تاحیات نااہلی کیس فیصل واوڈا سے دو سوالوں کے جوابات طلب

سپریم کورٹ نے حقائق نہیں ہائیکورٹ کا فیصلہ درست ہے یا غلط یہ دیکھنا ہے، چیف جسٹس

سپریم کورٹ نے تاحیات نااہلی کیس میں پی ٹی آئی رہنما فیصل واوڈا سے دو سوالوں کے جوابات طلب کر لیے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے فیصل واوڈا تاحیات نااہلی کیس کی سماعت کی، فیصل واوڈا کے وکیل وسیم سجاد نے دلائل دیے۔

کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے ریمارکس دیے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کی 62 ون ایف کے تحت ڈکلیئریشن کو سپریم کورٹ برقرار رکھ سکتی ہے یا نہیں، کیوں نا سپریم کورٹ حقائق کی روشنی میں مکمل انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لیے آرٹیکل 187 کا اختیار استعمال کرے۔

وکیل وسیم سجاد کا کہنا ہے کہ پچھلی سماعت پر نشاندہی ہوئی کہ ریٹرننگ افسر کو زائد المیعاد پاسپورٹ جمع کروایا گیا، زائد المیعاد پاسپورٹ ریٹرن افسر کو جمع نہیں کروایا بلکہ سپریم کورٹ میں غلطی سے غلط کاپی جمع کروا دی تھی۔


جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ آپ نے ریٹرننگ افسر کو بھی زائد المیعاد پاسپورٹ ہی جمع کروایا تھا، ریٹرننگ افسر نے ریکارڈ دیکھ کر دستاویزات واپس کر دی تھیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ عجیب بات ہے کہ ریٹرننگ افسر نے ریکارڈ لیا بھی اور بس دیکھ کر واپس کر دیا، آپ اس کیس کے حقائق ثابت کرتے کرتے پھنستے نہیں جا رہے؟ وکیل نثار کھوڑو فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ بددیانتی مشکل سے مشکل تر ہو رہی ہے۔

جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ دلچسپ بات یہ ہے کہ نادرا نے فیصل واوڈا کے شناختی کارڈ اور دستاویزات پر دستخط کیے لیکن تاریخ نہیں ڈالی۔ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ آئین کے تحت انتخابات لڑنے کے لیے دوہری شہریت چھوڑنا شرط ہے نا کہ پاسپورٹ کینسل کروانا۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن نے حقائق کی روشنی میں نااہلی لکھ کر دی جس کو ہائیکورٹ نے برقرار رکھا، سپریم کورٹ نے حقائق نہیں ہائیکورٹ کا فیصلہ درست ہے یا غلط یہ دیکھنا ہے۔

کیس کی سماعت 9 نومبر تک ملتوی کر دی گئی۔
Load Next Story