اچھی درسگاہیں اچھے اساتذہ

اگر پاکستانی معاشرہ ترقی کرنا چاہتا ہے تو بہترین اساتذہ پیدا کرنے بہت ضروری ہیں

gfhlb169@gmail.com

میکسم کیا تم جانتے ہو کہ اگر میرے پاس بے تحاشہ دولت ہو، اگر میں بہت امیر بن جاؤں تو میں وسیع اور کشادہ لائبریریاں بنوا کر انھیں اپنے ملک کے اساتذہ کے مطالعے کے لیے مختص کر دوں جہاں بیٹھ کر ہمارے اساتذہ اپنی علمی استعداد میں اضافہ کریں کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ اساتذہ قوم بناتے ہیں۔

اس لیے انھیں چاہیے کہ وہ ہر دم اپنے علم کو بڑھاتے رہیں۔ یہ بات مشہورِ زمانہ روسی ناول ''ماں'' کے مصنف میکسم گورکی سے مشہور پلے رائٹ اور جدید شارٹ اسٹوری کے بانی آنٹن شیخوف Anton Chekov نے اس وقت کہی جب میکسم گورکی، آنٹن شیخوف سے ملنے اس کے ہاں گئے۔

ملاقات کے دوران شیخوف نے مزید کہا کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ اگر ہمارے اساتذہ کو ان کی علمی استعداد بڑھانے میں مدد نہ دی گئی تو قوم کا کوئی مستقبل نہیں ہوگا۔ شیخوف نے صحیح کہا تھا، اگر پاکستانی معاشرہ ترقی کرنا چاہتا ہے تو بہترین اساتذہ پیدا کرنے بہت ضروری ہیں بہترین تعلیمی نظام اور بہترین اساتذہ ہی قوموں کو بناتے ہیں اور بہترین معاشرہ تشکیل دیتے ہیں۔ ہمارے ہاں بتدریج بڑا دماغ پیدا ہونا بند ہو گیا ہے۔

اسی طرح ہمارے ہاں وہ بڑا کردار جو قوم کی معماری کرسکے ختم ہو چکا ہے۔ بڑائی کے ذہنی مظاہر بھی بالکل ختم ہیں، ہر طرف ایک قحط الرجال ہے۔

یہ مظاہر خواہ قلبی ہوں یا بڑائی کے روحانی شواہد ہوں، ان مظاہر کے سُوتے سوکھ چکے ہیں۔ عملی آثار کو دیکھا جائے تو اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ بڑائی کی جتنی بھی قسمیں ہیں، جتنے بھی اظہاری سانچے ہیں ان میں سے کوئی بھی اس وقت ہمارے پاس نہیں۔

کوئی بھی قوم اپنے شہریوں سے عبارت ہوتی ہے۔ شہری جیسے ہوں گے ویسی ہی قوم بنے گی۔ ماں اور اساتذہ فرد، شہری اور قوم کی تربیت و کردار سازی میں بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔ اچھی مائیں بھی صرف اُسی صورت میں ملتی ہیں جب ہمارے تعلیمی ادارے اچھے ہوں اور جب اساتذہ اچھے اور باکردار ہوں، لیکن اچھے تعلیمی اداروں اور اُن کے اندر اچھے اساتذہ کی غیر موجودگی میں قوم کمزور ہوتی ہوتی بکھر جاتی ہے۔

اگر ہم قوموں کے عروج و زوال کا گہرا مطالعہ کریں تو یہ بات کھل کر سامنے آئے گی کہ تعلیمی ادارے اچھے ہوں گے، ان کے اندر پڑھانے والے اساتذہ کو اپنی ذمے داری کا احساس ہو گا تو قومی ولولہ پیدا ہوگا، قومی تعمیر کے اسباب مہیا ہوں گے۔ انگریزوں اور انگریزوں سے پہلے دوسری یورپی اقوام نے جب برِ صغیر میں دراندازی کی تو یہ خطہ ارض غیر معمولی طور پر خوشحالی۔ فراوانی اور شوکت و سطوت کا حامل تھا۔

