قومی سلامتی کے تقاضے
حکومت سے باہر نکالے جانے کے بعد سے عمران خان مسلسل اسٹیبلشمنٹ سے مداخلت اور جلد الیکشن کا مطالبہ کر رہے ہیں
پاک فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار اور ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم نے مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ جھوٹے بیانیہ کے ذریعے قوم کو گمراہ کیا گیا، ملکی اداروں اور آرمی چیف پر بے جا الزام تراشی کی گئی اور معاشرے میں تقسیم اور غیر ضروری صورتحال پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔ ہمیں مل کر پاکستان کو جعلی سازشوں سے نکالنا ہے۔ جھوٹ سے فتنہ و فساد کا خطرہ ہو تو سچ بولنا ضروری ہوجاتا ہے۔
بلاشبہ اس پریس کانفرنس کی اہمیت و افادیت مسلمہ ہے کیونکہ گزشتہ کچھ عرصے سے پاک فوج کے خلاف ایک مذموم مہم بڑی شدت سے اور مسلسل چلائی جارہی ہے۔
یہ مہم کہاں سے لانچ ہوئی اور اس کے مقاصد کیا ہیں، یہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔حالیہ دنوں میں یہ کام انتہائی شاطرانہ انداز میں شروع ہوا ہے، اس کے تاثر کو زائل کرنے اور قوم کے سامنے حقائق رکھنا وقت کی اہم ترین ضرورت تھی۔ اس لیے پاک فوج کو خود سامنے آکر بہت سے حقائق عوام کے سامنے رکھنے پڑے ہیں۔
پاکستان میں کوئی سرکاری ادارہ ہو،کوئی سیاسی لیڈر ہو، کاروباری ادارہ ، کوئی عالم دین ہویا کوئی گدی نشین،ریاست سے بڑھ کر نہیں ہوسکتا،سب کو اپنی آئینی حدود کو سامنے رکھ کر کام کرنا چاہیے،آئینی حدود سے تجاوز کرنا ملکی سلامتی سے کھیلنے کے مترادف ہے۔
دنیا کی کوئی ریاست اپنی سلامتی کے ایشو پر کمپرو مائز نہیں کرتی، پاکستان کی سیاسی قیادت کا فرض ہے کہ وہ اپنے منشور کے مطابق سیاست کرے،منشور سے ہٹ کر سیاست کرنا جمہوری عمل نہیں ہوسکتا۔
پاکستان میں گزشتہ ستر برس میں جو کچھ ہوا، وہ تاریخ کے صفحات میں محفوظ ہے۔اس عرصے کے دوران ریاستی اداروں کی قیادت اور سیاسی قیادت نے جو کردار ادا کیا، وہ بھی سب کے سامنے ہے،جمہوریت اور ریاست کے شہریوں کے مفاد کو پس پشت ڈالا گیا، یہ اس لیے ہوا کہ ملک کی سیاسی قیادت نے جمہوری اصولوں کا نام تو لیا لیکن ان پر عمل نہیں کیا،ملک کی سیاسی اور مذہبی قیادت نے اپنا محاسبہ نہیں کیا۔
'' اقتدار کی لالچ و ہوس'' میں مبتلا ہوکر قومی غیرت تک کو بھی داؤ پر لگا دیتے ہیں اور آج وہ صورتحال نظر آ رہی ہے کہ اقتدار کے لیے کس حد تک ملک کے اداروں ، پاک فوج ، سلامتی کے سارے اداروں کے ساتھ عدلیہ، الیکشن کمیشن تک کو بخشا نہیں جا رہا ہے۔
سابق حکمران اپنی پونے چار سالہ ناکامیوں کا ذمے دار بھی ملکی اداروں کو ٹھہرا کر دوبارہ اقتدار حاصل کرنے کے لیے پروپیگنڈہ کر رہے ہیں۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں ملکی وقار اور سلامتی کو داؤ پر لگا کر عوام کو فسادات، جھگڑوں کے لیے اکسایا جا رہا ہے۔
