ظلم کی رگیں کاٹتا عابد کمالوی کا قلم
عابد کمالوی کی تحریریں اُس پھل کی طرح ہیں جس کا ذائقہ میٹھا اور کڑوا ہے
ہر شاعری کی بنیاد خواہ وہ کتنی بھی ترقی پسند یا جدید کیوں نہ ہو ہیئت و اسلوب کے تجربات کے تنوع کے باوجود کلاسیکل مذاقِ ادب ، نکاتِ سخن اور الفاظ و تخیل کے پیکر تراشنے اور چابک دستی سے اُسے ماحول کی دھڑکنوں سے روشناس کر کے پیش کرنے سے الگ نہیں ہے، کیونکہ دنیا میں ہر شخص اپنے تلخ و شیریں تجربات، عمیق مشاہدات، نازک اور تمام تر محسوسات کا اظہار مختلف انداز سے کرتا ہے۔
نثر نگار، افسانے، ناولٹ، ناول اور کہانی لکھ کر۔ بیسویں صدی کے اُردو ادب میں جن سخنوروں نے اپنی شاعری کی بنیاد عہدِ موجود کے مسائل و افکار پر رکھی، اُن میں عہدِ حاضر کے چند سخنوروں کے بعد عابد کمالوی کا نام میرے نزدیک معتبر ، اہم اور سنجیدہ ہے۔ عابد کمالوی بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں، انہوں نے روایت کی بنیاد پر ہی اپنی غزلوں کی عمارت کھڑی کی ہے۔
وہ جدید و قدیم کے چکر میں نہیں پڑتے بقول عشرت کرتپوری '' کہ ویسے بھی جو چیز آج جدید ہے وہ کل قدیم ہو جائے گی۔'' ان کے شعر عام فہم ، سلیس اور سادہ ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ناقدینِانہیں باکمال شاعر ماننے لگے ہیں۔ ان کے بعض اشعار سننے ہی دل میں اُتر جاتے ہیں۔
وفائیں بانٹتا ہوں روشنی تقسیم کرتا ہوں
بس اتنا ہی تعارف ہے یہی پہچان ہے میری
.........
میں وہ دیا ہوں کہ لوگوں کا جو مقدر ہے
تو اپنے شہر میں مجھ کو جلا کے دیکھ ذرا
.........
قصرِ شاہی میں نہ جاتے تو بہت اچھا تھا
آبرو تم نے وہاں جا کے گنوالی کتنی
عابد کمالوی کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے غزل ، نظم ، قطعہ اور ملی نغمہ جیسی عوامی صنف میں طبع آزمائی کی ، ان کی ہر صنفِ سخن ان کی درویشانہ شخصیت کے داخلی اور خارجی پہلوئوں کی بیک وقت تصویر کشی ہے۔ زندگی ان کے نزدیک بے حد خوبصورت اور دل کش نظاروں کی عکاس ہے۔ ان کی تمام شاعری میں حالات کی تلخیوں، سچائیوں، رعنائیوں، شرینیوں، کڑواہٹوں کا رنگ نمایاں دکھائی دیتا ہے۔
ان کے شعری مجموعوں میں پہلا پتھر، جانِ جاناں ، پیا گھر آیا و دیگر شامل ہیں جبکہ نثر میں نظریہ پاکستان ، مینارِ پاکستان کی کہانی، پنجاب کی ثقافت اور بچوں کی کتابوں میں پاکستان کہانی ، چاند کہانی اور مریخ کہانی اُردو ادب کا سرمایہ ہیں۔ ان کی متعدد زیرِ طبع تصانیف میں منتخب شاعری اور لاتعداد کالم شامل ہیں ، وہ شاعرِ مشرق علامہ اقبالؒ سے متاثر ہیں۔
انہیں بچپن سے ہی کتابیں پڑھنے اور لکھنے کا ذوق و شوق تھا۔ شاعری میں میرا کوئی اُستاد نہیں بقول ان کے '' اسکول کے زمانے کے ایک اُستاد تھے بشیر حامد جنہوں نے مجھے ایک دو چیزیں بتائی اُس کے بعد مجھے کوئی ضرورت ہی پیش نہ آئی۔''
ہمارے بارے میں رائے ابھی نہ قائم کر
کسی سے پوچھ ہمیں پاس آ کے دیکھ ذرا
