سیاسی استحکام معیشت کے لیے ناگزیر
دنیا کے تمام ممالک جہاں حکومت کی غیر یقینی، سیاسی عدم استحکام ، دہشتگردی ہے، وہاں کے معاشی حالات بھی دگرگوں ہیں
وزیر اعظم شہباز شریف نے فیٹف گرے لسٹ سے نکلنے پر قوم کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے ملکی معیشت میں بہتری آئے گی ، یہ کامیابی تمام اداروں کی اجتماعی کاوشوں کے طفیل حاصل ہوئی۔ اپنی آنے والی نسلوں اور ملک کی بہتری کے لیے ہر ایک سے بات چیت کے لیے تیار ہیں، موجودہ حکومت اپنی مدت پوری کرے گی اور گیارہ ماہ معیشت کو درست سمت پرگامزن کرنے کے لیے ڈٹ کر کام کرے گی۔ عام انتخابات مقررہ وقت پر ہونگے ، نئے وزیر خزانہ کے آنے کے بعد ڈالرکی قیمت گری ہے۔
بلاشبہ وزیراعظم شہبازشریف نے صائب خیالات کا اظہارکیا ہے۔ اس وقت معیشت کی بحالی کے لیے حکومتی سطح پر جو کوشش کی جا رہی ہیں وہ لائق تحسین ہے، قوی امکان ہے کہ فیٹف گرے لسٹ سے نکلنے کے بعد ملکی معیشت میں مزید استحکام پیدا ہوگا کیونکہ اس وقت ملکی معیشت کو سیاسی اختلافات اور ٹکراؤ سے بالاتر رکھنے کی شدید ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔
یہ بات حقیقت پر مبنی ہے کہ سیاسی استحکام مضبوط معیشت کے لیے ناگزیر ہوتا ہے ، صرف نئے انتخابات کے ذریعے معیشت میں بہتری نہیں لائی جا سکتی ، جب تک دوسرے اقدامات کو بروئے کار نہیں لایا جاتا ہے۔ وزیراعظم شہبازشریف نے دوران گفتگو نئے وزیرخزانہ کی کارکردگی پر بھی اطمینان کا اظہار کیا ہے۔
اسحاق ڈار مسلم لیگ (ن) کے گزشتہ ادوار حکومت میں 3 بار وفاقی وزیر خزانہ اور ایک بار وزیر تجارت رہ چکے ہیں اور اب انھوں نے چوتھی مرتبہ وزارت خزانہ کا قلمدان سنبھالا ہے اور روپے کی قدر، شرح سود اور مہنگائی پر قابو پانے کو اپنی اولین ترجیحات قرار دیا ہے۔ اسحاق ڈار IMF اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں سے سخت مذاکرات کا 25 سالہ تجربہ رکھتے ہیں اور روپے کی قدر مستحکم رکھنے کے ماہر جانے جاتے ہیں۔
اسٹیٹ بینک کے مطابق مالی سال 2022-23 میں ہمیں 33.5 ارب ڈالرز کی بیرونی فنانسنگ درکار ہے۔ حالیہ سیلاب سے ملکی معیشت کو 30 ارب ڈالر کا نقصان پہنچا ہے، 10 لاکھ سے زائد لائیو اسٹاک (مویشی) سیلاب کی نذر ہوچکے ہیں جب کہ ایک تہائی فصلوں کو شدید نقصان پہنچا ہے۔
IMF نے اپنے حالیہ ورلڈ اکنامک آؤٹ لک میں پاکستان کا GDP ہدف کم کرکے 3.5 فیصد، بیروزگاری کی شرح 6.4 فیصد اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 2.5 کیا ہے۔ سیلاب کے باعث کاٹن کی فصل بری طرح متاثر ہوئی ہے ، جس کی وجہ سے ہمیں زرعی اجناس اور کپاس امپورٹ کرنا ہوگی جس کے باعث GDP گروتھ مزید کم ہوکر2 فیصد تک متوقع ہے۔