یہ تو پاک فوج کا کمال ہے کہ وطن عزیز کو ملک دشمن قوتوں کی سازشوں سے بچاتے ہوئے محفوظ رکھا ہوا ہے ورنہ ہمارے حالات بھی سری لنکا سے کم نہیں ہوتے، لیکن اللہ پاک کے فضل و کرم سے ہماری بہترین فوج، نمبر ون انٹیلی جنس ایجنسی اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی وجہ سے دشمن کے ارادے پہلے کی طرح ناکام ہو جائیں گے۔
تمام سیاستدانوں کو بھی چاہیے کہ وہ فوج یا کسی جنرل کے متعلق اس قسم کی گفتگو کرنے سے پرہیز کریں جس سے قوم کے ساتھ فوج کی دل آزاری ہو جائے۔
پاک فوج ہماری اور ہمارے وطن کی پاسبان یہے۔ اس وقت ملک میں سیاسی عدم استحکام ہے ، بلاشبہ سیاسی حالات کا معیشت پر گہرا اثر ہوتا ہے اور آج کے دور میں معیشت اور سیکیورٹی کو علیحدہ علیحدہ نہیں کیا جا سکتا ، اس لیے کسی ممکنہ سیاسی بے یقینی کے حوالے سے فوج کی تشویش بالکل بجا ہے۔
فوج نے اس حوالے سے بڑا واضح پیغام دے دیا ہے کہ وہ اور حکومت کسی بھی طرح کی سیاسی بے یقینی یا سیاسی عدم استحکام کو برداشت نہیں کریں گے۔
فوج واقعی ملک میں عدم استحکام اس وقت نہیں چاہتی کیونکہ ایسی کسی صورت حال پر بیرونی دنیا کو بھی سخت تشویش ہو گی، جو پاکستان کے لیے بہتر نہیں ہو گا۔ اس لیے فوج نہیں چاہتی کہ کوئی بھی سیاسی جماعت یا سیاستدان ملک میں افراتفری یا عدم استحکام پھیلائے۔ گو عمران خان نے کرپشن بیانیے کو فروغ دیا، جو بہت مقبول ہوا ، اور وہ اسی بنیاد پر برسر اقتدار بھی آئے ، لیکن وہ توشہ خانہ کیس میں نااہل قرار دیے جاچکے ہیں ۔
عسکری ادارے کے خلاف سوشل میڈیا یا دیگر ذرائع سے جو منفی پروپیگنڈہ مہم چلائی جا رہی ہے اگلے روز ہونیوالے پریس کانفرنس اس تاثر کو زائل کرنے کے لیے بھی تھی کہ فوج خود کو سیاست سے دور رکھے ہوئے ہے اور وہ ملک میں سیاسی و معاشی استحکام چاہتی ہے۔
حکومت سے باہر نکالے جانے کے بعد سے عمران خان مسلسل اسٹیبلشمنٹ سے مداخلت اور جلد الیکشن کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہمارا وطن پاکستان ہمیں جان سے زیادہ عزیز ہے۔ پاکستان ہے تو ہم ہیں۔ پاکستان میں دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاک فوج کا اہم کردار رہا ہے۔
ملک میں قدرتی آفات ہوں یا سیلاب، زلزلے ہوں یا بارشیں، ریلوے اور قومی شاہراہوں پر حادثے ہوں تو وہاں مدد اور ریسکیو کے لیے فوج پہنچ جاتی ہے، اگر ملکی سرحدوں پر دشمن فوج حملہ کرنے کی کوشش کرتی ہے تو ہمارے جوانوں کی قربانیوں کی وجہ سے ہم محفوظ ہوتے ہیں اور رات کو آرام سے نیند کرتے ہیں۔
سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کی جماعت نے حکومت کھو دینے کے بعد ریاستی اداروں کے خلاف جو بیانیہ اپنایا اسے کسی طور بھی درست قرار نہیں دیا جا سکتا۔
ان کی حکومت آئینی طور پر تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ختم ہوئی لہذا بطور ایک سیاسی جماعت کے اسے اپنا موقف بھی سیاسی میدان اور اسمبلی کے فلور سے بیان کرنا چاہیے اور سیاسی جنگ بھی آئینی و قانونی حدود کے اندر رہتے ہوئے لڑنی چاہیے۔
