اُردو سائنس بورڈ… ساٹھ سال

تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو اس موجودہ نام یعنی اُردو سائنس بورڈ کے ساتھ یہ گزشتہ تقریباً چالیس برس سے ہے

Amjadislam@gmail.com

پچھلے دنوں اُردو سائنس بورڈ کی ساٹھو یں سالگرہ کی تقریب میں شرکت کا موقع ملا تو یادوں، مسائل اور خوابوں کا ایک جہان سا کھلتا چلا گیا کہ ان ساٹھ برسوں میں تین برس مجھے بھی اس کی رفاقت کا موقع مل چکا ہے۔

تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو اس موجودہ نام یعنی اُردو سائنس بورڈ کے ساتھ یہ گزشتہ تقریباً چالیس برس سے ہے کہ پہلے اس کا نام اُردو مرکز ی بورڈ ہوا کرتا تھا لیکن جب اکادمی ادبیات اور مقتدرہ قومی زبان سمیت کچھ اور ادارے بھی اپنے اپنے حوالے سے زبان و ادب کے ضمن میں کام کرنے لگے تو اس ادارے کا کام سائنسی علوم اور کتابوں کو اُردو زبان میں منتقل کرنا قرار پایا۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق ان ساٹھ میں سے تقریباً 30 برس اشفاق احمد مرحوم اس کے سربراہ رہے اور ایمانداری کی بات یہ ہے کہ جو کام انھوں نے اکیلے کیا، وہ باقی کے تمام لوگ مل کربھی نہیں کرسکے۔

علمی حوالے سے ہٹ کر جو ایک بہت بڑا اور تقریباً ناقابل یقین کام انھوں نے کیا وہ ایک بہت اچھی جگہ پر اس کے دفتر کی خوبصورت عمارت کی تعمیر ہے کہ دو کنال پر محیط یہ عمارت تمام کی تمام اس دفتر کی اپنی کمائی یعنی سائنسی کتابوں کی فروخت سے کی گئی ہے۔

جہاں تک اس کے علمی کارناموں کا تعلق ہے، اس دوران میں ایسی بہت سی اہم کتابیں انسائیکلوپیڈیاز اور لغات شایع کیے جو اپنی مثال آپ ہونے کے ساتھ ساتھ بار بار چھپتے بھی رہے اور لطف کی بات یہ ہے کہ ادارہ عام سرکاری اداروں کی نسبت افرادی قوت کے حوالے سے بھی بہت چھوٹا ہے۔

کچھ عرصہ قبل پتہ چلا کہ سرکار نے ایک دوسرے سے ملتے جلتے اداروں کو آپس میں ضم کرکے ان کی تعداد کو کم او ر کام کو بہتر بنانے کے لیے ایک پالیسی بنائی ہے جس میں کراچی کے اُردو لغت بورڈ اور لاہور کے اس اُردو سائنس بورڈ کو اسلام آباد کے مرکزی ادارے مقتدرہ قومی زبان، جسے اب غالباً ادارہ فروغ اُردو کا نام دیا گیا ہے، کے ماتحت کرکے ان کا انتظام اس کے سپرد کر دیا گیا ہے۔


اتفاق سے اس ادارے کے سربراہ ڈاکٹر رؤف پاریکھ اور سیکنڈ ان کمانڈ ڈاکٹر راشد حمید ہمارے احباب میں سے ہیں۔ اُن سے اس موضوع پر بات ہوئی تو اُن کا کہنا یہی تھا کہ وہ بھی باقی سب کی طرح سرکار کے فیصلوں کے تابع ہیں اور ان کی ذاتی رائے جو بھی ہے، انھیں وہی کرنا ہے جو کیا جائے گا۔

اُردو سائنس بورڈ کے کچھ سینئر افسران سے بات ہوئی تو اُن کا جواب بھی کم و بیش یہی تھا کہ حکم حاکم مرگ مفاجات۔ اس پر مرحوم محبوب خزاں بہت یاد آئے جنھوں نے کہا تھا کہ

