سائل اور وکیل کا رشتہ
ایک دفعہ عدالت میں کوئی یقین دہانی کروا دی گئی تو وہ سائل کی یقین دہانی ہی سمجھی جاتی ہے
نظام انصاف میں وکیل اور سائل کے رشتے کو خصوصی تحفظ حاصل ہے۔جہاں سائل کو وکیل کرنے کی سہولت دی گئی ہے وہاں وکیل اور سائل کو پابند بھی کیا گیا ہے۔
آج بھی ہر شہری کو یہ اجازت حاصل ہے کہ وہ چاہے تو اپنے مقدمے کی خود پیروی کرے اور وکیل کی خدمات نہ حاصل کرے ۔ کئی مثالیں موجود ہیں جہاں لوگ اپنا مقدمہ خود لڑتے ہیں' عدالت میں خود دلائل دیتے ہیں۔
تمام عدالتی کارروائی خود کرتے ہیں۔ لیکن پھر بھی عدالتی کارروائی کو قانون کے مطابق چلانے کے لیے وکیل کی خدمات لینے کو ترجیح دی جاتی ہے۔ اسی لیے یہ قانون بھی موجود ہے کہ اگر کوئی عدالت میں جا کر کہہ دے کہ اس کے پاس وکیل کرنے کے پیسے نہیں ہیں تو حکومت اسے وکیل فراہم کرتی ہے تا کہ کوئی بھی انصاف سے محروم نہ رہ سکے۔
آپ دیکھیں کہ عدالت حکومت کو کہہ رہی ہے کہ کلبھوشن کو بھی وکیل کی خدمات فراہم کی جائیں کیونکہ بھارت کی حکومت کلبھوشن کو وکیل کر کے نہیں دے رہی۔ اس لیے نظام انصاف میں وکیل کو ایک بنیادی اہمیت حاصل ہے۔
اسی لیے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ قانون سے لا علمی کوئی دلیل نہیں ہے۔ آپ عدالت میں یہ نہیں کہہ سکتے کہ مجھے نہیں معلوم تھا کہ یہ قانون تھا۔ میں نے لا علمی میں یہ قانون توڑا ہے۔ نظام انصاف یہ تصور کرتا ہے کہ ہر شہری قانون کی پاسداری کرے گا اور قانون کا پابند رہے گا۔
اسی طرح ملک کے قوانین سے فائدہ اٹھانے کے لیے شہریوں کو وکیل کی اجازت دی گئی ہے تا کہ وہ قانون کے مطابق اپنے مقدمات میں ریلیف حاصل کر سکیں۔ عدالت ترجیح دیتی ہے کہ سائل کی جگہ وکیل ہی دلائل دے تا کہ کارروائی قانون کے دائرے میں رہ سکے۔ شائد پنچایتی جرگے اور عدالتی نظام میں یہی بنیادی فرق ہے۔
قانون میں یہ بھی واضح ہے کہ وکیل عدالت میں جو بھی بات کرے گا یہی سمجھا جائے گا کہ وہ بات سائل نے کی ہے۔ وکیل ہی سائل ہوتا ہے۔
سائل کو یہ حق نہیں ہوتا کہ وہ مقدمہ کے کسی بھی مرحلہ پر آکر یہ کہہ دے کہ یہ بات وکیل نے اس کی مرضی سے نہیں کی اس لیے وہ یہ بات نہیں مانتا۔ وکیل عدالت میں کسی سوال کے جواب میں یہ تو کہہ سکتا ہے کہ میں اپنے سائل سے پوچھ کر جواب دوں گا لیکن اگر وکیل نے ایک دفعہ عدالت میں کوئی جواب داخل کر دیا تو اسے سائل کا ہی جواب سمجھا جائے گا۔
ایک دفعہ عدالت میں کوئی یقین دہانی کروا دی گئی تو وہ سائل کی یقین دہانی ہی سمجھی جاتی ہے۔ سائل یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ بات وکیل نے کی ہے میں نے نہیں کی ہے۔ نظام انصاف میں وکیل اور سائل کی کوئی الگ الگ حیثیت نہیں۔ سائل کا علم وکیل کا علم اور وکیل کا علم سائل کا علم ہے۔ اگر عدالت نے سائل کے لیے کوئی حکم وکیل کے سامنے دے دیا ہے تو یہی سمجھا جاتا ہے کہ حکم سائل کو دے دیا گیا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے 25مئی کے عدالتی احکامات کی خلاف ورزی پر حکومت کی جانب سے دائر کی جانیوالی توہین عدالت کی درخواست میں یہ موقف اختیار کیا ہے کہ 25 مئی کو ان کے وکلاء کی جانب سے عدالت میں جو یقین دہانی کروائی گئی اور اس یقین دہانی کے نتیجے میں جو حکم جا ری کیا گیا۔
اس کا مجھے کوئی علم نہیں۔ مجھے نہیں معلوم کیا حکم دیا گیا اور کیا ہوا ہے۔ میں حیران ہوا کہ کیا قانون کے مطابق یہ موقف قابل قبول ہو سکتا ہے۔
