ہزارہ ڈویژن کو الگ صوبہ بنانے پر سیاسی اختلافات

ہزارہ ڈویژن میں بسنے والوں میں یہ سوچ موجود ہے کہ ان کے ڈویژن کو الگ صوبہ کا درجہ ملنا چاہیے

ہزارہ ڈویژن میں بسنے والوں میں یہ سوچ موجود ہے کہ ان کے ڈویژن کو الگ صوبہ کا درجہ ملنا چاہیے. فوٹو:فائل

ہزارہ ڈویژن کو الگ صوبہ بنانے کی تحریک کوئی نئی نہیں ہے بلکہ ایک عرصہ سے ہزارہ ڈویژن میں بسنے والوں میں یہ سوچ موجود ہے کہ ان کے ڈویژن کو الگ صوبہ کا درجہ ملنا چاہیے تاہم اس سوچ کے حوالے سے جلتی پر تیل کا کام 2010 ء میں اس وقت کے صوبہ شمال مغربی سرحدی صوبہ کے نام کی تبدیلی نے کیا تھا ۔

اے این پی کا شروع ہی سے موقف رہا ہے کہ وہ صوبہ کو پختونخوا کا نام دینا چاہتی ہے اور چار سال قبل جب پیپلزپارٹی اور اس وقت کے صدر آصف علی زرداری نے اے این پی کے ساتھ اس بات پر اتفاق کر لیا اور اٹھارویں ترمیم کے تحت دیگر امور کے ساتھ این ڈبلیو ایف پی کا نام بھی تبدیل کرنے کا مرحلہ آیا تو صوبہ کو پختونخوا کا ہی نام ملنا تھا، اس وقت مسلم لیگ(ن)آڑے آگئی جس نے مستقبل پر نظریں گاڑھنے کی بجائے صرف کریڈٹ حاصل کرنے کے لیے پختونخوا کے ساتھ لفظ ''خیبر''کا اضافہ کرواتے ہوئے یہ سمجھ لیا کہ انہوں نے سیاسی فائدہ بھی حاصل کر لیا ہے اور لفظ خیبر کے اضافہ سے وہ ہزارہ میں بسنے والوں کو بھی مطمین کر لیں گے تاہم وقت نے ثابت کیا کہ مسلم لیگ کے یہ اندازے غلط تھے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ابھی صوبہ کے نام کو تبدیل ہوئے صرف چار سال ہی ہوئے ہیں کہ ایک مرتبہ پھر ہزارہ ڈویژن کو الگ صوبہ بنانے کا معاملہ سراٹھا نے لگا ہے جس سے مسلم لیگ (ن) مرکز میں اقتدار میں ہونے اور اس تقسیم کے اثرات پنجاب پر مرتب ہونے کے باعث اس سے اپنا پلو بچا رہی ہے ۔

عام انتخابات کے دوران مسلم لیگ (ن) ، تحریک انصاف اور جمیعت علماء اسلام(ف) ، ان تینوں ہی پارٹیوں نے ہزارہ ڈویژن میں اپنے جلسوں میں ہزارہ کو الگ صوبہ بنانے کی حمایت کی تھی اور یہی حمایت ہی تھی کہ تحریک انصاف کی حکومتی ٹیم میں شامل ہزارہ سے تعلق رکھنے والے اراکین صوبائی اسمبلی نے صوبہ میں پی ٹی آئی کی حکومت بننے کے ساتھ ہی ہزارہ ڈویژن کو الگ صوبہ بنانے کے لیے قرارداد اسمبلی میں جمع کرادی تھی ۔ تاہم جب اس قرارداد کو صوبائی حکومت کی آشیرباد نہ ملی تو یہ فائلوں میں دفن ہوکر رہ گئی ، اب چونکہ بارہ اپریل نزدیک آرہا ہے کہ جس دن چار سال قبل صوبہ کے نام کی تبدیلی کے حوالے سے ایبٹ آباد میں ہنگامے بھی ہوئے تھے اور گولی بھی چلی تھی جس کے نتیجے میں گیارہ افراد جاں بحق اور دو سو زخمی ہوئے تھے اس لیے ہزارہ سے تعلق رکھنے والے ارکان حالات کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے ایک مرتبہ پھر ہزارہ ڈویژن کو الگ صوبہ بنانے سے متعلق قرارداد صوبائی میں لے آئے ، تاہم اس مرتبہ انھیں خود اپنی پارٹی اور تحریک انصاف کی اتحادی پارٹیوں کی جانب سے اس بارے میں پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ مخالفت کا سامنا کرنا پڑا ۔

