میرے اشعار پر اتنا ہنسو کہ آنکھ سے آنسو نکل آئیںعنایت علی خان

خاموش ہوں توشاعرسے زیادہ عالم دین معلوم ہوتے ہیں،مذہب کی جانب گہرا رجحان ہے البتہ شوخی شاعری کےساتھ مزاج کا بھی حصہ ہے

معروف مزاح گو شاعر، عنایت علی خان کے حالات و خیالات ۔ فوٹو : فائل

لاہور:
ریاست ٹونک آبائی وطن۔ وہاں کی ادبی فضا سے متعلق جگر کہا کرتے تھے: ''ٹونک کی خصوصیت یہ ہے کہ بچہ بچہ لفظ پکڑ کر داد دیتا ہے۔''

اجداد کا پیشہ سپہ گری۔ دادا، سعادت علی خان اور نانا، احمد علی خان بانی ٹونک، نواب امیر خان کے لشکر میں شامل تھے۔ دونوں رشتے میں بھائی۔ ریاست کی آمدنی گھٹنے لگی، تو کہا گیا؛ جو سوار ہیں، وہی اب گھوڑے کی دیکھ بھال کریں۔ وہ ٹھہرے سپاہی، سائیس بننا گوارا نہیں تھا۔ سو قریبی ریاست جے پور کا رخ کیا۔ دادا انسپکٹر، نانا سپرنٹنڈنٹ پولیس رہے۔ دونوں موزوں طبع۔ والد، ہدایت علی خان ٹونک میں ریونیو انسپکٹر تھے۔ بڑوں کے مانند شعری ذوق کے حامل۔ اکبر الہ آبادی کے رنگ میں اصلاحی اور طنزیہ شعر کہتے۔ ناظر تخلص کیا کرتے۔ یہی طرز سخن 13 اپریل 1935 کو اُن کے گھر پیدا ہونے والے عنایت علی خان کو وراثت میں ملی۔

کہانی اُن کی دل چسپ ہے۔ پرائمری استاد بننے کا خواب دیکھا، پروفیسر کے منصب سے ریٹائر ہوئے۔ ماہر نصابیات کی حیثیت سے پہچانے گے۔ اِس کیفیت کو اپنی ایک حمد میں یوں بیان کیا:

میں ہمیشہ اپنے سوال شوق کی کمتری پر خجل رہا
کہ تیری نوازش بے کراں نے میری طلب سے سوا دیا

مزاحیہ شاعری شناخت کا بنیادی حوالہ۔ بڑی کاٹ ہے، مگر شگفتگی کا دامن نہیں چھوڑتے۔ شعر سنانے کو شاعر کی کم زوری قرار دیتے ہیں۔ دوران انٹرویو ہمیں بھی کئی اشعار سنائے۔ چند نظمیں ''شاعر کی فرمایش'' کہہ کر عنایت کیں۔ اِس وقت ٹی بی کے نرغے میں ہیں۔ خدا اُنھیں صحت دے۔ رہایش حیدرآباد میں ہے۔ علاج کی غرض سے چند روز قبل کراچی آئے، تو ملاقات کی سبیل نکلی۔



خاموش ہوں، تو شاعر سے زیادہ عالم دین معلوم ہوتے ہیں۔ مذہب کی جانب گہرا رجحان ہے۔ البتہ شوخی، شاعری کے ساتھ مزاج کا بھی حصہ ہے۔ بڑی کشادگی کا احساس ہوتا ہے اُن کے روبرو۔ اطہر شاہ جیدی نے ضمیر جعفری سے اُن کے بارے میں کہا تھا،''یہ مولوی ہوگئے، ویسے ایسے فقرے باز تھے کہ اگر شوبز میں آجاتے، تو ہمارا چراغ نہیں جلنے دیتے۔''

جماعت اسلامی سے ناتا برسوں پرانا۔ نظریات اور عقائد پختہ۔ مکالمے کے دوران تو کیمرے کا فلیش چمکتا رہا، مگر ''پورٹریٹ'' بنوانے سے انکار کر دیا۔ بہ قول اُن کے،''میرے نزدیک دوران گفت گو تصویر بنوانے میں مضایقہ نہیں، مگر 'اسٹل' تصویر نہیں بنواتا۔'' اپنی کلیات ہمیں عنایت کی۔ شکریہ ادا کیا، تو مسکراتے ہوئے کہنے لگے،''اِس میں آپ کو جہادی نغمے بھی ملیں گے۔''