عابد کمالوی کے والدین بھارت کے شہر ہوشیار پور سے ہجرت مکیں ہو کر پاکستان کے ضلع لائل پور کے نواحی گائوں '' کمالیہ '' میں سکونت پذیر ہوئے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم یہی سے حاصل کی ہیں جبکہ پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ایم اے صحافت پھر یونیورسٹی لاء کالج سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد پنجاب پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کیا اور محکمہ اطلاعات حکومت پنجاب میں بطور انفارمیشن آفیسر ملازمت اختیار کی۔ اس دوران وہ مختلف ڈویژن اور اضلاع میں محکمہ کے سربراہ تعینات رہے اور آخر کار 2012 ء میں اپنی سرکاری ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوئے۔
عابد کمالوی کی صحافتی زندگی کا سب سے بڑا سنگِ میل آغا شورش کاشمیری کا ہفت روزہ '' چٹان '' ٹھہرا۔ اس دوران انہیں اُس عہد کی ممتاز شخصیات کے انٹرویوز کرنے کا بھی اعزاز حاصل ہے۔ '' چٹان '' کے علاوہ بھی انہوں نے دیگر قومی اخبارات و رسائل کی نمایندگی کی اور اپنے زورِ قلم سے کلمہ حق کی صدا کو بلند کیا۔ یہی سلسلہ وہ آج بھی قومی اخبارات میں ''حلقہ زنجیر'' کے عنوان سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ عابد کمالوی ایک محبِ وطن آدمی ہے وہ وطنِ عزیز کی موجودہ بد حالی پر موجودہ سیاسی چہروں سے بہت مایوس دکھائی دیتے ہیں۔
مجھے ان کے اولین شعری مجموعے '' پہلا پتھر'' ان کے ایم اے صحافت کے کلاس فیلو افتخار مجاز مرحوم کے توسط سے پڑھنے کا موقعہ میسر آیا۔ اس کتاب کو حسن نثار '' مٹی اور موتیے کی خوشبو '' قرار دیتے ہوئے رقم طراز ہے کہ '' عابد کی شاعری نہیں ٹلتی، مٹی اور موتیے کی خوشبو سے لیکر برسات کی پہلی بارش تک ان کی شاعری سنبھالے نہیں سنبھلتی، لپٹ جاتی ہے بھگو دیتی ہے۔''
عابد کمالوی میرے نزدیک ایک شخصیت نہیں ایک عہد اور تحریک کا نام ہے ، جو اپنے شگفتہ مزاج، رنج و الم سے نہاں، چہرے پہ تبسم ، حق گو، سچے پاکستانی ، نتائج سے بے خبر حکمران کے سامنے کلمہ حق کہنے والے نڈر شاعر ، کالم نگار اور صحافی ہیں۔ ظلم کی رگیں کاٹتا عابد کمالوی کا قلم کسی تلوار سے کم نہیں۔ ان کی مزاحمتی شاعری اور فکر انگیز کالم نگاری پر ایم فل کے اب تک چار عدد مقالے تحریر ہو چکے ہیں ، وہ ادبی تنظیم '' ادبی لوگ '' کے روحِ رواں بھی ہیں۔
عابد کمالوی کی شاعری میں انفرادی دکھ کی بجائے اجتماعی دکھ کا اظہار زیادہ پایا جاتا ہے بھوک ، افلاس، تشدد، معاشرتی عدم، مساوات، دہشت گردی اور ہزاروں بے گناہ لوگوں کی اموات، ایثار اور قربانی جیسے جذبات کا فقدان، حصولِ زر کی دوڑ میں انسان کا تمام اخلاقی حدود میں رہ کر امن اور محبت کا پیغام دینا ہی ان کی شاعری کا حسین امتزاج ہے۔
عابد کمالوی کی تحریریں اُس پھل کی طرح ہیں جس کا ذائقہ میٹھا اور کڑوا ہے ، وہ جیسے حقیقی زندگی میں خود دکھائی دیتے ہیں ویسے ہی اپنی شاعری اور نثر میں دکھائی دیتے ہیں۔ اُردو ادب و صحافت کی تاریخ کے اوراق جب بھی کھولیں گے تو ہمیں عابد کمالوی کا نام ضرور دکھائی دے گا ۔ آخر پہ ان کا زبانِ زدِ عام مقبول ہونے والا شعر پیش کرتا چلوں کہ:
