زرعی پیکیج چھوٹے کاشتکاروں کو ریلیف دیا جائے
بجلی سمیت دیگر ضروریات پر ٹیکسوں کا خاتمہ اور جدید ترین طریقہ کار سرکاری طور پر مہیا کرنے ہوں گے
وزیر اعظم شہباز شریف نے پاکستان کی معاشی ترقی کے لیے زرعی ترقی اور کسانوں کی بہبود کو ناگزیر قرار دیتے ہوئے کسانوں کے لیے 1800ارب روپے سے زائد مالیت کے تاریخی قومی زرعی پیکیج کا اعلان کردیا ہے، جس کے تحت پانچ سال تک استعمال شدہ ٹریکٹر درآمد کیے جاسکیں گے، ٹیوب ویلز کو سولر پر منتقل کرنے کے لیے بلاسود قرضے دیے جائیں گے ، سود حکومت ادا کرے گی، کسانوں کے لیے فی یونٹ فکسڈ قیمت پر بجلی فراہم کی جائے گی۔
پریس کانفرنس میں کسان پیکیج کا اعلان کرتے ہوئے وزیراعظم نے مزید کہا کہ سیلاب نے پورے پاکستان میں تباہی مچائی ، چالیس لاکھ ایکٹر پر کھڑی فصلیں تباہ ہوگئیں۔ سیلاب سے متاثرہ چھوٹے کسانوں کے قرضوں پر سود معاف کیا جا رہا ہے۔
موجودہ حالات میں خصوصاً سیلاب زدہ علاقوں میں کسان تو اب کسان رہا نہیں ، وہ اس وقت محض ایک ضرورت مند ہے۔ جس کو ایک وقت کھانے کے لیے مخیر حضرات کی طرف دیکھنا پڑ رہا ہے۔ پوری دنیا کے لیے خوراک پیدا کرنے والے آج خود دوسروں کی طرف لاچاری سے دیکھ رہے ہیں۔
اس کے لیے اس وقت پہاڑ جیسے مسائل کھڑے ہیں۔ جس کا گھر ختم ہوگیا، سب کچھ ختم ہوگیا، صرف جان ہی بچی ہے۔ اس حالت میں تباہ حال رقبے کو قابل کاشت بنانا ممکن نہیں۔ اس وقت زراعت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا انفرادی طور پر کسان کے بس میں نہیں کیونکہ سیلاب زدہ علاقوں میں پورا زرعی انفرا اسٹرکچر تباہ ہو چکا ہے۔
زرعی مشینری ختم ہوگئی، ٹیوب ویل ختم ہو گئے۔ اس وقت ایک اہم مسئلہ زمین کے لیول کا ہے۔ اس میں اگر ریاستی مشینری استعمال ہوتی ہے تو سیلاب زدہ علاقوں سے بمپر کراپ حاصل کی جاسکتی ہے، جو صرف سر پلس نہیں ہو گی بلکہ بہت زیادہ سر پلس ہوگی۔
موجودہ حالات میں کسان کھیتی باڑی کے بجائے اپنی زرعی زمینیں فروخت کر کے شہروں میں منتقل ہو رہے ہیں ، اگر یہی حالات رہے تو ملکی زراعت حال مکمل طور پر ٹھپ ہو جائے گی۔
زراعت خود کفالت کا بہترین ذریعہ ہے۔ زرعی شعبہ ملک کی آبادی کو خوراک مہیا کرتا ہے اور یہی پاکستان کی آبادی کی روزگار کا سب سے بڑا ذریعہ ہے اور پاکستان کی زرعی حکمت عملی میں خود کفالت کے اصولوں کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔
زراعت پاکستان کے لیے ایک جڑ کی حیثیت رکھتی ہے، لیکن زرعی شعبے کا حصہ ہماری معیشت میں کم ہوتا جا رہا ہے۔ایک وقت تھا جب پاکستان کو چاندی کا دیس کہا جاتا تھا۔
پاکستان کو چاندی کا دیس کہنے کی وجہ یہاں دنیا کی اعلیٰ ترین اور انتہائی وافر مقدار میں پیدا ہونے والی کپاس تھی، مگر پھر کیا ہوا؟ ہمارے خود غرض جاگیرداروں اور وڈیروں نے کرپٹ بیوروکریسی کی مدد سے کپاس کی جگہ گنے کی بوائی شروع کر دی۔