یہ طریقہ قطعی طور پر درست نہیں کہ حکومت مل جائے تو اسٹیبلشمنٹ اور دیگر ریاستی اداروں کی کارکردگی قابل ستائش ہے اور اگر حکومت چاہے وہ آئینی طریقے سے ہی ختم ہو جائے تو طیش میں آکر نامناسب اور ناشائستہ رویہ اپناتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف منفی اور اخلاقیات سے گری ہوئی پروپیگنڈا مہم چلائی جائے۔
یہ انداز جمہوری روایات اور سیاسی اصولوں کے بھی خلاف ہے۔اگر کوئی جماعت جمہوریت پر یقین رکھتی ہے تو اسے آئین کے تحت وضع کردہ اصولوں کے تحت اپنی اقتدار کی جنگ لڑنی چاہیے ناکہ چور راستوں سے ہر جائز و ناجائز حربہ استعمال کرتے ہوئے اقتدار حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔تجزیہ نگاروں کے مطابق عمران خان اور ان کی جماعت کی جانب سے ملک میں سری لنکا، لیبیا، شام، یمن، جیسے حالات پیدا کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں ۔
اقتدار سے محرومی کے بعد تحریک انصاف نے ریاستی اداروں اور فوج کے خلاف سوشل میڈیا پر جو مہم چلائی اسے قطعی طور پر درست قرار نہیں دیا جا سکتا۔
عمران خان کی زبان سے نہ پاکستان محفوظ ہے نہ فوج، نہ عدلیہ اور نہ ہی سلامتی کے ادارے محفوظ ہیں! عمران خان اپنی حکومت بچانے کے لیے فوج سے غیر آئینی کردار ادا کرنے کا کہتے رہے مگر جب فوج کے ادارے نے سیاسی طور پر غیر جانبدار رہتے ہوئے آئین کے اندر رہتے ہوئے اپنا کردار ادا کرنے کا کہا تو عمران خان نے فوج کے خلاف جو بیانیہ اپنایا وہ قطعی طور پر سیاسی اور جمہوری اصولوں کے شایان شان نہیں۔
یہ سیاستدان ہی ہیں جنھوں نے چور راستوں سے اقتدار حاصل کرنے کے لیے ہمیشہ فوج سے سیاسی مداخلت کے لیے کہا اور اگر اب فوج ماضی کی غلطیوں کا ازالہ کرتے ہوئے کسی بھی سیاسی مداخلت سے گریز کر رہی ہے اور سیاسی میدان میں سیاستدانوں کو اپنی جنگ خود لڑنے کا کہہ رہی ہے تو یہ رویہ اور سوچ یقیناً قابل ستائش ہے۔
ملک میں جمہوری روایات کے استحکام کے لیے بھی ناگزیر ہے کہ سیاستدان آئینی حدود کے اندر رہتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ کو مداخلت کی دعوت دیے بغیر اپنی سیاسی جدوجہد کریں اور انتخابی جنگ میں اسٹیبلشمنٹ سے چور راستوں سے تعاون حاصل کرنے کی کوشش نہ کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ ملک میں جلد سیاسی اور معاشی استحکام آ جائے گا۔
ملک میں سیاسی انتشار ،افراتفری اور معاشی بحران کے ذمے دار بھی سیاستدان ہی رہے ہیں جنھوں نے تمام جمہوری اصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے صرف اپنے سیاسی عزائم اور مفادات کو فوقیت دی۔
عمران خان فوج ،ریاستی اداروں اور مخالف سیاستدانوں کو ہر وقت تنقید کا نشانہ بنانے کے بجائے اگر جمہوری روایات کو مضبوط بنانے پر توجہ دیں تو قوم ان کے اس رویے کو یقینا پسند کرے گی اور وہ جس معاشی استحکام اور حقیقی آزادی کی بات کرتے ہیں تو اس کا راستہ بھی جمہوری اور آئینی راستوں ہی سے ہو کر گزرتا ہے۔
