مصنوعی خول میں بند معاشرہ
غلام عباس کے افسانے ’’اوورکوٹ‘‘ میں ہمیں اپنے معاشرے کے ساتھ کافی حد تک مشابہت نظر آتی ہے ...
مطالعے کا ذوق رکھنے والے یقیناً ''غلام عباس'' کے نام سے واقف ہوں گے۔ غلام عباس اردو ادب کے عظیم اور منفرد افسانہ نگار ہو گزرے ہیں۔ ان کی تحریریں آج بھی ذوق و شوق سے پڑھی جاتی ہیں۔ ان کے افسانے دلچسپ ہونے کے ساتھ ساتھ فنی طور پر بھی مکمل ہوتے ہیں، جن میں صداقت، واقعیت اور حقیقت پسندی کا وہ جوہر جھلکتا ہے جو افسانہ نگاری کی جان ہوتا ہے۔ غلام عباس نے اردو زبان کو ایسی عظیم تحریریں دیں کہ ان کا نام اردو زبان کے ساتھ ہمیشہ زندہ رہے گا۔ انھوں نے اپنے افسانوں کی مدد سے نہایت سیدھے سادے انداز اور سادہ سے الفاظ میں انسانی معاشرے کے تضادات اور منافقتوں کو انتہائی مہارت سے بے نقاب کیا ہے۔
ان کی زبان نہایت سادہ اور سیدھی ہے۔ کوزے میں دریا کو بند کرنا انھیں خوب آتا ہے۔ اختصار ان کی تحریر کا خاصہ اور جامعیت ان کی تحریر کا حسن ہے۔ چھوٹے چھوٹے جملوں میں بڑی بڑی باتیں کہہ جانا ان کی عادت ہے۔ وہ اپنی ننگی آنکھوں سے زندگی کی تلخ ، بے رحم سچائی اور حقیقت کو افسانے کا موضوع بنا کر پیش کرتے ہیں۔ ان کی تحریریں انسانی خامیوں اور منافقوں کو اس انداز میں نمایاں کرتی ہیں کہ کوئی پہلو یا نشیب و فراز پوشیدہ نہیں رہ پاتا اور انسانی زندگی کے ظاہر و باطن کے تضادات، منافقتوں اور انسانی معاشرے کے متضاد پہلوئوں کو اس بالغ نظری اور فنکارانہ بصیرت سے بے نقاب کرنا ہی ان کے مشاہدے کی گہرائی و گیرائی کا بین ثبوت ہے۔
ان کی تحریر تکلف، تصنع اور بناوٹ سے پاک ہوتی ہے معاشرے کے رستے ہوئے ناسوروں کو کریدنے اور انھیں اجاگر کرنے کے لیے وہ معاشرے ہی کی زبان اور لب و لہجہ استعمال کرتے ہیں اگرچہ انھوں نے افسانے کم ہی لکھے لیکن بہت خوب لکھے ہیں۔ انھی افسانوں میں ''اوورکوٹ '' غلام عباس کا شاہکار افسانہ ہے، جو ہمیں سبق حاصل کرنے اور سدھرنے کی دعوتِ فکر دیتا ہے۔ اس افسانے کا مرکزی کردار تو '' ایک خوش پوش نوجوان ''ہے لیکن حقیقت میں یہ افسانہ بحیثیت مجموعی ہمارے معاشرے کا نقاب نوچ پھینکتا ہے جس سے پورے معاشرے کی بدنمائی نمایاں ہو جاتی ہے کہ کس طرح ہم اپنی حقیقت کو چھپا کر جھوٹے نام و نمود اور دکھلاوے کی خاطر اپنی ذات کو ایک مصنوعی خول میں بند کیے رکھتے ہیں۔ اوور کوٹ ایک خوش پوش اور فیشن ایبل نوجوان کے بارے میں ہے۔ لمبی لمبی قلمیں، چمکتے ہوئے بال، باریک باریک مونچھیں، سخت سردی میں بادامی رنگ کا گرم اوور کوٹ پہنے ہوئے جس کے کاج میں شربتی رنگ کے گلاب کا ایک ادھ کھلا پھول اٹکا ہوا، سر پر سبز فیلٹ ہیٹ ایک خاص انداز سے ٹیڑھی رکھی ہوئی، سفید سلک کا گلوبند گلے کے گرد لپٹا ہوا، ایک ہاتھ کوٹ کی جیب میں، دوسرے میں بید کی ایک چھوٹی چھڑی پکڑے ہوئے جسے یہ نوجوان کبھی کبھی مزے میں آ کے گھمانے لگتا۔
