اجڑے میدان آباد کریں
ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کی بدترین کارکردگی نے شائقین کرکٹ کو بہت مایوس کیا ہے
ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کی ناقص حکمت عملی اور بدترین کارکردگی نے شائقین کرکٹ کو بہت مایوس کیا ہے۔ گرین شرٹس میگا ایونٹ سے تقریباً باہر ہوچکی ہے۔ کروڑوں روپے کے بھاری بھرکم بجٹ کے باوجود قومی کرکٹ ٹیم کی کارکردگی میں تسلسل نہیں آسکا۔
میں ذاتی طور پر کرکٹ کا شوقین تھا لیکن ہر اہم ایونٹ اور میچ میں قومی ٹیم کے بلنڈرز نے اسکرین اور میدان سے کوسوں دور کردیا۔ اب حالات یہ ہیں کہ بحیثیت صحافی اخبار یا ٹیلی ویژن سے فتح یا شکست کی خبر پر ہی اکتفا کرلیتا ہوں۔
پاکستان میں کرکٹ سب سے زیادہ دیکھا اور پسند کیا جانے والا کھیل ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ گلیمرائزیشن ہے۔ کھیلوں کی فہرست میں کرکٹ ہی سب سے زیادہ پیسہ کمانے کا ذریعہ بھی ہے۔ پیسے کی چمک دمک اور کرکٹ مافیا کی کارستانیوں نے دیگر کھیلوں کو ایک گہری کھائی میں دھکیل دیا ہے جہاں سے نکلنا اب شاید ممکن نہیں۔ اس سب میں بڑا ہاتھ بیوروکریسی اور اقربا پروری کا ہے۔ نوجوان نسل کی بڑی تعداد صرف کرکٹ کو ہی کھیل سمجھتی ہے جس کی وجہ دیگر کھیلوں سے بے اعتنائی اور ناکافی وسائل ہیں۔ کرکٹ کے علاوہ باقی تمام کھیلوں کو دانستہ طور پر تباہ کیا گیا۔
ایک دور تھا جب دنیا بھر میں پاکستان کے قومی کھیل ہاکی کا طوطی بولتا تھا۔ مگر حالات یہ ہیں کہ آج کل کی نوجوان نسل کو اپنے قومی کھیل کے بارے میں شاذ شاذ ہی معلوم ہے۔ 80 اور 90 کی دہائی وہ دور تھا جس میں سہولتوں کی عدم دستیابی کے باوجود اسکواش، ہاکی، کرکٹ اور ٹیبل ٹینس نے پاکستان کا نام تاریخ کے صفحات میں سنہری حروف سے لکھوایا۔ ناکافی وسائل کے باوجود تابناک ماضی اور شاندار کارکردگی کے پیچھے ولولہ اور عزم صمیم جیسے عناصر ہی کارفرما تھے جس نے دنیا بھر کو گرویدہ بنالیا۔
فٹبال، ہاکی، باکسنگ، اسنوکر، ریسلنگ، ویٹ لفٹنگ اور دیگر کئی کھیل ایسے ہیں جن میں ملکہ رکھنے والے کھلاڑی افسر شاہی کی ریشہ دوانیوں کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔
چند روز قبل آسٹریلیا سے پاکستان آئے ہوئے آسٹریلین فوٹی لیگ کے ہیڈ کوچ مائیکل گیلس اور آسٹریلین طرز کی فٹبال میں پاکستان کا نام روشن کرنے والی فٹبالر ڈاکٹر اسابوہ سعید خان سے انٹرویو کے بعد غیر رسمی گفتگو رہی۔ انہوں نے بھی پاکستانی حکام اور متعلقہ اداروں کی بے اعتنائی کا شکوہ کیا۔ مائیکل گیلس کی کوچنگ اور آسٹریلین فوٹی لیگ کی مالی و تکنیکی معاونت سے ایشین چیمپئن شپ جیت چکی ہے۔ باکسنگ میں ابھرتے ہوئے نوجوان محمد شعیب جو پاکستان کےلیے تین عالمی فائٹس جیت چکے ہیں، وہ بھی ارباب اختیار کے رویوں سے خاصے نالاں اور مایوس ہیں۔ ان کا شکوہ صرف حکومت سے نہیں بلکہ عوام سے بھی ہے۔ چند روز قبل ملاقات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ جب میں تیسری انٹرنیشنل فائٹ جیت کر پاکستان لوٹا تو ایئرپورٹ پر صرف خاندان کے افراد استقبال کےلیے موجود تھے۔ وہ اب تک اپنی مدد آپ کے تحت عالمی مقابلوں میں شرکت کرتے آئے ہیں، تاہم 20 نومبر کو بنکاک، تھائی لینڈ میں انڈونیشیئن باکسر علی راک سے ہونے والی ایک بڑی فائٹ کےلیے حکومتی توجہ کے منتظر ہیں۔
