مالیاتی اصلاحات وقت کی ضرورت

طویل المدتی پالیسیوں میں ہمیں زرعی اصلاحات کرنا ہوں گی اور زمین کی خرید کے لیے حد بندی کرنا ہوگی

طویل المدتی پالیسیوں میں ہمیں زرعی اصلاحات کرنا ہوں گی اور زمین کی خرید کے لیے حد بندی کرنا ہوگی (فوٹو : فائل)

ورلڈ بینک نے پاکستان پر مالیاتی اصلاحات لانے پر زور دیا ہے۔ ورلڈ بینک کے نائب صدر برائے جنوبی ایشیا مارٹن ریزر نے ایک نجی ٹی وی سے گفتگو میں کہا ہے کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلی سے بری طرح متاثر ہوا ، ایسی بارشوں کی مثال پہلے نہیں ملتی ، دنیا کو پاکستان کی مدد کرنے کی ضرورت ہے۔

تاہم پاکستان کو بھی مالیاتی اصلاحات کرنا ہوں گی ، طویل مدت سرمایہ کاری کے لیے بھی ریفارمز اہم ہیں، جب کہ دوسری جانب چند روز قبل ایشیائی ترقیاتی بینک کی اپ ڈیٹ میں کہا گیا تھا کہ مالیاتی ایڈ جسٹمنٹ اور مالیاتی تناؤ سے مالی سال 2023میں گھریلو طلب میں کمی آنے کا امکان ہے جو روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے صنعت کی پیداوار کوکم کرے گا۔

ملک کے معاشی منظر نامے کو درپیش خدشات کی وجہ سیلاب کے علاوہ مہنگائی کی شرح بلند ہونا اور خوراک اور توانائی کی عالمی قیمتوں میں امکان سے زیادہ اضافہ ہے۔

بلاشبہ ورلڈ بینک کے نائب صدر نے صائب خیالات کا اظہارکرتے ہوئے پاکستانی معیشت میں اصلاحات لانے کی ضرورت و اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ ہمیں پاکستان کی معیشت کو بہتر بنانے کے لیے قلیل المدتی اور طویل المدتی پالیسیاں بنانی پڑیں گی۔ قلیل المدتی پالیسی میں ہمیں اپنا مالی خسارہ کم کرنا پڑے گا، جس کے لیے حکومت کے حجم اور اس کے اخراجات کو کم کرنا ہوگا جب کہ جو سرکاری ادارے نقصان میں چل رہے ہیں اور سرکار ان کو اربوں روپے دے رہی ہے۔

ان کی یا تو نجکاری کرنی ہوگی یا انھیں منافع بخش بنانا ہوگا، اگر پاکستان کو مختلف شعبوں میں بہتر درجہ بندی حاصل کرنا ہے تو معیشت کی تنظیم نو کرنا ہوگی خصوصاً ٹیکسوں اور توانائی کے شعبے میں، علم پر مبنی معیشت اپنانا ہوگی۔

اب جب کہ 75 برس بعد ہم میثاق معیشت کی بات کررہے ہیں تو پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کا راستہ اختیار کر کے ہم ترقی کی طرف تیز رفتار سفر طے کرسکتے ہیں۔

معاشی اور مالیاتی نظام کی خرابیوں کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے ، یہ امر افسوسناک ہے کہ وطن عزیز میں بیشتر اہم معاشی و مالیاتی پالیسیاں طاقتور طبقوں کے مفاد میں یا ان کے دباؤ پر بنائی جاتی ہیں خواہ اس کے لیے قانون سازی کرنا پڑے یا قانون کو توڑنا پڑے۔ ان نقصانات کو پورا کرنے کے لیے عوام پر بالواسطہ ٹیکسوں کا بوجھ ڈالا جاتا ہے۔

ترقیاتی اخراجات و انسانی وسائل کی ترقی کے لیے کم رقوم مختص کی جاتی ہیں اور ملکی و بیرونی قرضوں پر بے تحاشا انحصار کیا جاتا ہے۔

یہی نہیں طاقتور طبقوں بشمول ٹیکس چوری کرنے والوں ، قومی دولت لوٹنے والوں، بینکوں سے اپنے قرضے غلط طریقوں سے معاف کرانے والوں ، پاکستان سے لوٹ کر یا ناجائز طریقوں سے حاصل کی ہوئی رقوم سے ملک کے اندر اثاثے بنانے یا ملک سے باہر اثاثے منتقل کرنے والوں کے مفادات کا تحفظ حکومت اور ریاستی اداروں کی طرف سے کیا جاتا رہا ہے۔