موزونیت تو ابتدا ہی سے تھی۔ چھوٹے بھائی کی بسم اﷲ پر پہلا شعر کہا۔ والد سے تحریک ملی۔ استحصالی نظام سے پرخاش تھی۔ اُس زمانے میں جو شعر کہے، وہ ترقی پسند رنگ میں رنگے تھے۔ پھر موضوعات بدلنے لگے۔ رومانوی شاعری کی۔ مشاعرے پڑھے۔ تخلیقات اخبارات میں شایع ہونے لگیں۔ پھر مزاحیہ شعر کہنے لگے۔ اساتذہ پر ایک نظم کہی۔ والدہ کے انتقال کے بعد اِس جانب زیادہ توجہ رہی۔ کہتے ہیں،''وہ 'فروغ ادب' کے نائب صدر تھے۔ والد کی وفات کے بعد اُن کے احباب نے مجھ سے کہا کہ اُن کی گدی اب میں سنبھالوں۔''

مزاحیہ شاعری پر بات نکلی، تو کہنے لگے،''اس میں چند خوبیاں ہیں۔ یہ آسان ہوتی ہے، ابلاغ فوری ہوجاتا ہے۔ اعلیٰ درجہ کی شاعری میں رموز، کنائے اور تشبیہات ہوتی ہیں، مگر فارسی کا چلن ختم ہونے کی وجہ سے اب وہ معاملہ نہیں رہا، لوگ سہل کلام سننا چاہتے ہیں۔ محاسن کلام کا شعور اور ادراک شاذ ہی ملتا ہے۔ اگر آپ میں سلیقہ ہے، تو اَن کہی بات کہہ سکتے ہیں۔ میر نے کہا تھا:

شرط سلیقہ ہے ہر اک امر میں
عیب بھی کرنے کو ہنر چاہیے

اپنے عہدے کے مسائل پر اکبر نے کام کیا۔ اقبال کا قول ہے؛ مشرقی ادب میں اکبر کا کوئی ثانی نہیں۔ والد نے بھی اسی انداز میں شعر کہے۔ میں نے بھی یہی راہ چُنی۔''

86-87 میں شایع ہونے والا ''ازراہ عنایت'' پہلا مجموعہ تھا۔ اپنے مضمون میں عطا الحق قاسمی نے اُنھیں شاعروں کا پطرس بخاری قرار دیا کہ کلام ان کا اگرچہ مقدار میں کم ہے، مگر معیار میں اول درجے کا ہے۔ اگلی کتاب ''عنایات'' تھی، جس میں مشفق خواجہ نے اُن کے کلام کو اپنے عہد کا آئینہ دار ٹھہرایا۔ ''عنایتیں کیا کیا'' تیسری کتاب۔ اگلا مجموعہ ''کچھ اور'' کا انتساب مشتاق احمد یوسفی کے نام کیا۔ ''کلیات عنایت'' گذشتہ برس منصۂ شہود پر آئی۔



ایک عرصے تک کالم لکھتے رہے۔ مزاح کا آہنگ اُن میں بھی نمایاں۔ سرکاری ملازم ہونے کی وجہ سے قلمی نام سے لکھا کرتے۔ قطعات بھی لکھے۔ کالم کتابی صورت میں یوں نہیں چھپوائے کہ بیش تر کی حیثیت ان کے نزدیک وقتی تھی۔ بچوں کے لیے بھی تواتر سے لکھا۔ 2003 میں اسلامک یونیورسٹی نے اُنھیں بچوں کا ممتاز ترین ادیب قرار دیا۔ کہانیاں اور نظمیں نصاب کا حصہ بنیں۔ کتابی صورت میں شایع ہونے والی کہانیوں ''کچھوا اور خرگوش''، ''چڑیا کے بچے''، ''قلم گُما دیا''، ''شیطان کو مارو کوڑا'' اور ''پیاری کہانیاں'' کو بھی بڑی دل چسپی سے پڑھا گیا۔ کتابیں ''بولتے پھل'' اور ''مسکراتے پھول'' بچوں کی نظموں پر مشتمل تھیں، جو بہت مقبول ہوئی۔

اب ذرا اُن کے حالات زندگی پر توجہ مرکوز کرتے ہیں:

