’’نغمہ حمد‘‘ اور سچے فکر سخن کا شاعر‘محمد اقبال نجمی

محمداقبال نجمی گوجرانوالہ کے ادبی منظر نامے کی وہ ممتازشخصیت ہے جو ہمیشہ سے سچے فکرسخن کی قائل رہی ہے، داد سخن کی نہیں

اللہ تعالیٰ کی تعریف و توصیف ہر زمانے میں ہوتی رہی ہے، یہ ایک لامتناہی سلسلہ ہے۔

عربی کا لفظ''حمد'' اللہ تعالیٰ کی تحمید و تمجید کے لیے مختص ہو گیا ہے، جس کے لیے حمدیہ شاعری نے ایک مستقل صنف سخن کی صورت اختیار کر لی ہے۔ دنیا کی ہر زبان کے شاعروں نے اللہ تعالیٰ کی حمدو ثنا کو پیشِ نظر رکھا اور اُسے یاد کیا ہے۔

اپنی تعریف اور حمدو ثنا کے بارے میں خود ذاتِ باری تعالیٰ نے قرآنِ مجیدفرقانِ حمید میں فرمایا''اگر زمین پر موجود تمام درختوں کی شاخوں سے قلم بنا لیے جائیں اور سمندروں کے پانی کو سیاہی کے طور پر استعمال کیا جائے تب بھی میری یعنی اللہ کی باتیں(حمدو ثنا) ختم نہ ہوں گی۔''

اُردو زبان میں جب سے شاعری کا آغاز ہُوا تبھی سے حمد لکھی گئی لیکن حمد سے زیادہ توجہ نعت پر دی گئی،مگر آج جس انداز سے حمد کہی جا رہی ہے اس سے اُردو ادب کے دامن میں حمدیہ ادب نے کافی جگہ بنا لی ہے۔

اہل دانش کا خیال ہے کہ''ہمیں ابتدائی حمد کے جو نمونے ملتے ہیں وہ صوفیانہ طرزِ خیال لیے ہوئے ہیں اس کے ساتھ ہی اخلاقیات کے مضامین میں حمد رچی بسی نظر آتی ہے اور پھر مناجات کے رنگ میں حمد بیان کی جاتی رہی ہے یہ سارے بالواسطہ حمد کے رنگ ہیں۔''

غزل، نظم، قصیدہ، مثنوی، مرثیہ، رباعی، قطعات،نامے تمام تر شعری اصناف میں حمد موجود ہیں اس کے علاوہ بیرونی اصناف میں بھی حمد کے کافی رنگ ملتے ہیں جیسے حمدیہ سانیٹ، حمدیہ ہائیکو، حمدیہ دوہے اور حمدیہ ماہیے شامل ہیں۔

ہر صنف ِ شاعری کا اپنا رنگ ہے، اپنی خوشبو ہے اور اپنا ذائقہ ہے لیکن محمد اقبال نجمی کے حمدیہ شعری مجموعہ ''نغمہ حمد'' ان اصنافِ سخن پر مشتمل ہے جن میں حمدیہ ہائیکوز، حمدیہ رباعیات، پابندو آزاد حمد یہ منظومات، حمدیہ دوہے، حمدیہ سائنٹ اور بچوں کے لیے حمدیہ نظمیں گیتوں کی صورت میں شامل ہیں۔

ان کے حمدیہ کلام سے یہ پتہ چلتا ہے کہ انھوں نے قرآن و احادیث کا گہرا مطالعہ کیا ہوا ہے اس لیے تو ان کے کلام میں قرآن وسنت کی روشنی میں کہے گئے اشعار میں پاکیزہ جذبوں کی ترجمانی معلوم ہوتے ہیں۔ ان کا کلام اسلامی روایات و اخلاقیات کا معطر گلدستہ دکھائی دیتا ہے۔ ایسے میں دو اشعار ملاحظہ کیجیے۔

قرآن نے بتلایا ہمیں تیرا تعارف
فطرت کی لگن میں ہے تری یاد کی مشعل

......

