عمران خان کی دھرنا سیاست

بہت ہوچکا، عمران خان اب اس دھرنا سیاست کو ختم کریں اور پاکستانی عوام پر مزید ظلم نہ کریں

ملک کی سڑکوں کو بند کرنا اور عوام کو پریشان کرنا کہاں کا انصاف ہے؟ (فوٹو: فائل)

سنا تھا سیاست دان کے ہاتھ عوام کی نبض پر ہوتے ہیں کہ عوام کیا چاہتے ہیں، لہٰذا وہ اسی نہج پر خود کو ڈھال لیتا ہے اور آواز خلق کو نقارہ خدا سمجھتے ہوئے اپنے پتے کھیلتا ہے، جس میں ہار جیت کا ہر پہلو سامنے ہوتا ہے اور ان پہلوؤں کو بھی مدنظر رکھتے ہیں۔ لیکن یہ سب ہارے ہوئے سیاست دان کے لیے ہوتے ہیں کیونکہ اس کے پاس کھونے کےلیے کچھ نہیں ہوتا۔ ہر بازی اس کی پہنچ سے دور ہورہی ہوتی ہے۔

میرے ہم وطن پہلے ہی مہنگائی، بدامنی اور ناانصافی اور غنڈہ گردی میں گھرے ہوئے ہیں۔ ہر شخص اپنے بچوں کو پالنے کےلیے مشکل ترین حالات سے گزر رہا ہے۔ غریب کو اپنے بچوں کےلیے تعلیم اور بھوک سے جنگ کرنا پڑرہی ہے اور بعض اوقات تو شام کو جب خالی ہاتھ لوٹتا ہے تو اپنے بچوں کا سامنا کرتے ہوئے بھی مشکل درپیش ہوتی ہے۔ عوام چاہتے ہیں کہ انہیں کوئی مخلص لیڈر ملے تاکہ وہ ملک کے حالات بدل کر عوام الناس کو صحت عامہ اور دیگر سہولتیں فراہم کرے۔ اس میں کوئی شک والی بات نہیں کہ پاکستانی قوم سیاست دانوں کے ہاتھوں بے شک دھوکا کھا جاتی ہے لیکن محنت کرنے کی عادی ہے۔ انہیں جو بھی حکمران میسر آئے یہ اس کی زیرنگرانی ملک کی خدمت میں مصروف ہوجاتی ہے اور گزشتہ تمام مظالم اور دھوکے کو یکسر بھول جاتی ہے۔

اس ملک کے عوام کو زرداریوں، شریفوں، چوہدریوں، خانوں اور بیوروکریسی یا اشرافیہ سے کوئی غرض نہیں رہی تاہم اس قوم کو اپنے ملک اور اپنی آنے والی نسلوں سے ضرور محبت ہے اور اسی بات کو لے کر یہ آج تک بغیر کوئی شکوہ اور شکایت کیے اپنی محنت جاری رکھے ہوئے ہے اور محنت و کوشش کررہے ہیں کہ ہماری آئندہ نسلوں کی زندگی ان فتنوں سے بچ کر اپنے ملک کے مستقبل کو روشن کرے۔ میں نے بہت سے ایسے گھرانوں کو دیکھا ہے جنہوں نے اپنی بھوک کو نہیں دیکھا لیکن بچوں کی تعلیم کےلیے لازمی جدوجہد کی ہے۔