عمر بھر ہوتی رہی تھیں سازشیں میرے خلاف
مر گیا تو ریفرنس اور برسیاں ہونے لگیں
نثر نگار، افسانے، ناولٹ، ناول اور کہانی لکھ کر۔ بیسویں صدی کے اُردو ادب میں جن سخنوروں نے اپنی شاعری کی بنیاد عہدِ موجود کے مسائل و افکار پر رکھی، اُن میں عہدِ حاضر کے چند سخنوروں کے بعد عابد کمالوی کا نام میرے نزدیک معتبر ، اہم اور سنجیدہ ہے۔ عابد کمالوی بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں، انہوں نے روایت کی بنیاد پر ہی اپنی غزلوں کی عمارت کھڑی کی ہے۔
وہ جدید و قدیم کے چکر میں نہیں پڑتے بقول عشرت کرتپوری '' کہ ویسے بھی جو چیز آج جدید ہے وہ کل قدیم ہو جائے گی۔'' ان کے شعر عام فہم ، سلیس اور سادہ ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ناقدینِانہیں باکمال شاعر ماننے لگے ہیں۔ ان کے بعض اشعار سننے ہی دل میں اُتر جاتے ہیں۔
وفائیں بانٹتا ہوں روشنی تقسیم کرتا ہوں
بس اتنا ہی تعارف ہے یہی پہچان ہے میری
.........
میں وہ دیا ہوں کہ لوگوں کا جو مقدر ہے
تو اپنے شہر میں مجھ کو جلا کے دیکھ ذرا
.........
قصرِ شاہی میں نہ جاتے تو بہت اچھا تھا
آبرو تم نے وہاں جا کے گنوالی کتنی
عابد کمالوی کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے غزل ، نظم ، قطعہ اور ملی نغمہ جیسی عوامی صنف میں طبع آزمائی کی ، ان کی ہر صنفِ سخن ان کی درویشانہ شخصیت کے داخلی اور خارجی پہلوئوں کی بیک وقت تصویر کشی ہے۔ زندگی ان کے نزدیک بے حد خوبصورت اور دل کش نظاروں کی عکاس ہے۔ ان کی تمام شاعری میں حالات کی تلخیوں، سچائیوں، رعنائیوں، شرینیوں، کڑواہٹوں کا رنگ نمایاں دکھائی دیتا ہے۔
ان کے شعری مجموعوں میں پہلا پتھر، جانِ جاناں ، پیا گھر آیا و دیگر شامل ہیں جبکہ نثر میں نظریہ پاکستان ، مینارِ پاکستان کی کہانی، پنجاب کی ثقافت اور بچوں کی کتابوں میں پاکستان کہانی ، چاند کہانی اور مریخ کہانی اُردو ادب کا سرمایہ ہیں۔ ان کی متعدد زیرِ طبع تصانیف میں منتخب شاعری اور لاتعداد کالم شامل ہیں ، وہ شاعرِ مشرق علامہ اقبالؒ سے متاثر ہیں۔
انہیں بچپن سے ہی کتابیں پڑھنے اور لکھنے کا ذوق و شوق تھا۔ شاعری میں میرا کوئی اُستاد نہیں بقول ان کے '' اسکول کے زمانے کے ایک اُستاد تھے بشیر حامد جنہوں نے مجھے ایک دو چیزیں بتائی اُس کے بعد مجھے کوئی ضرورت ہی پیش نہ آئی۔''
ہمارے بارے میں رائے ابھی نہ قائم کر
کسی سے پوچھ ہمیں پاس آ کے دیکھ ذرا
