اقتداری اور سیاسی مصلحتیں

سابق وزراء اعظم میں سے کوئی بھی اصول پرستی کا دعویٰ نہیں کرسکتا سب نے اقتدارکو اصولوں پر ترجیح دی اور مفاداتی سیاست کی

m_saeedarain@hotmail.com

سابق وزیر اعظم عمران خان نے اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد اقتدار میں اپنی بے بسی کا جو اعتراف کیا وہ نیا نہیں بلکہ اب تک ہر سیاسی جماعت کے وزیر اعظم کے ساتھ بے بسی کا مسئلہ رہا ہے صرف پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو یہ مسئلہ درپیش نہیں تھا مگر بعد میں ان کے خلاف بھی ملک میں سازشیں شروع ہوگئی تھیں جس کے نتیجے میں انھیں راولپنڈی کے جلسے میں دن دہاڑے قتل کردیا گیا تھا۔

لیاقت علی خان کے بعد آنے والے تمام ہی وزیر اعظم مختصر عرصہ بعد اقتدار سے ہٹائے گئے کہ بھارتی وزیر اعظم نہرو کو کہنا پڑا تھا کہ'' میں اتنی دھوتیاں نہیں بدلتا جتنی جلدی پاکستانی وزیر اعظم بدل جاتا ہے۔''

پاکستان کے چار فوجی حکمرانوں نے تین عشروں سے زیادہ اور تقریباً چار عشروں تک سیاسی وزرائے اعظم نے حکومت کی۔ جنرل ایوب اور جنرل یحییٰ کے دور میں کوئی سیاسی وزیر اعظم نہیں تھا۔

ملک کے دو ٹکڑے ہو جانے کے بعد جنرل یحییٰ سے اقتدار ذوالفقار علی بھٹو کو منتقل کرایا گیا تھا اور بھٹو صاحب غیر منتخب صدر اور پہلے سویلین چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اور بعد میں 1973 کے متفقہ آئین کے تحت وزیر اعظم بنے تھے۔جنرل یحییٰ نے 1970 میں غیر جانبدارانہ انتخابات اپنی مصلحت کے تحت کرائے تاکہ وہ صدر برقرار رہ سکتے مگر انتخابی نتائج ان کی توقعات کے برعکس آئے تھے۔

جنرل ایوب خان نے اقتدار سے علیحدگی سے قبل سیاستدانوں کی گول میز کانفرنس بلائی تھی جس کی ناکامی کے بعد جنرل یحییٰ نے اقتدار سنبھال لیا تھا اور دو سالہ صدارت میں وہ مزید صدارت کے خواہاں تھے مگر ملک ٹوٹ گیا تھا۔

جنرل ضیا الحق نے اقتدار میں آتے ہی سیاسی حمایت کے حصول کے لیے بھٹو مخالف سیاسی جماعتوں کو حکومت میں شامل کیا تھا جو انتخابات نہ کرائے جانے پر حکومت چھوڑ گئی تھیں اور 1985 میں انھوں نے غیر جماعتی انتخابات کروا کر محمد خان جونیجو کو وزیر اعظم بنایا تھا مگر وہ واحد اصول پرست سیاستدان تھے۔

جنھوں نے جنرل ضیا کی مرضی کے خلاف فیصلے کیے تو جنرل ضیا نے انھیں ہٹا دیا تھا اور میاں نواز شریف واحد وزیر اعلیٰ پنجاب تھے جنھیں جونیجو حکومت کی برطرفی کے بعد نگران وزیر اعلیٰ پنجاب بنایا گیا تھا ۔

1999 میں جنرل پرویز مشرف نے وزیر اعظم نواز شریف کو برطرف کرکے اقتدار سنبھالا اور 2002 میں سپریم کورٹ کے حکم پر الیکشن کرائے اور ان کی صدارت میں ملک کو تین وزیر اعظم ملے جن میں چوہدری شجاعت اور ظفراللہ جمالی سیاسی وزیر اعظم تھے۔

جنرل پرویز مشرف کو اپنا مفاد غیر سیاسی شوکت عزیز میں نظر آیا مگر اپنے مزید اقتدار کے لیے انھوں نے بے نظیر بھٹو کے ساتھ یو اے ای جا کر این آر او کیا اور وہ بے نظیر کی وطن واپسی نہیں چاہتے تھے۔ جنرل پرویز مشرف خود نواز شریف اور بے نظیر کے اسی طرح خلاف تھے جیسے آج عمران خان میاں نواز شریف اور آصف زرداری کے خلاف ہیں۔