اگر عمران خان کا یہ موقف مان لیا جاتا ہے کہ انھیں عدالت کے احکامات کا علم نہیں تھا اور انھیں یہ بھی معلوم نہی تھا کہ ان کی جانب سے کیا یقین دہانی کروائی گئی تھی تو پورا نظام انصاف کا ڈھانچہ ہی ختم ہو جائے گا۔ سائل اور وکیل کے رشتے کا تقدس ہی ختم ہو جائے گا۔ کل کوئی بھی سائل اپنے وکیل کی کسی بھی یقین دہانی اور موقف سے انحراف کر جائے گا۔
کہہ دیا جائے گا مجھ سے پوچھ کر نہیں کہا گیا مجھے نہیں بتایا گیا۔ کیا پھر عدالت ہر مقدمہ میں سائل کو بلا کر اپنے احکامات بتائے گی۔
کیونکہ ہر سائل کہہ دے گا مجھے علم نہیں تھا۔ سارا نظام انصاف ہی ٹھپ ہو جائے گا۔ قتل کے مقدمات میں وکیل ہی ملزم کا مقدمہ لڑتا ہے اور چاہے پھانسی ہو جائے وکیل کی بات ہی مانی جاتی ہے۔ کسی ملزم کو پھانسی ہونے کے بعد یہ کہنے کا حق نہیں ہوتا کہ وکیل نے میرا مقدمہ ٹھیک نہیں لڑا' اس لیے سزا ختم کر دی جائے۔
اس سے پہلے بھی جب سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ افتخار چوہدری نے عمران خان کو توہین عدالت کا نوٹس دیا تھا تو ان کے وکیل حامد خان نے ان کی جانب سے عدالت میں معافی مانگی تھی۔ وکیل سائل کی جانب سے ہی معافی مانگتا ہے۔ کیونکہ وکیل نے خود تو کوئی جرم نہیں کیا ہوتا۔
عدالت نے حامد خان کی معافی کو عمران خان کی معافی تصور کرتے ہوئے قبول کر لیا تھا۔ تاہم بعد میں عوام میں آکر عمران خان نے کہنا شروع کر دیا کہ میں نے تو کوئی معافی نہیں مانگی وہ تو حامد خان نے مانگی ہے۔ حالانکہ یہ بات درست نہیں تھی لیکن عام فہم آدمی جس کو قانون کا علم نہیں اس کے لیے اہم تھی۔
اسی طرح اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھی توہین عدالت کے نوٹس سے بھی عمران خان نے کافی کھیلنے کی کوشش کی۔ میں سمجھتا ہوں نظام انصاف میں جب تک انصاف یکساں نہ ہو وہ انصاف نہیں ہے۔ کسی سے سختی کسی سے نرمی یکساں نظام انصاف کی نفی ہے۔
آج بھی ہر شہری کو یہ اجازت حاصل ہے کہ وہ چاہے تو اپنے مقدمے کی خود پیروی کرے اور وکیل کی خدمات نہ حاصل کرے ۔ کئی مثالیں موجود ہیں جہاں لوگ اپنا مقدمہ خود لڑتے ہیں' عدالت میں خود دلائل دیتے ہیں۔
تمام عدالتی کارروائی خود کرتے ہیں۔ لیکن پھر بھی عدالتی کارروائی کو قانون کے مطابق چلانے کے لیے وکیل کی خدمات لینے کو ترجیح دی جاتی ہے۔ اسی لیے یہ قانون بھی موجود ہے کہ اگر کوئی عدالت میں جا کر کہہ دے کہ اس کے پاس وکیل کرنے کے پیسے نہیں ہیں تو حکومت اسے وکیل فراہم کرتی ہے تا کہ کوئی بھی انصاف سے محروم نہ رہ سکے۔
آپ دیکھیں کہ عدالت حکومت کو کہہ رہی ہے کہ کلبھوشن کو بھی وکیل کی خدمات فراہم کی جائیں کیونکہ بھارت کی حکومت کلبھوشن کو وکیل کر کے نہیں دے رہی۔ اس لیے نظام انصاف میں وکیل کو ایک بنیادی اہمیت حاصل ہے۔
اسی لیے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ قانون سے لا علمی کوئی دلیل نہیں ہے۔ آپ عدالت میں یہ نہیں کہہ سکتے کہ مجھے نہیں معلوم تھا کہ یہ قانون تھا۔ میں نے لا علمی میں یہ قانون توڑا ہے۔ نظام انصاف یہ تصور کرتا ہے کہ ہر شہری قانون کی پاسداری کرے گا اور قانون کا پابند رہے گا۔
اسی طرح ملک کے قوانین سے فائدہ اٹھانے کے لیے شہریوں کو وکیل کی اجازت دی گئی ہے تا کہ وہ قانون کے مطابق اپنے مقدمات میں ریلیف حاصل کر سکیں۔ عدالت ترجیح دیتی ہے کہ سائل کی جگہ وکیل ہی دلائل دے تا کہ کارروائی قانون کے دائرے میں رہ سکے۔ شائد پنچایتی جرگے اور عدالتی نظام میں یہی بنیادی فرق ہے۔
