’’جہانِ گم گشتہ‘‘ ناولٹ اور افسانے

ناولٹ کا کردار شاکر علی بظاہر بے حد صابر اور قانع نظر آتا ہے لیکن دکھ کا الاؤ اس کے سکون کو جلا کر خاکستر کر دیتا ہے

nasim.anjum27@gmail.com

257 صفحات پر مشتمل ناولوں اور افسانوں کا مجموعہ ''جہانِ گم گشتہ'' کئی ہفتوں سے میری توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے، نگہت سلیم صاحبہ ان ادبی شہ پاروں کی تخلیق کار ہیں۔

ان کے افسانے اور ناول پڑھنے کے بعد اس بات کا بہ خوبی اندازہ ہوا کہ وہ ایک ایسی قلم کار ہیں جو فنی باریکیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے حالات و واقعات کا جائزہ لیتی ہیں، معاشرتی المیوں پر گہری نگاہ رکھتی ہیں، کرداروں کے قالب میں جھانکتی ہیں اور ان کی زندگیوں، المناکیوں کو اپنی روح میں اتار لیتی ہیں اور درد کی لذت کو شدت سے محسوس کرتی ہیں اور پھر خون جگر سے وہ تخلیق کے مرحلے سے گزرتی ہیں۔

یوں لگتا ہے جیسے وہ تاریخ کی چشم دید گواہ ہیں اور معاشرے میں سسکتی، تڑپتی، سسکیاں لیتی زندگیوں کے ساتھ ایک عمر گزار آئی ہیں، مظلوموں کی چیخیں ان کے افسانوں اور ناولوں میں ڈھل جاتی ہیں پھر شاہکار کہانیوں کا جنم ہوتا ہے جو سچ کی آنچ میں پروان چڑھتی ہیں تجربات اور مشاہدے کا خمیر ان کے افسانوں اور ناولوں کو جلابخشتا ہے۔

نگہت سلیم کی تحریریں اپنی بنت کے اعتبار سے داد کی مستحق ہیں۔ تعریف و توصیف کی حق دار ہیں انھوں نے جم کر اور اطراف میں بسنے والے کرداروں کے نہاں خانے میں ڈوب کر لکھا ہے۔ کتاب میں چھ افسانے اور تین ناول شامل ہیں۔ ان کی تمام تحریریں تو اپنی گوں ناگوں مصروفیات کے باعث نہیں پڑھ سکی لیکن دو ناولٹ آسیب مبرم، جہان گم گشتہ اور افسانوں میں جشن مرگ ''محبت اور طاعون'' شامل ہیں۔

مصنفہ نے پاکستان کی دولخت ہوتی ہوئی کہانی کا احوال جرأت اظہار کے ساتھ بیان کیا ہے، مکتی با ہنی کے تربیت یافتہ درندے جو نو انسانوں کی شکل میں گھروں میں گھس گھس کر اپنے شکار ڈھونڈ رہے تھے اور لاشوں کو شعلہ کر رہے تھے۔

روح و دل کو زخمی کرنیوالے عذاب کی جھلکیاں دکھا کر نگہت سلیم نے مشرقی پاکستان کی خون آلود کہانی کو اپنے ناولٹ کی شکل میں اس طرح تحریر کیا ہے کہ مفاد پرست ٹولے کے مفادات ملکی تباہی پر غالب آگئے۔ یہ کہانی نشب افروز اور کرنل جلال احمد کی اچانک سر بازار ہونے والی ملاقات سے شروع ہوتی ہے۔ نشب افروز کے ساتھ اس کا ملازم بھی ہے۔ عورت کے اصرار پر کرنل جلال اس کے گھر پہنچ جاتا ہے۔

عورت کا تعلق ان بارہ عورتوں میں سے تھا جنھوں نے اس ملک کو ذلت کے کنوئیں میں دھکیلنے میں تاریخی کردار ادا کیا۔ اس سچائی کو کرنل نے لاپرواہی سے اجاگر کیا۔ یہ سن کر نشب افروز نے اپنے بدن میں جھرجھری محسوس کی تھی، احساس توہین نے اس کی ظاہری و باطنی ساختیات کو اتھل پتھل کردیا تھا۔