ناشائستہ زبان استعمال کرنے اور منفی پروپیگنڈا مہم چلانے سے ملک میں کبھی سیاسی اور معاشی استحکام نہیں آ سکتا۔لازم ہے کہ سوشل میڈیا پر پھیلائی جانے والی نفرتوں کا سدباب کرنے کے لیے قومی یک جہتی کا اظہار کیا جائے۔
بلاشبہ اس پریس کانفرنس کی اہمیت و افادیت مسلمہ ہے کیونکہ گزشتہ کچھ عرصے سے پاک فوج کے خلاف ایک مذموم مہم بڑی شدت سے اور مسلسل چلائی جارہی ہے۔
یہ مہم کہاں سے لانچ ہوئی اور اس کے مقاصد کیا ہیں، یہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔حالیہ دنوں میں یہ کام انتہائی شاطرانہ انداز میں شروع ہوا ہے، اس کے تاثر کو زائل کرنے اور قوم کے سامنے حقائق رکھنا وقت کی اہم ترین ضرورت تھی۔ اس لیے پاک فوج کو خود سامنے آکر بہت سے حقائق عوام کے سامنے رکھنے پڑے ہیں۔
پاکستان میں کوئی سرکاری ادارہ ہو،کوئی سیاسی لیڈر ہو، کاروباری ادارہ ، کوئی عالم دین ہویا کوئی گدی نشین،ریاست سے بڑھ کر نہیں ہوسکتا،سب کو اپنی آئینی حدود کو سامنے رکھ کر کام کرنا چاہیے،آئینی حدود سے تجاوز کرنا ملکی سلامتی سے کھیلنے کے مترادف ہے۔
دنیا کی کوئی ریاست اپنی سلامتی کے ایشو پر کمپرو مائز نہیں کرتی، پاکستان کی سیاسی قیادت کا فرض ہے کہ وہ اپنے منشور کے مطابق سیاست کرے،منشور سے ہٹ کر سیاست کرنا جمہوری عمل نہیں ہوسکتا۔
پاکستان میں گزشتہ ستر برس میں جو کچھ ہوا، وہ تاریخ کے صفحات میں محفوظ ہے۔اس عرصے کے دوران ریاستی اداروں کی قیادت اور سیاسی قیادت نے جو کردار ادا کیا، وہ بھی سب کے سامنے ہے،جمہوریت اور ریاست کے شہریوں کے مفاد کو پس پشت ڈالا گیا، یہ اس لیے ہوا کہ ملک کی سیاسی قیادت نے جمہوری اصولوں کا نام تو لیا لیکن ان پر عمل نہیں کیا،ملک کی سیاسی اور مذہبی قیادت نے اپنا محاسبہ نہیں کیا۔
'' اقتدار کی لالچ و ہوس'' میں مبتلا ہوکر قومی غیرت تک کو بھی داؤ پر لگا دیتے ہیں اور آج وہ صورتحال نظر آ رہی ہے کہ اقتدار کے لیے کس حد تک ملک کے اداروں ، پاک فوج ، سلامتی کے سارے اداروں کے ساتھ عدلیہ، الیکشن کمیشن تک کو بخشا نہیں جا رہا ہے۔
سابق حکمران اپنی پونے چار سالہ ناکامیوں کا ذمے دار بھی ملکی اداروں کو ٹھہرا کر دوبارہ اقتدار حاصل کرنے کے لیے پروپیگنڈہ کر رہے ہیں۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں ملکی وقار اور سلامتی کو داؤ پر لگا کر عوام کو فسادات، جھگڑوں کے لیے اکسایا جا رہا ہے۔
یہ تو پاک فوج کا کمال ہے کہ وطن عزیز کو ملک دشمن قوتوں کی سازشوں سے بچاتے ہوئے محفوظ رکھا ہوا ہے ورنہ ہمارے حالات بھی سری لنکا سے کم نہیں ہوتے، لیکن اللہ پاک کے فضل و کرم سے ہماری بہترین فوج، نمبر ون انٹیلی جنس ایجنسی اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی وجہ سے دشمن کے ارادے پہلے کی طرح ناکام ہو جائیں گے۔
