیا جائے گا۔
اعلیٰ عدلیہ کے چند حالیہ فیصلوں پر اختلافی رائے بھی سامنے آئی ہے۔خصوصاً عدم اعتماد پر پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دینے والے ارکان کا ووٹ نہ گننے کے فیصلے پر بہت بحث ہو رہی ہے۔ قانونی ماہرین کی رائے میں اگر ووٹ نہ گننا مقصود ہوتا تو آئین بنانے والے لکھ دیتے کہ ووٹ شمار نہیں ہوگا۔ لیکن آئین میں لکھا ہے کہ ووٹ ڈالنے کے بعد نا اہلی ہوگی۔
اس لیے ووٹ شمار ہوگا پھر نا اہلی ہوگی۔ اسی لیے ووٹ شمار نہ کرنے کا فیصلہ تا حال موضوع بحث بنا ہوا ہے۔
اسی طرح پارلیمانی لیڈر اور پارٹی صدر میں سے کس کی بات حتمی ہے، اس پر بھی ابہام اور سوال ہیں' یہ ابہام بھی سپریم کورٹ کو دور کردینا چاہیے۔
نظر ثانی کی درخواستیں سپریم کورٹ میں دائر ہیں' جب تک سپریم کورٹ یہ آئینی تنازعات طے نہیں کرتی، سوال رہیں گے۔ جیوڈشل ایکٹوزم نے نہ کل عدلیہ کو نیک نامی دی تھی نہ ہی آج دے رہی ہے۔
پارلیمنٹ نے نیب قوانین میں ترامیم کی ہیں۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے سپریم کورٹ میں ان ترامیم کو چیلنج کیاہے۔ آجکل اس کی سماعت جاری ہے۔ قانون دان حلقوں میں یہ رائے پختہ ہے کہ قانون میں ترمیم کرنے کا اختیار پارلیمنٹ کے پاس ہے۔
قانون اچھا ہے یا برا یہ پارلیمنٹ کا کام ہے۔کسی ادارے یا عہدے کو استثنا ء ہے' کیوں ہے یہ طے کرنا بھی پارلیمنٹ کا کام ہے۔ یہ پارلیمنٹ کا کام ہے کہ وہ کس کو استثنا ء دینا چاہتی ہے کس کو نہیں دینا چاہتی یا یہی جمہوریت کی بالادستی ہے۔