یہ فیشن ایبل نوجوان اپنی مصنوعی شکل و صورت، بادامی رنگ کے اوورکوٹ، فیلٹ ہیٹ، سفید سلک کے گلوبند اور ہاتھ میں تھامی ہوئی بید کی چھڑی سے اپنے آپ کو ایک مالدار گھرانے کا شخص ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ نوجوان لاہور کے مال روڈ پر اٹھکیلیاں کرتا اور دکانوں سے مختلف اشیاء کی قیمتیں معلوم کرتا مٹر گشت میں محو تھا کہ اسی دوران اچانک اس کا ایکسیڈنٹ ہو جاتا ہے۔ ایکسیڈنٹ کے بعد جب اس کے کپڑے اتارے گئے تو بظاہر خوش پوش اور مالدار نظر آنیوالا نوجوان حقیقت میں بالکل برعکس ثابت ہوا۔ نوجوان کے گلوبند کے نیچے نکٹائی اور کالر کیا سرے سے قمیص ہی نہیں تھی۔ اوور کوٹ کے نیچے سے ایک بوسیدہ اونی سویٹر نکلا جس میں جا بجا بڑے بڑے سوراخ تھے۔ ان سوراخوں سے سویٹر سے بھی زیادہ بوسیدہ اور میلا کچیلا ایک بنیان نظر آ رہا تھا۔
جسم پر میل کی تہیں بھی خوب چڑھی ہوئی تھیں، البتہ گردن خوب صاف تھی اور اس پر ہلکا ہلکا پائوڈر لگا ہوا تھا۔ پتلون کو پیٹی کی بجائے ایک پرانی دھجی سے خوب کس کے باندھا گیا تھا۔ بٹن اور بکسوے غائب تھے۔ دونوں گھٹنوں پر سے کپڑا مسک گیا تھا اور کئی جگہ کھونچیں لگی تھیں۔ بوٹ تو پرانے ہونے کے باوجود خوب چمک رہے تھے، مگر ایک پاؤں کی جراب دوسرے پاؤں کی جراب سے بالکل مختلف تھی اور دونوں جرابیں کافی زیادہ پھٹی ہوئی بھی ہوئی تھیں ۔ اس کے اوور کوٹ کی مختلف جیبوں سے جو چیزیں برآمد ہوئیں وہ یہ تھیں۔ ایک چھوٹی سی سیاہ کنگھی، ایک رومال، ساڑھے چھ آنے، ایک بجھا ہوا سگریٹ، ایک چھوٹی سی ڈائری، نئے گراموفون ریکارڈوں کی ایک ماہانہ فہرست اور کچھ اشتہار جو مٹر گشت کے دوران اشتہار بانٹنے والوں نے اس کے ہاتھ میں تھما دیے تھے۔
غلام عباس کے افسانے ''اوورکوٹ'' میں ہمیں اپنے معاشرے کے ساتھ کافی حد تک مشابہت نظر آتی ہے۔ ہمارا معاشرہ بھی اس نوجوان کی طرح ایک مصنوعی خول میں بند دکھائی دیتا ہے، جس میں ہر فرد کی ساری توجہ جیب میں کچھ نہ ہونے کے باوجود اپنی حقیقت کو چھپا کر جھوٹی عزت حاصل کرنے کی خاطر تصنع اور دکھلاوے پر صرف ہوتی ہے۔ ہر فرد دوسروں کو خوش کرنے اور ان کی واہ واہ سننے کی تگ و دو میں مگن ہے۔ معاشرے میں اکثر معروف رسوم و رواج اسی دکھلاوے کی بدولت ہیں۔ آج کا انسان بے شمار ایسی رسومات میں بندھا ہوا ہے، جن کا مقصد صرف اور صرف دوسروں سے داد وصول کرنا ہے۔ ان رسومات میں صرف مالدار لوگ ہی شامل نہیں، بلکہ فاقوں زدہ زندگی گزارنے والے بھی پیش پیش ہوتے ہیں۔ مالدار گھرانوں میں شادی کرنے کے لیے اکثر و بیشتر سچائی کو چھپا کر جھوٹ اور دھوکا دہی سے کام لیا جاتا ہے۔ غریب گھرانے بھی مختلف رسومات میں اپنی غربت کو چھپانے کی غرض سے ہزاروں لاکھوں روپے اڑا دیتے ہیں، چاہے اس کے لیے کتنے ہی پیسے ادھار لینا پڑیں۔ شادی بیاہ میں بے تحاشہ خرچ کیا جاتا ہے۔