اس نے خود کو بلاوجہ مصروف ظاہر کرتے ہوئے مڑ کر دیکھا، پتھر کی سل پر سرد خانے سے نکلا ہوا مرغ رکھا تھا اور خادم پیالے میں بھرے مسالے کو تیز تیز دھار چھری کی مدد سے سالم مرغ میں گود رہا تھا اس کی انگلیوں کی جنبش میں ایسا جارحانہ پن تھا گویا وہ اپنی چھری سے مرغ میں شگاف نہ ڈال رہا ہو بلکہ کسی ان دیکھی شے پر وار کر رہا ہو۔

نشب افروز جوکہ مغنیہ ہے، گیت گاتی اور محفلوں کو گرماتی ہے، ان حالات میں بھی جب قائد اعظم کے بنائے ہوئے پاکستان سے اعلیٰ قیادت کھلواڑ کر رہی تھی قحبہ خانوں کی رونقیں عروج پر تھیں، نشب افروز کرنل کو اپنی ان یادوں کا حصہ دار بنانا چاہتی ہے جو جیتے جی اسے شکست اور یاسیت کی وادی میں دھکیل رہے تھے، کرنل شاید خود بھی بیتے دنوں کی زخمی یادوں اور شکست و ریخت کے احساس سے آزاد ہونا چاہتا تھا۔

دوران گفتگو اس نے وقت کی طناب کھینچی اور مدتوں بعد اس باب کو کھولا جس کے بریدہ اوراق میں ان دونوں کی کہانی بھی چلتی رہی تھی۔ نگہت سلیم اپنی تحریر کی توانائی اور حسن بیان کی بدولت اپنے قاری کو اس مقام پر لے آتی ہیں جہاں فاش غلطیاں اور پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں بچا تھا۔ کرنل ماضی کے اندھیروں میں بھٹک رہا تھا۔ زبان مکافات عمل کا نوحہ بیان کر رہی ہے۔


وہ بولا ''اس خطے کی سیاسی قیادتیں ارفع تاریخ رقم کرسکتی تھیں ایک تھا بد عہد سیاستدان دوسرا اقتدار کی خواہش میں مضطرب اور تیسرا ان سب کا سردار انگشتِ ابلیس پر ناچتا ہوا یہ تھے تاریخ کے وہ قزاق جنھوں نے اس ملک کے سفینے کو لوٹا۔ انھوں نے اپنی نااہلی سے کفار کے مرحلے آسان کیے۔''

گزرے دنوں کی داستان میں خاموش تماشائی خادم بھی ہے جو مہاشیر مچھلی بنا رہا ہے یہ مچھلی بنگلہ دیش میں بھی بہت کھائی جاتی ہے، ہاں کرنل دلچسپی سے بولا'' ایک وقت تھا کہ جب دریائے جہلم اور پونچھ کا سنگم مہاشیر کے شکار کے لیے دنیا بھر میں مشہور تھا، اب یہ جگہ منگلا جھیل میں آگئی ہے۔''

خادم کا دماغ اس پر اس کے خاندان پر ہونیوالے ظلم کی آگ سے جھلس رہا ہے، اس کی آپا اور اس کے اس بچے کا خون تاریخ کے صفحات پر منجمد ہوگیا ہے جو دنیا میں نہیں آیا تھا۔ درندوں نے آپا کو گھیر کر شہید کردیا تھا۔ اس کی منگیتر ''بیلا'' اور اس کے بوڑھے ماں باپ اور اس کے خاندان، دوست احباب اپنوں ہی کے ہاتھوں بے دردی سے قتل کردیے گئے۔ خادم جس کا نام نورالٰہی تھا۔