گنے کی پیداوار سے ان کی شوگر ملوں کو فائدہ ہوا سو ہوا ، مگر اس نے ہماری بہترین زرعی زمین کو بنجرکرکے رکھ دیا کیوں کہ گنے کی فصل زمین سے سب پانی چوس لیتی ہے، اگر ملک کی زراعت کا جائزہ لیا جائے تو پاکستان کا کل رقبہ 79.6 ملین ایکڑ ہے جس میں سے 23.77 ملین ایکڑ زرعی رقبہ ہے جو کل رقبے کا 28 فیصد بنتا ہے۔ اس میں سے بھی 8 ملین ایکڑ رقبہ زیر کاشت نہ ہونے کے باعث بے کار پڑا ہے۔
حالانکہ پاکستان قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کا ماحول اور موسم بھی زراعت کے لیے بہترین زونز کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس طرح پاکستان میں ہمہ قسم کی غذائی اشیاء کی پیداواری صلاحیت موجود ہے۔ اس کی 75 فیصد سے زائد آبادی زراعت کے پیشے سے وابستہ ہے۔
ملک کی مجموعی قومی پیداوار میں زراعت کا حصہ 21 فیصد ہے۔ یہ شعبہ ملک کے 45 فیصد لوگوں کے روزگار کا ذریعہ ہے۔ زراعت کا شعبہ لوگوں کو خوراک اور صنعتوں کو خام مال (Raw Materials) کی فراہمی میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔
پاکستانی برآمدات سے حاصل ہونے والے زرِ مبادلہ (exchanges) کا 45 فیصد زرعی تجارت سے حاصل ہوتا پاکستانی برآمدات سے حاصل ہونے والے زرِ مبادلہ کا 45 فیصد زرعی تجارت سے حاصل ہوتا ہے۔
پاکستان میں پیدا ہونے والی کپاس، گندم، گنا اور چاول کی فصل بیرونی منڈیوں میں خاص اہمیت رکھتی ہے اور ملک ان فصلوں کی بدولت قیمتی زرمبادلہ حاصل کرتا ہے۔ اس کے باوجود ملکی زرعی شعبے کی ترقی کی رفتار نہایت سست ہے۔
ہمارے مقابلے میں دنیا کے دیگر ملک زیادہ پیداوار دے رہے ہیں ، اگر زرعی ترقی میں حائل رکاوٹوں پر غور کیا جائے تو کئی وجوہات سامنے آتی ہیں۔
ہمارے کسان مہنگائی کے بوجھ تلے دبے جا رہے ہیں۔ کھاد نہ صرف مہنگی ہو رہی ہے بلکہ کاشت کے دنوں میں ناپید ہو جاتی ہے۔ دیگر زرعی لوازمات بھی ڈیزل اور مٹی کے تیل کی قیمتوں میں اضافے کے باعث مہنگے ہو رہے ہیں۔ ہماری حکومت نے زرعی ٹیکس اور دیگر کئی صورتوں میں اشیاء کو شدید مہنگا کر دیا ہے۔
غریب پہلے مہنگائی کی وجہ سے سبزی کھانے کو ترجیح دیتا تھا مگر اب وہ بھی مہنگائی کے باعث غریبوں کی پہنچ سے دور ہو رہی ہے۔
دنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک میں چھوٹے کسان کو خوشحال رکھنے کے لیے باقاعدہ ادارے قائم ہیں جو کسانوں کو کھاد، بیج، زرعی ادویات، زرعی آلات کی فراہمی میں دی جانے والی سبسڈی کے نگرانی کرتے ہیں اور اس امر کو یقینی بناتے ہیں کہ حکومت کی طرف سے دی جانے والی سبسڈی حقیقی طور پر کسانوں تک پہنچے اور ان ممالک میں سبسڈی میں خورد برد کرنے والوں کے لیے کڑی سے کڑی سزائیں ہیں، مگر معذرت کے ساتھ ہمارے ملک میں کسانوں کو دی جانے والی سبسڈی بیورو کریسی اور جاگیر دار اور وڈیرے اٹھاتے ہیں اور اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ریلیف چھوٹے کسانوں کو ملتا ہے، جس کی وجہ سے چھوٹا کسان دن بدن معاشی طور پر بدحالی کا شکار اور جاگیر دار وڈیروں کے اثاثے بڑھ رہے ہیں۔
