ہم خواتین
ایک چھوٹی سی عام سی طالبہ سے ذمے داریوں کی اس بلندی پر جب کہ قدرت کی جانب سے ان پر بہت سی مہربانیاں ہیں
وہ ایک دبلی پتلی سی خاتون جو ایک تفریحی چینل میں اعلیٰ عہدے پر فائز ہیں اپنی زندگی کی مصروفیات میں الجھی رہتی ہیں۔ غیر شادی شدہ ہونے کے باوجود اپنی تمام گھریلو ذمے داریاں نبھاتی ہیں۔ انھیں اپنی بیمار والدہ کی فکر رہتی ہے یہاں تک کہ ان کی محبت اور خیال میں بیرون ملک اپنے چینل کی جانب سے مفت ٹرپس بھی ٹھکرا چکی ہیں۔
ایک چھوٹی سی عام سی طالبہ سے ذمے داریوں کی اس بلندی پر جب کہ قدرت کی جانب سے ان پر بہت سی مہربانیاں ہیں کہتی ہیں کہ اگر آج کے دور میں ہم جیسے لوگ ترقی کرسکتے ہیں تو وہ صرف محنت کے بل بوتے پر اور میں اس بات پر بہت یقین رکھتی ہوں کہ انسان کی محنت رائیگاں نہیں جاتی۔
رب العزت کی جانب سے محنتوں کا صلہ ضرور ملتا ہے ان کے خیال میں گو ان کا عہدہ بہت سی ذمے داریوں کا متقاضی ہے لیکن انھیں احساس ہوتا جارہا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انھیں مزید محنت کی ضرورت ہے اور محنت کیوں کہ جب ہمیں کوئی بڑی ذمے داری سونپی جاتی ہے تو اسے نبھانے اور چلانے کے لیے زیادہ توانائی کی ضرورت پڑتی ہے کیوں کہ آپ پر دبائو بھی بڑھ جاتا ہے یہ محنت کہلاتی ہے جب کہ بہت سے لوگ اس زعم میں مبتلا ہوکر تکبر میں آجاتے ہیں اور یہ ہی تکبر انسان کو بلندی سے گرا دیتا ہے۔
ہمارے یہاں بیٹوں کی پیدائش پر خوشیاں منائی جاتی ہیں جب کہ بیٹیوں کی پیدائش پر بہت سے گھرانوں میں اداسی پھیل جاتی ہے۔ میرے ابو کے انتقال کے بعد مجھے ہی پورے گھر کی دیکھ بھال کرنی تھی، معاملات کا خیال رکھنا تھا۔ میں نے اور میری دوسری بہنوں نے گھر بھی لیا اور میں نے اپنی بہنوں کی شادیاں بھی کیں میں نے اپنی جاب کو چیلنج سمجھ کر قبول کیا تھا۔
آج بھی مجھے ایک ساتھ بہت ساری چیزوں کو دیکھنا ہوتا ہے اور آج بھی مجھے بہت سی چیزوں کا پتا نہیں لیکن میں پراعتماد ہوں اور اپنے آپ کو کسی سے کم نہیں سمجھتی آج بھی میرا رویہ اپنے دوستوں، عزیزوں سے ویسا ہی ہے جیسے کہ پہلے تھا مجھے حیرت ہوتی ہے کہ لوگ کسی بڑے مرتبے پر پہنچ کر مغرور کیسے ہوجاتے ہیں۔ ان کے چھ میں سے پانچ سیریلز کو ایوارڈز سے نوازا گیا ہے جو یقیناً ایک اعزاز ہے۔
وہ گزشتہ چالیس ، بیالیس سال سے ایک ہی اشاعتی ادارے سے منسلک ہیں۔ ان کے ادارے کے رسالے نہ صرف پاکستان بلکہ ملک سے باہر بھی جہاں جہاں اردو پڑھی جاتی ہے خواتین کے لیے معتبر رسالے سمجھے جاتے ہیں۔ آج ہمارے ٹی وی چینلز پر مشہور و معروف ڈرامہ سیریلز ان ہی ڈائجسٹوں کی مرہون منت ہے۔ خواتین ڈرامہ نگاروں کی ایک بڑی تعداد ان ہی ڈائجسٹوں و رسائل سے منسلک ہے۔
