سادھو بیلا

 پاکستان میں ہندوؤں کا اہم تیرتھ استھان

 پاکستان میں ہندوؤں کا اہم تیرتھ استھان۔ فوٹو : فائل

سکھر صوبہ سندھ کا تیسرا بڑا شہر ہے۔ سکھر دریائے سندھ کے کنارے واقع ہے۔ یوں تو اس شہر میں بہت سے تاریخی و مذہبی مقامات ہیں لیکن سندھو کے سینے میں ایک جزیرے پر ایستادہ سفید سنگِ مرمر سے بنا سادھو بیلا، ایک الگ ہی مقام رکھتا ہے۔

سکھر کے مقام پر سندھو میں کئی جزیرے ہیں جن میں سب سے بڑا اور مشہور بکھر ہے۔ اسی جزیرے کے جنوب میں سادھ بیلو جزیرہ ہے جس پر سادھو بیلا نامی یہ استھان واقع ہے۔ یوں یہ جگہ آپ کو سکھر اور روہڑی کو ملانے والے لینس ڈاؤن پل سے بھی نظر آ جاتی ہے۔

نام اور وجہ تسمیہ

''سادھ بیلو'' سندھی زبان کے الفاظ ہیں، سادھ کے معنی عاقل، دانا یا سادھو جب کہ بیلو کے معنی جنگل کے ہیں۔

اردو میں اُسے سادھو بیلا کہا جاتا ہے یعنی سادھوؤں کا جنگل۔ یہ ایک ایسا جزیرہ ہے جہاں درختوں کے جھنڈ بھی ہیں اور پتھریلی چٹانیں بھی، جن پر مندروں اور سمادھیوں کی تعمیر کی گئی ہے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ ابتدا میں یہاں صرف چٹانیں اور درخت ہی تھے جنہیں بعد میں تعمیر ہونے والی عمارتوں نے اپنے اندر چھپا لیا۔ اس کے باوجود اب بھی پیپل، نیم اور کئی دوسرے صدیوں پرانے درخت ان عمارتوں کو ڈھانپے ہوئے ہیں۔

سب سے بڑا تیرتھ استھان

صوبۂ سندھ پاکستان کا وہ علاقہ ہے جہاں بڑی تعداد میں ہندو رہتے ہیں۔ قیامِ پاکستان کے بعد بھی یہاں رہ جانے والے ہندو پاکستان اور خصوصاً صوبہ سندھ کی معاشرت، سیاست، ادب اور ترقی میں اہم کردار ادا کرتے آ رہے ہیں۔ سندھ کے طول و عرض میں پھیلے مندروں میں سادھو بیلا سب سے بڑا اور منفرد ہے۔

ہندوؤں کا سب سے بڑا تیرتھ استھان، سادھو بیلا جسے سندھی میں ''سادھ بیلو'' بھی کہا جاتا ہے بہت سے مندروں کا ایک کمپلیکس ہے جو آپس میں جڑے ہوئے دو جزائر پر واقع ہے۔ ''سادھ بیلو'' میں آپ مندر، رسوئی گھر اور جب کہ ''دین بیلو'' میں رشی مندر، مختلف سمادھیاں اور پارک دیکھ سکتے ہیں۔

تاریخ

تاریخی شواہد کے مطابق موجودہ بھارت کے شمالی علاقے سے 1823ء میں ایک سادھو ''سوامی برکھنڈی مہاراج'' سندھ کنارے آباد ایک بڑے تجارتی مرکز سکھر آئے۔ سکون اور شانتی کی تلاش میں آئے سادھو کی نظر سکھر شہر سے کچھ دور دریائے سندھ کے بیچ میں واقع اس ویران جزیرے ''مینک پربت'' (پرانا نام) پر نظر پڑی تو یہیں قیام کر لیا۔

اس جگہ کے ماحول سے متاثر ہوکر انہوں نے یہاں پوجا پاٹ اور دھونی شروع کی یوں شہر کے ہندوؤں کا بھی ان کے پاس آنا جانا شروع ہو گیا۔ بابا نے یہاں مختلف بھگوانوں کے مندر اور بھگوت گیتا و گرنتھ صاحب کے استھان تعمیر کیے۔

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اُداسی فرقہ سے تعلق رکھنے والے سکھ، سادھو بیلو کو انتہائی قدر کی نگا ہ سے دیکھتے ہیں کیوںکہ اس فکر سے تعلق رکھنے والوں کے مطابق بابا بان کھنڈی مہاراج سری چند مہاراج کی تعلیمات سے کافی متاثر تھے۔

بابا بان کھنڈی نے لگ بھگ 40 سال تک سادھو بیلا میں قیام کیا، ان کا انتقال1863ء میں 100 سال کی عمر میں ہوا۔ ان کے انتقال کے بعد ''سادھو بیلا'' میں ان کے آٹھ جانشین آئے، 9 ویں جانشین کا نام بابا ہرنام داس تھا، انہوں نے تقسیم کے بعد سادھوبیلا کو بند کیا اور علاج کے سلسلے میں انڈیا کے شہر گوجرہ چلے گئے اور واپس نہ آئے۔ بعد میں انہوں نے یہاں کی کُنجی ایک دوسرے آدمی کے ہاتھوں بھجوا دی۔