حکومت کی طرف سے کھاد بیج زرعی آلات، زرعی ادویات اور زراعت میں استعمال ہونے والی دیگر اشیاء پر عائد ٹیکس ختم نہیں تو کم کر کے کسانوں کو ریلیف دیا جائے، شعبہ زراعت میں استعمال ہونے والی اشیاء پر دنیا کے اکثر ممالک کی طرح جنرل سیلز ٹیکس کو ختم کیا جائے۔
کسانوں کو فصلیں سیراب کرنے کے لیے نہری پانی کے نظام کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ ٹیوب ویلوں کے لیے سستی بجلی کی فراہمی کی جائے اور محکمہ زراعت، ریونیو کے کمپیوٹر سینٹرز اور ایریگیشن ڈیپارٹمنٹ سمیت زراعت سے وابستہ دیگر اداروں کی ترجیح بنیادوں پر اصلاح کی جائے، دوسرے ملکوں کی طرح زرعی یونیورسٹیوں میں زیادہ سے زیادہ پیداوار دینے والے پودے اور بیج تیار کر کے کسانوں کو سستے داموں دیے جائیں۔
ملک کی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے اور ملکی معیشت کو سنبھالا دینے میں اہم کردار ادا کرنے والے شعبہ زراعت کے مسائل کے حل کے لیے اگر کچھ نہ کیا گیا تو پھر ملکی معیشت کو ڈوبنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔پاکستان کے زراعت کے شعبے کی تنزلی کی بڑی وجہ کسانوں کے پاس جدید مشینری اور اوزاروں کا نہ ہونا، معیاری سیڈ کی غیر فراہمی، ملاوٹ شدہ دوائیاں ہیں۔ پاکستان کے کسان زیادہ تر اَن پڑھ ہیں ان کے لیے تمام معلومات کا ذریعہ ریڈیو اور ٹی وی ہی ہیں۔
حکومت کو چاہیے کہ کسانوں کو جدید معلومات فراہم کرنے کے لیے سیمینارزکا انعقاد یونین کونسل لیول پر ہو۔ زرعی ریسرچ سینٹرز بھی بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔ پہاڑی مقامات پر چونکہ پانی کی کمی کے باعث پیداوار کم ہوتی ہے وہاں چھوٹے چھوٹے ڈیمز بنانے چاہئیں۔
اس سے یقینا قومی پیداوار میں اضافہ ہو گا۔ اس کے علاوہ نہری پانی کی چوری میں چونکہ بڑے زمیندار شامل ہوتے ہیں۔ چھوٹے کاشت کار کی حق تلفی ہو جاتی ہے اور اس کے حصے کا پانی اُس کی فصل کو نہیں مل پاتا۔ چھوٹے کاشت کار کے لیے زرعی قرضے فراہم کرنا حکومت کا اہم فرض ہے۔
پاس بُک کی موجودگی کے باوجود زرعی قرضے کا حصول سفارش یا رشوت کے بغیر ممکن نہیں اور پھر اگر کسی وجہ سے قرضے کی ادائیگی میں تاخیر ہو جائے تو بینک اور تحصیل کا عملہ غریب کاشت کارکو فوری حوالات میں بند کر دیتے ہیں اور اس کو اپنی زمین بیچ کر قرض ادا کرنا پڑتا ہے، لیکن افسوس ناک بات یہ ہے کہ اسی سرزمین پر امیر اور کارخانے دار لوگ بینکوں اور غریب عوام کا پیسہ بینک سے قرضوں کی صورت میں معاف کرواتے ہیں ان پر کوئی بھی ہاتھ نہیں ڈالتا بلکہ ان کے نام بھی صیغہ راز میں رکھے جاتے ہیں۔ زراعت کے شعبے میں ترقی ایک ہی صورت میں ہو گی جب غریب کسان کے بارے میں سوچا جائے گا ۔
مختلف اجناس کے مافیاز، آڑھتی، ادویات، مشینری اور کھاد کی کمپنیوں کے مالکان کسانوں کو یونہی لوٹتے رہیں گے اور انھی جونکوں کے مفادات کے لیے ہی تمام پالیسیاں بنتی رہیں گی۔
اس کو حل کرنے کے لیے تمام وسائل پر عوام کو اجتماعی کنٹرول حاصل کرنا ہوگا۔ اجتماعی کاشتکاری کو فروغ دینا ہوگا، جس میں مشینری، ادویات اور دیگر ضروریات سرکاری طور پر مہیا کی جائیں اور تمام پیداوار کو براہ راست حکومت خریدنے کی پابند ہو۔