کیا یہ افسانے اور ناولز خواتین اور لڑکیوں میں اخلاقی بگاڑ پیدا کرتے ہیں تو اس کا جواب ہے ہرگز نہیں کیوں کہ ان کے مطابق ایسی کہانیوں اور ناولز کو ان کے یہاں جگہ نہیں ملتی جس میں لڑکیوں کو گھر سے بھاگ کر شادی کرنا یا شادی شدہ خواتین کا عشق و محبت میں انوالمنٹ اور خود کشی جیسے قبیح عمل کی حامل نگارشات کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی صرف یہ ہی نہیں بلکہ ایسی غیر اخلاقی کہانیاں جن سے لڑکیوں اور کم عمر لڑکیوں کو غلط ترغیب ملے جگہ نہیں دی جاتی بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ ان کے کہانیوں کے انتخاب کے باعث معاشرے میں بہت سی خواتین اور لڑکیوں کو اپنی عملی زندگی میں مدد ملی ہے اس کا ثبوت ان خواتین کی آرا اور خطوط ہیں کہ جن میں انھوں نے خواتین کے رسالوں کی کہانیوں سے اپنی زندگیوں میں مثبت انداز سے قدم اٹھائے اور کامیابیاں حاصل کیں۔
مذہب سے لگائو اور عشق حقیقی کی لگن بھی ان کے چھپنے والے افسانے اور ناولوں سے خواتین کے شعور کی تربیت میں اہم رہے ہیں۔ اپنی تہذیب و اقدار میں رہتے ہوئے مذہب کی پاسداری کرتے صنف نازک کو معاشرے میں کسی طرح اپنا مقام بنانا ہے یہ سکھانے کے لیے ہمارے یہاں تعلیمی داروں میں کوئی مضمون نہیں رہا، اسی طرح اندرون ملک دور دراز دیہاتوں اور گائوں میں جہاں خواتین کے لیے تعلیم حاصل کرنے کے ہی مسائل ہیں ایسے میں دینی اور اخلاقی تربیت کون کرے وہاں خاص کر ایسے باشعور رسالے ہی ان کے لیے مددگار ثابت ہوتے ہیں اور ان کے معیار کو بنانے اور برقرار رکھنے میں ان کا بڑا ہاتھ ہے جنھوں نے بہت سی خواتین لکھاریوں کی تربیت بھی کی اور اپنی انتھک محنت سے شب و روز کام کرکے اپنے پرچوں کا نام شہرت کی بلندیوں پر برقرار رکھا۔
میں آفس سے جاکر کچن وغیرہ سمیٹتی ہوں، جھاڑو دیتی ہوں پھر اپنی اماں کے کام کرتی ہوں انھیں میرے علاوہ کسی کے ہاتھ کی چوٹی پسند نہیں پھر کھانا کھانے کے بعد برتن سمیٹ کر کچن صاف کرکے نماز سے فارغ ہوکر ذرا آرام کرتی ہوں پھر اٹھ جاتی ہوں اور رات تین بجے تک پڑھتی رہتی ہوں یہاں تک کہ پڑھتے پڑھتے ہی میری آنکھ لگ جاتی ہے۔
ان کے کاموں کی یہ تفصیل کھانا پکانے اور گھریلو ذمے داریوں اور دوسرے مسائل تک پھیلی ہوئی ہے جو گزشتہ چالیس برسوں سے رواں دواں ہے۔ اس قدر کام اور انتھک محنت کے بعد گو جسمانی طور پر وہ اب اپنے آپ کو کمزور محسوس کرتی ہیں لیکن اپنے رسالے اور گھر کے معاملات میں کمپرومائز کرنا پسند نہیں کرتیں۔ وہ بیک وقت ایک استاد ، مقرر اور ریسرچر ہیں،کتب بینی کی بے انتہا شوقین ہیں۔
''بھئی میں تو کہتی ہوں کہ گورنمنٹ ہمیں ہماری گزشتہ خدمات (نوکری) کے صلے میں تنخواہ تو دے رہی ہیں تو ہمارا بھی تو فرض ہے ناں کہ ہم اپنے ملک، اپنے لوگوں کے لیے ایسے کام کریں کہ ہم اپنا حق ادا کردیں۔ یہ کیا کہ ہم سارے پیسے اپنی جیبوں میں ہی رکھ لیں ہم ان پیسوں کو صحیح طرح سے استعمال کرکے اسے حلال تو کریں۔''
