سیلاب متاثرین کی بحالی اور گڈگورننس
اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں ہے کہ پاکستان کو اس وقت گڈگورننس کی مثال قائم کرنی چاہیے
وزارت منصوبہ بندی، ترقی و خصوصی اقدامات نے گزشتہ روز پوسٹ ڈیزاسٹرنیڈ اسیسمنٹ رپورٹ جاری کر دی ہے۔ اس رپورٹ میں پاکستان میں حالیہ شدید بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے30 ارب ڈالر سے زیادہ کے نقصانات کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔
یہ رپورٹ وزارت منصوبہ بندی، ایشیائی ترقیاتی بینک، عالمی بینک، یورپی یونین، اقوام متحدہ کی ایجنسیوں، اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) کے ساتھ مل کر مشترکہ طور پر تیار کی گئی ہے۔ ایشائی ترقیاتی بینک کا کہنا ہے کہ وہ اب تک سیلاب متاثرین میں 66ارب روپے سے زائد رقم تقسیم کر چکا ہے۔
وزارت منصوبہ بندی اور عالمی اداروں کی جانب سے تیار کی گئی یہ رپورٹ انتہائی اہم ہے کیونکہ اس کی تیاری میں عالمی ادارے بھی شامل ہیں لہٰذا یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اعداد وشمار میں کوئی گڑبڑ کی گئی ہے یا نقصان سے زیادہ تخمینہ لگایا گیا ہے۔
رپورٹ میں واضح طور پر تسلیم کیا گیا ہے کہ پاکستان میں حالیہ سیلاب سے30 ارب ڈالرسے زیادہ کانقصان ہوا ہے جب کہ تعمیرنو اور بحالی کے لیے پاکستان کو16 ارب ڈالرکی ضرورت ہے۔ 30 ارب ڈالر کوئی معمولی رقم نہیں ہے۔
پاکستان کی معیشت جس حالت میں ہے، وہ اتنا بڑا نقصان برداشت نہیں کر سکتی۔ اس لیے عالمی مالیاتی اداروں اور امیر ملکوں کو چاہیے کہ وہ پاکستان کی مدد کریں تاکہ پاکستان معیشت کو پہنچنے والے نقصان کا ازالہ کر سکے۔
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں شدید بارشوں اور سیلاب سے قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع کے ساتھ ہاؤسنگ، زراعت، لائیواسٹاک، ٹرانسپورٹ اورمواصلات کوشدید نقصان پہنچا ہے۔ ان شعبوں میں بالترتیب 5.6ارب ڈالر، 3.7ارب ڈالر اور3.3ارب ڈالرکے نقصانات ہوئے۔
پاکستان کو رابطہ سڑکوں کی تعمیر کے لیے خطیر سرمائے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح زرعی شعبے کو بھی بے پناہ نقصان پہنچا ہے۔ کسانوں کی کھڑی فصلیں تباہ ہوئی ہیں، ان کا مال مویشی ضایع ہوا ہے، ان کے گھر سیلاب کی وجہ سے گر گئے ہیں، زرعی شعبے کو فوری طور پر امداد کی ضرورت ہے کیونکہ اس شعبے پر توجہ نہ دی گئی تو آنے والے دنوں میں پاکستان کو خوراک کی کمی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
پاکستان کی حکومت کو زرعی شعبے کی بحالی کو اولین ترجیح دینی چاہیے۔ کسانوں کو زرتلافی کی مد میں مالی مدد فراہم کرنی چاہیے اور اس کے ساتھ ساتھ انھیں زرعی مداخل کی مفت فراہمی بھی یقینی بنائی جانی چاہیے تاکہ وہ آسانی سے نئی فصل کاشت کر سکیں۔
اس کے علاوہ وفاقی حکومت سیلاب سے متاثرہ علاقوں خصوصاً دیہی علاقوں کے لیے جولائی سے لے کر آیندہ برس فروری تک بجلی کے بل معاف کر دینے چاہئیں تاکہ کسانوں پر مالی بوجھ کم سے کم کیا جا سکے۔ اگر حکومت زرعی شعبے کو ترجیح دے کر یہ اقدامات کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو یہ بات یقینی ہے کہ آیندہ برس پاکستان کو خوراک کی کمی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔
اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ حالیہ بارشوں اور سیلاب سے سب سے زیادہ نقصان سندھ میں ہوا، یہ 70 فیصد بنتا ہے۔ بلوچستان نقصانات کے حوالے سے دوسرے، خیبرپختونخوا تیسرے اورپنجاب چوتھے نمبر پر ہے۔ اسی ترتیب سے بحالی کے اقدامات بھی ہونے چاہئیں۔ وفاقی حکومت اور سندھ حکومت کو مل کر ایسا میکنزم بنانا چاہیے جس کے تحت بحالی کے کام تیزی سے اور مسلسل تکمیل تک پہنچ سکیں اور اس کے ساتھ ساتھ مالی شفافیت بھی قائم رہ سکے۔