جنرل پرویز مشرف نے صدارت بچانے کے لیے بے نظیر سے معاہدہ کیا اور بے نظیر نے وزیر اعظم بننے کے لیے وطن واپسی کو ترجیح دی اور دو ماہ میں شہید کردی گئیں۔ جنرل پرویز مشرف 2007 میں 8 سال اقتدار میں رہنے کے بعد بھی ملک کا مزید صدر بننا چاہتے تھے۔

2008 میں بے نظیر بھٹو کی شہادت نے جنرل پرویز مشرف کے خوابوں کو چکنا چور کردیا ۔ جنرل پرویز مشرف پیپلز پارٹی کے امین فہیم اور اعتزاز احسن کو وزیر اعظم بنانا چاہتے تھے مگر عمران خان وزیر اعظم بننا چاہتے تھے اور عمران خان نے جنرل پرویز مشرف کو ریفرنڈم میں وردی میں صدر منتخب کرایا مگر جنرل پرویز مشرف نے انھیں ملک کا وزیر اعظم نہیں بنایا جس پر وہ جنرل پرویز مشرف کے خلاف ہوگئے اور انھوں نے ظفراللہ جمالی کے مقابلے میں مولانا فضل الرحمن کو وزیر اعظم کا ووٹ دیا تھا جن کے وہ اب سخت ترین مخالف ہیں۔

1970 کے بعد 2022 تک 52 سالوں میں جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز مشرف تقریباً 20 سال اور سیاسی وزرائے اعظم محمد خان جونیجو سے عمران خان تک جتنے وزرائے اعظم اقتدار میں آئے ان کا عرصہ اقتدار تقریباً 32 سال بنتا ہے۔

ذوالفقار علی بھٹو صاحب ،ایوب خان کے وزیر خارجہ تھے اور باہمی اختلاف پر حکومت سے علیحدہ ہو کر انھوں نے صدر ایوب کے خلاف کھل کر تحریک چلائی تھی۔ بے نظیر بھٹو، نواز شریف طویل عرصہ اقتدار میں رہے مگر مصلحتوں کا شکار رہے۔ تین بار وزیر اعظم رہنے والے نواز شریف تینوں بار وقت سے قبل اقتدار سے نکالے گئے۔

اب ان کے بھائی شہباز شریف اقتدار میں ہیں جو پہلی بار تحریک عدم اعتماد کے ذریعے وزیر اعظم عمران خان کے بعد وزیر اعظم قومی اسمبلی سے منتخب ہوئے مگر عمران خان نہیں مانتے اور اپنے ہٹائے جانے کا ذمے دار کبھی امریکا کو کبھی غیر جانبدار ہو جانے والوں کو قرار دے رہے ہیں۔

عمران خان کو آر ٹی ایس کے باعث اکثریت نہ ہونے کے باوجود اتحادی دلا کر وزیر اعظم بنایا گیا تھا اور اپنے اتحادیوں کے الگ ہونے کے بعد وہ اقتدار سے محروم ہوئے۔ عمران خان نے بھی اقتدار کے لیے 5 قومی اسمبلی کی نشستیں رکھنے والی مسلم لیگ (ق) کو دو اور سات نشستیں رکھنے والی ایم کیو ایم کو ایک وزارت دی تھی اور اختر مینگل والے اصول پرست رہنما تھے جنھوں نے 4 نشستوں کے باوجود کوئی وزارت نہیں لی تھی اور عمران حکومت میں ہی وعدے پورے نہ ہونے پر حکومت کی حمایت چھوڑ دی تھی۔

جنرل ضیا کے دور میں محمد خان جونیجو ان کی جی حضوری کرکے وزیر اعظم رہ سکتے تھے مگر وہ اصولوں پر قائم رہے جس پر انھیں ہٹایا گیا تھا۔

سابق وزراء اعظم میں سے کوئی بھی اصول پرستی کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔ سب نے اقتدار کو اصولوں پر ترجیح دی اور مفاداتی سیاست کی۔ عمران خان نے پی پی اور مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کو اپنے ساتھ ملا کر اقتدار حاصل کیا تھا۔

انھیں بالاتروں کی جتنی حمایت ملی کسی اور وزیر اعظم کو کبھی نہیں ملی تھی اور وہ اب بھی غیر سیاسی ہو جانے والوں کو اقتدار میں پھر آنے کے لیے کھلے عام کہہ رہے ہیں کہ وہ غیرجانبداری ختم کرکے انھیں دوبارہ لائیں۔ عمران خان کی طرح کسی سابق وزیر اعظم نے ماضی میں کبھی ایسا نہیں کہا تھا جس سے تمام سابق حکمرانوں اور عمران خان کی سیاست کا موازنہ کیا جاسکتا ہے۔
Load Next Story