انڈیا میں سادھو بیلا کے نام سے ہرِدوار، ممبئی اور دہلی میں تین دھرم شالائیں بنوائیں، مگر ان کا مقابلہ پاکستان کے سادھو بیلا سے نہیں کیا جا سکتا۔


اس لیے کہ ایک تو یہ تاریخی جگہ ہے، دوسرا دریا کے وسط میں ایک جزیرے پر آباد ہونے کی وجہ سے اس کا محلِ وقوع بہت خوب صورت اور قدرتی ہے۔ پہلے اس جزیرے پر لگ بھگ 100 مور بھی پائے جاتے تھے، جنہیں یہاں آنے والے یاتری دانہ دنکا کھلاتے تھے مگر بعد میں دیکھ بھال نہ ہونے سے وہ مر گئے اور اب چند ایک ہی رہ گئے ہیں۔

مندر کی اہمیت

پاکستان سمیت بھارت کے ہندوؤں میں بھی اس مندر کا ایک اہم مقام ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ جو ہمیں سمجھ آتی ہے یہاں کا ''ٹمپل کمپلیکس'' ہے جہاں ہنومان، رام ، شیو شنکر، گنیش، سائیں بابا سمیت مختلف بھگوانوں کے مندر ذرا ذرا فاصلے پر ایک ہی عمارت میں واقع ہیں۔

یوں ان سب کو ماننے والے ہندو زائرین اس تیرتھ ستھان پر آتے ہیں اور سندھو کے پانی میں اشنان بھی کرتے ہیں۔

لنگرخانہ، لائبریری، آشرم، اشنان کی جگہیں، سرسبز لان اس کے علاوہ ہیں۔ لائبریری میں ہندومت سے متعلق کتابوں کا بڑا ذخیرہ ملتا ہے۔

دالانوں میں بنے کئی کمرے مختلف مواقع پر مہمانوں کی رہائش کے لیے کام آتے ہیں، جب کہ جگہ جگہ دیواروں پر سنگ مرمر کے یادگاری کتبے بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ جیسے میں نے اوپر ذکر کیا تھا، ایک زمانے میں یہ جگہ موروں سے بھری ہوئی تھی جب کہ اب یہ مور اکا دکا ہی نظر آتے ہیں۔

یہاں کا سب سے بڑا تہوار بابا بانکھنڈی مہاراج کا میلا ہے جو ان کے جنم دن کے موقع پر لگایا جاتا ہے۔ تین دن تک پوجا پاٹ اور آرتی کی جاتی ہے۔ دور دور سے آئے زائرین کو مفت رہائش اور کھانا دیا جاتا ہے۔

طرزِ تعمیر

مندر تک دریائے سندھ کو پار کر کہ پہنچا جاتا ہے جس کے لیے آپ کو محکمۂ اوقاف کا اجازت نامہ درکار ہو گا جو سکھر میں اوقاف کے دفتر سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اگر آپ کا کوئی ہندو دوست ہے تو وہ یہ کام بہ آسانی کر سکتا ہے۔ اِس کے بعد کنارے پر کھڑی کشتی آپ کو سندھ پار کروا کہ دوسرے کنارے تک پہنچاتی ہے۔

جیسے ہی آپ یہاں قدم رکھتے ہیں تو سنگِ مرمر کی شان دار عمارت آپ کے سامنے ہوتی ہے۔ اِس کے خوب صورت جھروکے دیکھ کہ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے راجستھان کا کوئی عظیم الشان محل۔

سنگِ مرمر سے بنے نقش و نگار، کُندہ مورتیاں، دل کش محرابیں، پرانے طرز کے جھروکے، ٹھنڈے برآمدے، رنگ برنگے نقش و نگار، بجتی ہوئی گھنٹیاں، لال جھنڈے، جانوروں کی کندہ تصاویر، صحن کے وسط میں دھاڑتا ہوا سنگِ مرمر کا شیر، پیلے رنگ کی پرانی لائبریری کی عمارت، برآمدوں اور دروازوں پر کیا گیا نفیس کام دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔

ساتھ ہی بہتا ہوا اباسین اور لینس ڈاؤن کا نظارہ، ایک اسلامی ملک میں یہ جگہ ایک الگ ہی دنیا محسوس ہوتی ہے۔

اور یہی وہ چیزیں ہیں جن کی وجہ سے یہ مندر پاکستان کا سب سے منفرد تیرتھ استھان مانا جاتا ہے۔

یہاں کوئی کسی کو نہیں گھورتا۔ آپ اگر مسلمان ہیں تو آرام سے جائیں اور احترام کے ساتھ اس مندر کی سیر کریں۔ بغیر کوئی ایسی حرکت کیے جو کسی کو بھی ناگوار گزرے۔ بین المذاہب مذہبی ہم آہنگی کو سمجھنے کے لیے اس جگہ کا دورہ ایک بار تو ضرور کرنا چاہیے۔
Load Next Story