بجلی سمیت دیگر ضروریات پر ٹیکسوں کا خاتمہ اور جدید ترین طریقہ کار سرکاری طور پر مہیا کرنے ہوں گے۔ سیلابوں اور دیگر قدرتی آفات کی روک تھام کے لیے مناسب منصوبہ بندی کرنی ہوگی اور اس کے لیے تمام وسائل مہیا کرنے ہوں گے۔
پریس کانفرنس میں کسان پیکیج کا اعلان کرتے ہوئے وزیراعظم نے مزید کہا کہ سیلاب نے پورے پاکستان میں تباہی مچائی ، چالیس لاکھ ایکٹر پر کھڑی فصلیں تباہ ہوگئیں۔ سیلاب سے متاثرہ چھوٹے کسانوں کے قرضوں پر سود معاف کیا جا رہا ہے۔
موجودہ حالات میں خصوصاً سیلاب زدہ علاقوں میں کسان تو اب کسان رہا نہیں ، وہ اس وقت محض ایک ضرورت مند ہے۔ جس کو ایک وقت کھانے کے لیے مخیر حضرات کی طرف دیکھنا پڑ رہا ہے۔ پوری دنیا کے لیے خوراک پیدا کرنے والے آج خود دوسروں کی طرف لاچاری سے دیکھ رہے ہیں۔
اس کے لیے اس وقت پہاڑ جیسے مسائل کھڑے ہیں۔ جس کا گھر ختم ہوگیا، سب کچھ ختم ہوگیا، صرف جان ہی بچی ہے۔ اس حالت میں تباہ حال رقبے کو قابل کاشت بنانا ممکن نہیں۔ اس وقت زراعت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا انفرادی طور پر کسان کے بس میں نہیں کیونکہ سیلاب زدہ علاقوں میں پورا زرعی انفرا اسٹرکچر تباہ ہو چکا ہے۔
زرعی مشینری ختم ہوگئی، ٹیوب ویل ختم ہو گئے۔ اس وقت ایک اہم مسئلہ زمین کے لیول کا ہے۔ اس میں اگر ریاستی مشینری استعمال ہوتی ہے تو سیلاب زدہ علاقوں سے بمپر کراپ حاصل کی جاسکتی ہے، جو صرف سر پلس نہیں ہو گی بلکہ بہت زیادہ سر پلس ہوگی۔
موجودہ حالات میں کسان کھیتی باڑی کے بجائے اپنی زرعی زمینیں فروخت کر کے شہروں میں منتقل ہو رہے ہیں ، اگر یہی حالات رہے تو ملکی زراعت حال مکمل طور پر ٹھپ ہو جائے گی۔
زراعت خود کفالت کا بہترین ذریعہ ہے۔ زرعی شعبہ ملک کی آبادی کو خوراک مہیا کرتا ہے اور یہی پاکستان کی آبادی کی روزگار کا سب سے بڑا ذریعہ ہے اور پاکستان کی زرعی حکمت عملی میں خود کفالت کے اصولوں کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔
زراعت پاکستان کے لیے ایک جڑ کی حیثیت رکھتی ہے، لیکن زرعی شعبے کا حصہ ہماری معیشت میں کم ہوتا جا رہا ہے۔ایک وقت تھا جب پاکستان کو چاندی کا دیس کہا جاتا تھا۔
پاکستان کو چاندی کا دیس کہنے کی وجہ یہاں دنیا کی اعلیٰ ترین اور انتہائی وافر مقدار میں پیدا ہونے والی کپاس تھی، مگر پھر کیا ہوا؟ ہمارے خود غرض جاگیرداروں اور وڈیروں نے کرپٹ بیوروکریسی کی مدد سے کپاس کی جگہ گنے کی بوائی شروع کر دی۔
گنے کی پیداوار سے ان کی شوگر ملوں کو فائدہ ہوا سو ہوا ، مگر اس نے ہماری بہترین زرعی زمین کو بنجرکرکے رکھ دیا کیوں کہ گنے کی فصل زمین سے سب پانی چوس لیتی ہے، اگر ملک کی زراعت کا جائزہ لیا جائے تو پاکستان کا کل رقبہ 79.6 ملین ایکڑ ہے جس میں سے 23.77 ملین ایکڑ زرعی رقبہ ہے جو کل رقبے کا 28 فیصد بنتا ہے۔ اس میں سے بھی 8 ملین ایکڑ رقبہ زیر کاشت نہ ہونے کے باعث بے کار پڑا ہے۔