لیکن کیا یہ سب باتیں عمران خان کے سامنے نہیں ہیں جو وہ برسوں سے دھرنا سیاست کررہے ہیں؟ یہاں تک کہ وزیراعظم ہوتے ہوئے بھی وہ دھرنا بخار سے باہر نہیں آسکے۔ یہ سلسلہ 2013 کے الیکشن سے شروع ہوا، جو عمران خان نے ہارا تھا یا ہروا دیا گیا تھا، یہ باتیں آج بھی ہورہی ہیں اور ہوتی رہیں گی۔ لیکن سرراہ جو بات ہے وہ کل کے فیصلے کی ہے۔ الیکشن کمیشن نے توشہ خانہ ریفرنس میں محفوظ کیا گیا فیصلہ سناتے ہوئے خان صاحب کو نااہل قرار دے دیا۔ فیصلہ تو ابھی آیا ہے لیکن تحریک انصاف کے سوشل میڈیا سیل والے اسے پہلے ہی غلط اور کالا فیصلہ قرار دے چکے ہیں اور انہیں سو فیصد امید تھی کہ توشہ خانہ فیصلہ خان صاحب کے حق میں نہیں ہوگا۔ کیوں نہیں ہوگا، اس کا بھی انہیں علم تھا کہ کالا فیصلہ اسی وقت آتا ہے جب دال میں کچھ کالا ہوتا ہے۔

اب تان کہاں پہنچ کر ٹوٹے گی، اس کا تو علم نہیں کیونکہ جس الیکشن کمیشن نے خان صاحب کو ہفتہ پہلے 6 سیٹیں دی تھیں، اسی الیکشن کمیشن نے عمران خان کو نااہل قرار دے دیا ہے۔ یا تو خان صاحب ان 6 سیٹوں کی جیت کو کالعدم قرار دے دیتے اور موجودہ الیکشن کمیشن کے تحت الیکشن ہی نہ لڑتے، کیونکہ انہیں اس کا پہلے ہی علم تھا کہ فیصلہ میرے خلاف ہی آئے گا۔


اب خان صاحب ہر طرف سے گھیرے میں ہیں کہ الیکشن کمیشن کے تحت ہونے والا ضمنی الیکشن تو ٹھیک تھا اور 21 ستمبر 2022 والا فیصلہ غلط ہے۔ اگر تحریک انصاف والوں کی بات مان لی جائے کہ یہ فیصلہ غلط ہے تو اس کےلیے تحریک انصاف کے پاس بہت سے آپشن ہیں۔ وہ سپریم کورٹ میں جائیں اور اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کریں اور پھر اپنے دلائل سے، اپنے ثبوتوں سے اس فیصلے کو غلط قرار دلوائیں تاکہ دودھ اور پانی کا فرق معلوم ہوجائے۔

اس فیصلے کی آڑ میں ملک کی سڑکوں کو بند کرنا اور عوام کو پریشان کرنا کہاں کا انصاف ہے؟ کیا یہ فیصلہ عوام نے دیا ہے یا کسی حلقے نے دیا ہے یا کسی صوبے نے دیا ہے؟

پنجاب اور خیبرپختونخوا میں خان صاحب کی حکومت ہے اور یہ بھی تاریخ میں پہلی بار ہوگا کہ کسی صوبے کی حکومت نے خود ہی عوام کےلیے سڑکیں اور روڈ بند کردیے ہوں۔ اگر خان صاحب چور نہيں ہیں تو ان کے پاس وکیلوں کی فوج ہے، وہ اسے لے کر سپریم کورٹ جائیں اور وہاں دھرنا دیں۔ الیکشن کمیشن جائیں اور وہاں اپنا احتجاج ریکارڈ کروائيں لیکن خدارا خلق خدا کو تنگ نہ کریں۔ پاکستانی عوام کو تنگ نہ کریں۔ اسی عوام نے آپ کو دو صوبوں اور وفاق میں حکومت دلوائی تھی اور اسی الیکشن کمیشن نے حالیہ ضمنی انتخابات میں بغیر دھاندلی کے آپ کو 6 سیٹوں کا تحفہ بھی دیا ہے۔

لہٰذا خان صاحب سے درخواست ہے کہ وہ اپنا غصہ اداروں کی طرف لے جائیں نہ کہ عوام کو روندھیں اور انہيں ذلیل کریں۔ بہت ہوچکا، عمران خان اب اس دھرنا سیاست کو ختم کریں اور پاکستانی عوام جو پہلے ہی تنگ دستی، غربت، مہنگائی اور بھوک سے تنگ ہیں اور اپنے ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہے ہیں، ان پر مزید ظلم نہ کریں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story