شادی کے موقعے پر قیمتی سے قیمتی جوڑوں اور شاہی دسترخوان کا ہونا ضروری ہے۔ بیٹی کواتنا جہیز دینا ضروری ہے جس سے علاقے میں شہرت ہو جائے، اگرچہ زیور گروی رکھ کر انتظام کرنا پڑے۔ اگر اتنا جہیز نہ دیں تو ناک سلامت نہیں رہتی۔ حالانکہ شادی بیاہ میں بے جا رسوم، غیر ضروری نمود و نمائش اور اخراجات میں جذبہ تفاخر کے سبب معاشرے میں بے شمار برائیاں جنم لے رہی ہیں۔ اپنی ناک بچانے کی خاطر ایک غریب انسان کو اپنی بیٹی کے ہاتھ پیلے کرنے کے لیے دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانا پڑتا ہے یا پھر انھی رسوم کی وجہ سے غریب کی بیٹی کی شادی نہیں ہو پاتی۔ بچوں کی پیدائش اور کسی فرد کی وفات کی رسوم پر ناک بچانے کی غرض سے غریب گھرانوں کو بھی مجبوراً اندھا دھند پیسا خرچ کرنا پڑتا ہے۔آج ہمارا پورا معاشرہ نمائش و نمود کے جال میں پھنسا ہوا ہے۔ آدمی اپنی ناک اونچی کرنے کی خاطر اپنی چادر سے زیادہ پاؤں پھیلانے کی کوشش کرتا ہے۔ نمود و نمائش کے لیے آدمی ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی سوچ میں اپنی حقیقت کو چھپا کر اپنی استطاعت سے زیادہ خرچ کرتا ہے، جس کے لیے اسے قرض کے بوجھ سے پریشان رہنا پڑتا ہے یا ناجائز طریقے سے مال حاصل کرنے کی فکر کرنی پڑتی ہے۔ جس سے معاشرے میں منفی سرگرمیاں جنم لیتی ہیں۔ انسان ظاہری شان و شوکت اور ٹھاٹھ باٹھ کے ذریعے اپنی شخصیت کو چھپانے کی کوشش کرتا ہے، لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ:
حقیقت چھپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے
کہ خوشبو آ نہیں سکتی کبھی کاغذ کے پھولوں سے
ان کی زبان نہایت سادہ اور سیدھی ہے۔ کوزے میں دریا کو بند کرنا انھیں خوب آتا ہے۔ اختصار ان کی تحریر کا خاصہ اور جامعیت ان کی تحریر کا حسن ہے۔ چھوٹے چھوٹے جملوں میں بڑی بڑی باتیں کہہ جانا ان کی عادت ہے۔ وہ اپنی ننگی آنکھوں سے زندگی کی تلخ ، بے رحم سچائی اور حقیقت کو افسانے کا موضوع بنا کر پیش کرتے ہیں۔ ان کی تحریریں انسانی خامیوں اور منافقوں کو اس انداز میں نمایاں کرتی ہیں کہ کوئی پہلو یا نشیب و فراز پوشیدہ نہیں رہ پاتا اور انسانی زندگی کے ظاہر و باطن کے تضادات، منافقتوں اور انسانی معاشرے کے متضاد پہلوئوں کو اس بالغ نظری اور فنکارانہ بصیرت سے بے نقاب کرنا ہی ان کے مشاہدے کی گہرائی و گیرائی کا بین ثبوت ہے۔
