گھمسان کی جنگ

فرق صرف یہ ہے کہ اس جنگ مغلوبہ یا گھمسان کی لڑائی میں سارے ہتھیار ’’کاغذ‘‘ کے استعمال کیے جا رہے ہوں

barq@email.com

آپ کا تو پتہ نہیں کہ کیا محسوس کر رہے ہوں گے لیکن ہمیں تو ایسا لگ رہا ہے کہ سامنے ایک گھمسان کی لڑائی چل رہی ہو جیسے ایک بادشاہ نے دوسرے پر حملہ کر کے دارالحکومت پر قبضہ کر لیا ہو اور دوسرا بادشاہ فرار ہوکر ایک اور صوبے میں پناہ گزین ہو گیا ہو اوراپنی افواج کو نئے سرے سے منظم کر کے ہتھیار اور اسلحہ جمع کر کے اور گولہ بارود اکٹھا کر کے جوابی حملہ کرنے کی تیاری کر رہا ہو کہ پلٹ کر ہلہ بول دے اور دارالحکومت یا تخت و تاج پر دوبارہ قبضہ کر لے۔

فرق صرف یہ ہے کہ اس جنگ مغلوبہ یا گھمسان کی لڑائی میں سارے ہتھیار ''کاغذ'' کے استعمال کیے جا رہے ہوں ۔ ویسے تو ہر قسم کی کاغذی توپیں دھن دھناری ہیں خاص طور پر اس صوبے کا وزیراعلیٰ تو ایک منٹ کا وقفہ دینے کو بھی تیار نہیں اور فوراً دارالحکومت پر چڑھائی کرنے کو تیار ہے۔

اس کی تیزی اور جلدبازی کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ وہ خود بھی ایک ماہر توپچی ہے مثلاً حقیقی آزادی قریب ہے، کرپٹ سیاسی مافیا کے خلاف جہاد فیصلہ کن موڑ پر آگیا ہے، عوام جوق در جوق شامل ہو رہے ہیں، صرف آخری ہلہ بولنے کا انتظار ہے، چوروں کو کہیں پناہ نہیں ملے گی، وغیرہ وغیرہ۔

جب سے معزول بادشاہ یہاں مقیم ہوا ہے تب سے روزانہ اس کی توپ سے بڑا ڈز یا بگ بینگ نکلتا ہے لیکن اس نے جو ایک ''نئی توپ'' نہ جانے کہاں سے بنوائی ہے وہ تو کمال کی چیز ہے، ویسے تو اسے سرکاری طور پر معاون خصوصی برائے توپ کہا جاتا ہے لیکن اس کی ''مار'' دیکھ کر اسے قطرینا کیف اور کرینہ کیف بھی کہتے ہیں۔

سیف علی خان سے شادی کے بعد کرینہ کپور نے ''کرینہ سیف'' کا نام اختیار کیا ہوا ہے، بظاہر تو کرینہ سیف ایک توپ لگتی ہے لیکن اس میں کلاشن کوف کے بھی ''گن'' پائے جاتے ہیں یعنی ریپڈ بھی چلتی ہے اور روزانہ ڈزاڈز کر کے کشتوں کے پشتے لگاتی ہے۔

اس کرینہ سیف اورکترینہ کیف کی کارکردگی دیکھ کر ہمیں ایک پرانا قصہ یاد آرہا ہے جو زبانی طور پر مشہورہے ۔کہتے ہیں کہ افغانستان کے بادشاہ کو ایک لوہار نے کہا کہ میں ایک ایسی توپ بنا سکتا ہوں جو یہاں سے فائرکرکے دلی پر گولہ گرائے گی، بادشاہ نے اسے مطلوبہ سامان اور مراعات دیں، لوہار کام پر لگ گیا۔ آخر ایک دن اس نے بادشاہ کو بتا دیا کہ توپ تیار ہو چکی ہے۔


بادشاہ نے اعلان کیا کہ فلاں دن کو توپ کا تجربہ کیا جائے گا، تجربے کا اہتمام ایک بڑے وسیع میدان میں کیا گیا تھا۔ بادشاہ اور عمائدین بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ لوہار نے توپ کو بھی میدان میں پہنچا دیا تھا، آخرکار اس نے توپ میں بارود بھرا اور فیتے کو آگ لگا دی۔ ایک قیامت خیز دھماکا ہوگیا اور چاروں طرف دھواں ہی دھواں پھیل گیا۔

کافی دیر بعد دھواں چھٹ گیا تو توپ کے ٹکڑے یہاں وہاں پھیل چکے تھے لیکن لوہار تو معاون خصوصی برائے اطلاعات تھا، اس نے بادشاہ سے کہا، جناب والا جب یہاں یہ حال ہے تو وہاں دہلی میں کیا کچھ ہو گیا ہوگا۔ اسے پتہ تھا کہ دہلی سے خبر آنے میں مہینوں لگیں گے تب تک وہ ادھر ادھر ہو چکا ہوگا۔

ہم جس توپ عرف کرینہ سیف کترینہ کیف کا ذکر کر رہے ہیں۔ اس کاغذی جنگ میں بظاہر تو کترینہ کیف اورکرینہ سیف غالب نظر آرہی ہیں کیوں کہ ان بڑی توپوں کے علاوہ اور بھی بہت ساری چھوٹی بڑی توپیں چل رہی ہیں، گولے پھینکے جارہے ہیں، کلاشن کوفیں دھن دھنا رہی ہیں۔

مطلب یہ کہ جب ''یہاں'' یہ حال ہے تو وہاں دلی مطلب ہے دارالحکومت میں کیا کیا کچھ چل رہا ہوگا۔ تاریخ میں ایسے واقعات اکثر ہوتے رہے ہیں کہ شکست خوردہ بادشاہ نے دوبارہ تیاری کر کے دارالحکومت اور حکومت پر قبضہ کرلیا۔

اسی خطے کی ایک کہانی ہندی اساطیر میں درج ہے کہ جب راجہ دیوداس نے اپنے وزیراعظم وشوامتر کو معزول کر کے اس کی جگہ ایک برہمن رشی، وسشیٹھ کو وزیراعظم بنایا تو وشوامتر نے دس قبائل کو منظم کر کے بادشاہ کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا، رگ وید کے مطابق وہ لڑائی جسے دس قبائل کی جنگ بھی کہتے ہیں، دریائے پاور سٹی جو موجودہ راوی ہے، کے کنارے لڑی گئی تھی لیکن وشوامتر کو شکست ہوگئی۔

ویسے بھی تاریخ اور انسانی نظاموں کا ایک جانا پہچانا واقعہ ہے کہ ''جوانی'' صرف ایک بار آتی ہے، کوئی کتنے ہی کشتے کھائے، چورن پھانکے، کوئی بوڑھا کبھی پھر جوان نہیں ہوا ہے نہ ہی ایک مرتبہ عروج کے بعد زوال آشنا کسی فرد یا قوم کو عروج نصیب ہوا ہے البتہ دل کے خوش رکھنے کو یہ خیال اچھا ہے۔
Load Next Story