قانون میں یہ بھی واضح ہے کہ وکیل عدالت میں جو بھی بات کرے گا یہی سمجھا جائے گا کہ وہ بات سائل نے کی ہے۔ وکیل ہی سائل ہوتا ہے۔
سائل کو یہ حق نہیں ہوتا کہ وہ مقدمہ کے کسی بھی مرحلہ پر آکر یہ کہہ دے کہ یہ بات وکیل نے اس کی مرضی سے نہیں کی اس لیے وہ یہ بات نہیں مانتا۔ وکیل عدالت میں کسی سوال کے جواب میں یہ تو کہہ سکتا ہے کہ میں اپنے سائل سے پوچھ کر جواب دوں گا لیکن اگر وکیل نے ایک دفعہ عدالت میں کوئی جواب داخل کر دیا تو اسے سائل کا ہی جواب سمجھا جائے گا۔
ایک دفعہ عدالت میں کوئی یقین دہانی کروا دی گئی تو وہ سائل کی یقین دہانی ہی سمجھی جاتی ہے۔ سائل یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ بات وکیل نے کی ہے میں نے نہیں کی ہے۔ نظام انصاف میں وکیل اور سائل کی کوئی الگ الگ حیثیت نہیں۔ سائل کا علم وکیل کا علم اور وکیل کا علم سائل کا علم ہے۔ اگر عدالت نے سائل کے لیے کوئی حکم وکیل کے سامنے دے دیا ہے تو یہی سمجھا جاتا ہے کہ حکم سائل کو دے دیا گیا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے 25مئی کے عدالتی احکامات کی خلاف ورزی پر حکومت کی جانب سے دائر کی جانیوالی توہین عدالت کی درخواست میں یہ موقف اختیار کیا ہے کہ 25 مئی کو ان کے وکلاء کی جانب سے عدالت میں جو یقین دہانی کروائی گئی اور اس یقین دہانی کے نتیجے میں جو حکم جا ری کیا گیا۔
اس کا مجھے کوئی علم نہیں۔ مجھے نہیں معلوم کیا حکم دیا گیا اور کیا ہوا ہے۔ میں حیران ہوا کہ کیا قانون کے مطابق یہ موقف قابل قبول ہو سکتا ہے۔
اگر عمران خان کا یہ موقف مان لیا جاتا ہے کہ انھیں عدالت کے احکامات کا علم نہیں تھا اور انھیں یہ بھی معلوم نہی تھا کہ ان کی جانب سے کیا یقین دہانی کروائی گئی تھی تو پورا نظام انصاف کا ڈھانچہ ہی ختم ہو جائے گا۔ سائل اور وکیل کے رشتے کا تقدس ہی ختم ہو جائے گا۔ کل کوئی بھی سائل اپنے وکیل کی کسی بھی یقین دہانی اور موقف سے انحراف کر جائے گا۔
کہہ دیا جائے گا مجھ سے پوچھ کر نہیں کہا گیا مجھے نہیں بتایا گیا۔ کیا پھر عدالت ہر مقدمہ میں سائل کو بلا کر اپنے احکامات بتائے گی۔
کیونکہ ہر سائل کہہ دے گا مجھے علم نہیں تھا۔ سارا نظام انصاف ہی ٹھپ ہو جائے گا۔ قتل کے مقدمات میں وکیل ہی ملزم کا مقدمہ لڑتا ہے اور چاہے پھانسی ہو جائے وکیل کی بات ہی مانی جاتی ہے۔ کسی ملزم کو پھانسی ہونے کے بعد یہ کہنے کا حق نہیں ہوتا کہ وکیل نے میرا مقدمہ ٹھیک نہیں لڑا' اس لیے سزا ختم کر دی جائے۔
اس سے پہلے بھی جب سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ افتخار چوہدری نے عمران خان کو توہین عدالت کا نوٹس دیا تھا تو ان کے وکیل حامد خان نے ان کی جانب سے عدالت میں معافی مانگی تھی۔ وکیل سائل کی جانب سے ہی معافی مانگتا ہے۔ کیونکہ وکیل نے خود تو کوئی جرم نہیں کیا ہوتا۔
عدالت نے حامد خان کی معافی کو عمران خان کی معافی تصور کرتے ہوئے قبول کر لیا تھا۔ تاہم بعد میں عوام میں آکر عمران خان نے کہنا شروع کر دیا کہ میں نے تو کوئی معافی نہیں مانگی وہ تو حامد خان نے مانگی ہے۔ حالانکہ یہ بات درست نہیں تھی لیکن عام فہم آدمی جس کو قانون کا علم نہیں اس کے لیے اہم تھی۔
اسی طرح اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھی توہین عدالت کے نوٹس سے بھی عمران خان نے کافی کھیلنے کی کوشش کی۔ میں سمجھتا ہوں نظام انصاف میں جب تک انصاف یکساں نہ ہو وہ انصاف نہیں ہے۔ کسی سے سختی کسی سے نرمی یکساں نظام انصاف کی نفی ہے۔