’’تلاش‘‘ ایپ اسٹریٹ کرائم کے خلاف موثر ہتھیار
نئی ایپ میں مجرموں کا تمام ڈیٹا، کراچی کے بعد دائرہ سندھ بھر میں پھیلا دیا جائے گا
دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں جدید ٹیکنالوجی کو بروئے کار لاتے ہوئے نہ صرف جرائم پیشہ عناصر کو قانون کے شکنجے میں لایا جا رہا ہے بلکہ جرائم کی وارداتوں کو کنٹرول کرنے میں بھی جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ حاصل کیا جا رہا ہے، اور خوش قسمتی سے رجحان اب وطن عزیز میں بھی تیزی سے فروغ پا رہا ہے جس کا ایک ثبوت حال ہی میں سندھ پولیس نے بھی دیا ہے۔
سندھ پولیس کے شعبہ انفارمیشن ٹیکنالوجی نے اپنی مدد آپ کے تحت ایک ایپ تیار کی ہے، جس کی مدد سے دوران چیکنگ جرائم پیشہ عناصر کی شناخت کے ساتھ دیگر غیر قانونی سرگرمیوں کا بھی سراغ لگایا جا سکے گا۔
اس حوالے سے گزشتہ دنوں سنٹرل پولیس آفس میں ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں آئی جی سندھ غلام نبی میمن نے پولیس کے شعبہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی جانب سے تیار کی گئی ایپ '' تلاش '' کا باضابطہ افتتاح کر کے تینوں زونز کے ایس ایس پیز کے علاوہ دیگر پولیس افسران کو ''تلاش'' ایپ کی ڈیوائسز فراہم کیں۔
تقریب میں آئی جی سندھ غلام نبی میمن نے کہا کہ سندھ پولیس اپنے دستیاب وسائل میں شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانے کے ساتھ جرائم پیشہ عناصر کو نیکل ڈالنے کے لئے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کو بروئے کار لارہی ہے۔
ٹیکنالوجی کی مدد سے انسداد جرائم کو یقینی بنانے اور حقیقی معنوں میں جرائم پیشہ عناصر کو شکست دینے کے ضمن میں اس ایپ کو ایک مؤثر اور بہترین ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے ، انھوں نے اس ایپ کو بنانے اور متعارف کرانے پر محکمہ پولیس کے شعبہ انفارمیشن ٹیکنالوجی سی پی او کی پوری ٹیم کو مبارکباد دیتے ہوئے اس کاوش کو لائق ستائش و تحسین قرار دیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ پہلے مرحلے میں اس ایپ کو کراچی میں متعارف کرایا جا رہا ہے اور جلد ہی اس کے دائرے کو سندھ کے دیگر اضلاع تک وسعت دیدی جائیگی، اس سافٹ ویئر کو بنانے کا مقصد تفتیش کو آسان بنانا اور جرائم پیشہ عناصر کی مشکلات بڑھانا اور ان کے حوصلوں کو پست کرنا ہے۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ڈی آئی جی آئی ٹی پرویز چانڈیو نے بنائی جانے والی ''تلاش'' ایپ کے حوالے سے بتایا کہ اس ایپ بنانے کا مقصد اسٹریٹ کرائم سے نبردآزما ہونا ہے ، ایپ کی مدد سے ناکہ بندی کے وقت کسی مشتبہ شخص کو روکیں تو اتنا وقت نہیں ہوتا کہ اس کی مکمل تفتیش یا معلومات حاصل کی جا سکیں۔
تاہم مذکورہ ایپ سے اگر وہ کرمنل ریکارڈ کا حامل ہوا تو اس کی تمام معلومات ایک کلک پر سامنے آجائیں گی ، تلاش ایپ موو ایبل ڈیوائس ہے اور اسے ساتھ رکھنا اور لیجانا انتہائی آسان ہے جبکہ اسے بائیو میٹرک کے ذریعے استعمال کیا جاسکے گا ۔