وفاقی حکومت اور سندھ حکومت پہلے ہی اس معاملے میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کر رہی ہیں، جو ایک مثبت پیش رفت ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ حالیہ بارشوں اور سیلاب سے پاکستان میں3 کروڑ 30 لاکھ لوگ متاثر ہوئے ہیں جب کہ1730افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے، اس وقت بھی کئی متاثرہ علاقوں میں سیلابی پانی کھڑاہے جس سے وبائی بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ اس وقت80 لاکھ بے گھرافراد کوصحت کے مسائل کا سامنا ہے۔
یہ ایک بڑی المناک تصویر ہے۔ جو لوگ اپنی جانوں سے چلے گئے، وہ تو اپنے رب کے حضور پیش ہو گئے لیکن جو زندہ بچ گئے ہیں، ان کی صحت کی بحالی کے لیے اقدامات انتہائی ضروری ہیں۔ چاروں صوبائی حکومتوں، ضلعی حکومتوں کو اس حوالے سے کسی انتظار کے بغیر کام کا آغاز کرنا چاہیے۔
جن علاقوں میں سیلابی پانی کھڑا ہے، وہاں سے جلدازجلد پانی نکالنے کا انتظام کیا جانا چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ وبائی امراض کی روک تھام کے لیے سپرے اور دیگر ادویات کا استعمال کرنا چاہیے تاکہ سیلاب سے متاثرہ لوگوں کی صحت متاثر نہ ہو۔
رپورٹ میں بحالی کے ایک جامع فریم ورک تیار کرنے کے لیے سفارشات پیش کی گئی ہیں جن میں ماحولیاتی لحاظ سے موزوں بنیادی ڈھانچہ اور زراعت پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کے محدود مالی وسائل کے پیش نظر جامع اور لچکدار بحالی کے لیے اہم بین الاقوامی حمایت اور نجی سرمایہ کاری ضروری ہے۔ ڈنمارک پہلا ملک ہے جس نے ماحولیاتی نقصان کی فنڈنگ میں 13ملین ڈالر کا وعدہ کیا ہے۔
پاکستان اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کے ''ماحولیاتی انصاف'' کے لیے ایک آزمائشی کیس ہے۔ ایشیائی ترقیاتی بینک کے کنٹری ڈائریکٹر برائے پاکستان یانگ یی نے وڈیو پیغام میں کہا ہے کہ اے ڈی بی سیلاب سے متاثرہ افراد کی مدد کے لیے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے توسط سے پاکستان کی مدد جاری رکھے گا۔
یہ ایک اچھی مثال ہے کہ بی آئی ایس پی نے اعلان کردہ 70 ارب پیکیج میں سے 66 ارب روپے سے ز ائد رقم کی فوری تقسیم کو ممکن بنایا۔ اے ڈی بی نے سیلاب متاثرین کی امداد، جلد بحالی اور تعمیر نو کے لیے تیزی سے کام کیا ہے۔ حال ہی میں 1.5ارب ڈالر کے بریس پروگرام کی منظوری دی گئی ہے۔
پاکستان کی وفاقی اور صوبائی حکومتیں ایک دوسرے کے ساتھ اچھا ورکنگ ریلیشن قائم رکھیں تو پاکستان اس مشکل سے بآسانی نکل سکتا ہے۔ عالمی برادری پاکستان کے ساتھ ہمدردانہ سلوک کر رہی ہے اور مالی مدد کرنے پر بھی تیار نظر آتی ہے۔ پاکستان کی حکومت کو شفافیت اور گڈگورننس کی مثال قائم کر کے عالمی مالیاتی اداروں اور عالمی برادری کے دل جیتنے ہوں گے۔ اگر پاکستان کی حکومت ایسا کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو عالمی برادری پاکستان کی دل کھول کر مدد کرے گی۔
ادھر پاکستان کے وزیراعظم محمد شہباز شریف نے گزشتہ روز پولیس سروس آف پاکستان کے 48ویں ایس ٹی پی بیج کی پاسنگ آؤٹ پریڈ سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمیں ملک کی بہتری کے لیے مل کر کام کرنا ہوگا ورنہ آیندہ نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی، انھوں نے کہا کہ ملک سے دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے پولیس سمیت دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی قابل تعریف ہے، ان کی قربانیوں کو رائیگاں نہیں جانے دیں گے۔