ان کی تحریر تکلف، تصنع اور بناوٹ سے پاک ہوتی ہے معاشرے کے رستے ہوئے ناسوروں کو کریدنے اور انھیں اجاگر کرنے کے لیے وہ معاشرے ہی کی زبان اور لب و لہجہ استعمال کرتے ہیں اگرچہ انھوں نے افسانے کم ہی لکھے لیکن بہت خوب لکھے ہیں۔ انھی افسانوں میں ''اوورکوٹ '' غلام عباس کا شاہکار افسانہ ہے، جو ہمیں سبق حاصل کرنے اور سدھرنے کی دعوتِ فکر دیتا ہے۔ اس افسانے کا مرکزی کردار تو '' ایک خوش پوش نوجوان ''ہے لیکن حقیقت میں یہ افسانہ بحیثیت مجموعی ہمارے معاشرے کا نقاب نوچ پھینکتا ہے جس سے پورے معاشرے کی بدنمائی نمایاں ہو جاتی ہے کہ کس طرح ہم اپنی حقیقت کو چھپا کر جھوٹے نام و نمود اور دکھلاوے کی خاطر اپنی ذات کو ایک مصنوعی خول میں بند کیے رکھتے ہیں۔ اوور کوٹ ایک خوش پوش اور فیشن ایبل نوجوان کے بارے میں ہے۔ لمبی لمبی قلمیں، چمکتے ہوئے بال، باریک باریک مونچھیں، سخت سردی میں بادامی رنگ کا گرم اوور کوٹ پہنے ہوئے جس کے کاج میں شربتی رنگ کے گلاب کا ایک ادھ کھلا پھول اٹکا ہوا، سر پر سبز فیلٹ ہیٹ ایک خاص انداز سے ٹیڑھی رکھی ہوئی، سفید سلک کا گلوبند گلے کے گرد لپٹا ہوا، ایک ہاتھ کوٹ کی جیب میں، دوسرے میں بید کی ایک چھوٹی چھڑی پکڑے ہوئے جسے یہ نوجوان کبھی کبھی مزے میں آ کے گھمانے لگتا۔
یہ فیشن ایبل نوجوان اپنی مصنوعی شکل و صورت، بادامی رنگ کے اوورکوٹ، فیلٹ ہیٹ، سفید سلک کے گلوبند اور ہاتھ میں تھامی ہوئی بید کی چھڑی سے اپنے آپ کو ایک مالدار گھرانے کا شخص ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ نوجوان لاہور کے مال روڈ پر اٹھکیلیاں کرتا اور دکانوں سے مختلف اشیاء کی قیمتیں معلوم کرتا مٹر گشت میں محو تھا کہ اسی دوران اچانک اس کا ایکسیڈنٹ ہو جاتا ہے۔ ایکسیڈنٹ کے بعد جب اس کے کپڑے اتارے گئے تو بظاہر خوش پوش اور مالدار نظر آنیوالا نوجوان حقیقت میں بالکل برعکس ثابت ہوا۔ نوجوان کے گلوبند کے نیچے نکٹائی اور کالر کیا سرے سے قمیص ہی نہیں تھی۔ اوور کوٹ کے نیچے سے ایک بوسیدہ اونی سویٹر نکلا جس میں جا بجا بڑے بڑے سوراخ تھے۔ ان سوراخوں سے سویٹر سے بھی زیادہ بوسیدہ اور میلا کچیلا ایک بنیان نظر آ رہا تھا۔
جسم پر میل کی تہیں بھی خوب چڑھی ہوئی تھیں، البتہ گردن خوب صاف تھی اور اس پر ہلکا ہلکا پائوڈر لگا ہوا تھا۔ پتلون کو پیٹی کی بجائے ایک پرانی دھجی سے خوب کس کے باندھا گیا تھا۔ بٹن اور بکسوے غائب تھے۔ دونوں گھٹنوں پر سے کپڑا مسک گیا تھا اور کئی جگہ کھونچیں لگی تھیں۔ بوٹ تو پرانے ہونے کے باوجود خوب چمک رہے تھے، مگر ایک پاؤں کی جراب دوسرے پاؤں کی جراب سے بالکل مختلف تھی اور دونوں جرابیں کافی زیادہ پھٹی ہوئی بھی ہوئی تھیں ۔ اس کے اوور کوٹ کی مختلف جیبوں سے جو چیزیں برآمد ہوئیں وہ یہ تھیں۔ ایک چھوٹی سی سیاہ کنگھی، ایک رومال، ساڑھے چھ آنے، ایک بجھا ہوا سگریٹ، ایک چھوٹی سی ڈائری، نئے گراموفون ریکارڈوں کی ایک ماہانہ فہرست اور کچھ اشتہار جو مٹر گشت کے دوران اشتہار بانٹنے والوں نے اس کے ہاتھ میں تھما دیے تھے۔
