دنیا کا سب سے بڑا جھوٹ… آزاد ی دوسرا اور آخری حصہ

barq@email.com

آزادی بے شک ایک نعمت ہے لیکن یہ ہمیشہ اشرافیہ کو ملتی ہے، عوامیہ صدیوں سے غلام تھی، غلام ہے اورغلام رہے گی،جھنڈے بدلتے رہتے ہیں لیکن ہر جھنڈے میں ڈنڈہ ایک ہوتاہے جس سے عوامیہ کی ہڈی پسلی ایک کی جاتی ہے۔

کہنے کو تو اقوام متحدہ کے چارٹر میں لکھاہے کہ انسان آزاد پیداہوا ہے اورآزاد رہے گا لیکن عملاً ایسا کبھی نہیں ہوتا،انسان غلام پیداہوتاہے اورغلام ہی مرتاہے کیوں کہ کسی نہ کسی اشرافیہ کے منحوس سائے تلے تو آہی جاتاہے، ویسے بھی جب پیداہوتاہے تو نہ تو اپنی مرضی کے وقت پر پیداہوتاہے نہ اپنی مرضی کے مقام پر نہ اپنی مرضی کے گھرانے میں، نہ ملک میں۔اور پھر ماں کے پیٹ ہی میں ''سانس'' کا اسیر ہوکر پیداہوتاہے۔

پیٹ کا اسیرہوکر پیداہوتاہے خواہشات کا اسیرہوکر پیدا ہوتا ہے، بے شمار غلاموں اور پابندیوں کااسیر ہوکر جیتا ہے اورپھر موت کاغلام بن کر مرجاتاہے۔ لیکن ان تفصیلات کو ہم نظراندازکیے دیتے ہیں کیوں کہ آگے پھر معاملہ ''جبرو اختیار'' کی پیچیدگیوں میں داخل ہوجاتا ہے اس لیے عمومی سطح پر ہی اپنی بات کو رکھتے ہیں ۔

دنیا میں اس وقت بے شمار ممالک ہیں اوران کے عوام ہیں جوخود کو آزادسمجھتے ہیں لیکن ہیں نہیں۔یہ جشن آزادی بھی مناتے ہیں اوریوم آزادی بھی۔افغانستان میں بھی یوم آزادی منایاجاتاہے ،عربستان میں بھی اور روس چین وغیرہ میں بھی۔اورہر ہرجگہ وہی ایک سلسلہ ہے، ''دماغ'' کے عدم استعمال کی ماری ہوئی پچاسی فی صد عوامیہ اوردماغ کی کثرت استعمال سے شیطانی دماغ کی مالک پندرہ فی صد اشرافیہ ،کیا پاکستان اور ہندوستان کی عوامیہ آزاد ہے؟

غالباً کرشن چندرکاایک افسانہ ہے یاکسی اور کا۔ الفاظ کے لحاظ سے نہایت مختصر لیکن معانی کے لحاظ سے کوزے میں سمندر۔

کہتے ہیں کہ ایک کسان اپنے کھیت میں ہل چلارہاتھا کہ راستہ چلتے ہوئے ایک شخص نے پکارا یہ کیا؟ تم آج بھی ہل چلا رہے ہو، ادھر شہر میں آزادی کاجشن منایاجا رہا ہے چلو جشن میں چلتے ہیں۔ ہل چلانے والے نے پوچھا ،کس بات کاجشن ؟ دوسرے نے کہا آزادی کاجشن۔انگریزجارہے ہیں۔

ہل چلانے والے نے ہل روک کر کہا ۔سچ۔دوسرے نے کہا بالکل سچ۔ ہل چلانے والے نے ہل روک کر کہا تو پھر ٹھہرو، میں بھی چلتا ہوں،لیکن پھر کچھ سوچتے ہوئے پوچھا۔ پٹواری اورتھانیدار بھی جارہے ہیں نا۔دوسرے نے کہا نہیں صرف انگریزجارہے ہیں ،پٹواری اور تھانیدار تو یہیں رہیں گے۔ اس نے پلٹ کر ہل چلاتے ہوئے کہا کہ جب پٹواری اورتھانیدارنہیں جارہے ہیں تو کیسی آزادی کیسا جشن؟

اور پھر ہم نے دیکھا ہم دیکھ رہے ہیں انگریز جاچکے ہیں، آزادی بھی ملی ہے مگرصرف پندرہ فی صد ان خاندانوں کوجو کل انگریزوں کے دورمیں بھی آزاد تھے، سکھوں کے وقت بھی آزاد تھے اورمغلوں کے وقت میں بھی۔