ملک کی ترقی کے لیے بچوں کو جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ کرنا ضروری ہے، چین اور سعودی عرب ہمارے دیرینہ دوست ہیں اور انھوں نے ہر مشکل گھڑی میں ہمارا ساتھ دیا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ پولیس نے دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں سے مل کر دہشت گردی کا مقابلہ کیا ہے۔
انھوں نے حالیہ سیلاب کے حوالے سے کہا کہ محدود وسائل کے باوجود 3 کروڑ 30 لاکھ سیلاب متاثرین کی بحالی اور تعمیرنو کے لیے اقدامات کر رہے ہیں، صوبوں کو کسی بھی معاملے پر وفاق سے رہنمائی حاصل کرنی چاہیے، 75 سال بعد قائد اعظم کا پاکستان کہاں کھڑا ہے،چھوٹے چھوٹے ملک ہم سے آگے نکل گئے ، یہ لمحہ فکریہ ہے، 75 سال بعد بھی ہم اسی دائرے میں گھوم رہے ہیں۔
سیلاب زدگان کی بحالی کے جائزہ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے وزیر اعظم نے سیلاب زدگان کی بحالی کے لیے متعلقہ اداروں کو دستیاب وسائل ہنگامی بنیادوں پر استعمال میں لانے کی ہدایت کی۔
وزیراعظم نے ایک ٹویٹ میں امریکی حکومت کی طرف سے سیلاب متاثرین کے لیے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر اضافی 3 کروڑ ڈالر کے اعلان کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ دنیا کو سیلاب سے جنم لینے والے المیے سے نمٹنے کے لیے اقوام متحدہ کی امداد کی اپیل میں حصہ ڈالنا چاہیے۔
وزیراعظم پاکستان نے جو کچھ کہا ہے وہ اپنی جگہ درست ہے تاہم اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں ہے کہ پاکستان کو اس وقت گڈگورننس کی مثال قائم کرنی چاہیے۔ عالمی برادری پاکستان کو امداد فراہم کر رہی ہے، آئی ایم ایف بھی تعاون کر رہا ہے۔ اگر پاکستان کی انتظامیہ چابک دستی اور پروفیشنلزم کا مظاہرہ کرے تو پاکستان سیلاب سے متاثرہ معیشت کو جلد بحال کر سکتا ہے اور سیلاب متاثرین کے دکھوں کا ازالہ بھی کر سکتا ہے۔
یہ رپورٹ وزارت منصوبہ بندی، ایشیائی ترقیاتی بینک، عالمی بینک، یورپی یونین، اقوام متحدہ کی ایجنسیوں، اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) کے ساتھ مل کر مشترکہ طور پر تیار کی گئی ہے۔ ایشائی ترقیاتی بینک کا کہنا ہے کہ وہ اب تک سیلاب متاثرین میں 66ارب روپے سے زائد رقم تقسیم کر چکا ہے۔
وزارت منصوبہ بندی اور عالمی اداروں کی جانب سے تیار کی گئی یہ رپورٹ انتہائی اہم ہے کیونکہ اس کی تیاری میں عالمی ادارے بھی شامل ہیں لہٰذا یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اعداد وشمار میں کوئی گڑبڑ کی گئی ہے یا نقصان سے زیادہ تخمینہ لگایا گیا ہے۔
رپورٹ میں واضح طور پر تسلیم کیا گیا ہے کہ پاکستان میں حالیہ سیلاب سے30 ارب ڈالرسے زیادہ کانقصان ہوا ہے جب کہ تعمیرنو اور بحالی کے لیے پاکستان کو16 ارب ڈالرکی ضرورت ہے۔ 30 ارب ڈالر کوئی معمولی رقم نہیں ہے۔
پاکستان کی معیشت جس حالت میں ہے، وہ اتنا بڑا نقصان برداشت نہیں کر سکتی۔ اس لیے عالمی مالیاتی اداروں اور امیر ملکوں کو چاہیے کہ وہ پاکستان کی مدد کریں تاکہ پاکستان معیشت کو پہنچنے والے نقصان کا ازالہ کر سکے۔
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں شدید بارشوں اور سیلاب سے قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع کے ساتھ ہاؤسنگ، زراعت، لائیواسٹاک، ٹرانسپورٹ اورمواصلات کوشدید نقصان پہنچا ہے۔ ان شعبوں میں بالترتیب 5.6ارب ڈالر، 3.7ارب ڈالر اور3.3ارب ڈالرکے نقصانات ہوئے۔