جمعے کے روز پیدا ہوئے۔ نانا نے عرفیت جمعہ میاں رکھ دی۔ گیارہ بہن بھائیوں میں پانچویں۔ خاصے ناتواں۔ طبیعت کی شوخی ایک معنوں میں جسمانی کم زوری کی تلافی تھی۔ اُن کے اپنے الفاظ میں؛ مزاج بچپن سے مسخرانہ تھا۔ خاندان مسلم لیگی۔ ٹونک میں مسلم لیگ کے جلسوں کا رنگ خوب یاد ہے۔ یہی جذبہ بٹوارے کے ایک برس بعد پاکستان لے آیا۔ ٹرینیں بند ہوچکی تھیں۔ موناباؤ سے کھوکھراپار تک کا راستہ اونٹوں اور گدھوں پر طے کیا۔ راستے میں تربوز مل گئے، تو زندہ رہنے کا امکان پیدا ہوگیا۔ حیدرآباد میں ڈیرا ڈالا۔ یہاں معاشی مسائل نے گھیرے رکھا۔ والد کاروبار میں ناکامی کے بعد ایک آڑھتی کے ہاں منشی ہوگئے۔ پھر بیماری نے کمر اُن کی بستر سے لگا دی۔ عسرت کی وجہ سے تین برس تک تعلیمی سلسلہ منقطع رہا۔ ٹونک سے کوئی سرٹیفیکیٹ وغیرہ تو لائے نہیں تھے، یہاں اسکول میں داخلے کے لیے خاصے پاپڑ بیلنے پڑے۔ اردو پر تو گرفت تھی۔ پرائمری کے بعد ہی ''شکوہ جواب شکوہ'' پڑھ ڈالا تھا۔ انگریزی سے بھی آشنا، البتہ ریاضی کے میدان میں مسائل کے انبار لگے تھے۔ داخلہ ملنے کے بعد خوب محنت کی۔ رکاوٹیں عبور کرتے گئے۔ وظیفے کے حق دار ٹھہرے۔ نویں میں ٹیوشن پڑھانے لگے۔ برسوں یہ مشق کی۔ اُن کی پُر مزاح نظم ''میں ٹیوٹر تھا'' اُن ہی تجربات کی دین ہے۔

کرکٹ کے دل دادہ۔ اسکول ٹیم کا حصہ رہے۔ 55ء میں میٹرک کیا۔ فوراً پی ڈبلیو ڈی کے محکمے میں مزدوروں میں نام لکھوا دیا۔ کچھ عرصے جیل ڈیپارٹمنٹ میں رہے۔ پھر ایس کے رحیم ہائی اسکول میں استاد ہوگئے۔ چار برس بعد سٹی کالج، حیدآباد سے گریجویشن کیا۔ اسکول اور کالج ایک ہی عمارت میں تھے۔ یعنی جہاں صبح پڑھایا کرتے، شام میں وہی خود پڑھ رہے ہوتے۔

60ء میں سندھ یونیورسٹی سے بی ایڈ کا مرحلہ طے کیا۔ اُسی زمانے میں انجمن ترقی اردو کا اشتہار نظر سے گزرا، جس میں اعلان کیا گیا تھا کہ کسی بھی یونیورسٹی کے شعبے میں اردو میں اول پوزیشن حاصل کرنے والے طلبا و طالبات کو بابائے اردو گولڈ میڈل اور پانچ سو روپے کے انعام سے نوازا جائے گا۔ دوست کے کہنے پر قسمت آزمائی۔ پرائیویٹ امیدوار کی حیثیت سے سندھ یونیورسٹی سے امتحان دیا۔ پوزیشن کے حق دار ٹھہرے۔ ایوارڈ اپنے نام کیا۔


ایم اے کے بعد خیرپورمیرس کے ایک کالج میں لیکچرر ہوگئے۔ پھر گجر خان ٹرانسفر کر دیا گیا۔ وہاں رہے تو، مگر دل نہیں لگا۔ 66ء میں کیڈٹ کالج پٹارو کا حصہ بن گئے۔ وہاں باغ بانی، شاعری اور شکار کا شوق پورا ہوا۔ پٹارو میں سابق صدر، آصف علی زرداری اُن کے شاگرد رہے۔ بہ قول پروفیسر صاحب، اُنھیں پڑھانے کی اپنی سی کوشش کی۔ زرداری صاحب کے تعلیمی کیریر میں پٹارو کا ذکر نہیں۔ عنایت علی خان کا خیال ہے کہ نویں کا امتحان دینے کے بعد شاید وہ اُس درس گاہ کا حصہ نہیں رہے۔ سابق چیئرمین، پاکستان کرکٹ بورڈ، ذکا اشرف بھی پٹارو میں اُن کے شاگرد تھے۔