معاشی ماہرین تسلسل سے اس موقف کا اظہار کرتے چلے آ رہے ہیں کہ معاشی استحکام کے لیے سیاسی استحکام لازم ہے کہ اس کی وجہ سے معاشرے میں امن و سکون ہوتا ہے اور مالیاتی سرگرمیوں میں رکاوٹ نہیں آتی۔ اسی بات کو ہمارے سیاسی رہنما اپنے اپنے انداز میں کہتے ہیں اور لکھنے والے بھی لکھ کر فرض نبھاتے ہیں۔ یہ سطور گواہ ہیں کہ ہر اہم اور مشکل وقت میں یہی وکالت کی گئی کہ معیشت کی بحالی کے لیے امن ضروری ہے اور سیاسی استحکام ہی سے معاشی نظام بھی مستحکم ہوگا۔
بدقسمتی سے زبان سے کہا تو جاتا ہے، لیکن عملی طور پر کچھ نہیں کیا جاتا ہے ، پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اسد عمر بھی چند روز قبل کہہ چکے ہیں کہ ملک میں سیاسی استحکام ضروری ہے تو دیر آید درست آید، پیش قدمی کریں، پارلیمنٹ میں واپس آئیں۔ حزب اختلاف کا کردار ادا کریں۔
ملکی بہبود کے لیے تعلقات کار بہتر بنائیں، قوی امکان ہے کہ موجودہ کل جماعتی حکومت کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا، یہ مستحسن عمل کرکے بھی پاکستان تحریک انصاف اپنے مطالبات پر زور دے سکتی ہے ، بجائے لانگ مارچ کرکے ملک میں عدم استحکام کی فضا پیدا کی جائے۔
اس وقت عوام مہنگائی، گیس، بجلی اور پٹرولیم کے بحران کی وجہ سے پریشان ہیں، انھیں ملک کی کامیاب بیرونی پالیسی سے زیادہ اپنے مسائل کے حل کی فکر ہے جس پر توجہ بہرحال وزیراعظم میاں شہباز شریف کو ہی دینا ہوگی۔ پاکستان میں حالیہ تباہ کن سیلاب کے بعد معیشت کو درپیش چیلنجز میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔
آج پاکستان کی معیشت سیاسی بدامنی کی وجہ سے زبوں حالی کا شکار ہے۔ اپنے وسیع معاشی وسائل کے باوجود ملک کو سیاسی عدم استحکام کے خطرے کی وجہ سے اب بھی شدید معاشی بحران کا سامنا ہے۔ غیر مستحکم سیاسی نظام ایک خطرہ ہے جو کسی ملک میں نظم و نسق اور قانون کے نفاذ کو روکتا ہے۔
یہ بے قاعدہ سیاسی تبادلوں کی وجہ سے ہوتا ہے جس کے نتیجے میں پالیسی پر عمل درآمد اور کمزور ادارہ جاتی ڈھانچہ ٹوٹ جاتا ہے، سماجی رویے کی نافرمانی جو معاشرے کے فیصلہ سازی کے پیرا میٹرز کو متاثر کرتی یا تبدیل کرتی ہے۔
نتیجتاً اس سے معاشی سرگرمیاں بری طرح متاثر ہوتی ہیں اور اس طرح ملک میں معاشی ترقی میں کمی آتی ہے۔ اس لیے ایک خوشحال اور ترقی پسند معیشت کے لیے سیاسی استحکام ناگزیر ہے ورنہ ملک معاشی بحران کے اندھیروں میں ڈوب جائے گا۔
ہم سب کے علم میں ہے کہ پاکستان عملی طور پر عرصہ دراز سے معیشت کے حوالے سے زبوں حالی کا شکار چلا آرہا ہے۔ طوفانی سیلاب نے رہی سہی معیشت کی رمق کو تحت الثریٰ تک پہنچا دیا ہے۔ قومی سطح پر پاکستان کو اقتصادی و معاشی میدان میں قومی یکجہتی کی ضرورت ہے۔