حالانکہ پاکستان قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کا ماحول اور موسم بھی زراعت کے لیے بہترین زونز کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس طرح پاکستان میں ہمہ قسم کی غذائی اشیاء کی پیداواری صلاحیت موجود ہے۔ اس کی 75 فیصد سے زائد آبادی زراعت کے پیشے سے وابستہ ہے۔
ملک کی مجموعی قومی پیداوار میں زراعت کا حصہ 21 فیصد ہے۔ یہ شعبہ ملک کے 45 فیصد لوگوں کے روزگار کا ذریعہ ہے۔ زراعت کا شعبہ لوگوں کو خوراک اور صنعتوں کو خام مال (Raw Materials) کی فراہمی میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔
پاکستانی برآمدات سے حاصل ہونے والے زرِ مبادلہ (exchanges) کا 45 فیصد زرعی تجارت سے حاصل ہوتا پاکستانی برآمدات سے حاصل ہونے والے زرِ مبادلہ کا 45 فیصد زرعی تجارت سے حاصل ہوتا ہے۔
پاکستان میں پیدا ہونے والی کپاس، گندم، گنا اور چاول کی فصل بیرونی منڈیوں میں خاص اہمیت رکھتی ہے اور ملک ان فصلوں کی بدولت قیمتی زرمبادلہ حاصل کرتا ہے۔ اس کے باوجود ملکی زرعی شعبے کی ترقی کی رفتار نہایت سست ہے۔
ہمارے مقابلے میں دنیا کے دیگر ملک زیادہ پیداوار دے رہے ہیں ، اگر زرعی ترقی میں حائل رکاوٹوں پر غور کیا جائے تو کئی وجوہات سامنے آتی ہیں۔
ہمارے کسان مہنگائی کے بوجھ تلے دبے جا رہے ہیں۔ کھاد نہ صرف مہنگی ہو رہی ہے بلکہ کاشت کے دنوں میں ناپید ہو جاتی ہے۔ دیگر زرعی لوازمات بھی ڈیزل اور مٹی کے تیل کی قیمتوں میں اضافے کے باعث مہنگے ہو رہے ہیں۔ ہماری حکومت نے زرعی ٹیکس اور دیگر کئی صورتوں میں اشیاء کو شدید مہنگا کر دیا ہے۔
غریب پہلے مہنگائی کی وجہ سے سبزی کھانے کو ترجیح دیتا تھا مگر اب وہ بھی مہنگائی کے باعث غریبوں کی پہنچ سے دور ہو رہی ہے۔
دنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک میں چھوٹے کسان کو خوشحال رکھنے کے لیے باقاعدہ ادارے قائم ہیں جو کسانوں کو کھاد، بیج، زرعی ادویات، زرعی آلات کی فراہمی میں دی جانے والی سبسڈی کے نگرانی کرتے ہیں اور اس امر کو یقینی بناتے ہیں کہ حکومت کی طرف سے دی جانے والی سبسڈی حقیقی طور پر کسانوں تک پہنچے اور ان ممالک میں سبسڈی میں خورد برد کرنے والوں کے لیے کڑی سے کڑی سزائیں ہیں، مگر معذرت کے ساتھ ہمارے ملک میں کسانوں کو دی جانے والی سبسڈی بیورو کریسی اور جاگیر دار اور وڈیرے اٹھاتے ہیں اور اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ریلیف چھوٹے کسانوں کو ملتا ہے، جس کی وجہ سے چھوٹا کسان دن بدن معاشی طور پر بدحالی کا شکار اور جاگیر دار وڈیروں کے اثاثے بڑھ رہے ہیں۔
حکومت کی طرف سے کھاد بیج زرعی آلات، زرعی ادویات اور زراعت میں استعمال ہونے والی دیگر اشیاء پر عائد ٹیکس ختم نہیں تو کم کر کے کسانوں کو ریلیف دیا جائے، شعبہ زراعت میں استعمال ہونے والی اشیاء پر دنیا کے اکثر ممالک کی طرح جنرل سیلز ٹیکس کو ختم کیا جائے۔