ماضی میں نوجوان باکسر محمد وسیم، عثمان وزیر، اسنوکر چیمپئن محمد آصف، نیزہ بازی میں اولمپک گولڈ میڈل حاصل کرنے والے ارشد ندیم سمیت کئی ایتھلیٹ حکومتی بے حسی کا شکار رہے ہیں۔
نفسانفسی اور مشکل معاشی حالات میں نوجوانوں سے کھیل کے میدان چھین کر رہی سہی کسر پوری کی جارہی ہے۔ شہر اقتدار میں کرکٹ گراؤنڈز کی نجکاری کی تیاریاں کرلی گئی تھیں لیکن بھلا ہو اسلام آبا ہائیکورٹ کا جس نے بروقت حکم امتناعی جاری کردیا۔ حتمی نتیجہ کیا نکلتا ہے یہ آنے والے دنوں میں معلوم ہوجائے گا۔
اگر ہم اپنے ملک کو ترقی کرتا دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے کھیلوں کے میدان آباد کرنا ہوں گے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ''لیپا پوتی'' اور بے سروپا دعوؤں کے بجائے ملک کے ہر شہر، ضلعے میں اسپورٹس گراؤنڈز تعمیر کیے جائیں۔ اسکول اور کالج کی سطح پر گریڈز کی دوڑ میں کھیلوں کی شمولیت سے یقیناً بہترین نتائج حاصل ہوں گے۔ اس ضمن میں''کھاؤ پیو'' پروگرام چھوڑ کر مناسب فنڈز کی دستیابی کو یقینی بنایا جائے اور ہنگامی بنیادوں پر عملی اقدامات کیے جائیں۔
اگر نوجوانوں کو ہر شہر میں اسپورٹس گراؤنڈز اور دیگر سہولیات میسر ہوں گی تو ایسے ایسے گوہر نایاب سامنے آئیں گے کہ دنیا انگشت بدنداں رہ جائے گی۔ ویسے بھی جہاں کھیل کے میدان آباد ہوں وہاں اسپتال ویران ہوجاتے ہیں۔ اس لیے ہمیں اپنے اجڑے میدان آباد کرنا ہوں گے۔ ماضی کے گم گشتہ ہیروز کو نئی پود میں تلاشنا ہوگا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
میں ذاتی طور پر کرکٹ کا شوقین تھا لیکن ہر اہم ایونٹ اور میچ میں قومی ٹیم کے بلنڈرز نے اسکرین اور میدان سے کوسوں دور کردیا۔ اب حالات یہ ہیں کہ بحیثیت صحافی اخبار یا ٹیلی ویژن سے فتح یا شکست کی خبر پر ہی اکتفا کرلیتا ہوں۔
پاکستان میں کرکٹ سب سے زیادہ دیکھا اور پسند کیا جانے والا کھیل ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ گلیمرائزیشن ہے۔ کھیلوں کی فہرست میں کرکٹ ہی سب سے زیادہ پیسہ کمانے کا ذریعہ بھی ہے۔ پیسے کی چمک دمک اور کرکٹ مافیا کی کارستانیوں نے دیگر کھیلوں کو ایک گہری کھائی میں دھکیل دیا ہے جہاں سے نکلنا اب شاید ممکن نہیں۔ اس سب میں بڑا ہاتھ بیوروکریسی اور اقربا پروری کا ہے۔ نوجوان نسل کی بڑی تعداد صرف کرکٹ کو ہی کھیل سمجھتی ہے جس کی وجہ دیگر کھیلوں سے بے اعتنائی اور ناکافی وسائل ہیں۔ کرکٹ کے علاوہ باقی تمام کھیلوں کو دانستہ طور پر تباہ کیا گیا۔
ایک دور تھا جب دنیا بھر میں پاکستان کے قومی کھیل ہاکی کا طوطی بولتا تھا۔ مگر حالات یہ ہیں کہ آج کل کی نوجوان نسل کو اپنے قومی کھیل کے بارے میں شاذ شاذ ہی معلوم ہے۔ 80 اور 90 کی دہائی وہ دور تھا جس میں سہولتوں کی عدم دستیابی کے باوجود اسکواش، ہاکی، کرکٹ اور ٹیبل ٹینس نے پاکستان کا نام تاریخ کے صفحات میں سنہری حروف سے لکھوایا۔ ناکافی وسائل کے باوجود تابناک ماضی اور شاندار کارکردگی کے پیچھے ولولہ اور عزم صمیم جیسے عناصر ہی کارفرما تھے جس نے دنیا بھر کو گرویدہ بنالیا۔