قومی یکجہتی اور عزم صمیم کے بغیر ہم اقتصادی مشکلات پر قابو نہیں پا سکتے ہیں۔ معاشی استحکام اور دیرپا ترقی کے لیے سیاسی چالبازیوں سے معیشت کو پاک کرنا ہوگا۔
دنیا کے تمام ممالک جہاں حکومت کی غیر یقینی، سیاسی عدم استحکام ، دہشتگردی ہے، وہاں کے معاشی حالات بھی دگرگوں ہیں۔ حالانکہ عراق اور شام جیسے ممالک جہاں پر امن حالات میں قومی اور انفرادی سطح پر اقتصادی حالات بہتر تھے، وہاں بھی جنگ، دہشت گردی اور نا امیدی نے انھیں آسمان سے زمین پر دے مارا ہے۔
اس کے برعکس جہاں حکومتیں اور ادارے آئین اور قانون کے تابع ہیں، چاہے وہاں پر جمہوری حکومت ہے یا نہیں مگر سیاسی استحکام ہے، اور اس کے نتیجے میں معاشرے میں امن اور سکون ہے تو سرمایہ کار بنا خوف و خطر اپنا سرمایہ لگاتا ہے، معیشت کا پہیہ چلتا ہے اور خوشحالی آجاتی ہے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہمارے ملک کے پیچھے رہ جانے کی سب سے بڑی وجہ پارلیمنٹ کا کمزور ہونا ہے ، لہٰذا ہمیں اپنی معیشت کو وینٹی لیٹر سے بچانے کے لیے غیر معمولی اقدامات کی ضرورت ہے۔ یہ کام روایتی معاشی پالیسیوں سے ممکن نہیں بلکہ اس کے لیے ہمیں معاشی استحکام کے لیے کڑوی گولیاں یا سخت گیر فیصلے کرنا ہوں گے اور یہی فیصلے پارلیمنٹ کے ذریعے کرنا ہوں گے، اگر عوام کی جیبوں سے پیسہ نکلوانے کا تہیہ حکومت نے کر لیا ہے تب بھی سب سے پہلے اْسے پارلیمنٹ میں جانا چاہیے۔
کیونکہ معاشی استحکام کے لیے ہمیں پہلے سیاسی استحکام کی کنجی کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنا ہوگا۔ حکومتوں میں تسلسل، ایک دوسرے کے سیاسی مینڈیٹ کو قبول کرنا، محاذ آرائی اور الزام تراشیوں کی سیاست سے گریز ، حزب اختلاف کی جانب سے حکومتی معاشی پالیسیوں میں جذباتی سطح کی پالیسی سے گریز، معیشت پر سیاسی سودے بازی کرنا یا حزب اختلاف کا حکومت کا بلاوجہ ساتھ نہ دینے کی پالیسی ملک کے مفاد میں نہیں۔
ہمیں سیاسی محاذ پر ایک ایسے سیاسی میثاق جمہوریت یا سیاست کی بھی ضرورت ہے ، جہاں تمام سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے لیے قبولیت کا ماحول پیدا کریں اور ایک ایسے معاہدے کی طرف پیش رفت کی جائے جس میں حکومت اور حزب اختلاف سمیت تمام فریقین اتفاق بھی کریں اور دستخط بھی کریں کہ وہ معاشی معاملات پر کوئی ایسی مہم نہیں چلائیں گے جس میں ریاست کو معاشی نقصان کا سامنا کرنا پڑے ، ورنہ جب ہمارے فیصلے کہیں اور ہوں گے تو یقیناً ہم خسارے میں ہوں گے اور ملک کا پھر اللہ ہی حافظ ہوگا۔