آج بھی ایک روپیہ قومی خزانے میں جمع کروائے بغیر ناجائز دولت کو قانونی تحفظ دینا ممکن ہے۔ پاکستان 23 مرتبہ آئی ایم ایف کے قرضوں کے پروگرام کے اندر رہا ہے جب کہ لمبے عرصے سے ہر حکومت لوٹی ہوئی اور ناجائز دولت کو قانونی تحفظ دینے کے لیے ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کے اجرا کو اپنا فرض منصبی سمجھتی رہی ہے۔

ایشیائی ترقیاتی بینک کی جانب سے اپ ڈیٹ میں نتیجہ اخذ کیا گیا کہ گزشتہ کئی برسوں سے ہمارے ملک میں جو پالیسیاں اختیار کی جا رہی ہیں، اُن کا ہدف ملک کے عوام سے زیادہ چند گنے چنے سرمایہ داروں کا مفاد رہا ہے۔ آج بھی ہمارے ملک میں زیادہ ترآبادی کا ذریعہ معاش زراعت ہے۔

حکومتوں نے زراعت سے مجرمانہ غفلت کی مسلسل پالیسی اختیار کر رکھی ہے۔ اس لیے کہ زراعت سے سرمایہ دار کو فوری کوئی فائدہ نہیں ہے۔ روزگار کا دوسرا سب سے بڑا ذریعہ چھوٹے کاروبار (retail) ہیں۔ بیرونی سرمایہ کاری ، بڑے کارپوریٹ اداروں کے داخلے اور آن لائن کاروبار کے فروغ کی پالیسیوں نے اس شعبے میں بھی روزگار کے شدید مسائل پیدا کیے ہیں۔


تیسرا بڑا سیکٹر مینوفیکچرنگ کا ہے جو مزدوروں کی ایک بڑی تعداد کو روزگار فراہم کرتا ہے۔ یہ سیکٹر بھی بری طرح زوال کا شکار ہے۔ ملک کے بڑے کارپوریٹ اداروں کو زیادہ فائدہ سروس سیکٹر اور حکومت کے بڑے بڑے انفرا اسٹرکچر منصوبوں میں نظر آتا ہے، جن کے کنٹریکٹ سرکار سے ساز باز کرکے وہ آسانی سے حاصل کرلیتے ہیں۔ حکومت بھی انھی شعبوں پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔

ان شعبوں میں بڑی تعداد میں عام لوگوں کو روزگار نہیں ملتا۔ اس سے سرمایہ داروں کو ضرور فائدہ ہوتا ہے ، جی ڈی پی بھی بڑھتا ہے، لیکن روزگار پیدا نہیں ہوتا۔ بائیس کروڑ آبادی کے اس ملک میں حکومت کی توجہ ان شعبوں (labour intensive sectors) پر ہونی چاہیے جو زیادہ روزگار پیدا کرتے ہیں۔ پاکستان جیسے غریب ملک میں غیر رسمی معیشت) (informale conomy کا بڑا رول ہے۔

ملک کی معیشت کا بڑا حصہ اسی پر مبنی ہے اور یہی بڑے پیمانہ پر روزگار بھی پیدا کرتا ہے۔ غیر رسمی معیشت کا ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہے کہ اس سے معیشت عالمی مالیاتی بازاروں، عالمی کساد بازاری وغیرہ کے اثراتِ بد سے محفوظ رہتی ہے، لیکن بڑے سرمایہ داروں کو فائدہ پہنچانے کے لیے غیر رسمی زمرے کو کمزور کیا گیا۔

جس کے نتیجہ میں ایک طرف غربت اور بے روزگاری بڑھی اور دوسری طرف پوری معیشت عالمی سرمایہ داروں کے چنگل میں چلی گئی اور عالمی مالیات کے اتار چڑھاؤ سے تیزی سے متاثر ہونے لگی۔ انھی پالیسیوں کا نتیجہ ہے کہ ہمارے ملک میں معیشت کی ترقی کے باوجود امیری غریبی کا فرق بڑھتا جارہا ہے۔ ہمارا ملک دنیا میں ان چند ملکوں میں سے ایک ہے جہاں معاشی نا برابری سب سے زیادہ ہے اور اس نا برابری میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ گزشتہ دس برسوں میں دولت کی غیر معمولی پیداوار کے باوجود غریبی کم کرنے اور عام انسانوں کے مسائل حل کرنے میں اس سے مدد نہیں ملی ہے۔جب عام لوگ روزگار سے محروم ہوجاتے ہیں تو ان کی قوتِ خرید کم ہوجاتی ہے۔ جس کی وجہ سے بازار میں طلب کم ہوجاتی ہے۔

