آئی ایم ایف کا نئے ٹیکس کا مطالبہ بہت سخت ہے
لگتا ہے کہ اسحق ڈار مہنگائی کم کرنے، روپے کے استحکام کا مشن پورا نہیں کر پائیں گے
تجزیہ کار شہباز رانا کا کہنا ہے کہ نئے ٹیکس عائد کرنے کا مطالبہ بہت سخت ہے۔
تجزیہ کار شہباز رانا نے کہا ہے کہ لانگ مارچ کیلیے پی ٹی آئی کی امیدوں سے بہت کم لوگ نکلے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ جب یہ اسلام آباد کی حدود میں داخل ہوں گے تب پتہ چلے گا کہ ان کے ساتھ کتنے عوام ہوتے ہیں۔
ایکسپریس نیوز کے پروگرام دی ریویو میں کامران یوسف سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا مریم اورنگ زیب نے واضح طور کہہ دیا ہے کہ عمران خان جتنا بھی شور ڈال لیں۔ جو اہم تقرری ہونی ہے وہ اس پر اثر انداز نہیں ہو سکتے۔کہا یہی جا رہا ہے کہ آرمی چیف کی تقرری کے حوالے سے یہ ہی سب کچھ ہو رہا ہے۔انھوں نے مذاکرات کے امکان کو بھی رد کر دیا ہے۔
ملک کی معیشت کی بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ پاکستان کی معیشت اہم ترین موڑ پر ہے۔ معیشت کی جو حالت ہے اس کی وجہ سے اب بھی پاکستان کے دیوالیہ ہونے کا امکان ہے۔ ہم کمزور پالیسیوں اور سیاسی عدم استحکام کے متحمل ہو ہی نہیں سکتے۔
انہوں نے کہا کہ اسحاق ڈار کو امریکہ جانے سے قبل آئی ایم ایف سے ریلیف ملنے کی توقع تھی جو نہیں ملا۔ اس نے ٹیکس ٹو جی ڈی پی شرح کے مطابق 600ارب روپے سے بھی زیادہ کے نئے ٹیکس لگانے سمیت مطالبات کی ایک لمبی فہرست تھما دی ہے۔ نئے ٹیکس عائد کرنے کا مطالبہ بہت سخت ہے۔ پاکستان کی معیشت اور ایف بی آر کی جانب سے ہدف سے زیادہ محاصل وصولی کو سامنے رکھا جائے تو یہ مطالبہ بلاجواز ہے۔
لگتا ہے کہ اسحاق ڈار مہنگائی کو کم کرنے، روپے کو مستحکم اور شرح سود کو کم کرنے کا مشن بھی پورا نہیں کر پائیں گے۔آئی ایم ایف نے پٹرولیم پر ساڑھے سترہ فیصد جی ایس ٹی لگانے کا مطالبہ کیا جو اسحاق ڈار نے نہیں مانا۔ آئی ایم ایف حکومت سے بجلی کی قیمت بڑھانے کا وعدہ پورا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ بجلی کی قیمت میں یکم اکتوبر سے91 پیسے فی یونٹ اضافہ کرنا تھا جو نہیں کیا گیا۔ وزیراعظم نے دس روپے فی یونٹ فیول ایڈجسٹمنٹ موخر کر دیا تھا وہ صارفین کو منتقل ہونا ہے۔
کامران یوسف نے کہا کہ پی ٹی آئی کا لانگ مارچ اسلام آباد کی جانب رواں ہے جو الگے ہفتے اسلام آباد پہنچے گا، اصل میں یہ لڑائی عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ہے، آنے والا وقت ہی یہ بتائے گا یہ لڑائی کون جیتتا ہے۔ ڈی جی آئی ایس آئی نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ ادارے نے فیصلہ کیا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سیاست میں ملوث نہیں ہوگی، سیاسی جماعتوں کو اس کو ایک موقعہ سمجھتے ہوئے مذاکرات کے دروازے بند نہیں کرنے چاہیں، اگر یہ مذاکرات نہیں کریں گی تو بالآخر نقصان ان سیاسی جماعتوں اور سب سے بڑھ کر پاکستان کا ہو گا۔