69ء میں سکھر میں واقع جماعت اسلامی کے اسکول میں ہیڈماسٹر ہوگئے۔ غزالی کالج میں پرنسپل رہے۔ 72ء میں سرکاری ملازم ہوگئے، اور مسلم کالج، حیدرآباد کا حصہ بن گئے۔ وہیں پروفیسر کے منصب پر فائز ہوئے۔ لسانی کشیدگی کی فضا میں محبت کے چراغ روشن کیے۔ 97ء میں ریٹائر ہوئے۔ بعد میں مختلف پرائیویٹ اداروں میں پڑھاتے رہے۔ تدریس کا پیشہ ابوظہبی بھی لے گیا۔

مشاعروں کے مقبول شعرا میں شمار ہوتا ہے ان کا۔ شاعری نے کئی ممالک کی سیر کروائی۔ ہندوستان کا رخ کیا۔ چھے بار سعودی عرب جانا ہوا۔ وہاں بہت پزیرائی ہوئی۔ ایک شعر:
ہوا ہے جدے میں جو ایک مزاحیہ مشاعرہ
ہم آگئے خدا کے گھر مذاق ہی مذاق میں

بہت مقبول ہوا۔ گلف کے تمام ممالک میں اپنے کلام کا سکّہ جمایا۔ ناروے بھی جانا ہوا۔
پروفیسر صاحب کے نزدیک اردو مزاحیہ شاعری موضوعات اور خیال کے اعتبار سے تو آگے بڑھ رہی ہے، مگر زبان کا وہ معاملہ نہیں رہا کہ فارسی اب ہمارے ہاں نہیں رہی۔ اِس صنف کی بقا کو حس مزاح اور معاشرتی ناہم واریوں کی دست یابی سے جوڑتے ہیں۔ ''مزاح میں آپ لوگوں کے مسائل، اُن کی بے چینی اور محرومیاں کو گوارا بنا کر پیش کرتے ہیں۔ مسائل تو سنجیدہ ہوتے ہیں، اگر شاعر میں سلیقہ ہوگا، تو سامع فقط ہنسے گا نہیں، اُس پر سوچے گا بھی۔ میں کہتا ہوں کہ میرے اشعار پر اتنا ہنسو کہ آنکھ سے آنسو نکل آئے۔''

مزاحیہ شاعری کے میدان میں وہ ضمیر جعفری اور دلاور فگار کو سراہتے ہیں۔ موجودہ شعرا میں انور مسعود، سرفراز شاہد اور خالد مسعود کا نام لیتے ہیں۔ شاگرد تو نہیں کیے، مگر جو لوگ اصلاح کے لیے آتے تھے، اُن سے شفقت فرمائی۔ عبدالحکیم ناصف، عاصی اختر، م ش عالم اُن سے مشورہ کرتے رہتے ہیں۔

ماہر نصابیات کی طور پر جم کر کام کیا۔ ایک طویل عرصہ وزارت تعلیم، حکومت سندھ سے نتھی رہے۔ اردو، اسلامیات اور تاریخ اسلام کی کتابیں تصنیف کیں۔ فرسٹ ایئر کے لیے اُن کی تیار کردہ اسلامیات کی کتاب تمام صوبوں میں رائج رہے۔ نجی اداروں نے بھی صلاحیتوں سے استفادہ کیا۔ اس تجربے پر بات نکلی، تو کہنے لگے،''نصاب کا مقصد نئی نسل کو ایک سانچہ فراہم کرنا ہے۔ پاکستان اسلام کے لیے بنا ہے، تو میری خواہش تھی کہ اسباق میں اپنے نظریے اور اقدار کا تذکرہ کروں۔ اس فکر پر اعتراض بھی ہوا۔ ٹیکسٹ بک بورڈ کے ایک چیئرمین نے کہا؛ یہ پانچویں جماعت کی اردو کی کتاب، اردو سے زیادہ اسلامیات کی کتاب معلوم ہوتی ہے۔ میں نے ان سے پوچھا؛ کیا اِس میں کوئی فنّی نقص ہے؟ اگر کتاب میں تذکرہ ہے کہ بچے کھیل کود کے بعد مسجد میں نماز پڑھنے چلے گئے، تو اس میں کیا مضایقہ ہے۔ دیکھیں، اردو زبان کا ایک پہلو دینی بھی ہے، جسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔''