حکومت معیشت کی بحالی کے لیے فوری نوعیت کے اقدامات کرے ، تاکہ معیشت کی بحالی سے کاروباری اور تجارتی سرگرمیاں بحال ہوسکیں ، معیشت کی بحالی کے لیے ضروری ہے کہ تاجروں کو مراعات دی جائیں۔ تاجروں کو مراعات اور سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے کاروباری زندگی بری طرح متاثر ہو رہی ہے اور رہی سہی کسر بڑھتی ہوئی مہنگائی نے نکال دی ہے۔ اس سے عوام کی قوت خرید ختم ہوکر رہ گئی ہے حکومت اور اپوزیشن باہمی لڑائی ختم کر کے ملکی معاشی سرگرمیوں کی بحالی کے لیے کردار ادا کریں۔
بلاشبہ وزیراعظم شہبازشریف نے صائب خیالات کا اظہارکیا ہے۔ اس وقت معیشت کی بحالی کے لیے حکومتی سطح پر جو کوشش کی جا رہی ہیں وہ لائق تحسین ہے، قوی امکان ہے کہ فیٹف گرے لسٹ سے نکلنے کے بعد ملکی معیشت میں مزید استحکام پیدا ہوگا کیونکہ اس وقت ملکی معیشت کو سیاسی اختلافات اور ٹکراؤ سے بالاتر رکھنے کی شدید ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔
یہ بات حقیقت پر مبنی ہے کہ سیاسی استحکام مضبوط معیشت کے لیے ناگزیر ہوتا ہے ، صرف نئے انتخابات کے ذریعے معیشت میں بہتری نہیں لائی جا سکتی ، جب تک دوسرے اقدامات کو بروئے کار نہیں لایا جاتا ہے۔ وزیراعظم شہبازشریف نے دوران گفتگو نئے وزیرخزانہ کی کارکردگی پر بھی اطمینان کا اظہار کیا ہے۔
اسحاق ڈار مسلم لیگ (ن) کے گزشتہ ادوار حکومت میں 3 بار وفاقی وزیر خزانہ اور ایک بار وزیر تجارت رہ چکے ہیں اور اب انھوں نے چوتھی مرتبہ وزارت خزانہ کا قلمدان سنبھالا ہے اور روپے کی قدر، شرح سود اور مہنگائی پر قابو پانے کو اپنی اولین ترجیحات قرار دیا ہے۔ اسحاق ڈار IMF اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں سے سخت مذاکرات کا 25 سالہ تجربہ رکھتے ہیں اور روپے کی قدر مستحکم رکھنے کے ماہر جانے جاتے ہیں۔
اسٹیٹ بینک کے مطابق مالی سال 2022-23 میں ہمیں 33.5 ارب ڈالرز کی بیرونی فنانسنگ درکار ہے۔ حالیہ سیلاب سے ملکی معیشت کو 30 ارب ڈالر کا نقصان پہنچا ہے، 10 لاکھ سے زائد لائیو اسٹاک (مویشی) سیلاب کی نذر ہوچکے ہیں جب کہ ایک تہائی فصلوں کو شدید نقصان پہنچا ہے۔
IMF نے اپنے حالیہ ورلڈ اکنامک آؤٹ لک میں پاکستان کا GDP ہدف کم کرکے 3.5 فیصد، بیروزگاری کی شرح 6.4 فیصد اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 2.5 کیا ہے۔ سیلاب کے باعث کاٹن کی فصل بری طرح متاثر ہوئی ہے ، جس کی وجہ سے ہمیں زرعی اجناس اور کپاس امپورٹ کرنا ہوگی جس کے باعث GDP گروتھ مزید کم ہوکر2 فیصد تک متوقع ہے۔
معاشی ماہرین تسلسل سے اس موقف کا اظہار کرتے چلے آ رہے ہیں کہ معاشی استحکام کے لیے سیاسی استحکام لازم ہے کہ اس کی وجہ سے معاشرے میں امن و سکون ہوتا ہے اور مالیاتی سرگرمیوں میں رکاوٹ نہیں آتی۔ اسی بات کو ہمارے سیاسی رہنما اپنے اپنے انداز میں کہتے ہیں اور لکھنے والے بھی لکھ کر فرض نبھاتے ہیں۔ یہ سطور گواہ ہیں کہ ہر اہم اور مشکل وقت میں یہی وکالت کی گئی کہ معیشت کی بحالی کے لیے امن ضروری ہے اور سیاسی استحکام ہی سے معاشی نظام بھی مستحکم ہوگا۔