غلام عباس کے افسانے ''اوورکوٹ'' میں ہمیں اپنے معاشرے کے ساتھ کافی حد تک مشابہت نظر آتی ہے۔ ہمارا معاشرہ بھی اس نوجوان کی طرح ایک مصنوعی خول میں بند دکھائی دیتا ہے، جس میں ہر فرد کی ساری توجہ جیب میں کچھ نہ ہونے کے باوجود اپنی حقیقت کو چھپا کر جھوٹی عزت حاصل کرنے کی خاطر تصنع اور دکھلاوے پر صرف ہوتی ہے۔ ہر فرد دوسروں کو خوش کرنے اور ان کی واہ واہ سننے کی تگ و دو میں مگن ہے۔ معاشرے میں اکثر معروف رسوم و رواج اسی دکھلاوے کی بدولت ہیں۔ آج کا انسان بے شمار ایسی رسومات میں بندھا ہوا ہے، جن کا مقصد صرف اور صرف دوسروں سے داد وصول کرنا ہے۔ ان رسومات میں صرف مالدار لوگ ہی شامل نہیں، بلکہ فاقوں زدہ زندگی گزارنے والے بھی پیش پیش ہوتے ہیں۔ مالدار گھرانوں میں شادی کرنے کے لیے اکثر و بیشتر سچائی کو چھپا کر جھوٹ اور دھوکا دہی سے کام لیا جاتا ہے۔ غریب گھرانے بھی مختلف رسومات میں اپنی غربت کو چھپانے کی غرض سے ہزاروں لاکھوں روپے اڑا دیتے ہیں، چاہے اس کے لیے کتنے ہی پیسے ادھار لینا پڑیں۔ شادی بیاہ میں بے تحاشہ خرچ کیا جاتا ہے۔
شادی کے موقعے پر قیمتی سے قیمتی جوڑوں اور شاہی دسترخوان کا ہونا ضروری ہے۔ بیٹی کواتنا جہیز دینا ضروری ہے جس سے علاقے میں شہرت ہو جائے، اگرچہ زیور گروی رکھ کر انتظام کرنا پڑے۔ اگر اتنا جہیز نہ دیں تو ناک سلامت نہیں رہتی۔ حالانکہ شادی بیاہ میں بے جا رسوم، غیر ضروری نمود و نمائش اور اخراجات میں جذبہ تفاخر کے سبب معاشرے میں بے شمار برائیاں جنم لے رہی ہیں۔ اپنی ناک بچانے کی خاطر ایک غریب انسان کو اپنی بیٹی کے ہاتھ پیلے کرنے کے لیے دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانا پڑتا ہے یا پھر انھی رسوم کی وجہ سے غریب کی بیٹی کی شادی نہیں ہو پاتی۔ بچوں کی پیدائش اور کسی فرد کی وفات کی رسوم پر ناک بچانے کی غرض سے غریب گھرانوں کو بھی مجبوراً اندھا دھند پیسا خرچ کرنا پڑتا ہے۔آج ہمارا پورا معاشرہ نمائش و نمود کے جال میں پھنسا ہوا ہے۔ آدمی اپنی ناک اونچی کرنے کی خاطر اپنی چادر سے زیادہ پاؤں پھیلانے کی کوشش کرتا ہے۔ نمود و نمائش کے لیے آدمی ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی سوچ میں اپنی حقیقت کو چھپا کر اپنی استطاعت سے زیادہ خرچ کرتا ہے، جس کے لیے اسے قرض کے بوجھ سے پریشان رہنا پڑتا ہے یا ناجائز طریقے سے مال حاصل کرنے کی فکر کرنی پڑتی ہے۔ جس سے معاشرے میں منفی سرگرمیاں جنم لیتی ہیں۔ انسان ظاہری شان و شوکت اور ٹھاٹھ باٹھ کے ذریعے اپنی شخصیت کو چھپانے کی کوشش کرتا ہے، لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ:
حقیقت چھپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے
کہ خوشبو آ نہیں سکتی کبھی کاغذ کے پھولوں سے