کسانوں کو فصلیں سیراب کرنے کے لیے نہری پانی کے نظام کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ ٹیوب ویلوں کے لیے سستی بجلی کی فراہمی کی جائے اور محکمہ زراعت، ریونیو کے کمپیوٹر سینٹرز اور ایریگیشن ڈیپارٹمنٹ سمیت زراعت سے وابستہ دیگر اداروں کی ترجیح بنیادوں پر اصلاح کی جائے، دوسرے ملکوں کی طرح زرعی یونیورسٹیوں میں زیادہ سے زیادہ پیداوار دینے والے پودے اور بیج تیار کر کے کسانوں کو سستے داموں دیے جائیں۔
ملک کی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے اور ملکی معیشت کو سنبھالا دینے میں اہم کردار ادا کرنے والے شعبہ زراعت کے مسائل کے حل کے لیے اگر کچھ نہ کیا گیا تو پھر ملکی معیشت کو ڈوبنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔پاکستان کے زراعت کے شعبے کی تنزلی کی بڑی وجہ کسانوں کے پاس جدید مشینری اور اوزاروں کا نہ ہونا، معیاری سیڈ کی غیر فراہمی، ملاوٹ شدہ دوائیاں ہیں۔ پاکستان کے کسان زیادہ تر اَن پڑھ ہیں ان کے لیے تمام معلومات کا ذریعہ ریڈیو اور ٹی وی ہی ہیں۔
حکومت کو چاہیے کہ کسانوں کو جدید معلومات فراہم کرنے کے لیے سیمینارزکا انعقاد یونین کونسل لیول پر ہو۔ زرعی ریسرچ سینٹرز بھی بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔ پہاڑی مقامات پر چونکہ پانی کی کمی کے باعث پیداوار کم ہوتی ہے وہاں چھوٹے چھوٹے ڈیمز بنانے چاہئیں۔
اس سے یقینا قومی پیداوار میں اضافہ ہو گا۔ اس کے علاوہ نہری پانی کی چوری میں چونکہ بڑے زمیندار شامل ہوتے ہیں۔ چھوٹے کاشت کار کی حق تلفی ہو جاتی ہے اور اس کے حصے کا پانی اُس کی فصل کو نہیں مل پاتا۔ چھوٹے کاشت کار کے لیے زرعی قرضے فراہم کرنا حکومت کا اہم فرض ہے۔
پاس بُک کی موجودگی کے باوجود زرعی قرضے کا حصول سفارش یا رشوت کے بغیر ممکن نہیں اور پھر اگر کسی وجہ سے قرضے کی ادائیگی میں تاخیر ہو جائے تو بینک اور تحصیل کا عملہ غریب کاشت کارکو فوری حوالات میں بند کر دیتے ہیں اور اس کو اپنی زمین بیچ کر قرض ادا کرنا پڑتا ہے، لیکن افسوس ناک بات یہ ہے کہ اسی سرزمین پر امیر اور کارخانے دار لوگ بینکوں اور غریب عوام کا پیسہ بینک سے قرضوں کی صورت میں معاف کرواتے ہیں ان پر کوئی بھی ہاتھ نہیں ڈالتا بلکہ ان کے نام بھی صیغہ راز میں رکھے جاتے ہیں۔ زراعت کے شعبے میں ترقی ایک ہی صورت میں ہو گی جب غریب کسان کے بارے میں سوچا جائے گا ۔
مختلف اجناس کے مافیاز، آڑھتی، ادویات، مشینری اور کھاد کی کمپنیوں کے مالکان کسانوں کو یونہی لوٹتے رہیں گے اور انھی جونکوں کے مفادات کے لیے ہی تمام پالیسیاں بنتی رہیں گی۔
اس کو حل کرنے کے لیے تمام وسائل پر عوام کو اجتماعی کنٹرول حاصل کرنا ہوگا۔ اجتماعی کاشتکاری کو فروغ دینا ہوگا، جس میں مشینری، ادویات اور دیگر ضروریات سرکاری طور پر مہیا کی جائیں اور تمام پیداوار کو براہ راست حکومت خریدنے کی پابند ہو۔
بجلی سمیت دیگر ضروریات پر ٹیکسوں کا خاتمہ اور جدید ترین طریقہ کار سرکاری طور پر مہیا کرنے ہوں گے۔ سیلابوں اور دیگر قدرتی آفات کی روک تھام کے لیے مناسب منصوبہ بندی کرنی ہوگی اور اس کے لیے تمام وسائل مہیا کرنے ہوں گے۔