فٹبال، ہاکی، باکسنگ، اسنوکر، ریسلنگ، ویٹ لفٹنگ اور دیگر کئی کھیل ایسے ہیں جن میں ملکہ رکھنے والے کھلاڑی افسر شاہی کی ریشہ دوانیوں کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔
چند روز قبل آسٹریلیا سے پاکستان آئے ہوئے آسٹریلین فوٹی لیگ کے ہیڈ کوچ مائیکل گیلس اور آسٹریلین طرز کی فٹبال میں پاکستان کا نام روشن کرنے والی فٹبالر ڈاکٹر اسابوہ سعید خان سے انٹرویو کے بعد غیر رسمی گفتگو رہی۔ انہوں نے بھی پاکستانی حکام اور متعلقہ اداروں کی بے اعتنائی کا شکوہ کیا۔ مائیکل گیلس کی کوچنگ اور آسٹریلین فوٹی لیگ کی مالی و تکنیکی معاونت سے ایشین چیمپئن شپ جیت چکی ہے۔ باکسنگ میں ابھرتے ہوئے نوجوان محمد شعیب جو پاکستان کےلیے تین عالمی فائٹس جیت چکے ہیں، وہ بھی ارباب اختیار کے رویوں سے خاصے نالاں اور مایوس ہیں۔ ان کا شکوہ صرف حکومت سے نہیں بلکہ عوام سے بھی ہے۔ چند روز قبل ملاقات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ جب میں تیسری انٹرنیشنل فائٹ جیت کر پاکستان لوٹا تو ایئرپورٹ پر صرف خاندان کے افراد استقبال کےلیے موجود تھے۔ وہ اب تک اپنی مدد آپ کے تحت عالمی مقابلوں میں شرکت کرتے آئے ہیں، تاہم 20 نومبر کو بنکاک، تھائی لینڈ میں انڈونیشیئن باکسر علی راک سے ہونے والی ایک بڑی فائٹ کےلیے حکومتی توجہ کے منتظر ہیں۔
ماضی میں نوجوان باکسر محمد وسیم، عثمان وزیر، اسنوکر چیمپئن محمد آصف، نیزہ بازی میں اولمپک گولڈ میڈل حاصل کرنے والے ارشد ندیم سمیت کئی ایتھلیٹ حکومتی بے حسی کا شکار رہے ہیں۔
نفسانفسی اور مشکل معاشی حالات میں نوجوانوں سے کھیل کے میدان چھین کر رہی سہی کسر پوری کی جارہی ہے۔ شہر اقتدار میں کرکٹ گراؤنڈز کی نجکاری کی تیاریاں کرلی گئی تھیں لیکن بھلا ہو اسلام آبا ہائیکورٹ کا جس نے بروقت حکم امتناعی جاری کردیا۔ حتمی نتیجہ کیا نکلتا ہے یہ آنے والے دنوں میں معلوم ہوجائے گا۔
اگر ہم اپنے ملک کو ترقی کرتا دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے کھیلوں کے میدان آباد کرنا ہوں گے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ''لیپا پوتی'' اور بے سروپا دعوؤں کے بجائے ملک کے ہر شہر، ضلعے میں اسپورٹس گراؤنڈز تعمیر کیے جائیں۔ اسکول اور کالج کی سطح پر گریڈز کی دوڑ میں کھیلوں کی شمولیت سے یقیناً بہترین نتائج حاصل ہوں گے۔ اس ضمن میں''کھاؤ پیو'' پروگرام چھوڑ کر مناسب فنڈز کی دستیابی کو یقینی بنایا جائے اور ہنگامی بنیادوں پر عملی اقدامات کیے جائیں۔
اگر نوجوانوں کو ہر شہر میں اسپورٹس گراؤنڈز اور دیگر سہولیات میسر ہوں گی تو ایسے ایسے گوہر نایاب سامنے آئیں گے کہ دنیا انگشت بدنداں رہ جائے گی۔ ویسے بھی جہاں کھیل کے میدان آباد ہوں وہاں اسپتال ویران ہوجاتے ہیں۔ اس لیے ہمیں اپنے اجڑے میدان آباد کرنا ہوں گے۔ ماضی کے گم گشتہ ہیروز کو نئی پود میں تلاشنا ہوگا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