یہ رائے ان خاتون کی تھیں جو تدریس کے شعبے سے طویل عرصے منسلک رہیں اپنے اعلیٰ عہدے پر رہنے کے باوجود دیگر سوشل اور ہم نصابی سرگرمیوں میں بھی پیش پیش رہتی تھیں اور تاحال اسی طرح مصروف ہیں۔ ایک اعلیٰ عہدے پر رہنے کے ساتھ ان کی ڈس ایبل فائونڈیشن سے وابستگی رہی جو بقول ان کے کم عمری سے ہی منسلک رہی تھیں اور ایسے بچوں کے لیے جو عام صحت مند تندرست وتوانا بچوں کی مانند تو نہیں لیکن رب العزت کی جانب سے ہمارے معاشرے کے لیے غیر مناسب رویوں کے حوالے سے آزمائش بھی ہیں بڑھ چڑھ کر عملی طور پر حصہ لیتی ہیں۔
''مجھے حیرت ہوتی ہے ان لوگوں پر جو اپنی تنخواہوں کو دوران ملازمت اور اس کے بعد بھی چھپا چھپا کر رکھتے ہیں انھیں یہ سوچنا چاہیے کہ اگر آپ کے پاس دنیا کی نعمتیں ہیں تو کیا ان لوگوں کے لیے سوچنا اور کام کرنا ہمارا فرض نہیں ہے۔ ہم ہر کام حکومت کے ذمے چھوڑ کر خود ہاتھ جھاڑ کر اپنی تنخواہیں، پینشن سمیٹ کر کھڑے ہوجائیں اسی جذبے کے تحت میں نے بچیوں کے لیے ایک ادارہ کھولا تھا کہ جس میں وہ سلائی کڑھائی سیکھیں تاکہ اور کچھ نہیں تو کم از کم وہ گھر میں اپنے کپڑے سی کر یا دوسروں کے کپڑے سی کر دو پیسے کما سکیں اس کے لیے ہم نے ایک جگہ بنائی اور سلائی مشینیں دلوائیں پھر کووڈ کے زمانے میں ہمیں بہت نقصان بھی ہوا ہماری مشینیں چوری بھی ہوئیں اب ظاہر ہے کہ رکاوٹیں تو آتی ہیں لیکن اچھائی کے عمل کو ختم نہیں کرنا چاہیے۔''
ایک چھوٹی سی عام سی طالبہ سے ذمے داریوں کی اس بلندی پر جب کہ قدرت کی جانب سے ان پر بہت سی مہربانیاں ہیں کہتی ہیں کہ اگر آج کے دور میں ہم جیسے لوگ ترقی کرسکتے ہیں تو وہ صرف محنت کے بل بوتے پر اور میں اس بات پر بہت یقین رکھتی ہوں کہ انسان کی محنت رائیگاں نہیں جاتی۔
رب العزت کی جانب سے محنتوں کا صلہ ضرور ملتا ہے ان کے خیال میں گو ان کا عہدہ بہت سی ذمے داریوں کا متقاضی ہے لیکن انھیں احساس ہوتا جارہا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انھیں مزید محنت کی ضرورت ہے اور محنت کیوں کہ جب ہمیں کوئی بڑی ذمے داری سونپی جاتی ہے تو اسے نبھانے اور چلانے کے لیے زیادہ توانائی کی ضرورت پڑتی ہے کیوں کہ آپ پر دبائو بھی بڑھ جاتا ہے یہ محنت کہلاتی ہے جب کہ بہت سے لوگ اس زعم میں مبتلا ہوکر تکبر میں آجاتے ہیں اور یہ ہی تکبر انسان کو بلندی سے گرا دیتا ہے۔