وہ بے شک اب بھی آزاد ہیں جو چاہیں اس ملک کے ساتھ یہاں کے عوام کے ساتھ اوراس زمین کے ساتھ کرسکتے ہیں اورکررہے ہیں بلکہ کرتے رہیں گے۔کتنے آئے اورکیاکیا ترانے نہیں گائے گئے، جمہوریت، روٹی، کپڑا مکان،اسلام ،تبدیلی نیا پاکستان، ریاست مدینہ اور اب حقیقی آزادی۔


آزادی تو دیکھ لی ہے، پچھترسال سے دیکھ رہے ہیں لیکن یہ ''حقیقی آزادی ''کیا ہوگی ،شاید اس جسد خاکی سے آزادی ۔

ہو چکیں غالب بلائیں سب تمام

ایک مرگ ناگہانی اور ہے

ایک لطیفہ جو شاید ہم پہلے بھی سناتے رہے ہیں لیکن اس موقع کے لیے بھی مناسب ہے بلکہ اگر اس لطیفے کو ہم پاکستان کی پوری تاریخ قراردیںتو بھی درست ہوگا ۔

کہتے ہیں ایک عورت کو شوہر نے بری طرح مارا پیٹا اور پھر باہرنکل گیا،جسے ہی شوہر باہر نکلا، عورت مصلے پر بیٹھ گئی ،دو رکعت نفل پڑھ کردست بدعا ہوگئی یا اللہ میرے شوہرکو سلامت رکھ ،اسے لمبی عمرعطا فرما، اسے ہر بلا سے امان میں رکھ ، پڑوسن جو دیوار پر سے یہ ماجرا دیکھ رہی تھی۔

اس نے کہا تم بھی عجیب عورت ہو وہ تمہیں اتنا مارگیا ہے اور تم اسے دعائیں دے رہی ہو، میں ہوتی تو بددعائیں دیتی ۔ عورت نے کہا میرا کیس مختلف ہے، میرا پہلاشوہرمجھے برابھلا کہتاتھا وہ مرگیا تو دوسراگالیاں دیتاتھا اب یہ تیسرا مارتاہے اگر یہ بھی مرگیاتو چوتھا تومجھے مارہی ڈالے گا۔

کیاآپ آزاد پاکستان میں،زندہ باد پاکستان میں، پایندہ باد پاکستان میں ،اس سے مختلف کچھ دیکھ رہے ہیں؟یاکبھی دیکھ سکیں گے؟

لوگ لاکھ جشن آزادی منائیں کہ ان کا دماغ تو زنگ کھا کر ختم ہوچکاہے گزشتہ یوم آزادی چونکہ ''ڈائمنڈ جوبلی'' تھی اس لیے لوگوں نے اسے بہت ہی دھوم دھام سے منایا جو اس بات کا دلیل ہے کہ دماغ بالکل ختم ہوچکے ہیں ورنہ پچھترواں یوم آزادی نہیں بلکہ یوم غلامی منانا چاہیے تھا کیوں کہ پچھترسال پہلے یہ حالت نہیں تھی جو اب ہے نہ اتنے قرضے تھے۔

نہ اتنے ٹیکس تھے، نہ اتنے چور تھے، نہ اتنے گینگ تھے، نہ ملک کا ایسا گینگ ریپ ہوتا تھا نہ اتنے غنڈے تھے، نہ دادا تھے، نہ بھائی تھے ۔بلکہ ایک مزے کی بات یہ دیکھیے، دماغ تو آپ کا ہے نہیں اس لیے دل سے کام لے لیجیے کہ جن فرنگیوں کی غلامی سے ہم نکلنا چاہتے ہیں آج درخواستیں دے دے کر ویزے خرید خرید کر اور جان جو کھم میں ڈال کر جاتے ہیں ، کیوں کہ آزادی کی نعمت تو ہم کو مل گئی تو خود ہی ان کے وطن جاکر خود کو ان کی غلامی میں دینے کے لیے بے قرار کیوں ہورہے ہیں ،آزادی تو یہاں ہے وہاں تو وہی انگریز اور وہی غلامی ہے،اسیر ہونے کے بعد ''آزاد '' تو ہوگئے، پھر اب آزادی کی آرزوکیوں کر رہے ہیں۔
Load Next Story