پرویز چانڈیو کا کہنا تھا کہ تلاش ایپ کو نادرا سمیت دیگر ڈیٹا بیس تک رسائی حاصل ہو گی جبکہ کسی بھی ڈیوائس کے جی پی ایس سے ٹریک بھی کیا جاسکے گا ، انھوں نے بتایا کہ تلاش ایپ میں کراچی سمیت پورے سندھ کے 15 لاکھ جرائم پیشہ عناصر کا ڈیٹا موجود ہوگا ، تلاش ایپ کی مدد سے مطلوب ملزمان کی ویریفیکشن بھی کی جاسکے گی اس کے ساتھ ساتھ جعلی نمبر پلیٹس اور جعلی ڈرائیونگ لائسنس بھی چیک کیے جاسکیں گے اور ضمانت پر رہا ملزم کا پتہ لگایا جاسکے گا۔
پرویز چانڈیو نے کہا کہ تلاش ایپ جس ضلع میں پولیس کے زیر استعمال ہوگی تو اس ضلع کے افسر کو معلوم ہوگا ، اس ایپ میں ایف آئی ار کی ڈیجیٹل کاپی بھی موجود ہوگی اور مشتبہ مطلوب ملزم کی شناخت بھی فوری طور پر ہوسکے گی جبکہ اس ایپ میں پولیس ملازمت کا ریکارڈ بھی موجود ہیم جس کی مدد سے جعلی پولیس اہلکار بھی قانون کی گرفت سے نہیں بچ سکیں گے ، تلاش ایپ کی مدد سے کسی مقام سے ملنے والی نامعلوم نعش کے فنگر پرنٹس کی مدد سے بھی شناخت ہو سکے گی۔
گزشتہ ماہ 8 اکتوبر کو نارتھ ناظم آباد بلاک ایم متین فوڈ کے قریب پیش آنے والے ایک افسوسناک واقعہ میں تیموریہ تھانے کے پولیس اہلکاروں اور ڈاکوؤں کے درمیان فائرنگ کے تبادلے میں وہاں سے گزرنے والا رکشا زد میں آگیا جس کے نتیجے میں ماں کی گود میں موجود 9 ماہ کی عنابیہ سینے پر گولی لگنے سے زندگی کی بازی ہار گئی اور اس کی والدہ حنا ہاتھ پر گولیاں لگنے سے زخمی ہوگئی جبکہ ڈاکو موقع سے فرار ہوگئے۔
واقعہ کے بعد پولیس کا موقف سامنے آیا کہ معصوم بچی کو ڈاکوؤں کی گولی لگی کیونکہ ڈاکو رکشے سے آگے تھے اور پولیس رکشے کے عقب میں تھی۔ واقعہ کے بعد ایس ایس پی سینٹرل رانا معروف عثمان نے جائے وقوعہ کا دورہ کیا جبکہ تیموریہ پولیس نے واقعہ کا مقدمہ سرکار کی مدعیت میں درج کر کے اس میں ملوث ڈاکووں کی تلاش شروع کر دی۔
اس حوالے سے ڈی آئی جی ویسٹ ناصر آفتاب کی ہدایت پر ایس ایس پی سینٹرل نے ایس ڈی پی او شادمان ٹاؤن اور ایس ڈی پی او ناظم آباد پر مشتمل ٹیمیں تشکیل دیں جبکہ مختلف تھانوں کے ایس ایچ اوز کو بھی فرار ہونے والے ڈاکوؤں کا سراغ لگانے کا ٹاسک سونپا اور پولیس نے کئی روز کی سخت جدوجہد اور کئی کلوز سرکٹ کیمروں کی فوٹیجز حاصل کرنے کے بعد فرار ہونے والے ڈاکوؤں کا سراغ لگا کر انھیں قانون کی گرفت میں لے کر اسلحہ برآمد کرلیا۔
اس حوالے سے ڈی آئی جی ویسٹ ناصر آفتاب نے اپنے دفتر میں ایس ایس پی سینٹرل کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس کے دوران معصوم عنابیہ قتل کیس میں گرفتار ڈاکوؤں کے حوالے سے میڈیا کو بتایا کہ ایس ایچ او شارع نور جہاں غلام نبی آفریدی نے مذکورہ واردات میں ملوث 2 ڈاکوؤں وسیم اور اسامہ کو گرفتار کر کے اسلحہ برآمد کیا۔