صوبہ کے وسطی اضلاع سے تعلق رکھنے والے تحریک انصاف کے ارکان نے تو کھل کر کہہ دیا کہ وہ کسی بھی طور اس قرارداد کی حمایت نہیں کر سکتے کیونکہ جس طرح ہزارہ ڈویژن سے تعلق رکھنے والے ارکان اپنے علاقوں کے حالات کے مطابق سیاست کر رہے ہیں اسی طرح وہ بھی اپنی علاقائی سیاست سے مجبور ہیں اور چونکہ ویسے بھی اس بارے میں پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کی جانب سے کوئی ہدایات جاری نہیں ہوئی تھیں اس لیے ہر کوئی اپنی راہ پر چلنے میں آزاد تھا ۔ صوبہ کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک بھی اس قرارداد کے حامی نہیں تھے جبکہ پی ٹی آئی کی دونوں اتحادی جماعتوں عوامی جمہوری اتحاد پاکستان اور جماعت اسلامی نے بھی کھل کر صوبہ ہزارہ کے قیام کی قرارداد کی مخالفت کرنے کااعلان کیا، تاہم مذکورہ قرارداد اسمبلی میں اس لیے پیش ہو پائی کہ ہزارہ ڈویژن سے تعلق رکھنے والے پی ٹی آئی کے ارکان مستعفی ہونے کی دھمکیوں پر اتر آئے تھے جنھیں راستہ دینے کے لیے قرارداد کو ایوان میں لانے دیا گیا۔


اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ تحریک انصاف جو ہر معاملہ اور ہر ایشو پر فوری طور پر اپنی پالیسیاں مرتب کرتی آئی ہے وہ ہزارہ ڈویژن کو الگ صوبہ بنانے کے معاملہ پر تاحال کوئی واضح پالیسی نہیں اپناسکی، یہی وجہ ہے کہ جب پی ٹی آئی ہی کے ارکان نے ملک بھر میں انتظامی ضروریات کے مطابق نئے انتظامی یونٹس کے قیام سے متعلق مطالبہ پر مبنی قرارداد پیش کی تو اس سے قبل کہ کسی دوسرے کی جانب سے اس کی مخالفت کی جاتی خود تحریک انصاف نے ہی مذکورہ قرارداد کو ختم کرکے رکھ دیا کیونکہ ایک جانب تو مذکورہ قرارداد انتہائی سادہ اکثریت کے پاس کی گئی کہ جس کے حوالے سے اگر ایوان میں رائے شماری کرائی جاتی تو اس پر ہزارہ سے تعلق رکھنے والے ارکان کو بھی افسوس ہوتا کہ کتنے افراد ان کے ساتھ کھڑے ہیں جبکہ دوسری جانب ابھی اس قرارداد سے ماحول میں پیدا ہونے والی گرمی ختم بھی نہیں ہوئی تھی کہ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف گٹھ جوڑ کرتے ہوئے دوسری قرارداد ایوان میں لے آئے جس میں صوبہ کا نام تبدیل کرتے ہوئے ہزارہ پختونخوا رکھنے کا مطالبہ کر دیا گیااور یہ قرارداد بھی کثرت رائے ہی سے پاس کی گئی ۔

تاہم دونوں قراردادوں کے حوالے سے فرق یہ تھا کہ پہلی قرارداد کو پاس کرتے وقت قائد ایوان پرویز خٹک ایوان سے نکل گئے تھے جبکہ جب یہ دوسری قرارداد ایوان میں منظور کرائی جا رہی تھی تو وہ ایوان میں موجود تھے اور ان کے ساتھ وہ ارکان بھی ایوان میں واپس آگئے جو ان کو ایوان سے باہر جاتے ہوئے دیکھ کر ادھرادھر سے ملنے والے سگنلز کے باعث ایوان سے یا تو باہر جاچکے تھے یا پھر جانے کے لیے پر تول رہے تھے تاکہ کورم کا مسئلہ بنے اور معاملہ رک جائے، تاہم اسی ہاں اور ناں کے ماحول میں یہ دونوں قراردادیں تو پاس ہوگئیں البتہ یہ بھی واضح ہوگیا ہے کہ اگر مرکز ان قراردادوں کو کہ جن کی حیثیت سفارش سے زیادہ نہیں، کو منظور کر بھی لے اور پارلیمنٹ سے ان کی منظوری کرا بھی لے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان میں سے کون سی قرارداد کو واپس صوبائی اسمبلی کے پاس منظوری کے لیے بھیجا جائے گا اور جو بھی قرارداد صوبائی اسمبلی کے پاس آتی ہے کیا وہ دو تہائی اکثریت لے پائے گی تاکہ اسے عملی جامہ پہنایا جا سکے کیونکہ تحریک انصاف اور مسلم لیگ(ن)سمیت کئی پارٹیاں اس ایشو کے حوالے سے منقسم ہیں جس کی وجہ سے کوئی واضح فیصلہ نہیں ہو سکتا ۔