تمام سیاستدانوں کو بھی چاہیے کہ وہ فوج یا کسی جنرل کے متعلق اس قسم کی گفتگو کرنے سے پرہیز کریں جس سے قوم کے ساتھ فوج کی دل آزاری ہو جائے۔
پاک فوج ہماری اور ہمارے وطن کی پاسبان یہے۔ اس وقت ملک میں سیاسی عدم استحکام ہے ، بلاشبہ سیاسی حالات کا معیشت پر گہرا اثر ہوتا ہے اور آج کے دور میں معیشت اور سیکیورٹی کو علیحدہ علیحدہ نہیں کیا جا سکتا ، اس لیے کسی ممکنہ سیاسی بے یقینی کے حوالے سے فوج کی تشویش بالکل بجا ہے۔
فوج نے اس حوالے سے بڑا واضح پیغام دے دیا ہے کہ وہ اور حکومت کسی بھی طرح کی سیاسی بے یقینی یا سیاسی عدم استحکام کو برداشت نہیں کریں گے۔
فوج واقعی ملک میں عدم استحکام اس وقت نہیں چاہتی کیونکہ ایسی کسی صورت حال پر بیرونی دنیا کو بھی سخت تشویش ہو گی، جو پاکستان کے لیے بہتر نہیں ہو گا۔ اس لیے فوج نہیں چاہتی کہ کوئی بھی سیاسی جماعت یا سیاستدان ملک میں افراتفری یا عدم استحکام پھیلائے۔ گو عمران خان نے کرپشن بیانیے کو فروغ دیا، جو بہت مقبول ہوا ، اور وہ اسی بنیاد پر برسر اقتدار بھی آئے ، لیکن وہ توشہ خانہ کیس میں نااہل قرار دیے جاچکے ہیں ۔
عسکری ادارے کے خلاف سوشل میڈیا یا دیگر ذرائع سے جو منفی پروپیگنڈہ مہم چلائی جا رہی ہے اگلے روز ہونیوالے پریس کانفرنس اس تاثر کو زائل کرنے کے لیے بھی تھی کہ فوج خود کو سیاست سے دور رکھے ہوئے ہے اور وہ ملک میں سیاسی و معاشی استحکام چاہتی ہے۔
حکومت سے باہر نکالے جانے کے بعد سے عمران خان مسلسل اسٹیبلشمنٹ سے مداخلت اور جلد الیکشن کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہمارا وطن پاکستان ہمیں جان سے زیادہ عزیز ہے۔ پاکستان ہے تو ہم ہیں۔ پاکستان میں دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاک فوج کا اہم کردار رہا ہے۔
ملک میں قدرتی آفات ہوں یا سیلاب، زلزلے ہوں یا بارشیں، ریلوے اور قومی شاہراہوں پر حادثے ہوں تو وہاں مدد اور ریسکیو کے لیے فوج پہنچ جاتی ہے، اگر ملکی سرحدوں پر دشمن فوج حملہ کرنے کی کوشش کرتی ہے تو ہمارے جوانوں کی قربانیوں کی وجہ سے ہم محفوظ ہوتے ہیں اور رات کو آرام سے نیند کرتے ہیں۔
سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کی جماعت نے حکومت کھو دینے کے بعد ریاستی اداروں کے خلاف جو بیانیہ اپنایا اسے کسی طور بھی درست قرار نہیں دیا جا سکتا۔
ان کی حکومت آئینی طور پر تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ختم ہوئی لہذا بطور ایک سیاسی جماعت کے اسے اپنا موقف بھی سیاسی میدان اور اسمبلی کے فلور سے بیان کرنا چاہیے اور سیاسی جنگ بھی آئینی و قانونی حدود کے اندر رہتے ہوئے لڑنی چاہیے۔
یہ طریقہ قطعی طور پر درست نہیں کہ حکومت مل جائے تو اسٹیبلشمنٹ اور دیگر ریاستی اداروں کی کارکردگی قابل ستائش ہے اور اگر حکومت چاہے وہ آئینی طریقے سے ہی ختم ہو جائے تو طیش میں آکر نامناسب اور ناشائستہ رویہ اپناتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف منفی اور اخلاقیات سے گری ہوئی پروپیگنڈا مہم چلائی جائے۔