پاکستان کو رابطہ سڑکوں کی تعمیر کے لیے خطیر سرمائے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح زرعی شعبے کو بھی بے پناہ نقصان پہنچا ہے۔ کسانوں کی کھڑی فصلیں تباہ ہوئی ہیں، ان کا مال مویشی ضایع ہوا ہے، ان کے گھر سیلاب کی وجہ سے گر گئے ہیں، زرعی شعبے کو فوری طور پر امداد کی ضرورت ہے کیونکہ اس شعبے پر توجہ نہ دی گئی تو آنے والے دنوں میں پاکستان کو خوراک کی کمی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
پاکستان کی حکومت کو زرعی شعبے کی بحالی کو اولین ترجیح دینی چاہیے۔ کسانوں کو زرتلافی کی مد میں مالی مدد فراہم کرنی چاہیے اور اس کے ساتھ ساتھ انھیں زرعی مداخل کی مفت فراہمی بھی یقینی بنائی جانی چاہیے تاکہ وہ آسانی سے نئی فصل کاشت کر سکیں۔
اس کے علاوہ وفاقی حکومت سیلاب سے متاثرہ علاقوں خصوصاً دیہی علاقوں کے لیے جولائی سے لے کر آیندہ برس فروری تک بجلی کے بل معاف کر دینے چاہئیں تاکہ کسانوں پر مالی بوجھ کم سے کم کیا جا سکے۔ اگر حکومت زرعی شعبے کو ترجیح دے کر یہ اقدامات کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو یہ بات یقینی ہے کہ آیندہ برس پاکستان کو خوراک کی کمی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔
اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ حالیہ بارشوں اور سیلاب سے سب سے زیادہ نقصان سندھ میں ہوا، یہ 70 فیصد بنتا ہے۔ بلوچستان نقصانات کے حوالے سے دوسرے، خیبرپختونخوا تیسرے اورپنجاب چوتھے نمبر پر ہے۔ اسی ترتیب سے بحالی کے اقدامات بھی ہونے چاہئیں۔ وفاقی حکومت اور سندھ حکومت کو مل کر ایسا میکنزم بنانا چاہیے جس کے تحت بحالی کے کام تیزی سے اور مسلسل تکمیل تک پہنچ سکیں اور اس کے ساتھ ساتھ مالی شفافیت بھی قائم رہ سکے۔
وفاقی حکومت اور سندھ حکومت پہلے ہی اس معاملے میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کر رہی ہیں، جو ایک مثبت پیش رفت ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ حالیہ بارشوں اور سیلاب سے پاکستان میں3 کروڑ 30 لاکھ لوگ متاثر ہوئے ہیں جب کہ1730افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے، اس وقت بھی کئی متاثرہ علاقوں میں سیلابی پانی کھڑاہے جس سے وبائی بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ اس وقت80 لاکھ بے گھرافراد کوصحت کے مسائل کا سامنا ہے۔
یہ ایک بڑی المناک تصویر ہے۔ جو لوگ اپنی جانوں سے چلے گئے، وہ تو اپنے رب کے حضور پیش ہو گئے لیکن جو زندہ بچ گئے ہیں، ان کی صحت کی بحالی کے لیے اقدامات انتہائی ضروری ہیں۔ چاروں صوبائی حکومتوں، ضلعی حکومتوں کو اس حوالے سے کسی انتظار کے بغیر کام کا آغاز کرنا چاہیے۔
جن علاقوں میں سیلابی پانی کھڑا ہے، وہاں سے جلدازجلد پانی نکالنے کا انتظام کیا جانا چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ وبائی امراض کی روک تھام کے لیے سپرے اور دیگر ادویات کا استعمال کرنا چاہیے تاکہ سیلاب سے متاثرہ لوگوں کی صحت متاثر نہ ہو۔
رپورٹ میں بحالی کے ایک جامع فریم ورک تیار کرنے کے لیے سفارشات پیش کی گئی ہیں جن میں ماحولیاتی لحاظ سے موزوں بنیادی ڈھانچہ اور زراعت پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کے محدود مالی وسائل کے پیش نظر جامع اور لچکدار بحالی کے لیے اہم بین الاقوامی حمایت اور نجی سرمایہ کاری ضروری ہے۔ ڈنمارک پہلا ملک ہے جس نے ماحولیاتی نقصان کی فنڈنگ میں 13ملین ڈالر کا وعدہ کیا ہے۔