ہزارہ ڈویژن کو صوبہ کا درجہ دینے کے معاملہ پر سب سے زیادہ حیران کن رویہ مسلم لیگ(ن)کا رہا کیونکہ ایک جانب ہزارہ سے تعلق رکھنے والے لیگی ارکان صوبہ ہزارہ کے قیام سے متعلق قرارداد کی حمایت کر رہے تھے تو دوسری جانب اسی پارٹی کے دیگر ارکان کا موقف تھا کہ یہ پارٹی پالیسی نہیں اور وہ بھی اس صورت حال میں کہ اطلاعات تھیں کہ ایک اہم شخصیت جو اسمبلی میں اس وقت موجود نہیں تھی کی جانب سے بشمول اپنی پارٹی کے ارکان کے، دیگر اپوزیشن اراکین اسمبلی کو بھی ٹیلی فون کرتے ہوئے ہزارہ ڈویژن کو الگ صوبہ بنانے سے متعلق قرارداد کی مخالفت کرنے ہدایت کی گئی تھی ، اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے واضح طور لگ رہا ہے کہ نہ تو تحریک انصاف جو اس وقت صوبہ میں برسراقتدار ہے ، صوبہ کی تقسیم چاہتی ہے کیونکہ اگر ایسا ہوتا ہے تو اس کے بعد ملاکنڈ ڈویژن سے بھی ایسی ہی آوازیں اٹھ سکتی ہیں اور ڈی آئی خان بھی سرائیکی صوبہ کی بات کر سکتا ہے اور نہ ہی مسلم لیگ (ن) ایسا کوئی قدم اٹھانے کے لیے تیار ہے کہ جس کے نتیجے میں اسے پنجاب میں سرائیکی اور بہاولپور صوبہ کی تقسیم دیکھنی پڑے۔

یہی وجہ ہے کہ ایک جانب تو اس قرارداد کا یہ حال کیا گیا تو دوسری جانب خیبرپختونخوا کے گورنر کی تبدیلی کا معاملہ جو گزشتہ کافی عرصہ سے زیر غور تھا وہ اچانک لائم لائٹ میں آگیا ہے اور ہزارہ ڈویژن ہی سے تعلق رکھنے والے سردار مہتاب احمد خان کو صوبہ کا گورنر بنانے کی بات اب دنوں اور گھنٹوں کی رہ گئی ہے تاکہ ایک طرف تو مسلم لیگ (ن)صوبہ میں معاملات پر اپنی گرفت کو مضبوط کرسکے اور تحریک انصاف پر چیک بھی رکھا جا سکے تودوسری جانب ہزارہ کے لوگوں کے الگ صوبہ کے قیام کے جذبات کو ٹھنڈا بھی کیا جاسکے کیونکہ جب صوبہ کا آئینی سربراہ ہزارہ ڈویژن سے ہوگا تو ممکنہ طور پر سردار مہتاب کی گورنر کی کرسی پر موجودگی تک ہزارہ ڈویژن کو الگ صوبہ بنانے کے مطالبات دم توڑ جائیں گے اور مسلم لیگ(ن) یہ چال اسی انداز میں چل رہی ہے جس طرح اس نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے تحریک انصاف کو اپنے ساتھ ایک ہی صف میں لاکھڑا کیا ہے، اسی طرح اب ہزارہ ڈویژن کے الگ صوبہ کے حامی اس طریقہ سے ان کے ساتھ ایک صف میں آکھڑے ہو سکتے ہیں جو یہ ثابت کرتا ہے کہ (ن) لیگ نہایت ہی عقلمندی کے ساتھ اپنی چالیں چل رہی ہے اور ثابت کر رہی ہے کہ وہ کھیلنا جانتی ہے ۔
Load Next Story