موسموں کے رنگ سارے بھر لیے اس آنکھ میں
اور پھر اس مہرباں کی میں رضا لکھنے لگا

''نغمہ حمد'' میں محمد اقبال نجمی اپنے ذہن میں تخلیق پانے والے حمدیہ موضوعات کو نہایت عمدگی اور سادگی کے ساتھ پیکرِ اشعار میں ڈھال کراپنے خالقِ کائنات سے اپنی والہانہ عقیدت اور محبت کااظہار کیا ہے۔اس حوالے سے ڈاکٹر بشیر عابد لکھتے ہیں کہ''نغمہ حمد میں خالقِ اکبر کی عظمتوں کا اقرار لفظ در لفظ بکھرا ہوا ہے، شعر درد شعر نکھرا ہوا ہے۔


محمد اقبال نجمی کے حمدیہ کلام کی خوبی یہ ہے جب ہم اس کا مطالعہ کرتے ہیں تو ذات سے لے کر کائنات تک کی اٹل حقیقتوں کا ادراک ہوتا چلا جاتا ہے، ایسے لگتا ہے جیسے محمد اقبال نجمی نے اپنی ذات کے سفر کو کائنات کی وسعتوں میں عرفان الٰہی کے تجسس کے لیے وقف کر رکھا ہے۔''

وہی سازِ ازل میں ہے وہ ہر تارِ نفس میں ہے
اُسی کی ہر طرف باتیں اُسی کا ہر طرف نغمہ

''نغمہ حمد'' اللہ تعالیٰ کی تعریف و ثنا میں لکھے گئے'' نغماتِ حمد '' ہیں۔محمد اقبال نجمی کو جب اشرف المخلوقات کا درجہ عطا ہوا ، تو انھوں نے تعلیم و تربیت کے مراحل سے گزرتے ہوئے جب قلم اور کاغذ پکڑا تو اپنی دانائی اور نورِ علم کے موتی باوضو ہو کر ایک تسبیح کی مانند پرونا شروع کر دیے، جن کی چمک دمک ان اشعار میں دیکھی جا سکتی ہیں۔

تو وہ کل ہے جس کے جز کی ختم نہ ہوں صفات
اس دنیا کی ہر شے فانی باقی تری ذات

......

ڈھانپ دیتا ہے سیاہی سے وہ سارا منظر
نورِ خورشید سے پھر اُس کو ضیا کرتا ہے

......

تیری ہی محبت کے سہارے ہوں میں جیتا
یہ فضل ہے تیرا یہ تری خاص عطا ہیں

''نغمہ حمد'' میں تین نظمیں، بعنوان ''پہچان، تحمید اور اے خدا میرے خدا، شامل ہیں جن میں محمد اقبال نجمی کی عاجزی اور انکساری کا برملا اظہار ملتا ہے۔ نظم ''پہچان'' میں ان کا فکری سوچ ، تخیل کی بلندی اور زبان و بیان کا لب و لہجہ بالکل منفردملتا ہے۔اس نظم میں شاعر موصوف اپنے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ ِ رحمت میں اپنی داخلی، وجدانی اور روحانی کیفیت کو بیان کرتے ہُوئے نظر آتے ہیں۔محمد اقبال نجمی کا شعری مجموعہ ''نغمہ حمد'' نغماتِ حمد کی شکل اختیار کر چکا ہے اور ان کا چیدہ چیدہ کلام زبانِ زدِ عام ہو کر مقبولیت کی سند حاصل کر چکا ہے۔

تو کریم بھی، تو علیم بھی، تو حکیم بھی، تو عظیم بھی
مجھے نعمتوں سے نواز دے کہ نوازنا ترا کام ہے

محمد اقبال نجمی گوجرانوالہ کے ادبی منظر نامے کی وہ ممتاز شخصیت ہے جو ہمیشہ سے سچے فکر سخن کی قائل رہی ہے، داد سخن کی نہیں۔ ادبی محفلوں ، باہمی ستائش کے ماحول سے کنارہ کش ہوکر صرف فروغِ ادب کی آبیاری کے لیے ہمہ تن مصروف عمل دکھائی دیتے ہیں۔ محمد اقبال نجمی اپنی عادات و صفات میں درویشانہ صفت کے مالک، محبتیں اور چاہتیں تقسیم کرنے والے وہ مردِ قلندر ہے جن کا احترام دل و جان سے کرنے کو جی چاہتا ہے۔ا

ن کا شمار پاکستانی اُردو اور پنجابی ادب کے ایک مشہور و معروف مصنف، قدآور شاعر، ادیب، ادبی صحافی اور ممتاز ناشر کے طور پر ہوتا ہے۔انھوں نے ابتک مختلف احوال میں کئی ادبی جریدوں کی بنیاد رکھی۔ میری ان سے پہلی ملاقات ''بزمِ اقبال'' کے سالانہ مشاعرے میں اُستادِ محترم وسیم عالم مرحوم کے ہمراہ ہوئی۔ اس ادبی تنظیم کے روحِ رواں اُستاد شاعر راسخ عرفانی مرحوم کے چھوٹے بھائی ثاقب عرفانی مرحوم تھے۔ نجمی صاحب من کے سچے اور خوبصورت لب و لہجے کے شاعر ، ادیب ہے۔
Load Next Story