دونوں ڈاکو نارتھ ناظم آباد ڈسلوا کے رہائشی اور ان کا آبائی تعلق خیبرپخونخوا سے ہے۔ گرفتار ڈکیت اسامہ سال 2020 میں 2 بار منگھوپیر اور شارع نور جہاں پولیس کے ہاتھوں گرفتار ہوا جبکہ رواں سال 2022 میں بھی 2 بار مومن آباد اور شارع نور جہاں پولیس کے ہاتھوں گرفتار ہوا ہے جبکہ اس کا ساتھی وسیم سال 2020 میں 3 بار نارتھ ناظم آباد ، تیموریہ اور گلستان جوہر پولیس کے ہاتھوں گرفتار ہو کر جیل جا چکا ہے جبکہ رواں سال شارع نور جہاں پولیس کے ہاتھوں گرفتار ہوا ہے۔
سندھ پولیس کے شعبہ انفارمیشن ٹیکنالوجی نے اپنی مدد آپ کے تحت ایک ایپ تیار کی ہے، جس کی مدد سے دوران چیکنگ جرائم پیشہ عناصر کی شناخت کے ساتھ دیگر غیر قانونی سرگرمیوں کا بھی سراغ لگایا جا سکے گا۔
اس حوالے سے گزشتہ دنوں سنٹرل پولیس آفس میں ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں آئی جی سندھ غلام نبی میمن نے پولیس کے شعبہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی جانب سے تیار کی گئی ایپ '' تلاش '' کا باضابطہ افتتاح کر کے تینوں زونز کے ایس ایس پیز کے علاوہ دیگر پولیس افسران کو ''تلاش'' ایپ کی ڈیوائسز فراہم کیں۔
تقریب میں آئی جی سندھ غلام نبی میمن نے کہا کہ سندھ پولیس اپنے دستیاب وسائل میں شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانے کے ساتھ جرائم پیشہ عناصر کو نیکل ڈالنے کے لئے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کو بروئے کار لارہی ہے۔
ٹیکنالوجی کی مدد سے انسداد جرائم کو یقینی بنانے اور حقیقی معنوں میں جرائم پیشہ عناصر کو شکست دینے کے ضمن میں اس ایپ کو ایک مؤثر اور بہترین ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے ، انھوں نے اس ایپ کو بنانے اور متعارف کرانے پر محکمہ پولیس کے شعبہ انفارمیشن ٹیکنالوجی سی پی او کی پوری ٹیم کو مبارکباد دیتے ہوئے اس کاوش کو لائق ستائش و تحسین قرار دیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ پہلے مرحلے میں اس ایپ کو کراچی میں متعارف کرایا جا رہا ہے اور جلد ہی اس کے دائرے کو سندھ کے دیگر اضلاع تک وسعت دیدی جائیگی، اس سافٹ ویئر کو بنانے کا مقصد تفتیش کو آسان بنانا اور جرائم پیشہ عناصر کی مشکلات بڑھانا اور ان کے حوصلوں کو پست کرنا ہے۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ڈی آئی جی آئی ٹی پرویز چانڈیو نے بنائی جانے والی ''تلاش'' ایپ کے حوالے سے بتایا کہ اس ایپ بنانے کا مقصد اسٹریٹ کرائم سے نبردآزما ہونا ہے ، ایپ کی مدد سے ناکہ بندی کے وقت کسی مشتبہ شخص کو روکیں تو اتنا وقت نہیں ہوتا کہ اس کی مکمل تفتیش یا معلومات حاصل کی جا سکیں۔
تاہم مذکورہ ایپ سے اگر وہ کرمنل ریکارڈ کا حامل ہوا تو اس کی تمام معلومات ایک کلک پر سامنے آجائیں گی ، تلاش ایپ موو ایبل ڈیوائس ہے اور اسے ساتھ رکھنا اور لیجانا انتہائی آسان ہے جبکہ اسے بائیو میٹرک کے ذریعے استعمال کیا جاسکے گا ۔
پرویز چانڈیو کا کہنا تھا کہ تلاش ایپ کو نادرا سمیت دیگر ڈیٹا بیس تک رسائی حاصل ہو گی جبکہ کسی بھی ڈیوائس کے جی پی ایس سے ٹریک بھی کیا جاسکے گا ، انھوں نے بتایا کہ تلاش ایپ میں کراچی سمیت پورے سندھ کے 15 لاکھ جرائم پیشہ عناصر کا ڈیٹا موجود ہوگا ، تلاش ایپ کی مدد سے مطلوب ملزمان کی ویریفیکشن بھی کی جاسکے گی اس کے ساتھ ساتھ جعلی نمبر پلیٹس اور جعلی ڈرائیونگ لائسنس بھی چیک کیے جاسکیں گے اور ضمانت پر رہا ملزم کا پتہ لگایا جاسکے گا۔
