شہباز شریف کا کامیاب دورہ چین

چین اور شہباز شریف کے درمیان ایک عجیب محبت کا رشتہ موجود ہے

msuherwardy@gmail.com

وزیر اعظم شہباز شریف چین کا ایک کامیاب دورہ کر کے وطن واپس پہنچ گئے ہیں۔ وہ چین جانے سے پہلے عمران خان کو جی ٹی روڈ پر جہاں چھوڑ کرگئے تھے عمران خان تقریباً وہی ہیں۔

چین اور شہباز شریف کے درمیان ایک عجیب محبت کا رشتہ موجود ہے۔ شہباز شریف جب جیل میں بھی تھے تب بھی چین نے شہباز شریف سے محبت کا اظہار کیا۔ جب وہ کووڈ کا شکار ہوئے تو شاید شہباز شریف ملک کے واحد سیاستدان ہیں جن کو حکومت نے باقاعدہ چین میں علاج کی پیشکش کی۔

چینی سفیر ان کی اسیری میں بھی ان سے ملتے اور جب وہ ایک لمبی جیل کے بعد رہا ہوئے تو چینی سفارتخانے انھیں باقاعدہ دعوت دی اور ان کے اعزاز میں عشائیہ بھی دیا۔ حالانکہ تب شہباز شریف کے وزیر اعظم بننے کا کوئی امکان نہیں تھا بلکہ یہی کہا جاتا تھا کہ ان کی سیاست کو شدید خطرہ ہے، لیکن چین نے شہباز شریف کے مشکل دنوں میں بھی ان سے ایک رابطہ برقرار رکھا۔

ویسے تو عمران خان کا الزام ہے کہ موجودہ حکومت امریکا کی آشیر باد سے آئی ہے لیکن عجیب بات ہے کہ یہ وزیر اعظم شہباز شریف چین کی ڈارلنگ ہے۔ چینی سفارتکاری میں کسی بھی سیاستدان کے ساتھ اس طرح خصوصی محبت کا اظہار نہیں کیا جاتا جیسا شہباز شریف سے ان کے اپوزیشن کے دور اور جیل میں کیا گیا۔ چین سی پیک کے لیے شہباز شریف کی خدمات کا پہلے دن سے معترف رہا ہے۔

جس تیزی سے شہباز شریف نے پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے دوران سی پیک کے منصوبے مکمل کیے تھے چین اس پر حیران ہوگیا تھا۔ اسی لیے انھوں نے منصوبوں کی اس رفتار کو شہباز اسپیڈ کا نام دیا۔

یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ عمران خان کے دور میں سی پیک کو بھی بریک لگ گئی تھی۔ جب میں تین ماہ قبل گوادر گیا تو گوادر سی پیک کی بندش کی داستان سنا رہاتھا۔ بند رگاہ میں ریت بھر چکی ہے جس کی وجہ سے بڑے جہاز لنگر انداز ہی نہیں ہو سکتے۔ گوادر کی ترقی کے لیے کچھ نہیں کیا گیا۔

گوادر میں بجلی کا بحران پانی کی کمی جیسے مسائل کے ساتھ ہم سی پیک کو کیسے چلا سکتے ہیں۔ گوادر بتا رہا ہے کہ عمران خان نے جان بوجھ کر سی پیک کو بند کیا۔ جس کی وجہ سے چین ناراض تھا۔ کیا یہ حقیقت نہیں چین نے پاکستان کے اسٹیٹ بینک میں جو ڈیپازٹ رکھوائے ہوئے تھے وہ بھی واپس لے لیے تھے۔

شہباز شریف نے وزیر اعظم بننے کے فوری بعد سی پیک کو دوبارہ زندہ کرنے پر کام شروع کیا۔ وہ گوادر ایک دفعہ نہیں دو تین دفعہ گئے۔ گوادر کو بجلی دینے کے لیے فوری طور پر ایران سے معاہدہ کیا گیا۔

گوادر کو پاکستان کی mainٹرانسمیشن لائن سے جوڑنے کے لیے کام شروع کیا گیا۔ گوادر کے مسائل حل کرنے پر کام شروع کیا گیا۔ سی پیک کے بند منصوبوں کو دوبارہ شروع کیا گیا۔ منصوبوں کی رفتار تیز کی گئی۔ عمران خان کے دور میں سی پیک کے جو منصوبے چل بھی رہے تھے ان کی رفتار بھی جان بوجھ کر سست کر دی گئی تھی، تا کہ وہ مکمل ہی نہ وہ سکیں۔بہر حال چین کا ڈیپازٹ بھی واپس لائے اور چین کے ساتھ تعلقات کو دوبارہ بہتر کرنے پر کام شروع کیا۔

نئے تیز ترین ریلوے ٹریک کے بغیر سی پیک کا کوئی تصور نہیں۔ اسی لیے جب سی پیک شروع کیا گیا تھا۔ تب ہی ایم ایل ون ریلوے ٹریک پر بات شروع کی گئی تھی۔ تا ہم پہلے مرحلہ پر گوادر کو سڑک کے ذریعے پورے ملک کے ساتھ جوڑا گیا۔ موٹر ویز بنائی گئیں۔ لیکن سب کو پتہ تھا کہ ایم ایل ون ناگزیر ہے۔ عمران خان نے اپنے دور وزارت عظمیٰ میں ایم ایل ون کو آگے نہیں بڑھنے دیا۔