ہمارے یہاں بیٹوں کی پیدائش پر خوشیاں منائی جاتی ہیں جب کہ بیٹیوں کی پیدائش پر بہت سے گھرانوں میں اداسی پھیل جاتی ہے۔ میرے ابو کے انتقال کے بعد مجھے ہی پورے گھر کی دیکھ بھال کرنی تھی، معاملات کا خیال رکھنا تھا۔ میں نے اور میری دوسری بہنوں نے گھر بھی لیا اور میں نے اپنی بہنوں کی شادیاں بھی کیں میں نے اپنی جاب کو چیلنج سمجھ کر قبول کیا تھا۔
آج بھی مجھے ایک ساتھ بہت ساری چیزوں کو دیکھنا ہوتا ہے اور آج بھی مجھے بہت سی چیزوں کا پتا نہیں لیکن میں پراعتماد ہوں اور اپنے آپ کو کسی سے کم نہیں سمجھتی آج بھی میرا رویہ اپنے دوستوں، عزیزوں سے ویسا ہی ہے جیسے کہ پہلے تھا مجھے حیرت ہوتی ہے کہ لوگ کسی بڑے مرتبے پر پہنچ کر مغرور کیسے ہوجاتے ہیں۔ ان کے چھ میں سے پانچ سیریلز کو ایوارڈز سے نوازا گیا ہے جو یقیناً ایک اعزاز ہے۔
وہ گزشتہ چالیس ، بیالیس سال سے ایک ہی اشاعتی ادارے سے منسلک ہیں۔ ان کے ادارے کے رسالے نہ صرف پاکستان بلکہ ملک سے باہر بھی جہاں جہاں اردو پڑھی جاتی ہے خواتین کے لیے معتبر رسالے سمجھے جاتے ہیں۔ آج ہمارے ٹی وی چینلز پر مشہور و معروف ڈرامہ سیریلز ان ہی ڈائجسٹوں کی مرہون منت ہے۔ خواتین ڈرامہ نگاروں کی ایک بڑی تعداد ان ہی ڈائجسٹوں و رسائل سے منسلک ہے۔
کیا یہ افسانے اور ناولز خواتین اور لڑکیوں میں اخلاقی بگاڑ پیدا کرتے ہیں تو اس کا جواب ہے ہرگز نہیں کیوں کہ ان کے مطابق ایسی کہانیوں اور ناولز کو ان کے یہاں جگہ نہیں ملتی جس میں لڑکیوں کو گھر سے بھاگ کر شادی کرنا یا شادی شدہ خواتین کا عشق و محبت میں انوالمنٹ اور خود کشی جیسے قبیح عمل کی حامل نگارشات کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی صرف یہ ہی نہیں بلکہ ایسی غیر اخلاقی کہانیاں جن سے لڑکیوں اور کم عمر لڑکیوں کو غلط ترغیب ملے جگہ نہیں دی جاتی بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ ان کے کہانیوں کے انتخاب کے باعث معاشرے میں بہت سی خواتین اور لڑکیوں کو اپنی عملی زندگی میں مدد ملی ہے اس کا ثبوت ان خواتین کی آرا اور خطوط ہیں کہ جن میں انھوں نے خواتین کے رسالوں کی کہانیوں سے اپنی زندگیوں میں مثبت انداز سے قدم اٹھائے اور کامیابیاں حاصل کیں۔
مذہب سے لگائو اور عشق حقیقی کی لگن بھی ان کے چھپنے والے افسانے اور ناولوں سے خواتین کے شعور کی تربیت میں اہم رہے ہیں۔ اپنی تہذیب و اقدار میں رہتے ہوئے مذہب کی پاسداری کرتے صنف نازک کو معاشرے میں کسی طرح اپنا مقام بنانا ہے یہ سکھانے کے لیے ہمارے یہاں تعلیمی داروں میں کوئی مضمون نہیں رہا، اسی طرح اندرون ملک دور دراز دیہاتوں اور گائوں میں جہاں خواتین کے لیے تعلیم حاصل کرنے کے ہی مسائل ہیں ایسے میں دینی اور اخلاقی تربیت کون کرے وہاں خاص کر ایسے باشعور رسالے ہی ان کے لیے مددگار ثابت ہوتے ہیں اور ان کے معیار کو بنانے اور برقرار رکھنے میں ان کا بڑا ہاتھ ہے جنھوں نے بہت سی خواتین لکھاریوں کی تربیت بھی کی اور اپنی انتھک محنت سے شب و روز کام کرکے اپنے پرچوں کا نام شہرت کی بلندیوں پر برقرار رکھا۔