ملک میں پڑھے لکھے لوگوں کی ایک کثیر تعداد تھی۔ ساری دنیا کی جی ڈی پی کا پچیس فی صد برِ صغیر کے پاس تھا۔ کہا جاتا ہے کہ انگریزوں نے برِ صغیر سے کم و بیش 48ٹریلین روپے کی لوٹ کھسوٹ کی۔ لارڈ میکالے کی وضع کردہ پالیسی اور سفارشات کوسامنے رکھ کر انگریزوں نے ہمارے تعلیمی نظام کو برباد کرنے، ہمارے پرفیشنلز کی بیخ کنی کرنے اور یوں معیشت کو ڈبونے پر تیزی سے کام کرنا شروع کیا۔

ان مجرمانہ ہتھکنڈوں کے ذریعے ایک پڑھی لکھی قوم کو ان پڑھ بنا دیا گیا اور دنیا کی سب سے خوشحال آبادی کو غربت کی کھائی میں دھکیل دیا جس سے ابھی تک نہیں نکل سکی۔ برِ صغیر میں ہماری درسگاہیں علم و آگہی پھیلانے میں قابلِ قدر کام کر رہی تھیں۔ ان درسگاہوں سے بہت نامور اور باصلاحیت علماء و اساتذہ نکل رہے تھے۔

ایک طرف طالب علموں کی علم سے آب یاری کی جا رہی تھی۔ ان کے ذہنوں کو جھنجھوڑا جاتا تھا اور دوسری طرف طالب علموں کی کردار سازی پر بہت توجہ دی جاتی تھی۔ انگریزوں نے پہلا کام یہ کیا کہ ہماری درسگاہوں کو صرف مذہبی تعلیم تک محدود کر دیا اور سیکولر تعلیم کے لیے الگ اسکولز قائم کیے۔ بظاہر اس میں کوئی خاص برائی نظر نہیں آتی لیکن مغربی استعمار نے باریک کام یہ کیا کہ براڈ بیسڈ تعلیم سے محروم کر دیا۔


مذہبی تعلیم دینے والے اساتذہ کو پائی پائی کا محتاج کر دیا۔ ان کی آمدنی کا کوئی ذریعہ نہ چھوڑا۔ محلے یا آس پاس کی آبادی کے گھروں سے آنے والی روٹی روزی کا محتاج کر دیا جب کہ پرانے زمانے میں مدرسے کے اساتذہ کی بے پناہ عزت تھی۔ فنڈز کی کوئی کمی نہیں ہوتی تھی۔ ہر درسگاہ کو اچھاخاصا مالی تعاون ملتا تھا۔ مذہبی تعلیم دینے والے اساتذہ کے ساتھ ساتھ سیکولر تعلیم دینے والے اسکولوں کے اساتذہ کی تنخواہ اتنی کم رکھی گئی کہ وہ بمشکل گزارہ کر پاتے تھے۔ عزت اور وقار کی زندگی گزارنا ان کے لیے خواب و خیال تھا۔

اچھے اساتذہ کم یاب ہوتے ہیں۔ وہ اعلیٰ اخلاق، علم و فضل، ڈسپلن اور خوبصورت اظہار کا مرقع ہوتے ہیں۔ اچھی درسگاہیں اور اچھے اساتذہ بنانے کے لیے ایک مربوط پالیسی پر بہت لمبے عرصے تک کام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، تب کہیں جا کر اس میں کامیابی نصیب ہوتی ہے لیکن ایسا ہو جانے کے بعد قوم کا مستقبل روشن ہوتا ہے۔

تعلیم کے شعبے کو توجہ، وقت اور مسلسل فنڈز کی فراہمی یقینی بنانی ہوتی ہے۔ تعلیم کو اولین ترجیح بنائے بغیر اس میدان میں کامیابی محال ہے۔ غیر ملکی حکمرانوں نے تو جو مجرمانہ اقدامات کرنے تھے ان پر کیا شکوہ لیکن پاکستان بننے کے بعد ہم نے قومی سطح پر مجرمانہ غفلت برتی۔ درسگاہوں اور اساتذہ پر ضروری توجہ نہیں دی گئی۔ انگریزی راج کے دوران رونما ہونے والے انحطاط و زوال کو ہماری بے توجہی نے مزید تیز کر دیا۔ آ جا کے ہم نے صرف انگریزی لکھنے، پڑھنے اور بولنے کی صلاحیت حاصل کرنے پر کچھ توجہ دی۔ تعلیمی استعداد اور کردار سازی ہماری ترجیح نہ بن سکی۔