قرآن پاک کو اپنی من پسند کتاب قرار دیتے ہیں، جو اُن کے نزدیک ''ماسٹر کی'' ہے۔ اقبال کا، اُن کے نزدیک فکری اور فنّی اعتبار سے کسی سے موازنہ ممکن نہیں۔ اکبر کے مقام کے قائل ہیں۔ افسانہ نگاروں میں کرشن چندر کا تذکرہ کرتے ہیں۔ نسیم حجازی کے ناول بھی پڑھے۔ مزاحیہ ادب میں اپنے ہم وطن، مشتاق احمد یوسفی کا نام لیتے ہیں۔ شفیق الرحمان، کرنل محمد خان، ابن انشا اور خالد اختر بھی اچھے لگے۔ ہر طرح کا لباس پہنا، مگر آج کل شلوار قمیص میں نظر آتے ہیں۔ میٹھے کے شوقین تھے، پھر شوگر نے اس شوق پر چھری چلا دی۔ ویسے لوکی سے رغبت ہے۔ معتدل موسم میں خود کو آرام دہ پاتے ہے۔ 65ء میں شادی ہوئی۔ خدا نے دو بیٹیوں، تین بیٹوں سے نوازا۔ ایک بیٹے کا انتقال ہوچکا ہے۔ خانۂ خدا پر حاضری زندگی کا سب سے خوش گوار لمحہ تھا۔ اِس نسبت سے دو اشعار سناتے ہیں:

قلم شق ہے کہ کن الفاظ میں شانِ حرم لکھے
یہاں ہیبت سے دل شق ہیں، قلم تو پھر قلم ٹھہرا
جو ہوتا ہم سفر غالب تو میں اُس کو یہ بتلاتا
کہ دیکھا! اس جگہ آکر تمنا کا اگلا قدم ٹھہرا

الیکشن لڑا نہیں، الیکشن ''لڑوایا'' گیا
جس زمانے میں شعور کی دہلیز عبور کر رہے تھے، کمیونزم کا طوطی بول رہا تھا۔ اُن کا رجحان بھی اِسی جانب تھا۔ لیفٹ ہی کا ادب مطالعے میں رہتا۔ جمعیت کے ارکان سے رابطے نے خیالات میں تبدیلی کا بیج بویا۔ نویں میں جمعیت کے رفیق ہوئے۔ کچھ برس بعد جماعت اسلامی کے رکن ہوگئے۔

70ء کے انتخابات میں جماعت اسلامی کے ٹکٹ پر سکھر کے صوبائی حلقے سے کھڑے ہوئے۔ بہ قول اُن کے، الیکشن وہ لڑے نہیں، بلکہ اُنھیں لڑوایا گیا کہ جماعت اسلامی میں اگر کوئی خود الیکشن لڑنے کی خواہش کا اظہار کرے، تو وہ ''ڈس کوالیفائی'' تصور کیا جاتا ہے۔ انتخابات میں شکست ہوئی، اور ہارے اپنے ہی ایک شاگرد عثمان کینڈی سے، جو علمائے پاکستان سے کھڑے ہوئے تھے۔ پھر جماعت نے اساتذہ میں کام کرنے کی ذمے داری سونپی۔ سرکاری ملازمت اور سیاست ساتھ نہیں چل سکتے تھے، سو جماعت کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا۔ اگلے تین عشروں تک شعبۂ تدریس میں نظریات کی ترویج کرتے رہے۔ ریٹائرمینٹ کے بعد رکنیت بحال ہوئی۔

آپ قومی ترانے کے احترام میں کھڑے نہیں ہوئے؟
ایک طرف مزاحیہ شاعری، دوسری طرف مذہبی فکر۔ دونوں میں توازن رکھنا اُن کا کمال ہے۔ مذہبی عقائد نے ایک دل چسپ واقعے کو بھی جنم دیا۔

ہوا یوں کہ الحمرا آرٹس کونسل، لاہور میں تنظیم اساتذہ کا اجلاس ہورہا تھا۔ میاں نواز شریف مہمان خصوصی تھے۔ قومی ترانے کی دھن بجی۔ سب احتراماً کھڑے ہوگئے، مگر اگلی صف میں موجود پروفیسر عنایت علی خان بیٹھے رہے۔ جب کسی نے پوچھا، تو کہنے لگے؛ موسیقی کے احترام میں کھڑا ہونا اُنھیں گوارا نہیں تھا۔ اگلے روز ایک اخبار نے یہ خبر لگا دی۔ رپورٹر نے عالم دین، مولانا محمد حسین سے رائے بھی لی تھی، جنھوں نے پروفیسر صاحب کے اقدام کی تائید کی۔ خود اُنھوں نے بھی اپنی تشفی کے لیے فتویٰ لیے۔ آخر میں اِس نتیجے پر پہنچے کہ فیصلہ اُن کا دُرست تھا۔



حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا
لوگ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر

ضبط غم نے جسے پلکوں سے نکلنے نہ دیا
اک وہی اشک میرے عشق کا حاصل نکلا
Load Next Story