بدقسمتی سے زبان سے کہا تو جاتا ہے، لیکن عملی طور پر کچھ نہیں کیا جاتا ہے ، پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اسد عمر بھی چند روز قبل کہہ چکے ہیں کہ ملک میں سیاسی استحکام ضروری ہے تو دیر آید درست آید، پیش قدمی کریں، پارلیمنٹ میں واپس آئیں۔ حزب اختلاف کا کردار ادا کریں۔
ملکی بہبود کے لیے تعلقات کار بہتر بنائیں، قوی امکان ہے کہ موجودہ کل جماعتی حکومت کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا، یہ مستحسن عمل کرکے بھی پاکستان تحریک انصاف اپنے مطالبات پر زور دے سکتی ہے ، بجائے لانگ مارچ کرکے ملک میں عدم استحکام کی فضا پیدا کی جائے۔
اس وقت عوام مہنگائی، گیس، بجلی اور پٹرولیم کے بحران کی وجہ سے پریشان ہیں، انھیں ملک کی کامیاب بیرونی پالیسی سے زیادہ اپنے مسائل کے حل کی فکر ہے جس پر توجہ بہرحال وزیراعظم میاں شہباز شریف کو ہی دینا ہوگی۔ پاکستان میں حالیہ تباہ کن سیلاب کے بعد معیشت کو درپیش چیلنجز میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔
آج پاکستان کی معیشت سیاسی بدامنی کی وجہ سے زبوں حالی کا شکار ہے۔ اپنے وسیع معاشی وسائل کے باوجود ملک کو سیاسی عدم استحکام کے خطرے کی وجہ سے اب بھی شدید معاشی بحران کا سامنا ہے۔ غیر مستحکم سیاسی نظام ایک خطرہ ہے جو کسی ملک میں نظم و نسق اور قانون کے نفاذ کو روکتا ہے۔
یہ بے قاعدہ سیاسی تبادلوں کی وجہ سے ہوتا ہے جس کے نتیجے میں پالیسی پر عمل درآمد اور کمزور ادارہ جاتی ڈھانچہ ٹوٹ جاتا ہے، سماجی رویے کی نافرمانی جو معاشرے کے فیصلہ سازی کے پیرا میٹرز کو متاثر کرتی یا تبدیل کرتی ہے۔
نتیجتاً اس سے معاشی سرگرمیاں بری طرح متاثر ہوتی ہیں اور اس طرح ملک میں معاشی ترقی میں کمی آتی ہے۔ اس لیے ایک خوشحال اور ترقی پسند معیشت کے لیے سیاسی استحکام ناگزیر ہے ورنہ ملک معاشی بحران کے اندھیروں میں ڈوب جائے گا۔
ہم سب کے علم میں ہے کہ پاکستان عملی طور پر عرصہ دراز سے معیشت کے حوالے سے زبوں حالی کا شکار چلا آرہا ہے۔ طوفانی سیلاب نے رہی سہی معیشت کی رمق کو تحت الثریٰ تک پہنچا دیا ہے۔ قومی سطح پر پاکستان کو اقتصادی و معاشی میدان میں قومی یکجہتی کی ضرورت ہے۔
قومی یکجہتی اور عزم صمیم کے بغیر ہم اقتصادی مشکلات پر قابو نہیں پا سکتے ہیں۔ معاشی استحکام اور دیرپا ترقی کے لیے سیاسی چالبازیوں سے معیشت کو پاک کرنا ہوگا۔
دنیا کے تمام ممالک جہاں حکومت کی غیر یقینی، سیاسی عدم استحکام ، دہشتگردی ہے، وہاں کے معاشی حالات بھی دگرگوں ہیں۔ حالانکہ عراق اور شام جیسے ممالک جہاں پر امن حالات میں قومی اور انفرادی سطح پر اقتصادی حالات بہتر تھے، وہاں بھی جنگ، دہشت گردی اور نا امیدی نے انھیں آسمان سے زمین پر دے مارا ہے۔