یہ انداز جمہوری روایات اور سیاسی اصولوں کے بھی خلاف ہے۔اگر کوئی جماعت جمہوریت پر یقین رکھتی ہے تو اسے آئین کے تحت وضع کردہ اصولوں کے تحت اپنی اقتدار کی جنگ لڑنی چاہیے ناکہ چور راستوں سے ہر جائز و ناجائز حربہ استعمال کرتے ہوئے اقتدار حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔تجزیہ نگاروں کے مطابق عمران خان اور ان کی جماعت کی جانب سے ملک میں سری لنکا، لیبیا، شام، یمن، جیسے حالات پیدا کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں ۔
اقتدار سے محرومی کے بعد تحریک انصاف نے ریاستی اداروں اور فوج کے خلاف سوشل میڈیا پر جو مہم چلائی اسے قطعی طور پر درست قرار نہیں دیا جا سکتا۔
عمران خان کی زبان سے نہ پاکستان محفوظ ہے نہ فوج، نہ عدلیہ اور نہ ہی سلامتی کے ادارے محفوظ ہیں! عمران خان اپنی حکومت بچانے کے لیے فوج سے غیر آئینی کردار ادا کرنے کا کہتے رہے مگر جب فوج کے ادارے نے سیاسی طور پر غیر جانبدار رہتے ہوئے آئین کے اندر رہتے ہوئے اپنا کردار ادا کرنے کا کہا تو عمران خان نے فوج کے خلاف جو بیانیہ اپنایا وہ قطعی طور پر سیاسی اور جمہوری اصولوں کے شایان شان نہیں۔
یہ سیاستدان ہی ہیں جنھوں نے چور راستوں سے اقتدار حاصل کرنے کے لیے ہمیشہ فوج سے سیاسی مداخلت کے لیے کہا اور اگر اب فوج ماضی کی غلطیوں کا ازالہ کرتے ہوئے کسی بھی سیاسی مداخلت سے گریز کر رہی ہے اور سیاسی میدان میں سیاستدانوں کو اپنی جنگ خود لڑنے کا کہہ رہی ہے تو یہ رویہ اور سوچ یقیناً قابل ستائش ہے۔
ملک میں جمہوری روایات کے استحکام کے لیے بھی ناگزیر ہے کہ سیاستدان آئینی حدود کے اندر رہتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ کو مداخلت کی دعوت دیے بغیر اپنی سیاسی جدوجہد کریں اور انتخابی جنگ میں اسٹیبلشمنٹ سے چور راستوں سے تعاون حاصل کرنے کی کوشش نہ کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ ملک میں جلد سیاسی اور معاشی استحکام آ جائے گا۔
ملک میں سیاسی انتشار ،افراتفری اور معاشی بحران کے ذمے دار بھی سیاستدان ہی رہے ہیں جنھوں نے تمام جمہوری اصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے صرف اپنے سیاسی عزائم اور مفادات کو فوقیت دی۔
عمران خان فوج ،ریاستی اداروں اور مخالف سیاستدانوں کو ہر وقت تنقید کا نشانہ بنانے کے بجائے اگر جمہوری روایات کو مضبوط بنانے پر توجہ دیں تو قوم ان کے اس رویے کو یقینا پسند کرے گی اور وہ جس معاشی استحکام اور حقیقی آزادی کی بات کرتے ہیں تو اس کا راستہ بھی جمہوری اور آئینی راستوں ہی سے ہو کر گزرتا ہے۔
ناشائستہ زبان استعمال کرنے اور منفی پروپیگنڈا مہم چلانے سے ملک میں کبھی سیاسی اور معاشی استحکام نہیں آ سکتا۔لازم ہے کہ سوشل میڈیا پر پھیلائی جانے والی نفرتوں کا سدباب کرنے کے لیے قومی یک جہتی کا اظہار کیا جائے۔