آپا کی آوازیں اس کے کانوں میں گونج رہی تھیں، تجھے اماں کا واسطہ، تو بھاگ یہاں سے۔ وہ عینی شاہد تھا۔ اس کے بچپن کے دن تھے اور اس نے اپنی آنکھوں سے دوستوں کو دشمن بنتے دیکھا تھا۔ آپا کو بٹیا کہنے والا اس کے پڑوسی نے آپا کا بازو پکڑ کر کھینچا تھا اور چمکتی دھار والے چھرے سے اس کا پیٹ چیر دیا تھا اس وقت بربریت کی مکمل کہانی اس کے سامنے کھڑے ہو کر انصاف مانگ رہی تھی۔

خادم کا کردار مضبوط ہے اس کے سامنے ملک دو حصوں میں تقسیم کرنیوالے مفاد پرستوں کے ٹولے میں شامل، بے ضمیر، تعیش پسند، نشب افروز اور کرنل سامنے ہیں جو اپنے ذہن میں جمنے والی کائی کو دور کرکے شانت ہونا چاہتے ہیں۔ کرنل نے ماضی میں جھانکتے ہوئے کہا کہ ''میں نے جھوٹا وعدہ کیا تھا میں آؤں گا انھیں بچانے کے لیے گاؤں کے گاؤں قتل ہوگئے لیکن میں انھیں نہیں بچا سکا۔''

بظاہر خاموشی کا لبادہ اوڑھنے والا نور الٰہی انتقام کی آگ میں جھلس رہا ہے، نشب افروز کے ساتھ پٹاخے خرید کر لانیوالے خادم نے شب برأت کو منانے کے لیے پھلجھڑیوں، پٹاخوں، انار، مہاتابیاں اور پھٹے دہکتے انگاروں پر اچھال دیے اور پھر موقعہ پاتے ہی خادم نے کرنل کی گردن دبوچ کر پے درپے چاقو کے وار کردیے۔

نشب افروز نے جان بچانے کی کوشش کی لیکن وہ بھی نہ بچ سکی۔ وہ خوش تھا، اس کے چہرے اور دل پر اطمینان نے جگہ بنا لی تھی۔ غداروں کا یہی انجام ہونا چاہیے تھا۔

نگہت سلیم کا دوسرا ناول ''آسیب مبرم'' ہے، نگہت سلیم نے اس ناول میں کرداروں کی بے بسی، جذبات و احساسات کی عکاسی اور نفسیاتی کیفیت کو بے حد موثر انداز میں بیان کیا ہے، جب ایک مخنث کسی گھر میں جنم لیتا ہے تو وہاں گویا رات کی سیاہی ہمیشہ کے لیے اتر جاتی ہے اور یہ صدمہ اور اپنا تمسخر اڑائے جانے کا احساس قبر کی دہلیز پر ہی جا کر پیچھا چھوڑتا ہے۔

ناولٹ کا کردار شاکر علی بظاہر بے حد صابر اور قانع نظر آتا ہے لیکن دکھ کا الاؤ اس کے سکون کو جلا کر خاکستر کر دیتا ہے، جب کہ شاکر علی کی بیوی حاجرہ کے لیے پیدا ہونے والا مخنث زہریلا گھونٹ ہے جسے قدرت نے اس کے منہ میں انڈیل دیا ہے۔ وہ نہ حلق سے اتار سکتی ہے اور نہ باہر نکالنے کے لیے اپنے اندر ہمت پاتی ہے۔ فرار کی تمام راہیں مسدود ہو چکی ہیں، ناول سے چند سطریں۔

''نیم بے ہوشی میں حاجرہ کو دائی بتول کی پکار لکڑ بھگے کی ہنستی، سسکتی چیخ میں تبدیل ہوتی ہوئی محسوس ہوئی، پھر آس پاس بھیڑیوں کے ہونکنے کی آوازیں آنے لگیں جو رفتہ رفتہ وحشی قہقہوں میں تحلیل ہو گئیں۔'' آزمائش سے گزرنیوالے خاندان کی دماغی کیفیات کا نقشہ اس دردمندی سے کھینچا ہے، گویا پروجیکٹر پر فلم چل رہی ہو۔ان کے افسانوں اور ناولوں میں بلا کی روانی ہے، الفاظ کی جادوگری اور حسن بیان نے تحریروں کو ہمیشہ زندہ رہنے کے عمل سے گزارا ہے، مبارکاں!
Load Next Story