خزاںؔ یوں آدمی اچھے بہت ہیں
ملازم پیشہ ہیں ڈرتے بہت ہیں

اجلاس سے بورڈ کے دو ریٹائرڈ ساتھیوں ڈاکٹر جمیل اور زبیر وحید بٹ نے اپنے خطاب میں بہت اچھی اور اندر کی باتیں کیں۔ اُن کے علاوہ مہمان مقررین اور بورڈ کی مجلسِ مشاورت کے ممبران ڈاکٹر طارق حیات اور ڈاکٹر اجمل رحیم کے علاوہ برادرِ عزیز ڈاکٹر ضیا الحسن اور میں نے بھی خطاب کیا اور ہم سب کا مجموعی پیغام یہی تھا کہ بلاشبہ انگریزی زبان اچھی طرح سے جاننا سائنسی علوم کو سمجھنے کے لیے کم از کم برصغیر کی حد تک بہت ضروری بلکہ لازمی ہے مگر جہاں تک پرائمری اور مڈل کلاسز کا تعلق ہے، کسی concept کی وضاحت کے لیے مادری یا قومی زبان ہی سب سے بہتر ذریعہ ہوسکتی ہے اس لیے سائنسی اصطلاحات کے تراجم کے بجائے انھیں اُن کی اصل صورت میں رکھنا بہتر ہوگا کہ اس سے آگے کی جماعتوں میں جانے والے بچے بہت سی پریشانیوں سے محفوظ ہوکر آگے بڑھ سکیں گے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی بہت سی اصطلاحات کے لیے سائنسی سوچ، مزاج اور ماحول کی عدم موجودگی کی وجہ سے ہماری زبانوں میں مناسب الفاظ موجود نہیں ہیں اور یہ کہ اس کام کو چھوٹی جماعتوں میں یہیں تک محدود رہنا چاہیے اور انگریزی کو ذریعہ تعلیم کے بجائے شروع میں صرف ایک زبان کے طور پر پڑھانا اور سکھانا چاہیے۔

اس ادارے کی مطبوعات کی تعداد اب تقریباً ایک ہزار ہونے والی ہیں اور جیسا میں نے بتایا کہ اس کی کئی کتابیں مثلاً زرعی انسائیکلوپیڈیا دس جلدوں پر محیط سائنسی انسائیکلو پیڈیا، شہرہ آفاق کتاب ''سو فی کی دنیا'' کے درجنوں کے حساب سے ایڈیشن شایع ہوچکے ہیں اور بنیادی سائنسی تصورات کی تفہیم کے لیے بھی اُردو زبان میں ان علوم اور کتابوں کے آسان اور عمدہ تراجم کو جاری رکھنا بہت ضرور ی ہے ۔

پاکستان میں جن چند خواتین نے بہت غیرمعمولی، نازک اور اہم شعبوں میں شاندار کام کیا ہے، میں ذاتی طور پر اُن کی فہرست میں مسرت مصباح کو بہت اُوپردیکھتا ہوں کہ عمومی طور پر تو انھیں ایک بیوٹیشن کے حوالے سے جانا جاتا ہے یا کچھ لوگ انھیں ان کی میڈیا پر موجودگی کے حوالے سے جانتے ہیں مگر دیکھا جائے تو ان کا اصل اور بہت قیمتی کام Smile Again نامی ادارے کا قیام ہے کہ جس کے حوالے سے وہ جلائی جانے والی بدنصیب لڑکیوں کی دادرسی کرتی ہیں، ان کا علاج کروا کر انھیں دوبارہ زندگی میں واپس لاتی ہیں، انھیں مختلف ہنر سکھا کر اپنے قدموں پر کھڑا کرتی اور انھیں خود اپنے ادارے میں ملازمتیں دیتی ہیں تاکہ وہ پھر سے مسکرا سکیں۔

مجھے جب بھی اُن سے ملنے یا اُن کے ادارے کی کسی تقریب میں شامل ہونے کا موقع ملتا ہے تو دل سے نہ صرف اُن کے لیے دعا نکلتی ہے بلکہ اُن تمام انسان دوست روحوں کو سلام پیش کرنے کو جی چاہتا ہے جو دکھی لوگوں کے لیے اپنا عیش و آرام خوشدلی سے تج کر اُن کی بحالی اور بہتری کے لیے کام کرتے ہیں اور تاریخ یہی بتاتی ہے کہ جس معاشرے میں ایدھی صاحب (بڑے پیمانے پر) اور مسرت مصباح (چھوٹے پیمانے پر) جیسے لوگ افراط میں ہو جائیں وہاں ربِ کریم کی برکتوں میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔
Load Next Story