عابد کمالوی کے والدین بھارت کے شہر ہوشیار پور سے ہجرت مکیں ہو کر پاکستان کے ضلع لائل پور کے نواحی گائوں '' کمالیہ '' میں سکونت پذیر ہوئے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم یہی سے حاصل کی ہیں جبکہ پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ایم اے صحافت پھر یونیورسٹی لاء کالج سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد پنجاب پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کیا اور محکمہ اطلاعات حکومت پنجاب میں بطور انفارمیشن آفیسر ملازمت اختیار کی۔ اس دوران وہ مختلف ڈویژن اور اضلاع میں محکمہ کے سربراہ تعینات رہے اور آخر کار 2012 ء میں اپنی سرکاری ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوئے۔
عابد کمالوی کی صحافتی زندگی کا سب سے بڑا سنگِ میل آغا شورش کاشمیری کا ہفت روزہ '' چٹان '' ٹھہرا۔ اس دوران انہیں اُس عہد کی ممتاز شخصیات کے انٹرویوز کرنے کا بھی اعزاز حاصل ہے۔ '' چٹان '' کے علاوہ بھی انہوں نے دیگر قومی اخبارات و رسائل کی نمایندگی کی اور اپنے زورِ قلم سے کلمہ حق کی صدا کو بلند کیا۔ یہی سلسلہ وہ آج بھی قومی اخبارات میں ''حلقہ زنجیر'' کے عنوان سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ عابد کمالوی ایک محبِ وطن آدمی ہے وہ وطنِ عزیز کی موجودہ بد حالی پر موجودہ سیاسی چہروں سے بہت مایوس دکھائی دیتے ہیں۔
مجھے ان کے اولین شعری مجموعے '' پہلا پتھر'' ان کے ایم اے صحافت کے کلاس فیلو افتخار مجاز مرحوم کے توسط سے پڑھنے کا موقعہ میسر آیا۔ اس کتاب کو حسن نثار '' مٹی اور موتیے کی خوشبو '' قرار دیتے ہوئے رقم طراز ہے کہ '' عابد کی شاعری نہیں ٹلتی، مٹی اور موتیے کی خوشبو سے لیکر برسات کی پہلی بارش تک ان کی شاعری سنبھالے نہیں سنبھلتی، لپٹ جاتی ہے بھگو دیتی ہے۔''
عابد کمالوی میرے نزدیک ایک شخصیت نہیں ایک عہد اور تحریک کا نام ہے ، جو اپنے شگفتہ مزاج، رنج و الم سے نہاں، چہرے پہ تبسم ، حق گو، سچے پاکستانی ، نتائج سے بے خبر حکمران کے سامنے کلمہ حق کہنے والے نڈر شاعر ، کالم نگار اور صحافی ہیں۔ ظلم کی رگیں کاٹتا عابد کمالوی کا قلم کسی تلوار سے کم نہیں۔ ان کی مزاحمتی شاعری اور فکر انگیز کالم نگاری پر ایم فل کے اب تک چار عدد مقالے تحریر ہو چکے ہیں ، وہ ادبی تنظیم '' ادبی لوگ '' کے روحِ رواں بھی ہیں۔
عابد کمالوی کی شاعری میں انفرادی دکھ کی بجائے اجتماعی دکھ کا اظہار زیادہ پایا جاتا ہے بھوک ، افلاس، تشدد، معاشرتی عدم، مساوات، دہشت گردی اور ہزاروں بے گناہ لوگوں کی اموات، ایثار اور قربانی جیسے جذبات کا فقدان، حصولِ زر کی دوڑ میں انسان کا تمام اخلاقی حدود میں رہ کر امن اور محبت کا پیغام دینا ہی ان کی شاعری کا حسین امتزاج ہے۔
عابد کمالوی کی تحریریں اُس پھل کی طرح ہیں جس کا ذائقہ میٹھا اور کڑوا ہے ، وہ جیسے حقیقی زندگی میں خود دکھائی دیتے ہیں ویسے ہی اپنی شاعری اور نثر میں دکھائی دیتے ہیں۔ اُردو ادب و صحافت کی تاریخ کے اوراق جب بھی کھولیں گے تو ہمیں عابد کمالوی کا نام ضرور دکھائی دے گا ۔ آخر پہ ان کا زبانِ زدِ عام مقبول ہونے والا شعر پیش کرتا چلوں کہ:
عمر بھر ہوتی رہی تھیں سازشیں میرے خلاف
مر گیا تو ریفرنس اور برسیاں ہونے لگیں