دولت صرف چند بڑے سرمایہ داروں کے ہاتھوں میں مرکوز ہو جائے تو عام لوگ نہ گاڑیاں خرید سکتے ہیں اور نہ گھر بناسکتے ہیں بلکہ بسکٹ اور صابن کی خرید میں بھی کٹوتی کرنے لگتے ہیں۔ اس کی وجہ سے بازار ٹھنڈے پڑ جاتے ہیں اور کساد بازاری کی فضا عام ہوجاتی ہے۔ اس وقت کے بحران کا خلاصہ یہی ہے۔ یہ بات سب لوگ مان رہے ہیں کہ اس بحران کا تعلق طلب سے ہے۔

طلب بڑھانے کے لیے ضروری ہے کہ سرمایہ دار کے ساتھ عام آدمی کے ہاتھ میں بھی پیسہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ معاشی ماہرین نے عام آدمی کی قوتِ خرید بڑھانے سے متعلق رائے دی ہے یعنی یہ تجویز کہ زرعی معیشت اور دیہی صارفیت کو ترقی دی جائے اور یہ کہ اُن صنعتوں (labour intensive) کو فروغ دیا جائے جو زیادہ لوگوں کو روزگار دے سکتی ہیں۔

پاکستانی پیداوار کی بھرپور حوصلہ افزائی کی جائے۔ جس سے برآمدات میں اضافہ اور درآمدات میں کمی سے توازن ادائیگی اور توازن تجارت مثبت ہوگا اور اس کے نتیجے میں پاکستانی قوم معاشی ترقی کے راستے پر چلتے ہوئے خود کفالت کی منزل حاصل کرے گی۔

انڈسٹریل مٹیریل کی لوکل پروڈکشن اور میڈان پاکستان کی منزل حاصل کرنے کے لیے ناگزیر ہے۔ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ ترقی کا ایک بہترین راستہ ہے۔ ہر قدم پر پیش نظر رہنا چاہیے کہ خودکفالت ہی میں خود داری ہے۔ خود کفالت کے لیے مضبوط معیشت اور مضبوط معیشت کے لیے معاشی پالیسی کا تسلسل ضروری ہے، اسی میں ہماری قوم کی معاشی بقا ہے۔

معاشی خود مختاری اور خود انحصاری کے حصول کے لیے ساتھ مل کر آگے بڑھنا ہوگا۔ چارٹر آف اکانومی کو اولین ترجیح دینے کا وقت آ چکا ہے، سب مل کر پاکستان اور عوام کو معاشی قوت بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ملک کے عوام نے ہی انھیں اپنے ووٹوں کی طاقت سیاسی جماعتوں کے ممبران اور قائدین کو اس مقام تک پہنچایا ہے ، وہ بجا طور پر یہ توقع رکھتے ہیں کہ ہمارے سیاست دان اپنی صلاحیتوں اور توانائیوں کو ملک و قوم کی فلاح کے لیے وقف کریں گے۔

سیاسی جماعتوں کو باہمی جھگڑوں سے کچھ حاصل نہیں ہوگا اس لیے وہ اپنی ذمے داریوں کا احساس و ادراک کرتے ہوئے ملک میں سیاسی استحکام پیدا کرنے کے لیے اخلاص نیت کے ساتھ کوشش کریں اور ایثار کا مظاہرہ کرتے ہوئے رواداری اور برداشت کے کلچر کو فروغ دیں۔ ملک میں سیاسی استحکام کی فضا قائم ہوگی تو معیشت کو بھی استحکام ملے گا۔

طویل المدتی پالیسیوں میں ہمیں زرعی اصلاحات کرنا ہوں گی اور زمین کی خرید کے لیے حد بندی کرنا ہوگی۔ اس کے علاوہ اپنے نوجوانوں کو تعلیم اور ہنر دینا ہوگا تا کہ ہم افرادی قوت کو برآمد کر سکیں۔ نئی حکومت کو چاہیے کہ اسٹرکچرل ریفارمز اور مالیاتی پالیسیوں کو نئے سرے سے مربوط کرے۔ ملکی آمدنی میں اضافے اور اخراجات میں کٹوتی کے لیے اصلاحات کی جائیں۔

جس کا اثر ڈالر کی قیمت کے ساتھ دوسرے معاشی اشاریوں پر بھی پڑے گا۔ ساتھ ساتھ ریونیو میں اضافے کو بڑھائیں اور اپنے اخراجات کو کم کریں تاکہ مالیاتی خسارے کو نیچے لایا جاسکے۔ اس طرح ہم قرضوں کے بوجھ سے نکل کر دنیا میں باوقار قوم کی حیثیت سے خود کو منوا سکیں گے۔
Load Next Story