منہ کی صحت دماغی صحت کی بھی ضامن ہے
مسوڑھوں کی بیماری کی وجہ بننے والےبیکٹیریا دیگر کئی امراض جیسے دل کی بیماری، فالج اور ذیابیطس کی وجہ بھی بن سکتے ہیں۔
ایک نئی اسٹڈی کے مطابق جو افراد اپنے دانتوں اور مسوڑھوں کا خیال رکھتے ہیں اور باقاعدگی سے دانتوں کا چیک اپ کراتے رہتے ہیں ، ان میں آئند ہ زندگی میں خلل دماغ کا مرض یا ڈیمنشیا لاحق ہونے کا خدشہ کم ہوجاتا ہے۔
اسٹڈی کے سلسلے میں لگ بھگ ساڑھے پانچ ہزار بوڑھے افراد کو اٹھارہ سال تک نگرانی میں رکھا گیا جس کے بعد پتہ چلا کہ جو افراد روزانہ دانت برش نہیں کرتے تھے ان میں ڈیمنشیا لاحق ہونے کاخدشہ ان افراد سے پینسٹھ فیصد زیادہ تھا جو روزانہ دانت برش کرتے تھے۔
یونیورسٹی آف کیلی فورنیا میں کی جانے والی مذکورہ اسٹڈی کی سربراہ اینلیا پیگ نینی ہل کا کہنا ہے کہ مذکورہ اسٹڈی سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کے منہ کی صحت بھی اس بات کا اشارہ دیتی ہے کہ آپ کی دماغ کی صحت کیسی ہوگی۔
یاد رہے کہ اس سے پہلے یہ بات بھی سامنے آچکی ہے کہ مسوڑھوں کی بیماری کی وجہ بننے والے بیکٹیریا دیگر کئی امراض جیسے دل کی بیماری ، فالج اور ذیابیطس کی وجہ بھی بن سکتے ہیں اور اب یہ بھی سامنے آرہا ہے کہ ان سے دماغ کی صحت پر بھی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔اس کے علاوہ کچھ اسٹڈیز سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ جن افراد کو ڈیمنشیا کی عام ترین شکل یعنی الزائمر کی بیماری ہوتی ہے ان کے دماغ میں مسوڑھوں کی بیماری کی وجہ بننے والے بیکٹیریاز کی تعداد ان افراد سے زیادہ ہوتی ہے جنہیں الزائمر کی بیماری نہیں ہوتی۔اس سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ مسوڑھوں کے بیکٹیریا دماغ میں داخل ہوجاتے ہیں اور اس میں ورم کا باعث بن کر دما غ کو نقصان پہنچاتے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ مذکورہ تحقیق کے بعد یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ اگر منہ کی صحت کو درست رکھا جائے تو یہ آئندہ زندگی میں دماغ کی بہتر کارکردگی کی ضامن ہوگی۔ تحقیق کے سلسلے میں کیلی فورنیا کے ساڑھے پانچ ہزار سے زائد بوڑھے افراد کو 1992ء سے لے کر 2010ء تک نگرانی میں رکھا گیا۔ شرکاء کی زیادہ تر تعداد سفیدفام ، پڑھی لکھی اور خوشحال تھی ا ور ان کی عمر اسٹڈی کے آغاز کے وقت باون سال سے ایک سو پانچ سال کے درمیان جبکہ اوسط عمر اکیاسی سال تھی۔
اسٹڈی میں خواتین کے حوالے سے تجزیے کے بعد پتہ چلا کہ جو خواتین روزانہ دانت برش نہیں کرتی تھیں ان میں ڈیمنشیا لاحق ہونے کاخدشہ ان خواتین سے پینسٹھ فیصد زیادہ تھا جو روزانہ دانت برش کرتی تھیں جبکہ مردوں کے تجزیے سے پتہ چلا کہ جو مرد روزانہ دانت برش کرتے تھے ان میں ڈیمنشیا لاحق ہونے کاخدشہ ان افراد سے بائیس فیصد تک کم تھا جو روزانہ دانت برش نہیں کرتے تھے۔
اسٹڈی کے سلسلے میں لگ بھگ ساڑھے پانچ ہزار بوڑھے افراد کو اٹھارہ سال تک نگرانی میں رکھا گیا جس کے بعد پتہ چلا کہ جو افراد روزانہ دانت برش نہیں کرتے تھے ان میں ڈیمنشیا لاحق ہونے کاخدشہ ان افراد سے پینسٹھ فیصد زیادہ تھا جو روزانہ دانت برش کرتے تھے۔
یونیورسٹی آف کیلی فورنیا میں کی جانے والی مذکورہ اسٹڈی کی سربراہ اینلیا پیگ نینی ہل کا کہنا ہے کہ مذکورہ اسٹڈی سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کے منہ کی صحت بھی اس بات کا اشارہ دیتی ہے کہ آپ کی دماغ کی صحت کیسی ہوگی۔
یاد رہے کہ اس سے پہلے یہ بات بھی سامنے آچکی ہے کہ مسوڑھوں کی بیماری کی وجہ بننے والے بیکٹیریا دیگر کئی امراض جیسے دل کی بیماری ، فالج اور ذیابیطس کی وجہ بھی بن سکتے ہیں اور اب یہ بھی سامنے آرہا ہے کہ ان سے دماغ کی صحت پر بھی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔اس کے علاوہ کچھ اسٹڈیز سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ جن افراد کو ڈیمنشیا کی عام ترین شکل یعنی الزائمر کی بیماری ہوتی ہے ان کے دماغ میں مسوڑھوں کی بیماری کی وجہ بننے والے بیکٹیریاز کی تعداد ان افراد سے زیادہ ہوتی ہے جنہیں الزائمر کی بیماری نہیں ہوتی۔اس سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ مسوڑھوں کے بیکٹیریا دماغ میں داخل ہوجاتے ہیں اور اس میں ورم کا باعث بن کر دما غ کو نقصان پہنچاتے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ مذکورہ تحقیق کے بعد یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ اگر منہ کی صحت کو درست رکھا جائے تو یہ آئندہ زندگی میں دماغ کی بہتر کارکردگی کی ضامن ہوگی۔ تحقیق کے سلسلے میں کیلی فورنیا کے ساڑھے پانچ ہزار سے زائد بوڑھے افراد کو 1992ء سے لے کر 2010ء تک نگرانی میں رکھا گیا۔ شرکاء کی زیادہ تر تعداد سفیدفام ، پڑھی لکھی اور خوشحال تھی ا ور ان کی عمر اسٹڈی کے آغاز کے وقت باون سال سے ایک سو پانچ سال کے درمیان جبکہ اوسط عمر اکیاسی سال تھی۔
اسٹڈی میں خواتین کے حوالے سے تجزیے کے بعد پتہ چلا کہ جو خواتین روزانہ دانت برش نہیں کرتی تھیں ان میں ڈیمنشیا لاحق ہونے کاخدشہ ان خواتین سے پینسٹھ فیصد زیادہ تھا جو روزانہ دانت برش کرتی تھیں جبکہ مردوں کے تجزیے سے پتہ چلا کہ جو مرد روزانہ دانت برش کرتے تھے ان میں ڈیمنشیا لاحق ہونے کاخدشہ ان افراد سے بائیس فیصد تک کم تھا جو روزانہ دانت برش نہیں کرتے تھے۔