انگلش میڈیم اسکولز تو اس طرف مائل ہی نہیں ہوئے۔ ادھر پاکستان میں ٹیچنگ کسی کے لیے بھی پسندیدہ کیریئر نہیں رہا۔ ہم میں سے کوئی بھی اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد چاہے جتنا عرصہ تعلیم سے منسلک رہے، جاننے والے یہی پوچھتے رہیں گے کہ کوئی کام ملا کہ نہیں۔ گویا ٹیچنگ کوئی کام ہی نہیں۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اگر آپ تعلیم کے شعبے سے منسلک ہیں تو کوئی نہ کوئی آپ کو کہے گا کہOne who becomes a teacher,fails in life and one who fails in life becomes a teacher.ہمارے معاشرے کے دیوالیہ ہونے کا اس سے بڑا کیا ثبوت ہوگا کہ اساتذہ کو معاشرے کا ناکام عنصر سمجھا جائے۔

قومی تعمیر سے پہلے کریکٹر بلڈنگ بہت ضروری ہے۔قومی تعمیر کے لیے اچھے اساتذہ ہی چینج ایجنٹ بن سکتے ہیں۔ایک اچھا استاد ہی اپنے شاگردوں کے اندر چھُپی صلاحیتوں کو پالش کر کے اجاگر کر سکتا ہے۔ مائیکل اینجلو تمام وقتوں کا ایک عظیم مجسمہ ساز اور پینٹر تھا۔

مائیکل اینجلو نے ایک موقعے پر گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ جب بھی میری نظر کسی پتھر پر پڑتی ہے تو اس کے اندر چھپے مجسمے کو بھانپ لیتا ہوں۔پھر اُس پر کام کرتے ہوئے پتھر کے غیر ضروری حصے اتارتا اتارتا مجسمے کو نکال باہر کرتا ہوں،صدیوں پہلے سقراط نے بھی یہی بات کہی تھی کہ ہر پتھر میں ایک شکل موجود ہوتی ہے۔فنکار اسے پتھر سے باہر نکالتا ہے۔ایک اچھے باصلاحیت استاد کے اندر بھی یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ شاگرد کے اندر مخفی صلاحیتوں کو نکال باہر کر کے اسے بلندیوں کی جانب گامزن کر دیتا ہے۔

پاکستان کے قومی بجٹ میں تعلیم کے لیے مختص رقم بہت کم ہوتی ہے۔ہمارے سرکاری تعلیمی اداروں پر بہت بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے۔

انھی اداروں نے مستقبل کی پاکستانی قوم بنانی ہے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ سرکاری تعلیمی ادارے قومی تعمیر میں اپنا کردار ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ان اداروں میں ہر پہلو سے توڑ پھوڑ کا سماں ہے۔موجودہ دور میں علم و آگہی کے تقاضے بدل گئے ہیں اور ہمارے تعلیمی ادارے ان تقاضوں سے منہ موڑے ہوئے ہیں۔غیر سرکاری تعلیمی اداروں کے لیے تو یہ صرف ایک کمرشل ایکٹوٹی ہے۔

تعلیمی ادارے قومی تعمیر کی بنیاد ہوتے ہیں۔ٹیچنگ ایک بہت ہی نوبل پرو فیشن ہے۔ ایک اچھا استاد جتنا اپنے شاگردوں کو متاثر کر سکتا ہے، اتنا کوئی اور نہیں۔ فِن لینڈ اور جاپان جیسے ممالک کو دیکھیں ان کے تعلیمی ادارے طلباء کے اندر اخلاق و آداب پر بہت توجہ دے رہے ہیں۔

کردار سازی پر بہت دھیان ہے جب کہ ہمارے تعلیمی ادارے نہ تو کردار سازی پر کام کر رہے ہیں اور نہ ہی بچوں کے اندر ریسرچ کا جذبہ ابھار رہے ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ تعلیم کے شعبے کو ترجیح دی جائے اور اچھے باکردار،باصلاحیت اساتذہ پیدا کیے جائیں تاکہ وہ اپنے طالب علموں کے لیے ایک رول ماڈل بن کر قومی تعمیر میں اپنا بھرپور کردار ادا کر سکیں۔
Load Next Story