تجزیہ کار شہباز رانا نے کہا ہے کہ لانگ مارچ کیلیے پی ٹی آئی کی امیدوں سے بہت کم لوگ نکلے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ جب یہ اسلام آباد کی حدود میں داخل ہوں گے تب پتہ چلے گا کہ ان کے ساتھ کتنے عوام ہوتے ہیں۔
ایکسپریس نیوز کے پروگرام دی ریویو میں کامران یوسف سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا مریم اورنگ زیب نے واضح طور کہہ دیا ہے کہ عمران خان جتنا بھی شور ڈال لیں۔ جو اہم تقرری ہونی ہے وہ اس پر اثر انداز نہیں ہو سکتے۔کہا یہی جا رہا ہے کہ آرمی چیف کی تقرری کے حوالے سے یہ ہی سب کچھ ہو رہا ہے۔انھوں نے مذاکرات کے امکان کو بھی رد کر دیا ہے۔
ملک کی معیشت کی بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ پاکستان کی معیشت اہم ترین موڑ پر ہے۔ معیشت کی جو حالت ہے اس کی وجہ سے اب بھی پاکستان کے دیوالیہ ہونے کا امکان ہے۔ ہم کمزور پالیسیوں اور سیاسی عدم استحکام کے متحمل ہو ہی نہیں سکتے۔
انہوں نے کہا کہ اسحاق ڈار کو امریکہ جانے سے قبل آئی ایم ایف سے ریلیف ملنے کی توقع تھی جو نہیں ملا۔ اس نے ٹیکس ٹو جی ڈی پی شرح کے مطابق 600ارب روپے سے بھی زیادہ کے نئے ٹیکس لگانے سمیت مطالبات کی ایک لمبی فہرست تھما دی ہے۔ نئے ٹیکس عائد کرنے کا مطالبہ بہت سخت ہے۔ پاکستان کی معیشت اور ایف بی آر کی جانب سے ہدف سے زیادہ محاصل وصولی کو سامنے رکھا جائے تو یہ مطالبہ بلاجواز ہے۔
لگتا ہے کہ اسحاق ڈار مہنگائی کو کم کرنے، روپے کو مستحکم اور شرح سود کو کم کرنے کا مشن بھی پورا نہیں کر پائیں گے۔آئی ایم ایف نے پٹرولیم پر ساڑھے سترہ فیصد جی ایس ٹی لگانے کا مطالبہ کیا جو اسحاق ڈار نے نہیں مانا۔ آئی ایم ایف حکومت سے بجلی کی قیمت بڑھانے کا وعدہ پورا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ بجلی کی قیمت میں یکم اکتوبر سے91 پیسے فی یونٹ اضافہ کرنا تھا جو نہیں کیا گیا۔ وزیراعظم نے دس روپے فی یونٹ فیول ایڈجسٹمنٹ موخر کر دیا تھا وہ صارفین کو منتقل ہونا ہے۔
کامران یوسف نے کہا کہ پی ٹی آئی کا لانگ مارچ اسلام آباد کی جانب رواں ہے جو الگے ہفتے اسلام آباد پہنچے گا، اصل میں یہ لڑائی عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ہے، آنے والا وقت ہی یہ بتائے گا یہ لڑائی کون جیتتا ہے۔ ڈی جی آئی ایس آئی نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ ادارے نے فیصلہ کیا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سیاست میں ملوث نہیں ہوگی، سیاسی جماعتوں کو اس کو ایک موقعہ سمجھتے ہوئے مذاکرات کے دروازے بند نہیں کرنے چاہیں، اگر یہ مذاکرات نہیں کریں گی تو بالآخر نقصان ان سیاسی جماعتوں اور سب سے بڑھ کر پاکستان کا ہو گا۔