میں آفس سے جاکر کچن وغیرہ سمیٹتی ہوں، جھاڑو دیتی ہوں پھر اپنی اماں کے کام کرتی ہوں انھیں میرے علاوہ کسی کے ہاتھ کی چوٹی پسند نہیں پھر کھانا کھانے کے بعد برتن سمیٹ کر کچن صاف کرکے نماز سے فارغ ہوکر ذرا آرام کرتی ہوں پھر اٹھ جاتی ہوں اور رات تین بجے تک پڑھتی رہتی ہوں یہاں تک کہ پڑھتے پڑھتے ہی میری آنکھ لگ جاتی ہے۔
ان کے کاموں کی یہ تفصیل کھانا پکانے اور گھریلو ذمے داریوں اور دوسرے مسائل تک پھیلی ہوئی ہے جو گزشتہ چالیس برسوں سے رواں دواں ہے۔ اس قدر کام اور انتھک محنت کے بعد گو جسمانی طور پر وہ اب اپنے آپ کو کمزور محسوس کرتی ہیں لیکن اپنے رسالے اور گھر کے معاملات میں کمپرومائز کرنا پسند نہیں کرتیں۔ وہ بیک وقت ایک استاد ، مقرر اور ریسرچر ہیں،کتب بینی کی بے انتہا شوقین ہیں۔
''بھئی میں تو کہتی ہوں کہ گورنمنٹ ہمیں ہماری گزشتہ خدمات (نوکری) کے صلے میں تنخواہ تو دے رہی ہیں تو ہمارا بھی تو فرض ہے ناں کہ ہم اپنے ملک، اپنے لوگوں کے لیے ایسے کام کریں کہ ہم اپنا حق ادا کردیں۔ یہ کیا کہ ہم سارے پیسے اپنی جیبوں میں ہی رکھ لیں ہم ان پیسوں کو صحیح طرح سے استعمال کرکے اسے حلال تو کریں۔''
یہ رائے ان خاتون کی تھیں جو تدریس کے شعبے سے طویل عرصے منسلک رہیں اپنے اعلیٰ عہدے پر رہنے کے باوجود دیگر سوشل اور ہم نصابی سرگرمیوں میں بھی پیش پیش رہتی تھیں اور تاحال اسی طرح مصروف ہیں۔ ایک اعلیٰ عہدے پر رہنے کے ساتھ ان کی ڈس ایبل فائونڈیشن سے وابستگی رہی جو بقول ان کے کم عمری سے ہی منسلک رہی تھیں اور ایسے بچوں کے لیے جو عام صحت مند تندرست وتوانا بچوں کی مانند تو نہیں لیکن رب العزت کی جانب سے ہمارے معاشرے کے لیے غیر مناسب رویوں کے حوالے سے آزمائش بھی ہیں بڑھ چڑھ کر عملی طور پر حصہ لیتی ہیں۔
''مجھے حیرت ہوتی ہے ان لوگوں پر جو اپنی تنخواہوں کو دوران ملازمت اور اس کے بعد بھی چھپا چھپا کر رکھتے ہیں انھیں یہ سوچنا چاہیے کہ اگر آپ کے پاس دنیا کی نعمتیں ہیں تو کیا ان لوگوں کے لیے سوچنا اور کام کرنا ہمارا فرض نہیں ہے۔ ہم ہر کام حکومت کے ذمے چھوڑ کر خود ہاتھ جھاڑ کر اپنی تنخواہیں، پینشن سمیٹ کر کھڑے ہوجائیں اسی جذبے کے تحت میں نے بچیوں کے لیے ایک ادارہ کھولا تھا کہ جس میں وہ سلائی کڑھائی سیکھیں تاکہ اور کچھ نہیں تو کم از کم وہ گھر میں اپنے کپڑے سی کر یا دوسروں کے کپڑے سی کر دو پیسے کما سکیں اس کے لیے ہم نے ایک جگہ بنائی اور سلائی مشینیں دلوائیں پھر کووڈ کے زمانے میں ہمیں بہت نقصان بھی ہوا ہماری مشینیں چوری بھی ہوئیں اب ظاہر ہے کہ رکاوٹیں تو آتی ہیں لیکن اچھائی کے عمل کو ختم نہیں کرنا چاہیے۔''