وادی کا بیٹا‏

سرحد کے اس پار پاکستان کی پاک فضاؤں سے اسے عشق تھا، جب بھی آتا تو شکرانے کے نفل ضرور پڑھتا۔

سرحد کے اس پار پاکستان کی پاک فضاؤں سے اسے عشق تھا، جب بھی آتا تو شکرانے کے نفل ضرور پڑھتا۔ فوٹو: اے ایف پی

وہ ان وادیوں کا بیٹا تھا، وہ لمبے درختوں جیسا اونچا، پہاڑوں جیسا مضبوط سراپا اور حوصلہ رکھنے والا نوجوان تھا۔ لیکن وہ ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا وہ تو ایک کمزور اور کم عمر سا لڑکا تھا جو کچھ کہے بنا بھی اپنی غلامی محسوس کرچکا تھا، فوجیوں کا گھر گھر تلاشی لینا، لوگوں سے نفرت آمیز انداز میں بات کرنا، وہ بتائے بن بتائے کی روک ٹوک اور تلاشیاں، کسی کے نہ بتانے کے باوجود بھی وہ سمجھ گیا کہ یہ آزادی نہیں غلامی ہے۔

وہ اور اس کے ساتھی اِس غلامی کیخلاف سراپا احتجاج تھے، اپنی تحریک کی خاطر لوگوں سے رابطے رکھنا، جلسے جلوس کانفرنس کروانا، کبھی ہڑتال، اور کبھی کبھار تصادم بھی ہوجاتا تھا، لیکن وہ اس تحریک کو لے کر آگے بڑھتے رہے، پھر وہ وقت بھی آیا جب اس کے انہی دوستوں میں سے کچھ غائب ہوئے اور پھر ان کی لاشیں ملیں، کتنا رویا تھا وہ، نہ جانے کب وہ بھی استعمار سے دو دو ہاتھ کرنے نکل پڑا پہلے پہل اس نے پتھر کا استعمال کیا، پھر غلیل اور بالآخر اس نے آتشی ہتھیار بھی اٹھا لیا، آخر وہ کب تک ظلم سہتا؟ کب تک اس جبر کی زندگی پر روتا۔

''کشمیر بنے گا پاکستان'' اس کی ڈائری کے ہر صفحہ کی شروعات انہی لفظوں سے ہوتی اور پھر وہ وقت بھی آیا جب اس کے مجاہدانہ کردار کی بدولت ان پر ہونے والی بدسلوکیاں کم ہوگئیں وہ وادی کا سب سے جری کمانڈر بن کے سامنے آیا اس نے قابض فوج کو پیچھے ہٹنے اور دھول چاٹنے پر مجبور کردیا۔ رفتہ رفتہ اس کے قصّے اخبارات اور میڈیا میں آنے لگے. وہ دونوں اطراف کے عوام کا ہیرو بن چکا تھا۔

سرحد کے اس پار پاکستان کی پاک فضاؤں سے اسے عشق تھا، جب بھی آتا تو شکرانے کے نفل ضرور پڑھتا۔ وہ اس وقت کے بارے میں سوچتا جب وادی بھی انہی پاک فضاؤں کا حصہ بنے گی. اس ہی مقصد کی خاطر تو اس کی جانباز جدوجہد جاری تھی۔

مگر پھر کچھ یوں ہوا کہ اس کے لئے زمین تنگ سےتنگ ہوتی گئی، اس کا ان فضاؤں میں دم گھٹنے لگا جہاں وہ آزادی کی جنگ لڑ رہا تھا، حالات کچھ اس نہج پر آگئے کہ مجبوراً اسے سرحد پار آنا پڑا مگر یہ کیا، یہاں آکر اندازہ ہوا کہ یہ فضائیں بھی اس کے لئے اجنبی ہیں، جو دروازے اس کیلئے کھلے رہتے تھے وہ آج بند ہوچکے تھے، جو لب اس کی تعریف کرتے نہیں تھکتے تھے آج خاموش تھے۔

وقت بدل چکا تھا، ان پاک فضاؤں کیلئے اس کا وجود ناپاک ٹھہرا، وہ یہاں بھی اجنبی بن چکا تھا. وہی گھر گھر تلاشیاں، وہی روک ٹوک، راستے میں تلاشیاں اور ہتک آمیز رویے۔ اس کے ہر نام اور کام کے ساتھ لفظ کالعدم لگ چکا تھا. وہ اس کے اپنے تھے، مگر وہ ان کی بے رخی بے وفائی کی تاب نہ لا سکا، وہ ٹوٹ چکا تھا. پھر وہی ہوا جو سرحد پار ہوا کرتا تھا قید و بند کی صعوبتیں اس کے حصے میں آئیں، اس کے "جرائم" کی فہرست طویل ہوتی چلی گئی۔


بالآخر وہ دن بھی آیا جب اپنوں کی بندوقوں کا رخ اُس کی جانب ہوگیا، یہی جرم ٹھہرا اسکا کہ وہ اپنے لوگوں کو آزادی دلانا چاہتا تھا، مگر اس کے مقاصد کو غلط ناموں سے پکارا جانے لگا۔ لیکن وہ تو صرف ایک مجاہد تھا، ، وادی کا بیٹا۔ . آج بھی اس کی ڈائری کے ہر صفحہ کی پہلی سطر پر یہی لکھا ہوتا تھا، "کشمیر بنے گا پاکستان". اپنے بھائیوں کی جانب سے بیوفائی نے اس کو ٹھیس پہنچائی تھی لیکن اس کے وجود نے صبر کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیا۔

وادی کے لوگوں کیلئے وہ آج بھی ہیرو ہے یہ اس کے وجود کا پہلا حصہ تھا جو حالات کے ہاتھوں مجبور ہوگیا اور گوشہ نشینی میں چلا گیا۔ لیکن دوسرا حصہ کہ وادی کے لوگوں کی پکار پر لبیک کہتا ہوا آزادی کی جنگ لڑتا رہا۔ لیکن اس کے وجود کا تیسرا حصہ تب ہوا جب اپنوں کی بندوقوں کا رخ اس کی جانب ہوا تو نہ چاہتے ہوئے بھی جواباً اس نے بھی اپنے ہتھیاروں کا رخ انکی طرف کردیا.

یہ وادی کا بیٹا کون تھا، اور اس کے وجود کے تین حصے کون تھے۔

یہ اگر ایک فرد کی کہانی ہوتی تو شاید کہانی مکمل بیان ہوپاتی لیکن کیوں کہ یہ وادی کا بیٹا اس وادی کے لاتعداد نامکمل کرداروں میں سے ایک ہے جو اپنی آزادی کی جنگ لڑرہے ہیں۔

یہ کردار اب بھی موجود ہیں، یہ کہانیاں اب بھی جا بجا بکھری پڑی ہیں۔ آپ کو ان تمام کہانیوں میں جرأت، بہادری، جذبہ، محبت، بیوفائی، فخر کا ملا جلا سا رویہ ملے گا. یہ کہانیاں اب بھی زندہ ہیں ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ کوئی ان کہانیوں کو پڑھے ان کی روداد کو سمجھے، ان کی زندگیوں میں جھانکے، ان کرداروں کے جذبات کو محسوس کرے اور پھر اپنی رائے قائم کرے کہ کون مجاہد ہے، کون ہیرو بنا اور کون معتوب ٹھہرا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 300 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
Load Next Story