پرویز چانڈیو نے کہا کہ تلاش ایپ جس ضلع میں پولیس کے زیر استعمال ہوگی تو اس ضلع کے افسر کو معلوم ہوگا ، اس ایپ میں ایف آئی ار کی ڈیجیٹل کاپی بھی موجود ہوگی اور مشتبہ مطلوب ملزم کی شناخت بھی فوری طور پر ہوسکے گی جبکہ اس ایپ میں پولیس ملازمت کا ریکارڈ بھی موجود ہیم جس کی مدد سے جعلی پولیس اہلکار بھی قانون کی گرفت سے نہیں بچ سکیں گے ، تلاش ایپ کی مدد سے کسی مقام سے ملنے والی نامعلوم نعش کے فنگر پرنٹس کی مدد سے بھی شناخت ہو سکے گی۔
گزشتہ ماہ 8 اکتوبر کو نارتھ ناظم آباد بلاک ایم متین فوڈ کے قریب پیش آنے والے ایک افسوسناک واقعہ میں تیموریہ تھانے کے پولیس اہلکاروں اور ڈاکوؤں کے درمیان فائرنگ کے تبادلے میں وہاں سے گزرنے والا رکشا زد میں آگیا جس کے نتیجے میں ماں کی گود میں موجود 9 ماہ کی عنابیہ سینے پر گولی لگنے سے زندگی کی بازی ہار گئی اور اس کی والدہ حنا ہاتھ پر گولیاں لگنے سے زخمی ہوگئی جبکہ ڈاکو موقع سے فرار ہوگئے۔
واقعہ کے بعد پولیس کا موقف سامنے آیا کہ معصوم بچی کو ڈاکوؤں کی گولی لگی کیونکہ ڈاکو رکشے سے آگے تھے اور پولیس رکشے کے عقب میں تھی۔ واقعہ کے بعد ایس ایس پی سینٹرل رانا معروف عثمان نے جائے وقوعہ کا دورہ کیا جبکہ تیموریہ پولیس نے واقعہ کا مقدمہ سرکار کی مدعیت میں درج کر کے اس میں ملوث ڈاکووں کی تلاش شروع کر دی۔
اس حوالے سے ڈی آئی جی ویسٹ ناصر آفتاب کی ہدایت پر ایس ایس پی سینٹرل نے ایس ڈی پی او شادمان ٹاؤن اور ایس ڈی پی او ناظم آباد پر مشتمل ٹیمیں تشکیل دیں جبکہ مختلف تھانوں کے ایس ایچ اوز کو بھی فرار ہونے والے ڈاکوؤں کا سراغ لگانے کا ٹاسک سونپا اور پولیس نے کئی روز کی سخت جدوجہد اور کئی کلوز سرکٹ کیمروں کی فوٹیجز حاصل کرنے کے بعد فرار ہونے والے ڈاکوؤں کا سراغ لگا کر انھیں قانون کی گرفت میں لے کر اسلحہ برآمد کرلیا۔
اس حوالے سے ڈی آئی جی ویسٹ ناصر آفتاب نے اپنے دفتر میں ایس ایس پی سینٹرل کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس کے دوران معصوم عنابیہ قتل کیس میں گرفتار ڈاکوؤں کے حوالے سے میڈیا کو بتایا کہ ایس ایچ او شارع نور جہاں غلام نبی آفریدی نے مذکورہ واردات میں ملوث 2 ڈاکوؤں وسیم اور اسامہ کو گرفتار کر کے اسلحہ برآمد کیا۔
دونوں ڈاکو نارتھ ناظم آباد ڈسلوا کے رہائشی اور ان کا آبائی تعلق خیبرپخونخوا سے ہے۔ گرفتار ڈکیت اسامہ سال 2020 میں 2 بار منگھوپیر اور شارع نور جہاں پولیس کے ہاتھوں گرفتار ہوا جبکہ رواں سال 2022 میں بھی 2 بار مومن آباد اور شارع نور جہاں پولیس کے ہاتھوں گرفتار ہوا ہے جبکہ اس کا ساتھی وسیم سال 2020 میں 3 بار نارتھ ناظم آباد ، تیموریہ اور گلستان جوہر پولیس کے ہاتھوں گرفتار ہو کر جیل جا چکا ہے جبکہ رواں سال شارع نور جہاں پولیس کے ہاتھوں گرفتار ہوا ہے۔