اس کے برعکس جہاں حکومتیں اور ادارے آئین اور قانون کے تابع ہیں، چاہے وہاں پر جمہوری حکومت ہے یا نہیں مگر سیاسی استحکام ہے، اور اس کے نتیجے میں معاشرے میں امن اور سکون ہے تو سرمایہ کار بنا خوف و خطر اپنا سرمایہ لگاتا ہے، معیشت کا پہیہ چلتا ہے اور خوشحالی آجاتی ہے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہمارے ملک کے پیچھے رہ جانے کی سب سے بڑی وجہ پارلیمنٹ کا کمزور ہونا ہے ، لہٰذا ہمیں اپنی معیشت کو وینٹی لیٹر سے بچانے کے لیے غیر معمولی اقدامات کی ضرورت ہے۔ یہ کام روایتی معاشی پالیسیوں سے ممکن نہیں بلکہ اس کے لیے ہمیں معاشی استحکام کے لیے کڑوی گولیاں یا سخت گیر فیصلے کرنا ہوں گے اور یہی فیصلے پارلیمنٹ کے ذریعے کرنا ہوں گے، اگر عوام کی جیبوں سے پیسہ نکلوانے کا تہیہ حکومت نے کر لیا ہے تب بھی سب سے پہلے اْسے پارلیمنٹ میں جانا چاہیے۔
کیونکہ معاشی استحکام کے لیے ہمیں پہلے سیاسی استحکام کی کنجی کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنا ہوگا۔ حکومتوں میں تسلسل، ایک دوسرے کے سیاسی مینڈیٹ کو قبول کرنا، محاذ آرائی اور الزام تراشیوں کی سیاست سے گریز ، حزب اختلاف کی جانب سے حکومتی معاشی پالیسیوں میں جذباتی سطح کی پالیسی سے گریز، معیشت پر سیاسی سودے بازی کرنا یا حزب اختلاف کا حکومت کا بلاوجہ ساتھ نہ دینے کی پالیسی ملک کے مفاد میں نہیں۔
ہمیں سیاسی محاذ پر ایک ایسے سیاسی میثاق جمہوریت یا سیاست کی بھی ضرورت ہے ، جہاں تمام سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے لیے قبولیت کا ماحول پیدا کریں اور ایک ایسے معاہدے کی طرف پیش رفت کی جائے جس میں حکومت اور حزب اختلاف سمیت تمام فریقین اتفاق بھی کریں اور دستخط بھی کریں کہ وہ معاشی معاملات پر کوئی ایسی مہم نہیں چلائیں گے جس میں ریاست کو معاشی نقصان کا سامنا کرنا پڑے ، ورنہ جب ہمارے فیصلے کہیں اور ہوں گے تو یقیناً ہم خسارے میں ہوں گے اور ملک کا پھر اللہ ہی حافظ ہوگا۔
حکومت معیشت کی بحالی کے لیے فوری نوعیت کے اقدامات کرے ، تاکہ معیشت کی بحالی سے کاروباری اور تجارتی سرگرمیاں بحال ہوسکیں ، معیشت کی بحالی کے لیے ضروری ہے کہ تاجروں کو مراعات دی جائیں۔ تاجروں کو مراعات اور سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے کاروباری زندگی بری طرح متاثر ہو رہی ہے اور رہی سہی کسر بڑھتی ہوئی مہنگائی نے نکال دی ہے۔ اس سے عوام کی قوت خرید ختم ہوکر رہ گئی ہے حکومت اور اپوزیشن باہمی لڑائی ختم کر کے ملکی معاشی سرگرمیوں کی بحالی کے لیے کردار ادا کریں۔