پاکستان اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کے ''ماحولیاتی انصاف'' کے لیے ایک آزمائشی کیس ہے۔ ایشیائی ترقیاتی بینک کے کنٹری ڈائریکٹر برائے پاکستان یانگ یی نے وڈیو پیغام میں کہا ہے کہ اے ڈی بی سیلاب سے متاثرہ افراد کی مدد کے لیے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے توسط سے پاکستان کی مدد جاری رکھے گا۔
یہ ایک اچھی مثال ہے کہ بی آئی ایس پی نے اعلان کردہ 70 ارب پیکیج میں سے 66 ارب روپے سے ز ائد رقم کی فوری تقسیم کو ممکن بنایا۔ اے ڈی بی نے سیلاب متاثرین کی امداد، جلد بحالی اور تعمیر نو کے لیے تیزی سے کام کیا ہے۔ حال ہی میں 1.5ارب ڈالر کے بریس پروگرام کی منظوری دی گئی ہے۔
پاکستان کی وفاقی اور صوبائی حکومتیں ایک دوسرے کے ساتھ اچھا ورکنگ ریلیشن قائم رکھیں تو پاکستان اس مشکل سے بآسانی نکل سکتا ہے۔ عالمی برادری پاکستان کے ساتھ ہمدردانہ سلوک کر رہی ہے اور مالی مدد کرنے پر بھی تیار نظر آتی ہے۔ پاکستان کی حکومت کو شفافیت اور گڈگورننس کی مثال قائم کر کے عالمی مالیاتی اداروں اور عالمی برادری کے دل جیتنے ہوں گے۔ اگر پاکستان کی حکومت ایسا کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو عالمی برادری پاکستان کی دل کھول کر مدد کرے گی۔
ادھر پاکستان کے وزیراعظم محمد شہباز شریف نے گزشتہ روز پولیس سروس آف پاکستان کے 48ویں ایس ٹی پی بیج کی پاسنگ آؤٹ پریڈ سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمیں ملک کی بہتری کے لیے مل کر کام کرنا ہوگا ورنہ آیندہ نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی، انھوں نے کہا کہ ملک سے دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے پولیس سمیت دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی قابل تعریف ہے، ان کی قربانیوں کو رائیگاں نہیں جانے دیں گے۔
ملک کی ترقی کے لیے بچوں کو جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ کرنا ضروری ہے، چین اور سعودی عرب ہمارے دیرینہ دوست ہیں اور انھوں نے ہر مشکل گھڑی میں ہمارا ساتھ دیا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ پولیس نے دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں سے مل کر دہشت گردی کا مقابلہ کیا ہے۔
انھوں نے حالیہ سیلاب کے حوالے سے کہا کہ محدود وسائل کے باوجود 3 کروڑ 30 لاکھ سیلاب متاثرین کی بحالی اور تعمیرنو کے لیے اقدامات کر رہے ہیں، صوبوں کو کسی بھی معاملے پر وفاق سے رہنمائی حاصل کرنی چاہیے، 75 سال بعد قائد اعظم کا پاکستان کہاں کھڑا ہے،چھوٹے چھوٹے ملک ہم سے آگے نکل گئے ، یہ لمحہ فکریہ ہے، 75 سال بعد بھی ہم اسی دائرے میں گھوم رہے ہیں۔
سیلاب زدگان کی بحالی کے جائزہ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے وزیر اعظم نے سیلاب زدگان کی بحالی کے لیے متعلقہ اداروں کو دستیاب وسائل ہنگامی بنیادوں پر استعمال میں لانے کی ہدایت کی۔
وزیراعظم نے ایک ٹویٹ میں امریکی حکومت کی طرف سے سیلاب متاثرین کے لیے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر اضافی 3 کروڑ ڈالر کے اعلان کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ دنیا کو سیلاب سے جنم لینے والے المیے سے نمٹنے کے لیے اقوام متحدہ کی امداد کی اپیل میں حصہ ڈالنا چاہیے۔
وزیراعظم پاکستان نے جو کچھ کہا ہے وہ اپنی جگہ درست ہے تاہم اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں ہے کہ پاکستان کو اس وقت گڈگورننس کی مثال قائم کرنی چاہیے۔ عالمی برادری پاکستان کو امداد فراہم کر رہی ہے، آئی ایم ایف بھی تعاون کر رہا ہے۔ اگر پاکستان کی انتظامیہ چابک دستی اور پروفیشنلزم کا مظاہرہ کرے تو پاکستان سیلاب سے متاثرہ معیشت کو جلد بحال کر سکتا ہے اور سیلاب متاثرین کے دکھوں کا ازالہ بھی کر سکتا ہے۔