گفتگو بہت کی گئی لیکن کوئی پیش رفت نہیں۔ جو مال گوادر میں آئے گا وہ چین کیسے جائے گا۔ سڑک سے جانا محفوظ بھی نہیں اور مہنگا بھی ہے۔ تیز ترین ریل ٹریک سے ہی مال چین سے آبھی سکتا ہے اور چین جا بھی سکتا ہے۔ اس وقت تو پاکستان کے تاجر گوادر کی بند رگاہ استعمال نہیں کر تے کہ وہ دور ہے۔ کراچی سے مال لانا سستا پڑتا ہے، اگر گوادر کو فعال کرنا ہے تو اس فرق کو دور کرنا ہو گا۔ تا ہم عمران خان کے چار سال میں اس پر ایک انچ بھی کام نہیں ہوا۔

خواجہ سعد رفیق نے ایم ایل ون کو دوبارہ زندہ کیا ہے۔ ایم ایل ون پاکستان کی ترقی کے لیے بھی ناگزیر ہے۔ اس سے پاکستان کا عام شہری بھی فائدہ اٹھائے گا۔ شہباز شریف کے حالیہ دو رہ چین سے ایم ایل ون پر پیش رفت ہو گئی ہے، اور اب امید ہے کہ چین ایم ایل ون پر سرمایہ کاری کر دے گا۔ چینی صدر کو بھی دورہ پاکستان کی دعوت دی گئی ہے اور امید کی جا سکتی ہے کہ چینی صدر کے دورہ پاکستان پر ایم ایل ون پرکام شروع ہو جائے گا۔

ایم ایل ون سی پیک میں گیم چینجر کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ درست ہے کہ چین گوادر میں ایک بہت بڑا ایئر پورٹ بنا رہا ہے۔ کسی بھی بندر گاہ کے لیے ایئر پورٹ ناگزیر ہوتا ہے، لیکن مال جہاز سے نہیں جا سکتا۔ اس کے لیے ریل ناگزیر ہے۔

اسی طرح پاکستان کے لیے بجلی کا فیول بھی ایک مسئلہ بن گیا ہے۔ مہنگے فیول نے بجلی مہنگی کر دی ہے۔ ساتھ ساتھ فیول کی خریداری کے لیے ڈالر بھی ایک مسئلہ ہیں۔ ڈیم بن رہے ہیں، لیکن اس میں ابھی وقت لگے گا۔ ڈیمز کا یہی مسئلہ ہے کہ اس میں وقت لگتا ہے۔ اس لیے فوری حل گرین انرجی ہے۔

اس میں چین سولر بجلی بنانے میں ہماری بہت مدد کر سکتا ہے۔ شہباز شریف نے ملک میں دس ہزار میگاواٹ سولر بجلی کے پلانٹ لگانے کا منصوبہ بنایا ہے۔

چین اس میں ہماری بہت مدد کر سکتا ہے۔ چین ہمیں سولر پینل کی ٹیکنالوجی دے سکتا ہے۔ پاکستان میں سولر کے بڑے منصوبے لگا سکتا ہے۔ شہباز شریف کے دورہ چین پر اس پر بھی بہت بات ہوئی ہے اور چین نے پاکستان میں سولر بجلی لگانے پر بھی آمادگی کا اظہار کر دیا ہے۔ اس تناظر میں بھی شہباز شریف کا دورہ چین کا میاب رہا ہے۔

پاکستان پر اس وقت چین کا سب سے زیادہ قرضہ ہے۔ پاکستان چاہتا ہے کہ چین کے قرضے ری شیڈول کیے جائیں۔ ویسے بھی سیلاب کے بعد پاکستان کی معاشی صورتحال کافی خراب ہے۔

ایسے میں پاکستان کی خواہش ہے کہ چینی قرضے ری شیڈول کر دیے جائیں۔ چین نے پاکستان کے معاشی مسائل کے حل میں مثبت کردار ادا کرنے کا اعلان کیا ہے۔ چین نے کہا ہے کہ معاشی استحکام کے لیے پاکستان کی مدد کریں گے۔ چینی قرضوں کی ری شیڈولنگ پاکستان پر معاشی بوجھ کم کرے گا۔

شہباز شریف دورہ چین کے دوران کراچی کی سرکلر ریلوے پر بھی چینی سرمایہ کاری پر بھی بات ہوئی ہے، لیکن ہم نے اورنج لائن منصوبے میں چین کے ساتھ جو کچھ کیا اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ پہلے اعلیٰ عدلیہ نے اورنج لائن پر فیصلہ کئی ماہ محفوظ رکھا۔ جس کی وجہ سے منصوبے پر کام رکا رہا۔ عمران خان نے بھی اورنج لائن کو روکنے کے لیے محاذ گرم رکھا۔ چین اس پر بھی خوش نہیں ہے۔

پھر عمران خان نے صرف اس لیے کہ اورنج لائن شہباز شریف دور کا منصوبہ ہے اس کا کئی ماہ افتتاح نہیں رکھا۔ پشاور کی بی آر ٹی کے مکمل ہونے کا انتظار کیا جاتا رہا۔ لیکن اتنے تلخ تجربے کے بعد بھی کراچی سرکلر پر سرمایہ کاری پر آمادگی کا اظہار کر دیا ہے۔ بہر حال امید کی جا سکتی ہے کہ کراچی سرکلر کا اورنج لا ئن جیسا حال نہیں کیا جائے گا۔ چین کی سرمایہ کاری پاکستان کو معاشی استحکام دے گی۔ بیرونی سرمایہ کاری ہمارے لیے بہت ضروری ہے اور چین ہماری مدد کے لیے تیار نظر آرہا ہے۔
Load Next Story